مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ ششم/آخری)

MH Chohan
پروفیسر محمد حسین چوہان

مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ ششم/آخری)

از، پروفیسر محمد حسین چوہان

پاکستان میں یَک ساں نظامِ تعلیم کا آغاز ایک خوش آئند امر ہے، جس سے بہت سے معاشرتی تضادات اور تفریقات کم ہونے کے امکانات پیدا ہو جائیں گئے۔

قوم میں ایک فکری یَک جِہتی پیدا ہو گی۔ ایک ہی طرح کے نصاب پڑھنے سے قابلیت اور مقابلہ میں تناسب پیدا ہو گا۔ قومی شناخت پیدا کرنے میں معاون ہو گا۔

تفریق ختم کرنے کا یہ نظری طریقۂِ کار کتنا مؤثر ہو گا، اس کا علم تجربہ کرنے کے بعد ہی گا۔

مگر غیر یَک ساں نصاب کی بہ نسبت اس میں خیر کے بہت سے پہلو موجود ہیں۔ عوامی محرومیوں اور شکایتوں کا کسی حد تک ازالہ ہو جائے گا۔ طبقاتی درجہ بندی اک گونہ کم ہو جائے گی کیوں کہ عملاً درجہ بندی اپنی جگہ قائم رہے گی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ مقتدر طبقات وسائل کی فراوانی کی وجہ سے پھر بھی اس یَک ساں نصاب سے زیادہ مستفید ہوں گے۔

مگر ایک مخصوص مڈل، یا لوئر مڈل طبقہ اپنی محنتِ شاقہ سے وہ ہدف آسانی سے حاصل کر لے گا جو متموّل طبقہ حاصل کرتا آیا ہے۔

انتہائی غریب اور محروم طبقات کے لیے تعلیم کا حصول ہمیشہ مشکل رہا ہے، لیکن انکے لیے خوش آئند بات ہے کہ کم از کم ایک ہی نصاب ان کے لیے بھی دست یاب ہو گا۔ انتہائی معیاری اور مشکل نصاب سے غریب بچوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔

جب تک پس ماندہ علاقہ جات اور غریب خاندانوں کے لیے حکومت کوئی مخصوص فلاحی منصوبہ نہ بنائے، اگر فلاحی پیکیج بنانے میں حکومت کام یاب ہو جائے، تو ایک معیاری تعلیم و ترقی کے سفر کا آغاز ہو سکتا ہے، جو تمام طبقات کے لیے مفید ثابت ہو گا۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ وسیع طبقاتی تفریق ہے۔ اگر سانپ کو دُم سے پکڑ کر مارنے میں آسانی ہے، تو سر سے پکڑنے کی زحمت کرنا عقل مندی نہیں ہے۔

دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پڑھایا کیا جائے گا۔ فطری سائنسیں تو ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ان میں رد و بدل نہیں ہو سکتا۔ جب کہ سماجی سائنسز کا نصاب مرتب کرنے میں دانش و ژَرف نگاہی سے کام لینا ہو گا۔


متعلقہ تحریریں:

مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ چہارم)  از، پروفیسر محمد حسین

مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ پنجم)  از، پروفیسر محمد حسین


سماجی عُلُوم کو اپنے فطری رنگ میں پڑھانے سے معاشرتی ترقی اور تبدیلی کا سفر تیز تر ہو جاتا ہے۔ اگر سماجی عُلُوم کو عقیدے، یا آئیڈیالوجی کے تابع رکھ کر پڑھایا جائے تو طلباء کبھی بھی سچائی اور حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔ تو وہ تعلیم مزید کسی مخصوص طبقہ کے مفاد کے لیے ہو گی، عوام کے لیے نہیں۔

یک ساں نصابِ تعلیم کے ساتھ متحرک تاریخی و سماجی روح کی فطری کارِ فرمائی کا فلسفہ جب تک نہیں ہو گا، مجرد گھڑے ہوئے افکار مخصوص طبقے کے مفاد کے لیے راہ ہم وار کریں گے۔

مجرد افکار کی تعلیم روایتی مقاصد کے حصول کے لیے معاون ثابت ہو گی، کیوں کہ ہر قوم نے آئیڈیالوجی کے زیرِ اثر یہ غلطیاں کی ہیں۔

ہمارے مشاہیر نے تاریخ کو رومانویت اور انشاء پردازی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ ہمارے ہیروز کوئی سماجی ترقی کا مستند فلسفہ نہیں دے سکے۔ ہر معاملہ میں ہمیں مغرب کا مُنھ دیکھنا پڑتا ہے۔

