قرون وسطیٰ میں علمی ترقی کا سبب، ایک نظریۂِ علم
از، پروفیسر محمد حسین چوہان
آٹھویں صدی عیسوی سے لے کر سولہویں صدی عیسوی تک یا نشاۃ ثانیہ کے ظہور یعنی چودہویں صدی تک مسلمانوں کے ہاں جو علمی اور سائنسی ترقی ہوئی۔ اس کی وجہ معاشرتی ارتقا اور خالصتا سماجی حرکت ہے یا اس کے پیچھے ایک تحریک یا ایک نظریہ کام کر رہا ہے۔
کیا قرون اولیٰ کے مسلمان کسی نظریۂِ علم کے حامل تھے جس کی بنیاد پر اگلے ہزار سال تک انھوں نے دنیا کے ایک وسیع رقبے پر اپنا قبضہ جمائے رکھا، اور اور علوم و فنون مسلسل ترقی کرتے رہے۔ کیوں کہ مذہبی اعتبار سے دیکھا جائے تو یورپ میں عیسایوں کی حکومت تھی، چین میں بھی ایک طاقتور قوم صدیوں سے سریر آرائے سلطنت تھی جنوبی ایشیا اور مشرق بعید میں دو بڑے دھرم بدھ مت اور ہندو دھرم بھی اپنے صدیوں سے جھنڈے گا ڑے ہوئے تھے۔ ان اقوام نے سوا ئے یونا نیوں کے ،علمی و سا ئنسی ترقی میں اتنا حصہ یا دلچسپی کیوں نہیں لی جتنی مسلما نوں نے لی ۔یا مسلما نوں کو زیادہ سازگار حالات میسر آ ئے جو دوسری اقوام کو نہیں ملے۔دیکھنا یہ ہے کہ مسلمانوں کی علمی ترقی کے محرکات اور اسباب کیا تھے۔
کسی بھی قوم کی ترقی اور تنزلی میں نظریہ علم اور تعلیمی نظام کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔نظریہ علم کسی جامد شے کا نام نہیں مرور زمانہ کے ساتھ معاشرتی حرکت کا ساتھ دینے کے لئے اس میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔سماجی حرکت اور نظریہ کی ہم آہنگی تہذ یبی زندگی میں معنویت پیدا کرتی ہے۔اس طرح دانش وحکمت کمیت میں کیفیتی تبدیلی لانے کا موجب بنتے ہیں۔بے جان اور جامد اشیا میں حرکت اور معنویت پیدا ہو جاتی ہے۔انسان کے انفرادی اور اجتماعی کردار میں مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور معاشرے میں تنظیم اور وحدت کا ایسا ماحول پیدا ہو تا ہے جسے کسی بھی قوم کی تنزلی یا ترقی کی بہ آسانی شناخت کی جا سکتی ہے۔دنیا میں کسی بھی قوم کا عروج اور زوال اس کے نظریہ علم سے منسلک ہوتا ہے ،صرف نظریہ علم ہی کا فی نہیں ہوتا بلکہ اس کا اطلاق بھی ضروری ہوتا ہے اگر نظریہ کے اطلاق میں دشواری اور تضادات ہوں تو وہ نظریہ آپنی معنویت کھو بیٹھتا ہے۔ نظریاتی صداقت کا جبر سے اطلاق حکمت ودانش کے منافی ہوتا ہے۔علمی ترقی ایجادات و انکشافات اور نظریات انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہوتا ہے مگر نیابت وقیادت علم کی سر پرستی کرنے والی اقوام کو ملتی ہے،جہا ں تک مسلمانوں کی قرون وسظی میں علمی اور مادی ترقی کا راز ہے اس میں ایک نظریہ علم کے کردار سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا بلکہ اسلام ایک انقلاب کا نام ہے اور اس میں علم ایک تحریک کی طرح لوگوں کی رگ و پے میں سرائیت کئے ہوئے ہے۔ مذاہب عالم میں اسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں نظریہ علم ایک تحریک کی شکل میں پھیلا ۔علم کے فروغ میں کی جانے والی کوششوں سے گماں ہوتا ہے کہ اسلام کا ظہور ہی علم کی ترویج و اشاعت اور حصول کے لئے تھا۔