مائی لارڈ! تاریخ فیصلے کی منتظر ہے
از، ملک تنویر احمد
آسمان کی بدلتی ہوئی رنگت کے نظارے ہم زمین پر بسنے والے سال بھر میں خدا جانے کتنی بار کرتے ہیں لیکن چشم فلک زمین پر کچھ ایسے منظر دیکھے گی اس کا تصور بھی کچھ عرصہ پہلے تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کرہ ارض پر پاکستانی نامی خطہ زمین نابغہ روزگار واقعات کی جنم بھومی رہی ہے جو انسانی عقل و دانش کو حیرت کدے میں مبتلا کر دے۔
اب یہ اچنبھے کی ہی بات ہے کہ جو آمریتوں کی گود میں پل کر جوان ہوئے ہوں وہ پیرانہ سالی میں نظریاتی و انقلابی رہنماؤں کا سوانگ بھر لیں۔ اب چشم فلک کو یہ منظر بھی دیکھنا تھا کہ خاندان شریفیہ کے بے تاج بادشاہ میاں نواز شریف ایک ایسی آئینی شق کی خلاف ورزی کی پاداش میں پارلیمانی سیاست سے تا حیات نا اہلی کا داغ اپنے سینے پر سجا بیٹھے جو ان کے روحانی مرشد جنرل ضیاء الحق نے نا مطلوب عناصر کو صداقت و امانت کے پیمانے میں تول کر سیاست کی کچھ یوں تطہیر کرنا تھی کہ ان کے سیاسی مخالفین گلی محلوں میں تو احتجاج کر سکیں لیکن اقتدار کے ایوانوں میں ان کا داخلہ یکسر ممنوع قرار دیا جائے۔
میاں نواز شریف روز اول سے قسمت کے دھنی اور پس پردہ قوت کے محبوب و لاڈلے رہے۔ جنرل جیلانی کے زیر سایہ جب وہ کوچہ اقتدار میں داخل ہوئے تو قسمت کی یاوری کے ساتھ ساتھ ’’مہربان قوتوں‘‘ نے بھی ان پر کچھ ایسا دست شقفت رکھا کہ وہ زقندیں بھرتے ہوئے کارزار سیاست میں نئی منزلوں کو اپنے پاؤں تلے روندتے چلے گئے۔
آج سے دو ڈھائی برس پہلے تک میاں نواز شریف ان بالا دست قوتوں کے منظور نظر بھی تھے اور ان کے اشارہ ابرو پر ناچنے والی پتلی بھی۔ ایک اشارہ ہوا اور جھٹ سے کالا کوٹ چڑھایا اور عدالت جا دھمکے۔ مطلوب انصاف نہیں بلکہ سیاسی حریف کو بے دست و پا کر کے ان قوتوں کے سامنے انہیں ڈھیر کرنا تھا جو پسِ چلمن پی پی پی حکومت سے نالاں ہو کر ان کے سیاسی حریفوں کو آگے لانے کے مشن پر گامزن تھے۔
یہی عدالتیں تھیں جہاں افتخار چوہدری اور ان کے ساتھی ججز سو موٹو نوٹسز کے ذریعے پی پی پی حکومت کی مٹی پلید کرتے تھے تو ہر سو سے داد و تحسین کے نعرے بلند ہوتے اور تقاضا کیا جاتا کہ عالی جناب! ان چوروں کو گھر پہنچا کر ہی دم لینا۔
ابھی ان فیصلوں کی باز گشت فضاؤں میں گونج ہی رہی تھی کہ تخت اسلام آباد کے نئے وارث بڑی شان و طمطراق سے اقتدار کی مسند پر براجمان ہوئے۔ ایک بھاری بھرکم مینڈیٹ کے نشے میں مخمور اور عدالتوں کی جانب سے حمایت و تائید کی ماضی کی دلنشیں یادیں اپنے من میں بسائے نواز لیگی حکومت کو شاید ادراک تک نہ تھا کہ تجمل خان کے لیے تو شاید عیاش ہمہ وقت ہو لیکن ان کے لیے اب عدالتوں کی جانب سے ریلیف کی عیاشیاں اور آسانیاں اب قصہ ماضی ہیں۔
جسٹس قیوم، جسٹس سعید الزمان صدیقی اور ان جیسے ججوں کا دور لد چکا اب وکلاء تحریک کے بعد جنم لینے والی وہ منہ زور اور فعال عدلیہ موجود ہے جسے آئین میں دی گئی قوت کے ساتھ ’’پاپولر فیصلوں‘‘ کے ذریعے میڈیا اور عوام میں زندہ رہنے کا بھی ڈھنگ آگیا ہے۔ اب میاں نواز شریف اینڈ کمپنی عدلیہ کے ہاتھوں جس پر آشوب دور سے گزر رہے ہیں اس کا وہ تصور بھی چند سال پہلے تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔
بلاشبہ ایک فعال عدلیہ اس ملک میں قانون و انصاف کی سربلندی اور فراہمی کے لیے از حد ضروری ہے لیکن ایک فعال سے زیادہ جا رحانہ انداز اپنانے والی عدلیہ کا تصور کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کے دامن مبینہ کرپشن سے آلودہ ہیں اور ان کا احتساب ہونا بھی چاہیے لیکن انصاف کا بہتا دھارا جب اپنے کناروں سے باہر چھلکنے لگے تو پھر بجاطور پر انگشت نمائی بھی ہو گیا اورذہنوں میں جنم لینے والے بہت سارے سوالات بھی زبانوں پر جاری ہو سکتے ہیں۔
نواز شریف کا احتساب ہر صورت میں ہونا چاہیے اور اپنے بیانیے کی ڈھال کے ذریعے احتساب و انصاف کی تلوار کو کند نہیں کر سکتے کہ آخر کار ان جائیدادوں اور اثاثوں کے انبار میں کچھ تو پتا چلے کہ وہ کیسے بیرون ملک بنائے گئے۔ لیکن انصاف کے اس ہتھوڑے کو ہر اس سر پر برابر برسنا چاہیے جو کرپشن، بد عنوانی اور ناجائز ذرائع سے دولت کے انبارمیں دھنسا ہوا ہے۔
انصاف کے یہ بڑھتے ہوئے بازو اگر فقط نواز شریف اور ان کے خاندان کی ہی گردن مروڑیں گے تو بلاشبہ وہ یہ نیک فریضہ انجام دیں کہ وہ گردنیں جن پر ملکی وسائل میں بد عنوانی اور غبن کی چربی چڑھی ہو اب تعزیر و تادیب کے شکنجے میں پھنسنی چاہئیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس ملک میں ایسی لاتعداد گردنیں سینہ تان کر گھومتی پھر رہی ہیں جن کا ماضی و حال قومی وسائل کے ضیاع اور ملکی خزانے میں نقب لگانے سے داغدار ہے۔
اس دھرتی پر فقط نواز شریف اور اس کا خاندان ہی بد عنوانی کا چلتا پھرتا اشتہار نہیں بلکہ لاتعداد دوسرے بھی ایسے افراد ہیں جو غبن و لوٹ مار کی کریہہ تصویریں ہیں۔ نواز شریف کے ساتھ ساتھ ان سب کو ہی انصاف کے ترازو میں تولنا ہوگا تاکہ انصاف و عدل کا پلڑا بھاری ہو۔ اس ملک میں احتساب کا نعرہ ہمیشہ سے ایک ایسا سراب رہا ہے کہ جس کے تعاقب میں ملک و قوم ہلکان تو ہوئے لیکن انجام کار ناکامی و نامرادی کی صورت میں بر آمد ہوا۔
اس ملک کو ایک حقیقی احتساب کی ضرورت ہے جو زبان سے نکلے ہوئے الفاظ سے زیادہ اپنے عمل سے ثابت کر رہا ہو کہ احتساب کی شمشیربر ہنہ پسند و ناپسند سے بالاتر ہو کر ہر اس ذی روح کو چرکے لگائے جس نے اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر اس ملک کے خزانوں کو خالی اور اپنی تجوریوں کو بھرا ہو۔
عدلیہ کے ایوانوں میں ہونے والے فیصلوں کے بعد نواز شریف اور ان کا خاندان ایک بیانیہ لے کر چل رہا ہے۔ وہ ملک میں ووٹ کی عزت و حرمت اور جمہوریت کو خطرے کی دہائیاں دیتا پھر رہا ہے۔ مائی لارڈ یہ بیانیہ بلاشبہ کھوکھلا اور بوسیدہ ہے کہ جمہوریت کی آڑ میں بد عنوانی اور لوٹ کھسوٹ کی اجاز ت کسی صورت نہیں دی جا سکتی۔
اس بیانیے میں قطعی طور پر کوئی جان نہیں ہے اور نہ ہی اس سے اس ملک کے زخموں پر پھاہا رکھا جا سکتا ہے لیکن یہ بیانیہ اس وقت تقویت پکڑتا ہے جب انصاف کا منہ زور ریلا چند چند افراد یا ایک خاندان تک محدود ہو۔
یہ بیانیہ اگر کامیاب ہو گیا تو اس ملک کے ساتھ اس سے بڑا ظلم ہو نہیں سکتا اس لیے مائی لارڈ انصاف کاریلا فقد چند گھروں کو نہ بہہ کر لے جائے بلکہ اس کی زد میں ہر وہ گھر آئے جہاں چوری کا مال چھپایا گیا ہو۔ انصاف کا ہتھوڑا ہر خائن اور رہزن کے سر کو کچلے نا کہ چند افراد تختہ مشق بنیں۔ مائی لارڈ تاریخ کی گھڑی منتظر ہے کہ عدل کے نوک قلم سے کیا فیصلہ پھوٹتا ہے؟