نندیتا داس نے منٹو سے ملاقات کرا دی
تبصرۂِ فلم از، نَسترن فتِیحی
کتنی عجیب بات ہے کہ ستر سے اسّی سال گزر جانے کے بعد آج بھی ’سعادت حسن منٹو‘ متنازِع ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ہمارے معاشرے میں، ہماری نفسیات میں کیا تبدیلی آئی ہے؟
زمانے کی ترقّی کے با وجود اخلاقی گراوٹ کے اس پاتال سے نکلنا کیا اتنا ہی مشکل ہے۔ یا یہ دنیا ازل سے ابد تک سماجی بہبود کے خواہاں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی اپنی روش پر قائم رہے گی۔
ان برسوں میں کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، اتنا تو ضرور ہوا کہ منٹو کی ادبی حیثیت کسی ایک زبان، خطے اور ملک کی مرہون منت نہیں رہ گئی۔
وہ ادبی دنیا کا لیجنڈ تھا، ہے او رہے گا۔
وقت کے اس سفر نے منٹو کے نام اور کام کو دھول میں مٹنے نہیں دیا بَل کہ اس کا ایک ایک حرف ادب میں نگینے کی طرح جگمگا رہا ہے اور معاشرہ آج بھی سیاہ حاشیے کی زد میں ہے۔
منٹو کی ادبی حیثیت اپنا آپ منوا چکی ہے۔ کئی نسلیں اس کی تقلید میں کیا کچھ لکھتی رہیں مگر ’منٹو‘ نہ بن سکیں۔ حالاں کہ ہمارا معاشرہ تنزلی کے اور گہرے گڑھے میں جا چکا ہے۔
عورتوں اور طوائفوں کا درد اتنی گہرائی سے محسوس کرنے والے منٹو کے وہم و گمان میں نہ ہو گا کہ برس ہا برس بعد ترقی کی بلند و بالا عمارتوں میں بسنے والے انسانوں کی نا پاک حرص و ہوس، شریف گھرانے کے ننھی نا سمجھ پھولوں کو اپنی زَد میں لینے لگیں گی، پھر بھی کوئی ایشر سنگھ تخلیق نہ ہو سکے گا۔
اپنے اپنے آزاد ملک میں بیٹھ کر بھی ’کھول دو‘ سے زیادہ دل دہلانے والے واقعات رُو نُما ہوتے رہیں گے۔ اور ملک کی تقسیم کے درد میں مر جانے والے مخبوط الحواس ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ بھی آج کے ا ن ہوش مند انسانوں سے زیادہ حساس اور با شعور ثابت ہو گا، جو انسانی گوشت اور پوست کی دھجیاں اڑا کر سرخ رو گھومتے ہیں۔
اس تناظر میں یہ بات کتنی مُضحِکہ خیز ہے کہ آج بھی جب ’منٹو ‘ جیسے لیجنڈ پر فلم بنتی ہے تو اس پر پابندی لگائی جاتی ہے اور لوگوں کو احتجاج کرنا پڑتا ہے۔ جیسے 1940 میں انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ اس وقت ان کی ادبی قدر و قیمت پر شک و شبہات رکھنے والے بہت تھے مگر آج تو ایسا نہیں ہے۔ پھر وہ کون اور کیسے لوگ ہیں جو منٹو کے اٹھائے ہوئے سوالات سے آج بھی ڈرتے ہیں۔
مزید دیکھیے: ایک ایکٹر، ایک ایکٹریس اور منٹو کی آنکھ از، پرویز انجم
منٹو پر کوئی فلم بنا ہی نہیں سکتا از، زمرد مغل
فلم منٹو کی منٹویت کا لطف لیجیے از، حسین جاوید افروز
’منٹو آخر منٹو کیسے بنا؟ ‘یہ امر دل چسپی سے خالی نہیں کہ شخصیت اور کردار میں ایسا کون سا پہلو یا رنگ ہوتا ہے کہ وہ لا فانی بن جاتا ہے اور دوسروں سے منفرد اور مُمَیّز ہو جاتا ہے۔
اس سوال کا جواب منٹو سے منٹو بننے میں ہی پوشیدہ ہے۔ جسے نندیتا داس نے اپنی فلم میں بہت کام یابی سے پیش کر دیا ہے۔
ادب ہو یا فلم وہ وقت کا آئینہ ہوتا ہے اور اس میں اس عہد کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ جب کہ ادب ایک خاص حلقے تک محدود رہتا ہے اور فلم کا میڈیم ہر خاص و عام تک پہنچنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
فلم ایک ایسا میڈیا ہے جس میں کئی فنون کی آمیزش ہوتی ہے۔ اس لیے اس کے ذریعے کم وقت میں زیادہ مؤثر ڈھنگ سے پیش کش ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ جب کہ تحریر میں قاری اپنے تخیل کو بہ رُوئے کار لاتا ہے اور اپنی استعداد کے مطابق ادراک حاصل کرتا ہے۔ مگر اسکرین پر ایک پورے عہد کو اور ایک ایسی شخصیت کو اتارنا جس کے گونا گوں پہلو ہوں ۔۔۔ کوئی آسان کام نہیں تھا۔