مسلما نوں کی فتوحات، علمی وسائنسی ترقی صرف ارتقائی عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک با قاعدہ نظریہ علم کی مرہون منت ہے جس کا آغاز پہلی وحی کے لفظ اقرا سے ہوتا ہے یعنی اسلام کی ابتدا ہی پڑھنے سے ہوئی ۔قران پاک میں ارشاد باری کہ ہم نے آدم کو اسما کا علم عطا کیا۔ دوسری جگہ ارشاد ہوا اللہ سے ڈرو وہ تمہیں علم دے گا۔یعنی تحصیل علم کے لئے عجز وانکسار اور خداخوفی بھی ضروری ہے۔ ارشاد نبوی کہ علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔یعنی مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ ان پڑھ ہو۔ علم کے حصول اور اس کی اہمیت کے بارے میں ارشاد نبوی ہے۔حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے اس کو جہاں کہیں سے بھی ملے حاصل کر لے ،اس کے لئے آپﷺ کا ارشاد ہے کہ چاہے ایک غیر مسلم ملک چین میں بھی جانا پڑھے تو اس میں تاخیر نہیں کرنی چائیے۔ابتدائی عہد میں ایرانی قوم کی علمی برتری کا ذکر کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا اگر علم چاند پر بھی ہو تو ایرانی اس کو زمیں پر اتار لیتے ہیں۔صوفی اور عابد پر عالم کی برتری کا اظہار کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا ایک عالم کو ایک عابد پر اس قدرترجیح ہے جس طرح میری فضیلت امت پرہے۔علم الابدان اور علم ادیان کے بارے میں بھی آپ کا ارشاد گرامی موجود ہے۔ سود مند علم وہ ہے جس سے انسانوں کو فائدہ پہنچے چاہے وہ تجربی وسائنسی ہوں یا روحانی ،مزیدفرمایا۔میں ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جسے مجھے فائدہ حاصل نہ ہو، معلم انسانیت نے دوسری جگہ بڑی صراحت کے ساتھ فرمایا۔علم حاصل کروکیونکہ اللہ کی خوشنودی کے لئے علم ضروری ہے۔علم طلب عبادت ہے،علم کی تلاش جہاد ہے۔بے علموں کو علم سکھانا صدقہ ہے۔مستحق لوگوں کو علم سکھانا اللہ کے قرب کی علامت ہے۔ علم حلال و حرام کے درمیان تمیز کرتا ہے۔ جنت کے راستوں میں روشنی کا ستون ہے۔ تنہائی میں مونس ہے۔ پردیس میں رفیق ہے۔خلوت میں ندیم ہے۔ دشمن کے مقابلے میں ہتھیار ہے۔دوستوں میں زینت ہے۔علم کے ذریعے بلندی اور امامت ملتی ہے۔علم اہل علم کی سیرت کو مکمل کر کے اسے دوسروں کیلئے نمونہ عبرت بناتا ہے اور ان کے لئے بحر وبر کے رہنے والے دعا کرتے ہیں۔ تفکر و تدبر اور سائنسی علوم کی تحصیل کی راہ میں جدوجہد و کی ترغیب دیتے ہوئے پیغمبر اسلام نے فرمایا۔ صانع حقیقی کے کاموں پر ایک گھنٹے کا غور و تامل ستر سالوں کی عبادت سے بہتر ہے،،علم وحکمت کا سبق سننے میں ہزار شہیدوں کی نماز جنازہ پڑھنے یا ہزار راتیں قائم ا لصلوت رہنے سے زیادہ ثواب ہے۔،، جو طالب علم تلاش علم میں نکلے گا خدا اسے جنت الماوی میں اونچا مقام دے گا،اس کا ہر قدم مبارک ہے اور اس کے ہر سبق کا اسے ثواب ملے گا،فرشتے جنت کے دروازے پر جویائے علم کا خیر مقدم کریں گے۔،اہل علم کی باتوں کا سننا اور سائنس کے سبقوں کا دل نشیں کرنا مذہبی ریاضتوں سے بہتر ہے۔۔ایک سو غلاموں کے آزاد کرنے سے بہتر ہے۔،جو شخص عالموں کی عزت کرتا ہے وہ میری عزت کرتا ہے،حضرت علی کا ارشاد ہے علم و حکمت میں ناموری سب سے بڑی عزت ہے،،جو شخص علم کو ناموری بخشتا ہے وہ کبھی نہیں مرتا،کسی شخص کا سب سے اچھا زیور علم ہے۔،،
