سچ بھی ہو اور ننگا بھی ہو تو سُنے گا کون؟ (دریا)
(ذوالفقار ذلفی)
عام انسانوں کو درپیش مسائل کا حل ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست اپنی ذمہ داری نبھانے کی بجائےمسائل کو پیدا کرنے اور عام لوگوں کو مزید کنٹرول کر کے اُن کو بطور “مشینی کل پُرزہ” استعمال کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔
کچھ دنوں سے میں سندھ دریا کے کنارے پر آوارگی کر رہا ہوں اور وہاں پر مجھے “سندھو دیوتا” سے ہمکلام ہونے کا موقع ملا تو دیوتا نے عقل و دانش سے بھر پور باتیں اور نصیحتیں کیں ۔ کچھ نصیحتیں اور باتیں میں آپ کے گوش گُزار کرتا ہوں۔
میں نے کہا سندھو دیوتا تو زندہ ولی ہے اور ہزاروں سالوں سے انسانوں کے بیچ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے کچھ ایسا بتا جو سچ بھی ہو اور ننگا بھی ہو۔
سندھو دُکھ سے بھرا ہوا تھا بغیر کسی توقف کے بول اُٹھا؛
ہزاروں سالوں سے خاک پے گھستے گھستے میرے پانی کی تاثیر نہیں بدلی، نہ ہی میری اس مٹی سی جُڑی محبت میں کوئی کمی آئی ہے، میں آج بھی ہمالیہ کے پہاڑوں سے سر پٹختا اور تنگ وادیوں میں چٹختا میدانوں میں کھیلتا بھاگتا جانب سمندر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہوں ۔ مگر ہزاروں سالوں کے اس سفر میں میرے مشاہدات بہت انوکھے اور تلخ ہی ہیں۔ میں آج کوئی روحانی گفتگو یا جذباتی باتیں نہیں کرونگا بلکہ سیاست اور نفسیات پر بات کرنا چاہوں گا کیونکہ میں سمجھتا ہوں غیر سیاسی اور غیر نفسیاتی عمل کوئی عمل ہوتا ہی نہیں۔ اس لئے آج میں کُھل کے بات کرونگا چاہے کوئی بُرا منائے یا اچھا اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن بات تو کرنی پڑیگی۔سندھو گویا کچھ یوں گویا ہوا؛
چوکیدار کو میں نے لوگوں کے ہجوم سے یہ کہتے ہوئے سُنا کہ ریاست غیر معینہ مدت تک سوئی رہے گی شور مچا کر اپنا گلا مت پھاڑیں۔
ایک ٹھیکیدار حوروں کا قصہ بیان فرما رہا تھا اور اُس قصے میں بہت سوں کے بھاری بھرکم ڈانواں ڈول جسموں کے موٹے موٹے انگ ٹوٹتے رہے۔ رات کے اندھیرے میں یہ پرہیزگار اور متقی میرے پانی کو جسم کی طہارت کیلئے استعمال کرتے رہے تا آنکہ قصہ ختم نہ ہوا۔ انسان میلے کپڑے دھونے کی بجائے اپنا میلا من دھونے پر توجہ کیوں نہیں دیتا۔
صحافیوں کا غول بھی کُچھ دن پہلے میرے کنارے پر کانچ کی بوتلیں لے کر آیا تھا۔ اپنی باتوں سے کانچ کی کرچیاں میری آنکھوں میں چبھوتے رہے ۔ اکثر و بیشتر اپنے اپنے مالکوں کی گردنوں پے نازاں تھے۔ اور جو باقی ماندہ تھے وہ بھی کندھوں کی تلاش میں بہت بے چین تھے۔ گلا پھاڑ پھاڑ کے بولتے ہوئے ایک صاحب بصیرت نے کہا جب تک ہیڈ کوارٹر سلامت ہے نہ ہی کوئی راٹھ پنڈی کو ہلا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی میرا بال بیکا کر سکتا ہے۔ کانچ کی بوتل پھینکتے ہوئے ایک بوڑھا جذباتی ہو گیا اور لُکنت بھری آواز میں کہہ رہا تھا ہم زندہ رہے وہ مارا گیا۔مگر مرنے سے پہلے کال کوٹھڑی میں سڑتا رہا سالا، اور اُس کے ٹُکڑوں پر پلنے والے انقلابی اپنے چوتھڑوں سمیت نئی چوکھٹ پے پدھار دئے گئے۔دیکھو ابھی تک کھمبیوں کی طرح اُگ رہے ہیں ۔اس رات بڑی بڑی باتیں سننے کو ملیں۔
ایک دفعہ کُچھ سائینسدان تشریف لائے اپنے ناموں کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ لگا کے خوش تھے۔ انہوں نے راز و نیاز سے بھر پور گفتگو فرمائی۔ ق قینچی والے صاحب فرما رہے تھے “مال” بیچتا کوئی اور ہے معافی ہم سے منگوائی جاتی ہے۔ ہیرو گری کے چکر میں زیرو گری کا طوق گلے میں لٹکانا کوئی آسان کام تھوڑا ہے۔ دیکھو تو سہی ایک وقت تھا میں پروگرام کا خالق بنا دیا گیا اور ایک وقت آیا میں “مورت واجے” پر بیٹھا معافی کا طلبگار تھا۔حد ہوتی ہے کوئی ایسے بھی کرتا ہے بھلا۔مُجھ سے قسم اُٹھوا لو میں اکیلا نہیں تھا اُنہوں نے مجھے خوب استعمال کیا ۔
