برما کے روہنگیا کو کسی نئے مدینہ کی تلاش ہے!
طارق احمد صدیقی
برما میں رہ رہ کر تشدد کی جیسی لہر اٹھتی رہی ہے، اس کو نظر میں رکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر برما کی زمین تنگ ہو چکی ہے اور ایسے حالات میں بڑے پیمانے پر ہجرت کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا۔
برما کے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں ہجرت کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنی جان بچا سکیں۔ سب اسلامی ممالک بالخصوص اسلام پسند ممالک کے مسلمان ایک ساتھ مل کر روہنگیا مسلمانوں کو برما سے صحیح سلامت نکلنے میں مالی مدد بہم پہنچائیں۔
اسلامی ممالک کی حکومتیں برما سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو اپنے ممالک کی شہریت اور شہری حقوق عطا کریں اور اس طرح اپنے اسلامی اخلاق کا مظاہرہ کریں۔
یاد کریں کہ عہد رسالت میں کس طرح مدینہ کے انصار نے مکہ کے مہاجرین کی مدد کی تھی۔ آج اگر اسلام پسند اور اسلامی ممالک یہ نہیں کر سکتے تو آخر ایمانی رشتہ کس چڑیا کا نام ہے؟
کیا ایمانی رشتہ کے تقاضے محض رونے دھونے یا احتجاج کرنے یا لعنت و ملامت کرنے سے پورے ہوتے ہیں یا ان سطحی باتوں سے اوپر اٹھ کر سنجیدہ کوشش کرنے سے؟
تو سنجیدہ کوشش کا ایک ہی طریقہ ہے، دنیا کے پانچ دس اسلامی ممالک اور اسلام پسند حکمراں سامنے آئیں اور برما کی حکومت سے کہیں کہ وہ تمام روہنگیا مسلمانوں کو اپنے اپنے ہاں شہریت دینے کے لیے تیار ہیں اور اس لیے وہ انہیں اپنے ہاں لے جانا چاہتے ہیں۔
کوئی یہ سمجھے کہ سڑک پر رونے چلانے یا احتجاج کرنے سے جان بچ جائے گی، تو یہ ایک خام خیالی ہے۔
ذہن سازی اگر کرنی ہو تو برما میں پھنسے مسلمانوں کو برما سے واپس نکالنے کے لیے کی جائے۔ مجرد اور بلانہایت احتجاج کا فائدہ نہ پہلے ہوا ہے اور نہ اب ہوگا۔