قران حکیم میں لفظ علم کا ذکر مختلف اشتقاقی صورتوں میں۷۰۴ مرتبہ ہوا ہے۔عالم کا ذکر ۱۴۰ جگہوں پر ہوا ہے ۔العلم کا تذکرہ۲۷ جگہوں پر ہوا ہے۔الکتاب بحوالہ قران۸۱ مقامات پر ، صرف الکتاب ۲۳۰ جگھوں پرْ،لکھنے کے بارے میں الفاظ۳۱۹ جگہوں پراور قلم کا ذکر دو جگہوں پرہوا ہے۔قران حکیم میں غور وفکر اور تدبر پر زور دیتے ہوئے فرمایا۔وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کو کھڑے بیٹھے اور کر وٹ لیتے یاد کرتے ہیں۔آسمان اور زمیں میں موجود اشیا کی تخلیق پر غور وفکر کرتے ہیں۔اے ہمارے پروردگار تو نے کوئی چیز عبث پیدا نہیں کی۔تیری ذ ات پاک ہے۔تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ اسی طرح دوسرے مقام پر مظاہر فطرت پر غور وفکر کر نے کی دعوت دی گئی ہے۔ بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور دن رات کے اختلاف میں عقلمندوں کے لئے خدا کی نشا نیاں ہیں۔ ،،حربی قوت اور جنگی سازو سامان جو عموماٗ قوموں کو دوسری اقوام پر فتح اور برتری دلاتی ہیں کا ذکر کچھ اسطرح ہوا ہے، دشمن کے خلاف جنگی سازوسامان تیار رکھو،،۔ قران و احادیث میں علم کی اہمیت و افادیت کا تذکرہ بڑی صراحت کے ساتھ موجود ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی وضاحت اور تفہیم میں مسلم دانشوروں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔حضرت علی کرماللہ کا قول ہے جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے خدا کو پہچان لیا جہاں علم کو معرفت و وجدان کے ساتھ بھی منسلک کیا گیا ہے یعنی علم صرف تجربے اور مشاہدے کا نام نہیں بلکہ تعقل اور واردات قلبی کا بھی اس میں اہم کردار ہے۔امام غزالی نے یقینی علم کے ساتھ فضل کا بھی اضافہ کیا ہے جوحقیقت سے برتر اور زائد چیز ہے۔ مسلمانوں کے ہاں تصور علم ایمان اور عقیدے کے زیر سایہ پروان چڑھتا رہا جن میں علمائے کرام زیادہ تر روایات کے پابند رہے۔صوفیا نے ادراک حسی، تجربات اور مشاہدات کے بر عکس قلبی واردات یا لطیف عقل کو علم حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا۔اسلامی فکر کو جلا بخشنے اور متحرک رکھنے میں ان دونوں مکاتب فکر کے برعکس حکما کا کردار زیادہ اہم ہے، جنہوں نے مکا شفے ،وجدان اور کیفیات کے بر عکس تحقیق ،مشاہدے اور تجربے کو علم کے حصول کا ذریعہ بنایا ،جسے تجربی سائنس کو فروغ ہوا ،علوم و فنوں کو ترقی نصیب ہوئی، مسلمان مادی اور روحانی طاقت میں دوسری اقوام پر غالب ہوئے۔ان حکما اور فلاسفہ میں کندی ،فارابی،ابن سیناْْابن رشد، ابن باجہ، ابن طفیل، ابن خلدون، اور تجربی سائنس میں ابن ہثیم،زاہراوی۔محمد زکریا رازی،البیرونی، وغیرہ شامل ہیں، دسویں صدی میں بغداد میں اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھنے والے اخوان الصفا کی علمی وسائنسی کاوشوں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔جنہوں نے تمام علوم وفنون پر مقا لات تحریر کئے۔بنیادی طور پر معتزلہ جماعت کی عقل پرستی اور روشن خیالی کا سلسلہ اور چھاپ ان تمام آنے والے ادوار میں غالب رہی،اور اسی کے زیر اثر مسلم سائنس و فلسفہ ترقی کے مراحل طے کرتا رہا۔
