نئی صدی کے افسانے پر ایک تنقیدی نوٹ
(رفیع اللہ میاں)
جب ہم نئی صدی کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد اکیسویں صدی ہوتی ہے؛ ایک ایسی صدی جو اپنے آغاز ہی سے نئے رویوں‘نئے امکانات‘ نئے زاویہ نگاہ اور معاملات سے نبردآزما ہونے کے لیے نئے طرز عمل کی وضاحت کرتی ہے۔ ابھی پندرہ برس قبل عالمی سیاسی و سماجی کینوس پر دہشت گردی سے جڑے نئے انفرادی و اجتماعی انسانی رویوں نے جنم نہیں لیا تھا اور جنھیں پہلے سے موجود دہشت گردی جنم دینے لگی تھی اور پھر مقامی و بین الاقوامی کینوس دہشت گردی اور دہشت گردی کے شکار طبقات کے دو متخالف حصوں میں بٹ گیا۔ نہ صرف مذہبی شدت پسندی نے اس کینوس پر سرخ رنگ بکھیرا بلکہ غیر مذہبی کہلانے والی لبرل قوتوں نے بھی مل کر لاکھوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔
اب اگر ہم عالمی کینوس سے صرفِ نظر کرکے مقامی کینوس پر توجہ مرکوز کردیں تو نئی صدی کے نئے سماجی رویے ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ مذہبی اور غیر مذہبی کی تفریق اب لبرل فکر سے نفرت اور مذہب دشمنی کے رویوں میں منقلب ہوگئی ہے۔ اظہار اور ڈائیلاگ کے مواقع بے تحاشا بڑھ چکے ہیں جس کی وجہ سے مختلف زاویہ ہائے نگاہ سامنے آرہے ہیں اور ایک اجتماعی سوچ کی طرف جانے والا راستہ پیچیدگیوں کی دھند میں اوجھل ہوچکا ہے۔ عام مقامی انسان بہت سارے شہری مسائل میں بری طرح الجھا ہوا ہے اور دیہی انسان بدستور جاگیردارانہ سماج کے قبضے میں ہے۔ نیم سرمایہ دارانہ رویے بھی اسے مزید استحصال برداشت کرنے کے لیے تیار کرتے رہتے ہیں۔ عسکری و سیاسی مفادات کی سیاہ چادر نے اس پر ظلم کی سیاہی مسلط کر رکھی ہے۔
اظہار رائے کی آزادی جتنی بڑھی ہے‘ اتنی ہی جان لینے کی آزادی بھی بڑھ گئی ہے۔ اس احساس سے چھٹکارا کیسے پایا جائے کہ دہشت گردی کے ہر بڑے واقعے کے بعد عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے‘ اس کی آزادانہ نقل و حرکت میں مزید رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں‘ اس کے جان و مال کے تحفظ کا گراف مزید گرجاتا ہے‘ اور اس کی بے بسی اور سوا ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس دہشت گردوں سے بظاہر متحارب قوتیں نئی قانون سازی کے ذریعے مزید اختیارات سے لیس ہوجاتی ہیں اور ان کی تزویراتی گرفت اپنے ہی شہریوں پر اور سخت ہو جاتی ہے۔ منہگائی الگ سے پریشان کرتی ہے۔ غیر معیاری غذاؤں اور غیر معیاری دواؤں کی فراہمی سے جسمانی عوارض کو راہ ملتی رہتی ہے۔ عام آدمی ان حالات میں مستقل ذہنی دباؤ کا شکار رہتا ہے۔ عدم برداشت اس کا طرز عمل ہے‘ آمادہ بہ جنگ ہے‘ خودکشی کرتا ہے‘ قتل ہوتا رہتا ہے۔ ایک دنیا تارکین وطن کی ہے جو اس تمام پس منظر سے نفسیاتی طور پر متاثر ہوتی رہتی ہے۔
