آرٹ، سائنس، فلسفہ اور بیانیہ کی حدود

Naeem Baig

آرٹ، سائنس، فلسفہ اور بیانیہ کی حدود

از، نعیم بیگ

آرٹ اور سائنس زندگی اور کائنات کے حوالے سے جن سوالوں پر غور کرتی ہے یہی فلسفے اور ادب کے بھی بنیادی سوالات ہیں۔ تاہم اس وقت ہم ادب اور تخلیقی بیانیہ پر گفتگو کرتے ہیں۔

فلسفہ، سائنس اور ادب میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ اوّلُ الذکر دونوں حیات و کائنات کے کسی بھی اہم ترین سوال کا جواب فراہم کرنے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں جب کہ ادب (شاعری) میں میں عموماً  جواب مہیا کرنے کی بہ جائے اہم ترین سوالوں کو مناسب طریقے سے اٹھانا ہی اس کے بنیادی مقاصد ہیں۔

لیکن نثر میں سوال کے ساتھ ہی ممکنہ حد تک ان مسائل کے جوابات کی نشان دہی کرنا بھی اھم قرار دیا جاتا ہے۔

اسی ضمن میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ ادب کی بنیاد تخلیق اور تصورات پر ہوتی ہے  اور اسی پسِ منظر میں نثر میں بیانیہ کی اہمیت یہ ہے کہ ہم درست اور غلط کے درمیان فرق واضح کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ حالاں کہ درست اور غلط کی تشریح ہی متن کی ساختیت اور ہیئت کے بر عکس ہے۔ کائنات میں کچھ غلط نہیں۔ ہم صرف اپنی ذہنی اُپج کو بہ رُوئے کار لا کر اپنی فکر کو صحیح قرار دیتے ہیں۔

بنیادی طور پر بیانیہ پرانی اساطیر اور لوک کہانیوں پر مشتمل ہے۔ قیاس آرائی اور جِدت پسندی پر مبنی افکار کو بھی ہم بیانیہ کہتے ہیں۔ جسے ہم  ہر قسم کے معنیٰ کو بیانیہ کی چار دیواری میں تلاش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جب افکار تصورِ خیالات و کائنات پر مبنی سوالات یا جوابات کی تشریح کرتے ہوئے ایک صنف کو تخلیق کرتے ہیں تو اسے ہم تخلیقی بیانیہ کہتے ہیں۔ اس سے مراد دنیا کی تفہیم کا عالم گیر تصور یا نقطہِ نظر بھی ہو سکتا  ہے۔


مزید دیکھیے: ہمارے ہاتھ میں تو قلم ہیں از، نعیم بیگ


چُوں کہ زندگی مختلف دائروں اور شعبوں میں تقسیم ہے، ان دائروں اور شعبوں کے اندر رہ کر ہی ہم حقائق کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہر شعبہ اور دائرے کے اپنے قوانین کا اتباع لازم ہے، ورنہ شفاف اور صائب تفہیم کی ڈوری ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور جب ڈوری ہاتھ میں نہ رہے تو انسان خوف اور عقیدے کی دلدل میں جا پھنستا ہے۔

اسی لیے تخلیقی بیانیہ کو معروضی حالات میں یک سر یقین کی حد تک آزاد ہونا لازم قرار دیا جاتا ہے، بھلے وہ نئی دریافت کا سہرا کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس خود کو بیانیہ کی حدود سے ما ورا سمجھتی ہے۔

شاید یہی وجہ رہی ہو گی کہ معروف فلسفی و دانشور ژاں فرانسو لیوتار کے خیال میں مہا بیانیوں کا عہد احتتام کو پہنچ چکا ہے۔ اب یہ چھوٹے چھوٹے بیانیوں کی مقبولیت کا دور ہے۔ ہم چھوٹے چھوٹے بیانیوں  کے سہارے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور درست و غلط کی مباحث میں الجھے ہوئے ہیں۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