ایک رات ایک ایسی جماعت والے بھی آئے ہوئے تھے جو ایمانداری کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور امریکہ مخالف نعرے بازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ وہ ہر مسئلے کو امریکہ بہادر کی سازش کہہ کر عوام کو گُمراہ کرتے ہیں۔ اُن کے قاضی کا قضیہ بھی سُن لو کہہ رہے تھے ڈالروں کا بوجھ اُٹھائے میری قمر جھک گئی ہے اب قویٰ بھی جواب دے گئے میرے بعد لوگوں کو کونسا لالی پاپ دو گے کافی فکر مند لگ رہے تھے، جان نشین کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے کیا کرو گے آنے والے وقت میں۔۔وہی جو ہمارا فلسفہ ہے نظر کا دھوکا، ستاروں کی چال اور شطرنج کی بساط پے نظر رکھو بادشاہ کے ہاتھیوں اور توپوں کو استعمال کرو جب وزیر کوئی بات کرے تو ایسی چال چلو کہ حق بات کرنے والا چاروں شانے چت۔۔شیروانی اور سفید شلوار قمیض میں ملبوث باریش بزرگ نے تھوڑی سی چین کی سانس لی اور مغرب کی طرف منہ کر کے دیر تک کسی گہری سوچ میں ڈوبے رہے۔ اس نے جاتے جاتے استنجا میرے پانی سے کیا۔
ایک دفعہ کچھ ایسے افراد بھی ادھر تشریف لائے تھے جو شکل سے فرشتے لگتے تھے، وہ بہت عجیب تھے سب کا ایک ہی نام تھا “نا معلوم” ۔ وہ تڑاخے اور پٹاخے بہت بجاتے تھے۔ وہ اپنی باتوں میں جوڑ توڑ کا ذکر بہت کرتے تھے پسلیاں توڑنا، گردن مروڑنا، پارٹیاں توڑنا اور جوڑنا اُن کی گفتگو میں کثرت سے استعمال ہوتا تھا۔ بڑے پیسے والے لوگ تھے اُن کی چال ڈھال سے لگتا تھا جیسے یہ یہاں کے اصلی مالک ہوں۔ ایک بھلے مانس نے تو میرا تذکرہ کیا اور کہا اس دریا کا کیا کرنا ہے۔ میرے مستقبل کے بارے میں طرح طرح کی باتیں ہوئیں جو میں نقص امن کی خاطر یہاں بیان نہیں کر سکتا مگر آخری تجویز یہی تھی کہ لوگوں میں عام کر دوکہ ہمارا ہمسایہ ہمارا پانی روک کر ہمیں بنجر کرنا چاہتا ہے اور سیلاب کے دنوں میں پانی چھوڑ کر ہمیں غرق سیلاب کرنا چاہتا ہے!!!
ایک دفعہ انقلابی قسم کے لوگ بھی آئے تھے میرے کنارے پر وہ باتیں بہت بڑی بڑی کرتے تھے مگر انقلاب کو بوتل میں بند کر کے خود پھیل جاتے تھے۔ ایک جذباتی ادھیڑ عمر کے شخص نے کہا ہمارے پاس کھونے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے سوائے موٹی موٹی زنجیروں کے سو آو ان زنجیروں کو دریا بُرد کر دیتے ہیں۔ میں حیرت سے تکتا رہا مگر کسی نے کوئی زنجیر میرے حوالے نہیں کی وہ اپنی اپنی زنجیروں سمیت واپس چلے گئے تھے۔
کچھ ایسے بھی لوگ آتے ہیں جو چوں چوں کا مربع ہوتے ہیں۔ وہ کھاتے ہیں موج مستی کرتے ہیں اور اپنی اپنی وحشت کو وحشت ناک انداز سے بیان کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ بہت ہی نا معقول قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کو دوسروں پر تنقید کرنا تو آتا ہے مگر خود سے کوئی ذمہ داری نبھانا نہیں چاہتے۔
میں چُپ کر کے یہ سب سُنتا رہا جب سندھو نے تھوڑی سی سانس لی تو میں نے کہا آپ کو سب سے زیادہ دُکھ کس بات کا ہے؟
سندھو نے ایک آہ بھری اور میری طرف دیکھا پھر بھرائی ہوئی آواز میں کہا میرے کیہل، مور، کُٹانے، موہانے میرے ہمدم میرے وارثوں کو لاوارث کر دیا گیا، اُن سے دو وقت کی روٹی چھین لی گئی، وہ بھیک مانگتے پھرتے ہیں اور اُن کو قبضہ گیر گالیاں دیتے ہیں اور اُن سے نفرت کرتے ہیں مجھے اس بات کا بہت دکھ ہے۔۔!!