سا تویں صدی عیسوی سے لے کر پندرہویں صدی تک علم کی قندیل مسلما نوں کے ہاتھوں میں رہی۔ ہندوستان سے لے کر اسپین ،عرب اور سنٹرل ایشیا کے تقریباٗ بڑے شہر علوم کے مراکز تصور کئے جاتے تھے اور یہ سلسلہ عہد نبوی میں شروع ہو چکا تھا۔علم کی اہمیت اور فروغ کا یہ عالم تھا کہ پڑھے لکھے جنگی قیدیوں کی معلم انسانیت نے یہ سزا مقرر کی کہ وہ ان پڑھ مسلمانوں کو پڑھائیں۔ عہد رسالت کے ابتدائی ایام میں ہی علم کے فروغ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ڈاکٹر حفیظ الرحمن صدیقی اس سلسلہ میں رقمطراز ہیں،،مسلمانوں میں علم سے دلچسپی ظہور اسلام کے وقت سے تھی۔یہ بہت عام بھی تھی،بہت عا لمگیر بھی، اور بہت ہمہ جہت بھی اس شوق کے بہت عام ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بہت سے علما کی درس کی مجلسوں میں کئی کئی ہزار حاضرین ہوا کرتے تھے۔ علم کے ساتھ ان کی دلچسپی کی عالمگیری کا اندازہ اسے کیا جا سکتا ہے کہ وہ صرف چند شہروں تک محدود نہیں تھی بلکہ مشرق میں وسطی ایشیا سے لیکر مغرب میں اسپین تک جتنے بھی اسلامی شہر تھے، وہ سب کے سب علمی مراکز تھے۔ بغداد،کوفہ،بصرموصل ،واسط،سامرہ،دمشق،حمص،سقلان،رے،اصفہان،ہمدان،کرم، نیشا پور، تھے۔،بلخ،طبرستان،سجستان،قزوین،خوارزم،جرجان،بحرین،بلاد یمن،مصر،تونس،مراکش،بلاد اسپین۔قرطبہ،غرناطہ،اشبیلہ،طلیطلہ، وغیرہ ۔علم کی ہمہ جہتی کا یہ ثبوت ہے کہ ان کی سر گرمیاں دینی اور سماجی علوم کے ساتھ ساتھ فطری علوم کے ساتھ بھی تھیں۔ دینی علوم میں فقہ،حدیث،تفسیر،سیرت،علم رجال، تاریخ۔لغت نگاری، اور صرف و نحو وغیرہ شامل تھے اور فطری علوم میں طب ،ریاضی،فلکیات،نجوم ،جغرافیہ،ارضیات۔کیمیا،حیاتیات اور طبعیات وغیرہ،، یوں تو عربوں کے پاس کوئی قابل ذکر علوم وفنون نہیں تھے مگر رسول اکرم کا یہ فرمان علم مومن کی گم گشدہ میراث ہے،کے حصول کے لئے مسلمان علم کے لئے دنیا بھر میں دیوانہ وار پھرے یونان ،ہندوستان،اور ایرانیوں کے علوم سے کسب فیض کیا۔بقول پروفیسر جرمانوس کے۔۔عربوں کی یہ تہذیب انتخابی یعنی خذما صفا ودع ما کدر،،کے اصول پر مبنی تھی،انہوں نے ہر اس چیز کو منتخب کیا اور اپنایا جو قرون وسطیٰ میں ایک حد تک حریت پسندانہ رجحان کی حامل تھی،، آگئے
چل کر پروفیسر موصوف فرماتے ہیں کہ جنگ موتہ میں خالد بن ولید کو سیف اللہ کا لقب عطا کرنے میں رومیوں کے جنگی طریقے معاون بنے بہادری ان کی اپنی تھی مگر جنگی اصول اور کرتب انھوں نے رومیوں کے استعمال کئے۔آ پ ﷺ نے جنگ خندق میں ایرانیوں کا طریقہ کار استعمال کیا۔دوسری اقوام سے سیکھنے کا سلسلہ کئی صدیوں تک چلتا رہا مولانا شبلی کہتے ہیں،،حضرت عمر کی سیاست کا ایک بڑا اصول یہ تھا کہ وہ قدیم سلطنطوں کے قواعد اور انتظامات سے واقفیت پیدا کرتے تھے اور ان میں جو چیزیں پسند کے قابل ہوتی تھیں ان کو اختیار کرتے تھے ،خراج،عشور،دفتر،رسید، کاغذات،حساب، ان تمام انتظامات میں انہوں نے ایران اور شام کے قواعد پر عمل کیا۔البتہ جہاں کہیں نقص نظر آیا اس کی اصلاح کر دی۔۔،،