مگر نندیتا داس نے یہ کیا اور بڑی خوبی سے کیا۔ اس پُر آشوب دور کو پس منظر میں اس حد تک ہی رکھا جس سے منٹو کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ نندیتا داس کا مقصد منٹو کو پیش کرنا تھا، اس کی نفسیات، اس کا عہد، اس کی مشکلات اور اس کا درد جس نے منٹو کو منٹو بنایا۔۔۔ وہ نندیتا داس نے کمال مہارت سے پیش کیا ہے۔
جب سے یہ فلم ریلیز ہوئی تھی، مَثبت اور منفی تبصرے سننے میں آ رہے تھے۔ ادب سے رشتہ رکھنے والا ہر ذہن اپنے اندر منٹو کا ایک خاکہ رکھ کر فلم کو دیکھنے بیٹھا ہو گا۔ اس لیے ایسے تبصرے غیر متوقع نہیں تھے۔
میں نے اس فلم سے زیادہ توقع نہیں باندھی۔ مگر نندیتا داس کے لیے پسندیدگی اور نواز الدین صدیقی کے فن پر اعتماد ضرور تھا۔ اور منٹو کی شخصیت سے لگاﺅ۔ اس لیے دیکھنا بھی چاہتی تھی۔ اسے دیکھنے کے درمیان میں جلد ہی بھول گئی کہ میں اپنے کمرے میں ٹی وی کے سامنے منٹو کو نہیں بَل کہ نواز الدین صدیقی کو دیکھ رہی ہوں۔
میں اپنے سامنے منٹو کو دیکھ رہی تھی، منٹو کے عہد کو دیکھ رہی تھی، اس کے جُنُوں، اس کی خود داری اور کم زوری کو دیکھ رہی تھی، میں اسے افسانہ لکھتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ کب دیکھتے دیکھتے اس کے کردار کو جینے لگی مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا۔
اس کی تکلیف، اس کی بے بسی، زمانے کا جارحانہ رویہ، شراب نوشی کی کم زوری، بیوی اور بیٹیوں سے محبت اور دوستوں اور اپنوں کے بدلتے روَیّے۔ وہ سب کچھ جس نے منٹو کو منٹو بنا دیا۔
منٹو کی زندگی میں نا کامی اس کی حد سے بڑھی ہوئی حساسیت تھی اور منٹو کی ادبی کامیابی بھی اس کی یہی حساسیت تھی۔ اس فلم میں نواز الدین کی ایکٹنگ میں منٹو کا کردار اور منٹو کی نفسیات اس کی حسّاسیت اور اس کا درد مجسم ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ فلم کی کہانی میں منٹو کی تخلیقات اور اس کے کردار اور اس کا عہد، ایک نکتے پر سمٹ آئے ہیں۔
اور آخر میں بچا ہے درد، صرف درد۔ منٹو کی اہلیہ صفیہ کا کردار نبھاتی راسیکا دگل نے بھی بہت کامیاب ادا کاری کی ہے۔ زندگی اور اس کی ضرورتیں اور محبت اور اس کے تقاضے ان کے کردار میں ایک کشمکش اور یاس کی شکل میں ڈھل کر پوری طرح صفیہ کے کردار میں ابھر آیا ہے۔
فلم کاسٹ، لباس اور منٹو کے گرد بُنے گئے کردار اس کی شخصیت کو نکھارتے ہیں اور کہیں بھی مصنوعیت کا پہلو نہیں ابھرتا اور یہ نندیتا داس کی ہدایت کاری کا کمال ہے۔
اب یہ بحثیں کوئی معنی نہیں رکھتیں کہ منٹو فحش نگار تھا یا نہیں؟ کیا اس کی تخلیق ادب سے خارج تھی؟ ۔مگر اس بحث نے منٹو کی زندگی پر کیا اثرات مرتب کیے؟، یہ معنی رکھتا ہے اور نندیتا داس نے منٹو فلم میں اس کی شخصیت کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے۔
منٹو کو اب کسی شہرت کی ضرورت نہیں۔ مگر منٹو کو صحیح انداز میں سمجھنا اس زمانے کی ضرورت ہے، اس کی تقلید کرنے والوں کو اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری آنے والی نسلوں کو اس کی ضرورت ہے۔ اور اس ضرورت کو نندیتا داس کی اس کاوش نے بہ حسن و خوبی پورا کیا ہے۔
اسے دیکھ کر ہم اس حقیقت کو سوچنے اور سمجھنے پر مجبور ہوتے ہیںکہ کیا یہ کہانیاں منٹو کے لیے لکھنا اتنا آسان تھا۔۔۔؟ منٹو نے جو لکھا وہ اس درد کو جی کر لکھا ،اس میں ڈوبنے کی یا اسے اوڑھنے کی اسے ضرورت نہیں تھی کیوں کہ وہ اس درد کو جی رہا تھا، محسوس کر رہا تھا۔ وہ اپنی زندگی کی ساری ضرورتوں اور ذمہ داریوں سے بھاگ کر خون تھوک کر لکھتا رہا۔
فلم منٹو کسی پرانی کہانی کی نئی قِرات نہیں ہے۔ بَل کہ اس فلم میں منٹو کی شخصیت کو، اس کی تخلیقات اور اس کے کرداروں کو ساتھ ہی اس کے عہد کی اتنی ہی تفصیل کو جس سے اسے سمجھنے میں ہمیں مدد ملے، ان سب کو بلینڈ کر کے ایک جیتے جاگتے منٹو سے ہماری ملاقات کروانے میں نندیتا داس بہت کام یاب رہی ہیں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.