نئی مذہبی تعبیر کی ضرورت
از، خورشید ندیم
چند روز کی ہنگامہ آرائی نے ریاست اور معاشرہ، دونوں کو لباس فطرت میں دنیا کے سامنے کھڑا کیا ہے۔ ریاست، معاشرہ، مذہب، اس معرکے میں کوئی سرخرو نہیں ہو سکا۔
سب سے پہلے ریاست۔ ”معاہدہ‘‘ دراصل وہ دستاویز ہے جس میں ریاست نے بقلم خود اپنے وجود کا انکار کیا ہے۔ یہ معاہدہ اس فریق کے حق میں ریاست کی گواہی ہے جس نے حکومت اور عدالت سمیت ہر ریاستی ادارے کو مسترد کیا۔ ریاست نے نہ صرف اپنے دستخطوں سے اس گروہ کو سندِ جواز عطا کیا ہے بلکہ ان کے اقدام کو سراہتے ہوئے گھر جانے کے لیے کرایہ بھی دیا ہے۔ ریاستی اداروں نے اس تشدد کو دو طرفہ عمل قرار دے کر خود ہی ریاست کے وجود کی نفی کر دی۔
سب سے افسوس ناک کردار حکومت کا ہے۔ اس نے خود فوج کو اس معاملے میں فریق بنایا۔ فوج کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد یہ بھی کہا کہ حکومت کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ واضح ہے کہ سول انتظامیہ ناکام ہوئی۔ اس کو کس نے ناکام بنایا؟ اس کا جواب حکومت پر قرض ہے۔ پنجاب کی حکومت نے موقع پرستی کا مظاہرہ کیا۔ مرکزی حکومت کو تنہا چھوڑ دیا۔ مرکزی حکومت کی بے بسی اور نااہلی کا عالم یہ ہے کہ اسے پنجاب حکومت، اپنے ہی سابقہ وزیرِ داخلہ اور ساتھ ریاستی اداروں کی مخالفت کا سامنا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ وزیرِ داخلہ اس کے اسباب خود اپنی جماعت کے سامنے بیان نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد بھی ان کا اصرار ہے کہ وہ ملک کے وزیرِ داخلہ ہیں اور انہوں نے قوم کو خانہ جنگی سے بچا لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ریاست طالبان کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کرتی تو ہم اس خانہ جنگی سے بھی بچ سکتے تھے جس میں سالوں مبتلا رہے اور میجر اسحاق جیسے خوب صورت جوانوں کو قربان کیا۔
بعض اوقات ریاست وسیع تر مفاد میں اپنے اختیارات استعمال نہیں کرتی۔ بعض مصلحتیں تقاضا کرتی ہیں کہ آپ طاقت کے استعمال سے گریز کریں؛ تاہم یہ کہیں بھی نہیں ہوتا کہ حکومت اپنی سب سے اہم اور بنیادی ذمہ داری، عوام کے جان و مال کے تحفظ اور امن و امان کے معاملے میں مصلحت کا شکار ہو کر، کسی گروہ کی یرغمال بن جائے۔ حکمت کے ساتھ معاملہ کیا جاتا تو پرامن حل ممکن تھا۔
حکومت سے غلطی یہ ہوئی کہ اس نے ایک انتظامی اور قانونی معاملے کو مذہبی بننے دیا۔ نہ صرف بننے دیا بلکہ بنا دیا۔ ہمارے ہاں مذہبی سیاست کرنے والوں کا یہ آزمودہ ہتھکنڈا ہے کہ وہ ایک غیر مذہبی معاملے کو مذہبی بناتے ہیں اور حکومتیں ان کے جال میں پھنس جاتی ہیں۔ جب ایک معاملہ مذہبی بن جاتا ہے تو اس کے جملہ حقوق مذہبی گروہوں کو منتقل ہو جاتے ہیں۔ پھر ان کا فیصلہ بھی حتمی شمار ہوتا ہے اور ریاست بھی ایسا ہی سمجھتی ہے۔ بھٹو سے لے کر مشرف عہد تک، اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ آٹھ انتخابی قوانین کو یکجا کرتے وقت، ایک حلف نامے کی عبارت کو نئے سرے سے لکھا گیا۔ ایک لفظ کی تبدیلی ہوئی جس سے، پارلیمانی جماعتوں نے خیال کیا کہ کوئی جوہری فرق واقع نہیں ہوا۔ آئین کا پانچواں باب تمام اصطلاحوں کا مفہوم بیان کرتا ہے۔ گویا جب کسی قانون میں کوئی اصطلاح استعمال ہو گی تو اس کا وہی مفہوم معتبر سمجھا جائے گا جو آئین خود بیان کر رہا ہے۔ یوں بھی رسالت مآبﷺ کے بعد امت کے اجتماعی شعور نے کسی پیغمبر کا تصور قبول نہیں کیا۔ چلیے، جب توجہ دلانے پر پارلیمان نے متفقہ طور پر اسے بھی بدل ڈالا تو اس کے بعد اس بحث کو ختم ہو جانا چاہیے تھا۔
جب بعض حلقوں نے اسے مذہبی معاملہ بنانا چاہا تو حکومت نے آگے بڑھ کر اسے ایک مذہبی مسئلہ تسلیم کر لیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اسے جرم قرار دیا اور ‘قائد محترم‘ سے مطالبہ کیا کہ ذمہ دار وزیر کو سزا دی جائے۔ ‘قائد محترم‘ نے بھی تحقیقاتی کمیٹی بنا ڈالی جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