اسلام کے تصور علم اور حصول علم کا دائرہ وطریقہ کار صرف تدبر و تفکر،استخراج و استناج،قیاس و استقرا،مشاہدہ وتجربہ ، علمی صداقت و بدیہیت،عقلیت پسندی پر ہی موقوف نہیں بلکہ الہام و وحی بھی علم کے بڑے ذرائع ہیں۔جو علم کی ارفع صورت ہے،جس میں علم بالغیب اور آیات محکمات کا علم مراد ہے یہ ایمان ،عقیدے اور تصوریت کی ایک برتر صورت کا نام ہے جہاں جوہر،نور اور توانائی کے سوا دوسری کوئی شے محسوس نہیں ہوتی۔اس علم کی بنیاد عقیدہ توحید پر استوار ہوتی ہے۔ تفکر کی اس منہاج پر بھی سوائے بے بسی کے کچھ ہاتھ نہیں لگتا اس لئے کہ خالق کائنات کسی بھی شے کے مثل نہیں۔یہاں صوفیا علم معرفت کے ذریعے کلیت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے لئے انہوں نے علم الیقین،عین الیقین اور حق الیقین کے تین مدارج قائم کئے ہوئے ہیں جبکہ اسلام میں معرفت کا علم اور خارجی دنیا کا علم آپس میں مد غم ہیں جس نے ااپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا کا ذکر ہوا ہے۔ اسلام میں دینی علوم ،روحانی علوم اورسائنسی علوم بیک وقت آپنے آپنے دائرے میں نشوونما پاتے ہیں۔جہاں تک علم معرفت کے علم کا تعلق ہے،وہ عقل لطیف سے منسلک ہے جہاں کائنات کے اسرار و رموز کی جانکاری ،حقیقت مطلق سے لو لگانے اور دنیا کے فانی ہونے سے بحث کی جاتی ہے۔اس میں صوفیا اور اولیا ئے کرام عوام الناس کو انسان دوستی،بھائی چارے اور خدمت خلق کی تلقین کرتے ہیں۔معرفت اور دھیان و گیان کے اس علم کو قران کی زبان میں علم لدنی کہا جاتا ہے ،جس کا سرچشمہ پیغمبر اسلام کی ذات مبا رکہ ہے ۔علم لدنی اسلامی فکر کی اساس ہے اور اس کو دوسرے علوم پر اک گونہ تفوق حاصل ہے۔مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اہل معرفت نے انسانی شخصیت کی نشو ونما اور اس کے باطن کی تطہیر کے لئے مدارس اور خانقاہوں میں انسان دوستی کے مسلک کا پر چارک کیا۔رنگ و نسل اور عقیدے کو بالائے طاق رکھ کر خدمت خلق،احترام آدمیت،بھائی چارے اور امن دوستی کی فضا قائم کرنے پر زور دیا۔الخلق عیال اللہ کے عالمگیر فلسفے کی تبلیغ کی۔بقول حالی یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدیٰ کا کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا نفس امارہ یعنی انسان کی جبلی وحیوانی خواہشات کو قابو کرنے اور تہذیب کا بہترین فرزند بنانے کے لئے اس کی ذات کا تزکیہ و تطہیر کوضروری قرار دیا۔مضطرب روح کو علائق دنیوی اور مادی آلائشوں سے پاک کر کے حقیقت مطلق کے ساتھ اس کا تعلق قائم کرنے کی کوشش کی۔انسانی زندگی میں علم معرفت کی اہمیت اور اس کی افادیت کے نہ صرف مسلمان قائل ہیں بلکہ غیر مسلم فلاسفہ بھی اس کی محبت کا دم بھرتے ہیں۔مگر مسلمان اہل نظر و فکر نے اس علم کو ایک دبستان کی شکل عطا کی۔وہ کیا ہے کہ انسان انسان سے محبت کرے،نفرت ومغائرت کسی بھی لحاظ سے جائز نہیں ہے۔برائی کا بدلہ نیکی سے لیا جائے۔انتقام لینے کے بر عکس معاف کرنا افضل ہے۔خدمت خلق افضل ترین عبادت ہے،لالچ اور غصہ پر قابو پا کرصبر اور قنا عت جیسی صفات اپنائی جائیں،کیونکہ یہ نا قابل شکست صفات ہیں۔تکبر اور حسد، نفرت وجہالت کے غماز ہیں،ان پرعاجزی وپیار سے قابو پایا جائے۔شخصی آزادی اور انسان کی عزت نفس کو کسی بھی سطح پر پائمال نہ کیا جائے۔