اس کی آنکھوں اور سر سے خون نہیں بہہ رہا تھا
از، یاسر چٹھہ
خالی آنکھ کا دیکھنا بھی بھلا کوئی دیکھنا ہوتا ہے کیا۔ پڑھنے والے، لفظوں کے لکھنے کی رفتار سے بولتے ہیں؛ پر وہ سوچتے روشنی کی رفتار سے ہیں۔
(روشنی کی رفتار ماپنے کا اس کے پاس وقت تھا کیا؟ جانے یا انسان! البتہ، یہ اس نے ایک لمحے کی قید، یا ایک لمحے کی آزادی میں سوچا، اور جانے کیا جان کر سوچا)۔
نا پڑھنے والے اس حقیقت کے شناس نہیں ہو پاتے۔ بلا شبہ حقیقت، آنکھ میں بسا وہ تارہ ہی رہتی ہے، جس کا ادراک چنداں آساں نہیں۔ ہر کسی کے لیے نہیں۔ بَل کہ شاید ہے ہی نہیں۔
(دوسرے لمحے میں اس نے سوچا، جس کے بارے اسے واہمہ تھا کہ یہ والا شاید پہلے لمحے سے مربوط لمحہ ہی ہو گا۔ یہ کون بتا پائے گا۔ بتانے والا جانے خود کسی لمحے میں ہو۔)
عجب سا لگتا ہے، جب نا پڑھنے والے، نا سوچنے والے، اپنے آپ کو، تیزی سے سوچنے کے تضاد اور اس حالاتی ستم irony of situation میں ڈال رکھتے ہیں۔ اپنے اسی علم کے مجازی عکس اور پَرتَو میں اپنی لا علمی کو علم اور عملیت پسندی جانتے پھرتے ہیں۔ خاک اڑاتے ہیں، خاک اُڑواتے ہیں۔
دنیا کو سب سے زیادہ نقصان لا علم کو علم سمجھ بیٹھنے والوں کے بہ ظاہر عملیت پسندی کے رویوں اور فیصلوں نے پہنچایا ہے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ کسی اِلٰہ نے انہیں اپنی حُبِّ مخلوقات و ما فیھا کے اعتبار کی باوری میں غارت بھی نہیں کیا۔ الٰہ بھی کسی تضاد میں ہی ہیں۔ خود بھی کسی پیراڈاکس کی خالق و مخلوق ہی ہوتے ہیں۔
(اب اس کے سوچنے اور بات کرنے کے لمحے ایک دوسرے سے گُتھم گُتھا تھے۔ یا ہو چکے تھے۔ وہ سوچتے سوچتے مر رہا تھا۔ یا مرتے مرتے زندہ ہو رہا تھا۔ کسے معلوم موت کیا ہے، حیات کیا ہے۔ تو جاننے کے ناٹک میں رہنے والو، اس کا کسی کو پتا نا لگ سکا۔ سب دیکھنے والے، سب سوچنے والے اپنے اپنے لمحے سے بہ ظاہر آزاد ہونے کے تضاد میں تھے، لیکن کون جانے کہ وہ کسی قید میں تھے۔
پس کوئی نا جان پایا۔ راوی اور متکلم بھی کوئی فیصلہ نا کر پایا۔ راوی کی مقتدرہ پہلے ہی ٹھیسیں لگنے سے پاش پاش ہو چکی تھی۔ اور اس کی آنکھوں اور سر سے خون نہیں بہہ رہا تھا، بَل کہ کچھ آدھے ادھورے، یا چوتھائی مشاہدات تھے جو ایک بے نُور سے سیال مادہ و غیر مادہ کی بیچ کی کسی وجودی شکل میں بہہ رہے تھے)۔
نا ختم شدہ تتمہ