مزاحمتی میاں : سندھی زبان کی ایک نظم

مزاحمتی میاں

 مزاحمتی میاں : سندھی زبان کی ایک نظم

شاعر: نعمت کھوڑو

 سندھی سے ترجمہ: قاسم کیہر

مزاحمتی میاں انقلاب کا رومانس شفٹ ہوچکا ہے!

مجھے تمہاری مزاحمت سے،

کوئی بڑا اختلاف تو نہیں۔

بس! تم تھوڑے بے وقوف اور ایسے جذباتی ہو،

جیسے قوم کے لیے چاقو ہو!

تم یہ بھی نہیں جانتے،

انقلاب کا رومانس شفٹ ہوچکا ہے!

ان کی طرف ـ جو انتہا پسند ہیں!

جو دہشت گرد ہیں!

اب وہ تمہیں گرفتار نہیں کریں گے!

جس سے ایک تحرک پیدا ہوتا ہےِ،

اب وہ تمہیں جیل بھی نہیں بھیجیں گے،

جہاں آدمی پک کر کندن بن جاتا ہے

اچکا، بڑھ کر ایک بڑا چور بن جاتا ہے،

انقلابی ایک پکا انقلابی بن جاتا ہے

وہ تمہیں پھانسی بھی نہیں دیں گے،

جس سے قومیں جاگ اٹھتی ہیں!

ایک انقلابی کی پھانسی سے،

قوموں میں بجلی سی لہر دوڑ جاتی ہے!

کیا تمہیں یاد نہیں؟

ایک مرتبہ منڈیلا نے اپنی قوم سے

سخت مایوس ہوکر اپنے وکیل کو کہا تھا،

اب یہ دلیل بند کرو،

میں بے گناہ ہوں،

پر میں پھانسی چڑھنا چاہتا ہوں!

میری قوم غلامی کی نیند میں غرق سوئی ہوئی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ میری پھانسی سے،

اس سوئی ہوئی غفا میں گم قوم کو ایک جھٹکا ضرور لگے گا۔

ایک مرتبہ سوچیں گے ضرور،

کہ کوئی ان کے لیے پھانسی چڑھ گیا!

پھانسیوں سے انقلاب آتے تھے،

جو اب دہشت گردوں کا زیور ہیں!

تم بھی کسی خوش فہمی میں نہ رہو،

قوم کو بھی غلط فہمی کی طرف مت لے جاؤ!

مزاحمتی میاں! یاد رکھو!

اب وہ تم کو پکڑ کر گم کر دیں گے!

وہ بھی تب، جب تمہارے پاس کوئی معلومات ہوگی!

نہیں تو، تم کو پولیس کے ہاتھوں ہی،

ہاف فرائی اور فل فرائی کروا دیں گے!

یہ بھی ایک ریاست ھے؟!

جس میں انسانوں کے لیے،

ایسے خونی اصطلاحات جوڑے جاتے ہیں،

جو جنگی گناہوں جیسے ہوتے ہیں۔

مزاحمتی میاں! کچھ  ہوش کرو!

مزاحمتی میاں ! کچھ عقل کرو!

اب گرفتار صرف دہشت گرد ہی ہوں گے!

وہ جیل بھی جائیں گے!

کال کوٹھڑیوں میں خواب بھی دیکھیں گے!

اور پھانسیوں پر بھی چڑھیں گے!

اس لیے کہ ان کا فکر پروان چڑھے اور اس کا پھیلاؤ ہو !

میں تو کہتا ہوں ہتھیار پھینک دو!

اپنی قوم سے رجوع کرو،

عوام میں جاکر بولو، ان سے بات کرو !

ان کو صاف صاف بتاؤ!

یہ دیس تمہارا ہے!

جاگو ! اٹھو ! آواز دو!

ساتھ مل کر ایک آواز بن جاؤ،

آؤ! ایک پُر وقار

عوامی سیاست کے ذریعے وطن کو واپس لائیں،

اور پھر ایک ایسا جشن منائیں،

جس سے دنیا پر عیاں ہو کہ

کوئلے جیسی ریاست سے

کروڑوں ہیرے ملے ہیں !

جو سندھی ہیں!

جو سندھ کے باسی ہیں!


سندھی سے اردو میں ترجمہ شدہ اس نظم کے شاعر نعمت کھوڑو سندھی روزنامہ کوشش کے مدیر ہیں۔