حکمناموں کا زبردستی اطلاق نہ کیا جائے،بلکہ پیار سے سیدھی راہ دکھانے کی ترغیب دی جائے،ریا کاری کوسادگی ودانش کا لبادہ پہنایا جائے،فضول خرچی اور دولت کے ضیاع کو سخاوت کی شکل دی جائے،ظلم و نا انصافی کے بر عکس عدل و انصاف کو یقینی بنایا جائے،قناعت و درویشی،صبر وتوکل اختیار کر کے روحانی بالیدگی حاصل کی جائے۔ظاہری اعمال کی جگہ نیتوں کا صاف ہونا اسلام کی روح ہے،نیک نیتی کے بغیر اعمال کی قبولیت اور دوسروں کی دل میں عزت پیدا نہیں ہو سکتی۔اس بنا پرنیت کے صاف ہونے پربہت زور دیا گیا۔جھوٹ دھوکہ اور نوسر بازی کے برعکس راست گوئی اور حکیمانہ سکوت کو اختیار کیا جائے،تاکہ فتنہ و انتشار کی صورتحال پیدا نہ ہو،حرف پرستی کی جگہ لفظ کے باطنی مفہوم اور پس منظر پر غور کیا جائے، دوسروں کے معاملات کی ٹوہ لگانے کی بجائے احساس مروت کوشخصیت کا حصہ بنا کر تعلقات و معاملات میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ کیونکہ درد کی دولت کے بغیر انسانیت بانجھ ہو جاتی ہے۔دوسروں کے لئے سراپا خیر بننے کے لئے اسوہ نبوی کو اختیار کیا جائے۔مسلمان عارفین و صوفیا نے اسلام کی فلسفیانہ روح کی نمائندگی کی،جس کی بنا پر اہل مغرب بھی ان کے انسان دوستی کے فلسفے کے قائل ہیں۔عقل سے زیادہ روحانی واردات قلبی کے ذریعے انہوں نے انسانیت کو انسان دوستی کامشترکہ پیغام بھیجا،مگر ان کے روحانی فلسفے میں تصور توحید اور عشق رسول کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔بنیادی طور پر تصوف اور روحانیت کا بنیادی پیغام ہی محبت رواداری اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنا ہے ۔مگر کردار سازی کے لئے کتابوں سے زیادہ اہل معرفت کی صحبت وتربیت کوضروری قرار دیا گیا ہے۔یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی۔سکھلائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی۔حدیث قدسی ہے کہ میں آپنی زمین و آسمان کی وسعتوں میں سما نہیں سکتا مگر ایک بندۂ مومن کے دل میں سما جاتا ہوں۔ معرفت اور تصوف کی تعلیمات اور علم سے نہ صرف مسلمان بلکہ مغربی فلاسفہ بھی ا س کی افادیت کے قائل ہیں بلکہ ہر فلسفی و سائنسدان اک گونہ آپنے علمی قضایا میں صوفی ہوتا ہے۔ تصوف اگر غیرپیداواری سماج میں پھلتا پھولتا ہے،مگر صنعتی سماج میں بھی انسان اس میں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔اصل مسلہ روحانی اضطراب ،احساس تنہائی اور کائنات کے نا پائیدار ہونے کا ہے،جس کی بنا پر ہر شخص روحانیت اورتصوف میں سکون ڈھونڈھنا چاہتا ہے،آخر کار انسان کو سکون کی تلاش ہے،جہاں کہیں سے ملے اس کو تلاش کر لیتا ہے۔مگر جہاں انسان معاشرتی و معاشی جبر کی بنا پر اس میں پناہ لیتے ہیں،وہاں انہیں جبر کے خلاف استحصالی قوتوں کے خلاف بر سر پیکار بھی ہونا چائیے۔نہ کہ سکون کی تلاش میں پورے سماج کے سکون کو داؤ پر لگا دیں۔اسلام کا نظریہ علم آپنے اندر شش جہات پہلو رکھتا ہے،بنیادی طور پر روحانیت و عملیت پسندی پر اس کی اساس قائم ہے۔مسلم امہ کامسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے زمانے کے ارتقا کے ساتھ ساتھ دوسری اقوام کے علوم و فنون سائنسی و علمی اور ادبی تھیوریوں سے استفادہ کرنے کی کوشش نہیں کی جس طرح ان کے اسلاف کرتے تھے۔ اقبال سائنسی ومادی ترقی اور علوم وفنون کو انسانیت کی معراج نہیں سمجھتے۔وہ سائنس اور روح میں کامل ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتے ہیں،جس طرح روح جیسی لطیف شے مادی جسم کو قائم رکھے ہوئے ہے بعینہ سائنس کو بھی انسانی روح وشعور اور اخلاق کا حصہ بننا چائیے۔اس کے لئے انسانی تخلیق اور مصنوعی ذہانت کو فطری ذہانت وخلاقیت کے ساتھ رشتہ استوار کر کے خالق کائنات سے تعلق جب قائم کیا جائے تو تعلیم کے مقاصد پورے ہو جاتے ہیں۔ورنہ بے کیف مادی ترقی جبلی ضرورتوں کو تو پورا کر دیتی ہے مگر روح کی تسکین ادھوری رہ جاتی ہے۔حقیقت مطلق سے ناطہ قائم کئے بغیر مادی ترقی فتنہ و انتشار کو دعوت دیتی ہے۔کیونکہ شے بالذات کی جستجو کے بغیر ہر شے ادھوری ہے۔ اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ ۔املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ ۔ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ۔ شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ۔ اسلام اپنی تعلیمات میں بہت سادہ واقع ہوا ہے اس کی تعلیمات کی بنیاد ہی عمل پراستوار ہوتی ہے۔تفکر محض کی اتنی اہمیت نہیں جتنی عمل کی ہے کیونکہ سماج میں تبدیلی،ترقی اور عدل اجتماعی قائم کرنے کے لئے جدو جھد،عمل وحرکت،استفادے،اخذ و اکتساب،تحقیق اور تخلیق کی ضرورت ہوتی ہے،جس میں تفکر محض کے فلسفے قوموں کو اپا ہج اور کمزورکر دیتے ہیں اس لئے صوفیانہ واردات قلبی اور مراقبوں کی اسلام کے تصور علم میں سوائے تفکر و اطمینان قلوب اور تطہیر ذات کے کوئی گنجا ئش نہیں ، عمل وتفکر میں اعتدال قائم رکھنے کا درس دیا گیا ہے یہ انسان کا ایک انفرادی سوچنے کا پہلو ہو سکتا ہے مگر اسلامی معاشرے کی ہیت اجتماعی پر اس کا اطلاق کرنے سے اسلام کی متحرک فکر جس کی بنیاد ہی نئے سے نئے علوم کی تحصیل پر قا ئم ہے متا ثر ہو تی ہے کیونکہ اسلام کے تصور علم میں تصوف،رہبانیت۔عشق اور کیف و مستی عمل کے بطن سے جنم لیتی ہیں۔تلوار کی دہار کے نیچے اور نیزے کی نوک کے اوپر پروان چڑھتی ہیں،جس میں مسلسل جہد و پیکار اور کشمکش کا عمل جاری رہتا ہے۔ دورزوال کے بعداسلامی فکر کو صو فیانہ فکر نے عملی سطح پر سخت نقصان پہنچایا سا ئنسی اور تجربی علوم میں ان کی جو شروع سے اٹھان اوراڑان تھی ان کو کمزور کرنے میں نظری فلسفہ نے اہم کردار ادا کیا۔اسلام میں معاشرتی ترقی ،حرکت اور عدل اجتماعی کے قیام کے لئے باب سخن ہمیشہ کھلا رکھنے کی تلقین کی گئی اور چودہویں صدی عیسوی تک اس پر کام ہوتا رہا اس دور میں مسلمانوں نے نہ صرف یونانی ،ہندوستانی اور ایرانی علوم کے تراجم اور تشریحات کیں بلکہ ان کے ساتھ عمرانی اور فطری علوم میں ایجاد و انکشافات سے بھی کام لیا اور دوسری اقوام کو ان علوم سے متعارف کرایا،اس علمی ترقی کی بنیاد حضرت علی کے اس قول پر قائم تھی۔کارخانہ قدرت میں غور وفکر کرنا بھی عبادت ہے۔عقلمند ہمیشہ غم و فکر میں مبتلا رہتا ہے۔تجربے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ اور عقلمند وہ ہے جو ان میں ترقی کرتا ہے۔”
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.