یہ پس منظر ادب کو وہ تمام مواد فراہم کرتا ہے جس کی اس کو ضرورت ہوا کرتی ہے۔ ادب کی صورت میں جب اس کی نریشن ہوتی ہے تو واقعات‘ واقعات نہیں رہتے بلکہ گہرے احساس میں ڈھل جاتے ہیں۔ ماجرے کو احساس میں تبدیل کیا جانا ہی ادبی جمالیات کا مظہر ہے اور احساس میں منقلب ہونا تجرید کا معاملہ نہیں۔ فن کی قدر ٹھوس کو تحلیل کرکے پھیلادینے میں مستور ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب واقعہ احساس میں بدل جائے جس سے جڑنے والوں کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے۔ تمام اچھے افسانے اس خوبی سے متصف ہیں اور ہم ان میں موجود کہانیوں سے نہیں بلکہ ان کہانیوں سے باہر آنے والے شدید احساس کے اسیر ہوتے ہیں۔ یہ کہانیاں ہمیں صرف اپنے واقعات کی خبر نہیں دیتیں بلکہ اپنے وقت کے غالب و مغلوب سماج‘ فکر اور ثقافتی مظاہر سے بھی روشناس کراتی ہیں۔
اردو ادب کے حوالے سے جب ہم اکیسویں صدی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ایک بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ فکشن نے اپنے تاریخی سفر میں ایک نئی کروٹ لی ہے۔ شاعری کی نسبت فکشن نگار خال خال تھے۔ نئی صدی میں داخل ہوتے ہوتے اس نے بہت سارے نئے افسانہ نویسوں کو اپنی طرف راغب کیا ہے اور فکشن لکھنے کا رجحان پھر سے بڑھا ہے لیکن بڑھتے ہوئے اس رجحان کے سامنے معیار کا سوال بھی کھڑا ہے۔ پروگریسو اردو رائٹرز گلڈ‘ جو حال ہی میں سوشل میڈیا کے توسط سے قائم ہوا ہے‘ نے پہلی بار اس بڑھتے ہوئے رجحان کو‘ دستاویزی شکل دینے کے لیے‘ افسانوں کے ایک مجموعے کی شکل میں مرتب کیا ہے۔ اس مجموعے میں جغرافیائی حدود سے ماورا‘ اردو دنیا کے متعدد نئے اور پرانے لکھنے والوں کے افسانے شامل کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کا عنوان ’’نئی صدی کے افسانے‘‘ خود اپنے اندر معیار کا سوال بھی اٹھاتا ہے کیوں کہ اس عنوان کے اندر ایک دعویٰ مستور ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ اکیسویں صدی کے اردو فکشن کے سامنے جو سوال کھڑا تھا‘ اس سوال کا جواب دینے کے لیے یہ عنوان منتخب کیا گیا ہے‘ تو یہ غیر متعلقہ بات نہیں ہوگی۔ اگلا سوال یہ ہے کہ کیا ٹائٹل پر موجود یہ دعویٰ اپنے اندرونی متن سے تقویت پا کر عملی طور پر ثابت بھی ہوا ہے یا نہیں؟
