نیب زادے
از، معصوم رضوی
جب سے عمران خان حکومت میں آئے ہیں علامہ گوگل خوش توبہت ہیں، مگر تشویش چھپائے نہیں چھپتی، کہتے ہیں کپتان کو بھی کھوٹے سکے گھیر رہے ہیں۔ چائے پیتے ہوئے فرمایا، یوں تو ملک میں زادوں کی بہتات ہے: صاحبزادہ، خانزادہ، مخدوم زادہ، پیرزادہ مگر جو عروج نیب زادوں کو ملا ہے وہ بھلا کسی کے نصیب میں کہاں۔ بھئی بتائیے کوئی ایسا محکمہ ہے جس میں نیب زدگی نہ ہو ما سِوائے خود نیب کے، بَل کہ، وہ بھی محفوظ نہیں ہے۔
علامہ گوگل کی تقریر جاری تھی۔ عرض کیا حضور یہ نیب زدگی اور نیب زادوں کی اصطلاح خوب ہے۔ بولے یوسفی صاحب کا کہنا ہے، حرام زادے اور حرام زدگی میں فرق ہے: ایک موروثی، اور دوسری ذاتی صفت مگر یہاں تو ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہے۔
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب اسی نیب کے اسیر ہوئے
میں نے شعر کی داد دیتے ہوئے کہا کہ اسیر تو خیر سب ہیں مگر نظرِ کرم اپوزیشن پر کیوں؟ کہنے لگے بڑی سیدھی سی بات ہے اس لیے کہ وہ اپوزیشن ہے۔ ارے بھیا، پاکستان میں تو ہر حکومت جانے کے بعد ذلیل ہوئی ہے، ان کی بھی باری آئے گی، مگر فی الحال تو اپوزیشن کے علاوہ باقی سب ایک پیج پر ہیں۔ ایک دم میرے زانوں پر ہاتھ مارا کہ میں اچھل کر رہ گیا۔ بولے بھئی اب جو کراچی میں یہ ڈائریکٹر پارکس پکڑے گئے ہیں، کیا نام ہے ان کا بھلا سا، میں نے کہا لیاقت قائم خانی؛ بولے ہاں وہی وہی، تو جناب ان کا گھر، جائیداد، گاڑیاں، بینک بیلنس، سونا، جواہرات دیکھ کر خدا کی قسم پاناما اور سوئس بینک کا دکھ بھول گیا۔
میں نے کہا درست بات ہے درختوں سے اتنا پیسہ پیدا کرنا معمولی بات تو نہیں۔ ممکن ہے درختوں میں نوٹ اگاتا ہو، شاید اسی باعث کپتان شجر کاری پر یو ٹرن لے گئے۔ تڑخ کر بولے آپ تو کپتان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ بے چارے خورشید شاہ بھی حیران ہوں گے کہ میٹر ریڈر سے اپوزیشن لیڈر تک کا سفر، طعنے سنتے سنتے بے چارے کے بال سفید ہو گئے۔
مگر لیاقت کی لیاقت دیکھیے گُم نامی میں کتنا نام پیدا کیا۔ سنا ہے تمغے شمغے بھی ملے ہیں۔ بھئی کیا بتاؤں میرا بھتیجا آٹھویں جماعت میں پڑھتا ہے، کل پوچھا بیٹا بڑے ہو کر کیا بنو گے۔ کہنے لگا بابا تو ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں مگر میں مالی بنوں گا۔
بھلا بتائیے، پھر ماتھے پر ہاتھ مار کر بولے، یار وہ کیا شعر ہے خاک بسر میں ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، حضور وہ کچھ اس طرح ہے کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں ہے۔
ہاں وہی وہی، یار بڑا بڑا ٹیلنٹ پڑا ہے، جانے کتنے لیاقت موجود ہیں ہمارے درمیان، جانے نیب زادوں کے فوج ہو، کسی کو کیا خبر؟ میں نے کہا شریف برادران، خواجہ برادران، آصف زرداری، فریال تالپور، دونوں اپوزیشن جماعتوں کے سارے بڑے اندر ہیں اور تحریکِ انصاف کے بونے دیو بن کر آدم بو، آدم بو کے نعرے لگا رہے ہیں۔
لمبی ہوں کے بعد گویا ہوئے یار آپ تو صحافی ہیں، یہ بتائیں کہ مراد علی شاہ پہلے اٹھیں گے، یا ناصر شاہ۔ عرض کیا حضور اتنا بڑا صحافی نہیں، اس سوال کا جواب یا تو شیخ رشید دیں گے، یا پی ٹی آئی کا کوئی لیڈر، یہ معرفت کی منازل ہیں، ہم جیسے گناہ گار صحافیوں کو یہ عرفان کہاں۔
علامہ عمران خان کے بارے میں بڑے جذباتی ہیں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، علامہ کپتان تو صاف، شفاف اور بے داغ لوگوں آگے لا رہے تھے تو وہ کیوں نیب زدگی کا شکار نظر آ تے ہیں؟ علامہ قہقہہ مارتے ہوئے گویا ہوئے، بھئی آپ کو داغ دہلوی تو یاد ہیں ناں۔ امیر مینائی اور داغ ایک ہی دربار سے وابستہ تھے۔ امیر مینائی بزرگ اور با شرع، داغ نو جوان اور پکے رند باز۔ داغ کا کلام زبان زدِ عام تھا۔ بَل کہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے طوائفوں کو اَز بَر یاد تھا۔ بہ ہَرحال، جناب ہوا یوں کہ امیر مینائی نے ایک دن داغ سے کہا، بھئی شاعری کو خونِ جگر ہم بھی پلاتے ہیں اور تم بھی۔ ہمارا کلام خواص تک محدود ہے اور تمہارا ہر ایک کی زبان پر، یہ فرق کیوں ہے؟