مگر ترقی یافتہ اقوام نے سماجی عُلُوم و فلسفہ میں احتیاط برتنا شروع کر دی ہے۔ قطعیت پسندی کے تحت سب کچھ لکھا جاتا ہے۔ جن اقوام نے معروضی، قطعی اور سائنسی طرزِ فکر اختیار کیا ہے وہ قومیں بہت جلد ترقی سے ہم کنار ہوئی ہیں۔ وہ شخصیات کو نہیں پڑھاتیں۔ سماجی و تاریخی حرکت کے قوانیں سے جو در آمد ہوتا ہے اس کی تعلیم دی جاتی ہے۔

تاریخِ اسلام کی ابتدائی چند صدیوں میں تاریخی واقعات کو شخصیات اور آئیڈیالوجی سے بالا تر ہو کر لکھا گیا۔ قطعیت و معروضیت سے تاریخ لکھی گئی، لیکن ہم نے سامراج کی غلامی میں اپنے من پسند ہیرو گھڑ لیے جو مفاداتی طبقات کی ضرورت تھے۔

عوام کی تاریخ و کردار تاریخ سے غائب ہے۔ تاریخ کے ارتقائی سفر اور جدلیاتی عمل کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی، بل کہ جامد اور غیر مبتدل سمجھ کر پڑھایا جاتا ہے، جہاں اتفاقات بھی لزوم کا حصہ ہوتے ہیں۔

پس ماندہ اور غیر ترقی یافتہ معاشروں میں اخلاقی تعلیم پر اس لیے زور دیا جاتا ہے کہ وہاں کا سیاسی و سماجی اور معاشی نظام ناقص ہے، اس لیے اس نظام کی منحوسیت سے محفوظ رہنے کے لیے نظری و جبری اخلاقی اقدار اپنے اندر پیدا کی جاتی ہیں، وہی جو قوتِ ارادی سے نیکی و مسرت کو پروان چڑھا سکیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اخلاقی تربیت سے اخلاقی اقدار پروان چڑھتی ہیں۔ قوتِ ارادی ان کو جان بخشتی ہے۔ احساسِ ذمے داری ان کی حفاظت کرتی ہے، جو ایک فرد کی انفرادی تربیت کا نتیجہ ہے۔

مگر اخلاق کو سماجی و حکومتی نظام و امور سے الگ رکھنے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔

اصل میں اخلاق اجتماعی عدل، معاشی انصاف، سماجی تحفظ سے پروان چڑھتا ہے اور اخلاق کا فریضہ ہر طرح کی نا ہم واری اور طبقاتی تفریق کے خلاف نبرد آزما ہونا ہے۔

اخلاق کا روایتی تصور اپنے طور پر نیک ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا، جب تک وہ سماج کی اجتماعی ہیئت کے ساتھ اپنا رشتہ استوار نہ کر لے۔

اسوۂِ رسولﷺ ہمارے پاس اخلاق کا بہترین نمونہ ہے۔ مگر اخلاقی تعلیم سیاسی معاشیات سے جڑی ہوتی ہے۔ جتنا بہتر روحِ عصر اور سماجی حرکیات کے ساتھ ہم آہنگ تعلیمی نصاب ہو گا وہاں بہترین اخلاق کی کونپلیں اس کے اندر سے خود بَہ خود پھوٹنا شروع ہو جائیں گی۔

بہترین اخلاق کے حامل شہری وہاں پیدا ہوتے ہیں، جہاں کا حکومتی نظم و نسق معیاری ہو۔ جبر و استحصال سے پاک ہو وسیع طبقاتی خلیج قائم نہ ہو۔ تخلیق و عقلیت مزاجوں کا حصہ ہو۔ اور تعلیم واخلاق اور سیاست میں فرق قائم نہ رہے۔

سماجی عُلُوم غیر سائنسی نہیں ہوتے، بل کہ ان کو غیر سائنسی انداز سے پڑھایا جاتا ہے۔ یہ فطری سائنسوں کا منطقی اظہار ہوتے ہیں، جو سماجی عُلُوم کے اند علَّت کا رشتہ تلاش کر کے معیاری تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔

سماجی ترقی اور اس کی حسنِ ترتیب میں سماجی اور فطری سائنس برابر کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں، مگر تاریخ و سیاسیات اور سوشیالوجی کو سماجی تبدیلی و حرکت کے قوانین سے جوڑ کر پڑھانا ہو گا، تا کہ سماج اپنی کُلیَّت کے ساتھ طلباء کی ذہنی سکرین پر جلوہ گر ہو جائے۔

دنیا میں اس وقت بہترین جمہوری نارڈک ماڈل تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ممالک سوشلسٹ تحریکوں کے زیرِ اثر رہے۔ مگر انھوں نے جدیدیت کے نام سے روسی کمیونزم کو خیر آباد کہا اور امریکی نیشنل ازم سے بھی گلو خلاصی لی۔ قومی تعمیر کے لیے فطری سائنسوں اور سماجی عُلُوم کو اپنے فطری انداز میں تعلیم کا حصہ بنایا۔

