کاش میں ایسا سکول بنا سکتا
از، ضیغم رضا
کاش میں ایک ایسا ادارہ یا سکول بنا سکتا جہاں سولہ جماعتوں کی بجائے کچھ ایسے درجے ہوتے جہاں کچھ پڑھانے کی بجائے سکھایا جاتا۔ سِکھانے والا بھی محض ایک بورڈ ہوتا جو کلاس روم کے باہر لگا ہوتا جس پہ اس درجے کا عنوان ہوتا۔ کلاس روم میں کوئی استاد یا کتاب نہ ہوتی۔
ان درجوں کی ترتیب جو بھی ہوتی بَہ ہر حال ایک درجہ ہوتا ‘بکھیر دو’ اس درجے میں سٹوڈنٹس کو ایک کمرے میں داخل کر دیا جاتا جہاں بے شمار اشیاء سلیقے سے سجی ہوتیں۔ طالب علموں کو اجازت ہوتی کہ جا کے ان اشیاء کو جیسے جی چاہے بکھیر دے، انھیں کوئی روک ٹوک نہیں ہو گی۔
ایک اور درجہ ہوتا جس کا عنوان ہوتا ‘سمیٹ دو’ یہ درجہ الّم غلّم بکھری ہوئی اشیاء کو سمیٹنے کے لیے ہوتا۔ یہاں طالب علم سیکھتے کہ بکھیرنے سے سمیٹنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔
ایک اور درجہ ‘خاموشی’ ہوتا۔ یہاں طالب مخصوص دورانیے تک خاموش بیٹھے رہتے۔ یعنی مکمل سنّاٹا۔ یہاں وہ سیکھتے کہ خاموش رہنا پڑ جائے تو زبان کیسے بند رکھنی ہے۔
ایک اور درجہ ‘بولتے رہنا’ ہوتا۔ کمرے میں جاؤ سارا دن بولتے رہو۔ اس چیخ پکار میں اپنی آواز کو الگ سے شناخت کرنا سیکھو اور یہ کہ آوازوں کے ہنگام میں تمھاری آواز کی حیثیت کیا ہے؟
ایک اور درجہ ہوتا جہاں دنیا جہان کی موسیقی خود بَہ خود چلتی رہتی۔ طالب علم وہاں بیٹھ کے سنتے رہتے اور جانتے کہ موسیقی کتنا سکون دیتی ہے؛ مزید یہ کہ دنیا جہان کی موسیقی ایک ہی زبان رکھتی ہے۔
پھر ایک درجہ ہوتا جہاں مختلف مذہبوں کے لوگ اپنی عبادت کرتے دکھائے جاتے۔ شاید طالب علموں کو دیکھ کر اندازہ ہو جاتا کہ محض عبادت کرتا ہوا کوئی مذہبی انسان دوسرے انسان کو نقصان نہیں پہنچاتا۔
ایک اور درجہ ہوتا جہاں کچھ بھی کہنے کی اجازت ہوتی۔ ہر طالبِ علم جو بھی سوچتا یا کہنا چاہتا باقی طالب علم بغیر کوئی ہنگامہ کیے اس کی بات سنتے۔
ایک درجہ تجربہ گاہ کا بھی ہوتا۔ مختلف سائنسی آلات کو وہ خود ٹٹول کے دیکھتے۔ انھیں یہ کام کے نظر آتے ان میں دل چسپی لیتے ورنہ آگے چل دیتے۔ مگر یاد رہے کہ اس سے پہلے ایک درجہ ہوتا جس میں طالب علموں کے تجسّس کو مہمیز دینے کے لیے ‘وہ کیا ہے’ کے درجے میں بھی بٹھایا جاتا جہاں کمرے میں مختلف اشیاء کی اُدھوری تصویریں لگی ہوتیں اور طالبِ علم خود سوچتے کہ یہ کس شے کی تصویر ہو سکتی ہے۔ یہ نمونہ قابلِ عمل ہو جائے تو مزید درجے بھی شامل کیے جاسکتے ہیں۔
البتہ کتابوں سے تمام تر محبت کے با وُجود میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ اس ادارے میں کتابیں موجود ہوں یا کوئی طالبِ علم پڑھنا سیکھے۔