داغ نے مسکرا کر پوچھا، مولانا کبھی طوائف دیکھی ہے؟ امیر مینائی ہڑبڑا کر بولے لاحول ولا قوۃ۔ داغ نے جواب دیا مولانا اکلوتی منکوحہ میں بس یہی کچھ ہو سکتا ہے۔ فلک شگاف قہقہے سے فارغ ہوئے تو آنکھ مار کر بولے، ویسے کیا آپ نے دیکھی ہے، خیر دیکھ بھی لیتے تو کیا بگاڑ لیتے۔ آپ بھی صاف و شفاف حیا دار مشرقی مرد جو ٹھہرے۔
میں نے کہا مولانا عمران خان کی بات آئے تو آپ لطیفوں پر اتر آتے ہیں۔ کہنے لگے مجھے پتا تھا آپ یہی الزام دیں گے۔ میں تو یہ عرض کر رہا تھا بھیا یہی کچھ کپتان کے ساتھ ہوا۔ پہلے پہل پاک، صاف، شفاف کردار اکٹھا کیے؛ پندرہ، سترہ سال بعد پتا چلا ایسے کام نہیں چلے گا تو کچھ داغ دار بھی شامل کر لیے۔ اب حکومت کی باری آئی تو پتا چلا جمع شدہ اثاثہ جات کارِ سرکار کے لیے بے کار ہیں تو پھر نو مولود نیب زادوں کو شامل کرنا پڑا۔ یہ بے چارے بھی کام نہ آئے تو نیب زدگی سے معمور پرانے چاولوں کو مشرف بہ تبدیلی کیا۔ اب بھیا کیا کیا جائے اقتدار میں آئے تو پتا چلا حکومت چلانا کھیل نہیں، یہ چلتے چلتے چلتی ہے۔ اب آپ ہی بتائیے اس میں کپتان کا کیا قصور ہے؟ لیکن یقین رکھیے انصاف ہو گا اور سب کے ساتھ ہو گا۔
میں نے عرض کیا علامہ آپ کو یاد تو ہو گا۔ اپنے ایک نگراں وزیر اعظم تھے، سابقہ منصف ناصر الملک صاحب، جب اقتدار میں تھے توسنا تھا آبائی علاقے سوات گئے۔ ایسا عظیم الشان پروٹوکول کہ شریف اور زرداری شرما جائیں۔ کروڑوں ایک دورے پر پھونک ڈالے، کیا ہوا؟ ایک اور منصف اعلیٰ تھے، چندے سے ڈیم بنا رہے تھے، مگر جھگی اور ڈیم دونوں خالی ہیں، کیا ہوا؟ کہاں ہے آپ کا انصاف؟ ایسی سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
علامہ نے پہلے اِدھر اُدھر دیکھا، پھر سَر گوشی میں بولے، مقدس اداروں کا تقدس ہر ذی شعور شہری پر عین فرض ہے۔ بَہ راہِ کرم عالمی سازش کا شکار نہ بنیے، یہ ففتھ جنریشن وار ہے۔ اداروں کے دم سے پاکستان قائم ہے، کچھ خدا کا خوف کریں۔ میں نے کہا علامہ ففتھ جنریشن وار کی اساطیری داستانیں تو میں نے بھی سوشل میڈیا پر بہت پڑھی ہیں۔ میرے سر پر خوف کی تلوار لٹکا کر تقدس کا درس نہ دیں، بل کہ جواب دیں۔
علامہ ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر بولے یار یہ بتائیے کہ وحید کی نہاری اچھی ہے یا زاہد کی۔ ویسے صابری کی نہاری کھائے عرصہ گزر گیا۔ صاحب نہاری پر زیرے کا سفوف، خدا کی قسم مزہ آ جاتا ہے، یار کوئی پروگرام تو بنائیں۔
علامہ کے جواب پر میں تو حیرت زدہ رہ گیا۔ علامہ خدا کا خوف کریں، سوال چنا اور جواب گندم۔ بولے اچھا یاد دلایا عرصے سے پوچھنا چاہتا تھا، یار یہ جو حضرت آدم کا گندم کھانے کا واقعہ ملتا ہے، مسیحی بھائی کہتے ہیں گندم نہیں سیب کھایا تھا، آپ کو کیا درست لگتا ہے۔
میں سمجھ گیا اب علامہ سے بحث بے کار ہے۔ پوچھا پاک بھارت کشیدگی ہے، جنگ ہوئی تو کیا ہو گا؟ کہنے لگے یار آپ صحافی بھی کمال کرتے ہیں، بھائی جنگ تو ہم جیت چکے، سوشل میڈیا دیکھیے، ملک بھر کی ریلیوں میں گونجتے نعرے، سرکاری پرومو، نجی نغمے، عظیم الشان کانفرنسز، دبنگ تقاریر، اب بھلا بھارت کیا کرے گا؟
میں نے کہا علامہ آپ سنجیدہ ہیں، یا مذاق کر رہے ہیں۔ بولے کیا پاک بھارت جنگ پر میرے اور آپ کے تبادلۂِ شکوک و شبہات سے کوئی اثر پڑے گا۔
میں نے کہا، نہیں۔
تو ہنس کر بولے:
پھر کیوں پریشان ہوتے ہیں؛ چلیں آئیں نہاری کے مزے اڑاتے ہیں۔