روحانیت، تصوف و جدان اور اخلاقیات کو سماجی سائنسز میں شامل نہیں کیا، اور مسلسل ترقی کا بَہ تدریج سفر شروع ہوا، جس نے سائنسی و سماجی ترقی کے ذریعے ایک بہتریں ماڈل پیش کیا، جہاں اخلاق اس نظام کے بطن سے پھوٹنا شروع ہو گیا۔

سویڈش ماہرِ تعلیم نے سنہ 1959 میں کہا کہ سائنس سماجی ترقی کی ایک متحرک قوت ہے۔ فلاحی ریاست سائنس کی ترقی کے بَہ غیر قائم نہیں ہو سکتی۔

سوشل ڈیموکریٹ گلبرائتھ نے کہا کہ موجودہ صنعتی ترقی نظریہ و مشق کی مرہونِ منت ہے۔ ناروے میں چرواہوں، خانہ بَہ دوشوں اور کسانوں کو انقلابی تعلیم و شعور دیا گیا۔

تمام ممالک ناروے، سویڈن اور ڈنمارک میں یک ساں نصاب مقامی زبانوں کے ساتھ پڑھایا جانے لگا۔ جدت پسندی نے امریکی عملیت پسندی، برطانوی فیبئن سوسائٹی کا تصورِ جمہوریت و اصلاحات اور کلیت پسندی کے بر عکس عقلیت پسندی کو اپنے منشور کا حصہ بنایا۔ مجموعی طور پر ایجادات و اختراعات اور صنعتی ترقی پر فوکس کیا گیا۔

جہاں معاشی ترقی سیاست، کلچرل اور آئیڈیالوجی پر سبقت لے گئی۔ اساتذہ کا سیاست میں ایک اہم کردار تھا۔ تعلیمی و سیاسی منشور میں اس امر پر زور دیا گیا کہ ایک عام کسان کو بھی ایٹم کی ماہیت و ساخت کا علم ہونا چاہیے۔ مقامی زبانوں میں تعلیم کو فروغ دیا گیا۔

انقلاب روس کی شدت پسندی اور طبقاتی جد و جہد کو پارلیمنٹ کے تابع کر دیا گیا۔

اس طرح کام یاب اصلاحات کی گئیں۔ تاریخِ اسلام کے مطالعہ سے معُلُوم ہوتا ہے کہ جب تک مسلمان معاصر عُلُوم کے ساتھ ہم آہنگ رہے، کام یابیاں اور ترقی ان کے قدم چومتی رہی۔ جوں ہی جدید عُلُوم و فنون اور ان کے درمیان خلیج پیدا ہوئی، قَعرِ مذلت میں گر گئے۔ جس سے ظاہر ہوا کہ علم جامد نہیں، مسلسل تبدیلیوں سے گزرتا رہتا ہے۔

چیئرمین تحریکِ انصاف نے یَک ساں تعلیمی نصاب کا آغاز کر کے ایک انقلابی قدم اٹھایا ہے، جو بَہ تدریج تبدیلی و نظرثانی کے ساتھ ایک معیاری تبدیلی کا مُوجب بنے گا۔

تجربے کے بَہ غیر ہم کچھ سیکھ ہی نہیں سکتے اور مزید ترمیم و اضافے نہیں کر سکتے۔

جب تک کھلے دل سے تعلیمی نصاب میں وسیع اصلاحات اور یَک سانیّت پیدا نہیں کرتے، سکَینڈے نَیویئن ممالک نے ان اصلاحات پر کام کیا تو نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ تعلیم و سیاست ایک ہی سکے کے دو رخ بن گئے۔

تبدیلی کے اس عمل میں دینی مدارس کے لگ بھگ پندرہ لاکھ طلباء و طالبات مستفید ہوں گے۔ اگر انٹرمیڈیٹ تک یک ساں نصاب کی منظوری ہو جاتی ہے تو مدارس کے طلباء کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے مدارس کو خصوصی توجہ دینی ہو گی۔ ایک فلاحی تعلیمی منصوبے کے بَہ غیر یہ کام مشکل ہو جائے گا۔

مگر اگر ایسا ممکن ہو گیا تو معیاری تبدیلی کی طرف اہم پیش رفت ہو گی، کیوں کہ جدید عُلُوم سے نا آشنا یہ طبقہ ایک کار آمد اور مفید شہری بنے گا اور معاشرتی و مذہبی مسائل و تفرقات کی شدت میں خود بَہ خود کمی آئے گی۔ بل کہ مدارس کی اصلاحات سرِ فہرست ہونی چاہیے۔

٭٭٭