جب میری پہلی کتاب چھپی
ریاض احمد سید
قیام پاکستان سے قبل کالج اور یونیورسٹی کے امتحانات انگریزی میں ہوا کرتے تھے۔ یوں کمزور انگریزی والوں کے لیے میٹرک کے بعد کی تعلیم خاصی دشوار ہوتی تھی۔ اور برصغیر بھر میں محض چند ہزار خوش نصیب ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کر پاتے تھے۔ پھر بتدریج انگریزی کی گرفت کمزور ہوتی چلی گئی۔ پہلے انٹرمیڈیٹ میں اردو کا چلن ہوا پھر بی اے تک پہنچ ہوگئی اور غالباً 1967 میں ایم اے کا امتحان بھی اردو میں دینے کی اجازت مل گئی اور نصابی کتب دھڑا دھڑ اردو میں منتقل ہونے لگیں۔ راقم نے 1970میں تاریخ میں ماسٹرز کیا تو جامعہ پنجاب میں اردو مکمل طور پر ترویج پاچکی تھی۔ انگریزی میں امتحان دینے والوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم تھی، البتہ اسی برس ہسٹوریو گرافی historiography کا نیا مضمون متعارف ہوا جس کی کتب اول تو میسر نہ تھیں اور جو ایک آدھ تھی وہ بھی انگریزی زبان میں۔ یوں ہم جیسے ’’اردو دان‘‘ طبقے کو خاصی دشواری ہوئی۔ امتحان کے بعد فراغت کے دن تھے کہ سوچا کیوں نہ شعبہ تاریخ کے طلبا کی مشکل آسان کرنے کے لیے ہسٹوریو گرافی پر کتاب لکھ دی جائے۔ ہفتوں لاہور کی تمام بڑی لائبریریوں کی خاک چھانی، بہت کم مواد میسر آیا۔ البتہ پنجاب پبلک لائبریری کے کیٹلاگ سے کچھ کتابوں کی نشاندہی ہوئی۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ سب مغل عہد کی ایک عمارت میں مقفل تھیں جسے کھولنا خطرناک بتایا گیا کہ خوفناک قسم کے حشرات الارض کی آماجگاہ ہے۔ بہرحال کسی نہ کسی طور ایک اہلکار کو آمادہ کیا اور وہاں سے مطلوبہ کتب حاصل کرلیں۔
یوں شاداں و فرحاں اپنے گاؤں کرتاپور (نارووال) واپس آگیا، اور اپنے تئیں کتاب نویسی کا کام شروع کردیا۔ چھ ماہ کی خامہ فرسائی کے بعد نوشتہ کو ترتیب دی، باب سازی کی اور ہر ایک کو نام دیا، بظاہر تو وہ اوراق موضوع کے مطابق ایک معقول ضخامت کی کتاب کی طرح دکھائی دے رہے تھے مگر یقین نہیں آرہا تھا کہ واقعی میں یہ ہفت خواںطے کر چکا ہوں۔ ہفتہ دس دن بعد لاہور جانا ہوا، تو کاغذوں کا وہ پلندہ بھی ہمراہ لے گیا۔ شادباغ میں اپنے ایک عزیز کے ہاں بسیرا تھا، ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ میں نے ایک کتاب لکھی ہے، کسی سے کہہ سن کر چھپوادیجیے۔ فرمایا، میرا ایک جاننے والا یہی کام کرتا ہے، ا س سے بات کروں گا۔ اگلی صبح بازار ناشتہ لینے گئے تو موصوف بھی ہمراہ تھے۔ انہوں نے کاغذوں کے پلندے کو بے دھیانی سے ٹٹولا اور بولے، لڑکا بالکل نیا ہے، کسی پروفیسر کو دکھائیں گے تو پتہ چلے گا۔ یوں ایک بے یقینی کی کیفیت میں راقم گاؤں واپس آگیا۔
ٹھیک ایک ماہ بعد پھر سے لاہور جانا ہوا تو میری کتاب ’’مطالعہ تاریخ‘‘ کے نام سے چھپ کر بک اسٹالز پر سج چکی تھی۔ اردو بازار کی نکڑ والی دکان سے کتاب اٹھائی تو میرے ہاتھ کانپ رہے تھے اور یقین نہیں آرہا تھا کہ میری ہی تحریر کتاب کی شکل دھار چکی ہے۔ پبلشر کی دکان ذرا آگے تھی، وہاں پہنچاتو اس نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ کتاب مارکیٹ کی تھی اور متعلقہ ماہر نے بھی OK رپورٹ دی لہٰذا جلدی چھپ گئی۔ پہلی بار یوں لگا کہ یکایک اسٹیٹس کچھ بلند ہوگیا ہے، اب میں اردو بازار کے اسٹالوں پر کتابوں کی ورق گردانی کرنے والا طالب علم نہیں بلکہ مصنف بن چکا ہوں۔ مذکورہ پبلشنگ ہاؤس کو دو بھائی چلارہے تھے۔ پڑھے لکھے، شستہ اور بذلہ سنج، اللہ مغفرت کرے، دونوں اب اس دنیا میں نہیں۔ کاروبار بھی تقسیم ہوچکا جو ان کے بچے سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس وقت بڑے بھائی موجود تھے، چائے پانی سے فراغت کے بعد بولے، ریاض صاحب! آپ کی کتاب ماشااللہ اچھی جارہی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے ایم اے کے سب پرچوں کے لیے اردو میں کتب تحریر فرمادیں، آپ کی پہلی کاوش ’’مطالعہ تاریخ‘‘ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ کے لیے یہ چنداں مشکل نہ ہوگا اور ہاں ہم یہ کام آپ سے مفت میں نہیں کرائیں گے، اس کے لیے آپ کو15فیصد رائلٹی ملے گی۔ دل ہی دل میں حساب لگایا کہ یہ تو اچھی خاصی باقاعدہ آمدنی کا سر بندھ ہورہا ہے۔ آج ایک کتاب ہے، سات پرچوں کا مکمل کورس تحریر کردیا تو عیش کروں گا۔ اور شاید اتنا دھن آجائے کہ نوکری کی بھی ضرورت نہ رہے۔ چنانچہ اس کام میں جت گیا اور دو برسوں میں چھ سات کتابیں پبلشر کے حوالے کردیں جو بسرعت چھپ بھی گئیں۔
اب ہم رائلٹی کے انتظار میں تھے کہ چیک آج آتا ہے یا کل۔ مہینوں گزر گئے اور سلسلہ جنبانی نہ ہوا تو سوچا کہ لاہور کون سا دور ہے، خود جاکر پتہ کرلیتے ہیں، دکان پر گئے تو بڑے والے بھائی موجود تھے، نہایت تپاک سے ملے، چائے پانی کے بعد اسی سوچ میں تھے کہ عرض مدعا کیسے کریں؟ انتظار کیا کہ موصوف خود سےکچھ کہیں گے، جب توقف طویل ہوگیا اور ایسا کچھ بھی سننے کو نہ ملا تو خود ہی سبک سر ہوکر پوچھا وہ آپ نے رائلٹی کا کہا تھا! اوہ سوری میں بھی سوچ رہا تھا کہ آپ سے کوئی ضروری بات کرنا ہے۔ ہاں تو جناب! آپ ماشا اللہ پڑھے لکھے ہیں، ضرور کوئی جاب بھی کرتے ہوں گے، لکھنا لکھانا آپ کا شغل ہے اور ہماری روٹی روزی، جس کے لیے سو جھوٹ سچ بولنے پڑتے ہیں، ہم ہزار چھاپیں گے اور 500 کہیں گے، 100 بیچیں گے اور 50 بتائیں گے، پھر ہمارے لیے رائلٹی کا حساب کتاب رکھنا بھی دشوار ہے، بہتر ہوگا کہ فی صفحہ کے حساب سے نرخ طے کرلیں، جتنا آپ لکھیں گے، ساتھ کے ساتھ حساب چکتا کرتے جائیں گے۔ اور ہم آپ کو مبلغ 4 روپے فی صفحہ ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جھٹ سے انہوں نے میری جملہ مطبوعات کے صفحات جمع کئے اور 4 سے ضرب دیکر بولے کہ یہ ہوئے مبلغ 5600 روپے، جو ہم آپ کو چار قسطوں میں ادا کردیں گے۔ 1400 روپے کی پہلی قسط آج اور باقی ہر چھ مہینے بعد۔ ظاہر اس یکطرفہ ڈیل کو قبول کرنے کے علاوہ میرے پاس کوئی اور چارا نہ تھا،1400روپے جیب میں ڈالے اور دکان کی سیڑھیاں اتر آیا، باقی تین قسطیں کب اور کیسے ملیں یہ ایک الگ داستان ہے، جو اس سے بھی کم خوشگوار ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ لکھنے کو کیریئر بنانے کا خواب ابتدا ہی میں ٹوٹ گیا اور قدرت نے روزی کے دیگر باعزت ذرائع پیدا کردیے۔ باہر کوئی ایک کتاب لکھتا ہے تو شمار اشرافیہ میں ہونے لگتا ہے، روزگار کی فکر بھی نہیں رہتی، ہمارے ہاں کتاب کی کمائی پر زندہ رہنے کا تصور تک نہیں۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