سب سے پہلے میں اس کتاب کی ابتدا میں شامل ہمارے عہد کے ایک زیرک نقاد فرخ ندیم کے طویل مضمون سے مندرجہ بالا قائم کیے گئے مقدمے کے حوالے سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ اس مضمون میں انگریزی کے لیکچرار فرخ ندیم نے فکشن کے معنوی ابعاد کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ثقافتی تناظر کی مرکزیت پر نہایت پُرمغز گفتگو کی ہے اور زبان کے حوالے سے یہ کہا ہے کہ لفظ اور معنیٰ کے رشتے میں لغوی معنیٰ ایک طرف لیکن ثقافتی معنیٰ کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اس کتاب میں موجود کہانیوں کے متون‘ ان کے تناظر‘ بیانوی اسلوب اور ہیئت و تکنیک میں تنوع سے نئی صدی کے مقامی اور بین الاقوامی مسائل اور تخلیقی رویوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔‘‘ (صفحہ 17 نئی صدی کی افسانوی ثقافت)
اسی طرح اس کتاب کو ترتیب دینے والے اردو کے ممتاز ناول نگار اور افسانہ نویس نعیم بیگ نے اس کا تعارف پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اس صدی کے اوائل سے عصری ارتقائی مراحل میں اردو ادب کو جو روایتی خطرات درپیش تھے‘ ان کا سدباب کرتے ہوئے ان ادیبوں نے عالمی تناظر میں عہد حاضر کے مناظر کو عمدگی سے پینٹ کرکے دکھادیا۔ اس لیے آج کے ادبی تقاضوں میں کلاسیکی شعور کے ساتھ جدید فکری رجحانات کی آمیزش کو میں ایک قرار واقعی ایسی کوشش کہوں گا جو اردو افسانے کو بے اعتدال اور بے رنگ نہیں ہونے دیتی۔‘‘ (صفحہ 7 نئی صدی اور اس کے تقاضے)
ان دونوں صاحبان نے تسلیم کیا ہے کہ اس کتاب میں شامل افسانے نئی صدی کے تقاضوں کے مطابق لکھے گئے افسانے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ نعیم بیگ ان افسانوں کے حوالے سے ادبی کلاسیکیت اور فرخ ندیم مابعد نو آبادیاتی نفسیاتی نقوش کی بات بھی کرتے ہیں‘ اس کے بعد جو بچتا ہے وہ جدید عصری حسی رویہ ہے جو کم ہی اس مجموعے کے افسانوں میں ملتا ہے۔ یہ افسانے اپنی اپنی جگہ دل چسپ ہیں‘ ایک عام قاری کے لیے ان میں وہ کشش موجود ہے جو ہمارے معاشرے کی عمومی نفسیات کو اپیل کرتی ہے۔ لیکن جب ہم فکر کی بات کرتے ہیں اور اس کے بل پر متون کو ’’نئی صدی کے افسانے‘‘ کی تخصیص سے جوڑتے ہیں تو ایک عام قاری کی دل چسپی ایک طرف رہ جاتی ہے اور فکری حوالوں سے بات شروع ہوجاتی ہے۔ اُسترا گل‘ قیمتی تابوت‘ بہرام کا گھر‘ پورٹریٹ‘ سمندر جہاز اور میں‘ کباڑیا‘ بین کرتی آوازیں‘ ایک رات کی خاطر‘ واپسی‘ پلیٹ فارم‘ رکھوالی‘ حرافہ‘ دسترخوان سالم روٹی اور کہانی‘ نائلون میں لپٹی لاش‘ چاند کو چھونے کی خواہش ۔ یہ وہ افسانے ہیں جو نہ صرف روایتی طرزِ اظہار میں لپٹے ہیں بلکہ روایت اور کلاسیک کی دھند میں اپنی عصری اہمیت اور جدید ثقافتی انسلاک سے بھی محروم ہیں۔ ان میں سے کسی میں صرف کلاسیکی شعور ملتا ہے‘ کسی میں جدید ثقافتی تناظر عنقا ہے اور کہانی بغیر ثقافتی و تاریخی پروسیس کے محض نتیجہ بیان کرتی ہے‘ کوئی تاریخ سے جڑے واقعات کو روایت کے تسلسل میں بعینہ پھر بیان کرتا ہے‘ تو کسی افسانے میں روایتی علامتی و تجریدی انداز ملتا ہے۔ ’برف کی عورت‘ کا موضوع چونکاتا ہے لیکن طرز اظہار اتنا مصنوعی ہے کہ اس کے بوجھ تلے کہانی دب کر مرگئی ہے۔ ’نکیل‘ کا تناظر روایتی مابعد نو آبادیاتی ہے تاہم یہ اپنی لغت اور طرز اظہار میں تازگی کا حامل افسانہ ہے۔ اپنے ثقافتی تناظر کو پیش کرتے ہوئے یہ ادھورے پن کا شکار نہیں ہوا ہے جس کے سبب یہ افسانہ کتاب کے ٹائٹل کو جواز فراہم کرتا ہے۔ ’ڈولی‘ اس مجموعے کا سب سے حیران کن افسانہ ہے جو تمام تر ثقافتی و تاریخی تناظر کو پوری قوت سے زندہ کرتا ہے۔ ’کتن والی‘ بھی بظاہر روایتی افسانہ ہے تاہم اس کے متعلق ان افسانوں پر گہری نگاہ رکھنے والے نقاد فرخ ندیم کا یہ کہنا بجا ہے: ’’سنجیدہ افسانہ نگار اپنی معاشرت کا شعور رکھتے ہوئے کہانی میں وہ پراسیس دکھاتا ہے جس سے انسانی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔ یہی عمل اس افسانے کا حسن ہے۔‘‘ (صفحہ 21 نئی صدی کی افسانوی ثقافت)
پارکنگ لاٹ‘ بازار‘ ڈیپارچر لاؤنج‘ شوٹ آؤٹ‘ پھانسی‘ افواہ ۔ اس مجموعے کے وہ افسانے ہیں جو اپنے موضوعات‘ برتاؤ اور ثقافتی انسلاکات کے وسیلے سے کتاب کے ٹائٹل کو بھرپور جواز فراہم کرتے ہیں۔ کسی حد تک افسانہ ’گٹر سوسائٹی‘ بھی ان میں شامل ہے۔ چھبیس افسانوں کا یہ مجموعہ اس حوالے سے اہم پیش رفت ہے کہ فکشن میں نئے لکھنے والوں کو ایک دستاویزی سہولت حاصل ہوگئی ہے۔ کہنہ مشق لکھاریوں کے ساتھ انھیں بھی برابر جگہ ملی ہے اور یہ امر اِن کی پہچان بننے میں بہت معاون محسوس ہوتا ہے۔ پروگریسو اردو رائٹرز گلڈ اور نعیم بیگ قابل پذیرائی ہیں جنھوں نے سوشل میڈیا کی سرگرمی کو کسی خوف اور جھجک کے بغیر پرنٹ میڈیا کے دستاویزی ثبوت میں تبدیل کیا۔ یہ کتاب اس سلسلے کا پہلا حصہ ہے‘ امید ہے کہ اس کے مزید حصے بھی مرتب کیے جائیں گے اور دیگر لوگ اور ادارے بھی آج لکھے جانے والے افسانوں کو دستاویزی صورت دینے کی طرف متوجہ ہوں گے۔
بہت عمدہ لکھا گیا تنقیدی جائزہ ۔۔۔ ۔۔ رفیع اللہ میاں اردو ادب چند ایک اہم نقادوں میں شمار ہوتے ہیں ۔۔ اردو ادب کی عصری تخلیقات پر انکی علمی و فکری تفہیمی جہات قاری کو نہ صرف مکمل آگہی بخشتی ہیں بلکہ متنی و ثقافتی جائزہ میں مصنف کے نقطہ نظر کو بھی سامنے لاتی ہیں ۔۔۔
زیر بحث کتاب ’’ نئی صدی کے افسانے ‘‘ پر انکا تفصیلی تنقیدی جائزہ اس امر کا غماز ہے کہ وہ کنٹمپوریری ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر انکے اس بے لاگ تبصرے پر انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔
اس افسانوی انتخاب پر اہل علم و ادب و نقد و نظر کے تبصرے نئے لکھنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہونگے۔
مجھے اکیسویں صدی میں اردو افسانہ کے متعلق تمام مضامین چاہیے کیسے ملے نگے براے مہربانی بتائیں