جب سب نے معاملے کو مذہبی تسلیم کر لیا تو پھر اس کی باگ مذہبی طبقے کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اب حکومت اور ریاست کے پاس سر افگندگی کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ اس نے نہ صرف ہتھیار ڈال دیے بلکہ ان مذہبی لوگوں سے اپنے وزیر کی زندگی کی بھیک بھی مانگی۔ حکومت نے وعدہ لیا کہ وہ وزیر کے خلاف فتویٰ نہیں دیں گے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اسے جان کی امان دیں گے۔
اگر اہلِ مذہب کسی کے مرتد ہونے کا فتویٰ جاری کر دیں تو پھر اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ریاست بھی نہیں جو خود ان سے تحفظ طلب کر رہی ہے۔ رہی فوج تو اس نے کیا کھویا، کیا پایا، یہ سمجھنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کا تبصرہ کافی ہے۔
ریاست کے ساتھ، معاشرہ بھی تو ان مذہبی گروہوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا۔ کہنے کو یہ صوفی روایت کے علم برادر ہیں جس میں فرد کا دین و ایمان کبھی زیرِ بحث نہیں آتا۔ یہ روایت تو وحدتِ ادیان کو قبول کرتی ہے۔ حیرت ہے کہ جو گروہ اس روایت کی نمائندگی کرتا ہے، وہ لوگوں کے کفر واسلام کا فیصلہ کر رہا ہے اور وہ بھی محض گمان کی بنیاد پر۔
معاشرے میں اتنی جان نہیں کہ وہ ان حضرات سے کوئی سوال کر سکے۔ اسلام میں کلیسا نہیں ہے مگر مسلمانوں میں ہے۔ یورپ میں پادری تھے جو عوام کو نجات کا پروانہ عطا کرتے تھے۔ ہمارے معاشرے نے بھی مذہبی لوگوں کے اس حق کو تسلیم کر لیا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین پیروں کے حضور میں اپنے استعفے پیش کر رہے ہیں حالانکہ انہیں پیروں نے نہیں عوام نے منتخب کیا ہے۔
اب وہ دور آ گیا ہے جب ہر کسی کو اپنے ایمان کے ثبوت کے لیے ان گروہوں کے فتوے کی ضرورت ہو گی۔ اگر کسی کے پاس ان کا فتویٰ نہیں تو اس کی جان و مال کے تحفظ کی ضمانت نہیں۔
کسی وقت ایک فتوے سے ان کے سر سے امان کی چادر سرک سکتی ہے۔ ریاست تو اس ذمہ داری سے دستبردار ہو چکی۔ یورپ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے مذہب ہی سے اعلانِ برات کر دیا۔ مگر یہ مرحلہ آنے تک جو خون خرابہ ہوا، اس کی داستان دل ہلا دیتی ہے۔ افسوس کہ مشرق میں مغرب کی تاریخ دھرائی جا رہی ہے۔
سب سے زیادہ نقصان تو دین کو پہنچا۔ اس کا مقصد انسان کے اخلاقی وجود کی تطہیر اور اس کا تزکیہ تھا۔ آج دین کو اس کی اصل سے جدا کرکے، عصبیت اور تعلیماتِ پیغمبرﷺ سے ماورا جذبات کو نام دے دیا گیا ہے۔ علما اس عصبیت اور جذباتیت کو دین کے نام پر پیش کر رہے ہیں۔ دانش ور اسی کو بیان کر رہے ہیں۔
میرے پرودگار نے بتایا تھا کہ میں نے اپنے پیغمبر کو اس لیے بھیجا ہے کہ وہ قرآن و حکمت کی تعلیم دے اور لوگوں کا تزکیہ کرے۔ اس تزکیے کے لیے اللہ کے آخری رسولﷺ کو کامل نمونہ بنایا گیا۔ آپ کی ذاتِ والا صفات میں حسنِ فطرت نے آخری صورت میں ظہور کیا۔ ایسی پاکیزگی اور جمال کہ انسان کی آنکھیں تاب نہ لا سکیں۔ اللہ تعالیٰ سے محبت ایک مسلمان کی آخری منزل ہے۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ اس کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ اطاعتِ پیغمبر ہے۔ اس کے بعد خدا خود بندے سے محبت کرنے لگتا ہے۔
آج سب پیمانے بدل گئے۔ مذہب صرف عصبیت اور جذباتی نعرہ بازی کا نام رہ گیا ہے۔ اسی کو علما اور میڈیا کے دانشور بطور دین بیان کر رہے ہیں۔ اس کے بعد ناگزیر ہے کہ مذہبی قیادت ان لوگوں کو منتقل ہو جائے جن کا اخلاق سے کوئی تعلق نہ ہو اور جو جذبات کو بھڑکانے کے فن سے واقف ہوں۔
اب لازم ہے کہ مذہب، ریاست اور سماج کے باہمی تعلق کی تفہیمِ نو ہو۔ موجود تفہیم کے ساتھ ملک بچ سکتا ہے نہ معاشرہ۔