تجدید عزم و وفا

تجدید عزم نو
نسیم سید اور ان کی کتاب کے سَرِ ورق کا عکس

تجدید عزم و وفا

تعارف و تبصرۂِ کتاب از، قمر سبزواری

آپ کسی کتاب کسی کہانی کو ایک زبان سے دوسری میں ترجمہ کرتے ہیں تو مِن و عَن نہ سہی لیکن آپ اتنا حصہ ایک زبان سے دوسری میں منتقل کر ہی لیتے ہیں جو  بنیادی خیال اور کسی حد تک ادبی حَظ کو بھی اس دوسری زبان کے قاری تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ لیکن جب بات نظم کی ہو تو یہ کام اگر نا ممکن نہیں تو اتنا مشکل ضرور ہو جاتا ہے کہ اَس کے لیے لفظ ترجمہ مناسب نہیں لگتا۔ شاید ایسی کاوشوں کو تعبیر یا اَز سرِ نو تخلیق / تخلیقِِ نو کہنا چاہیے۔

یہ تو تھی ایک زبان کے شعر و ادب کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنے کی بات لیکن جب آپ کی جَست فقط اتنی نہ ہو، جب بات کسی فن پارے کی بجائے پورے ادبی اثاثے کو منتقل کرنے کی ہو اور آپ  یہاں پر بھی پڑاؤ ڈالنے کو تیار نہ ہوں بل کہ آپ کی منزل ایک پوری تہذیب کی حساسیت اُس کے لا شعوری اثاثے کو قلم بند کرنا ہو اور محکوم قوم کے مزاحمتی ادبی رجحان کو شناخت کر کے نکھارنا ہو تو اسے ترجمہ یا اظہارِ خیال نہیں بل کہ بازیافت کہنا مناسب لگتا ہے اور یہی  کام نسیم سید نے کیا۔

ایک عمدہ افسانہ نگار، منفرد لب و لہجے کی ایک شاعرہ اور حساس دل رکھنے والی ایک عورت نے جب ایک قوم کا درد سمیٹ کر اُسے دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہا تو جیسے ایک عالمی شہری کی حیثیت سے اُس پوری تہذیب کی نمائندگی کرتے ہوئے اُن کی سِسکیوں کو چیخوں میں بدل دیا۔

گو نسیم سید خود اپنی مذکورہ کتاب کے سَر ورق پر لکھتی ہیں کہ یہ کتاب “امریکہ اور کینیڈا کے حقیقی باشندوں کے گیتوں اور خواتین کی شاعری کے تراجم” پر مبنی ہے لیکن یہاں میں محترمہ نسیم سید سے اختلاف کروں گا۔ تراجم ایسے کہاں ہوتے ہیں، آٹھ آٹھ آنسو روتی آنکھوں کی نمی کا ترجمہ کب ہوتا ہے، ہزاروں لاکھوں سینوں سے آہوں اور سسکیوں کو سمیٹ کر دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والے انسانوں کے سینوں میں منتقل کردینے کو اگر ترجمہ کہتے ہیں تو سارا طبع زاد ادب بھی پھر احساسات و جذبات کی “ترجمانی” ہی تو ہے۔

میرا یہ دعوٰی کہ مذکورہ  کتاب فقط شاعری کا ترجمہ نہیں ہے جذبات یا مبالغہ آرائی پر مبنی نہیں ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ  کتاب کا موضوع جبر کی ایک پوری تاریخ، ایک رجحان کا ایک تہذیب کے علم و ادب پر اثرات کا جائزہ لینا بھی ہے لیکن یہ کتاب فقط ایک جائزہ بھی نہیں ہے کیوں کہ جائزوں میں جذبات کی ترسیل کی شدت نہیں ہوتی حماسوں کی مِن و عَن منتقلی ممکن نہیں ہوتی اسی لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس  موضوع پر قلم اٹھانے کا مظلب تین طرح کے چیلنجز سے نمٹنا ہے۔

  • اوّل یہ کہ آپ ایک پوری تہذیب کی حِسیّت اور غالب رجحان کے ساتھ ساتھ اُن کی تاریخ سے واقف ہوں
  • دوم یہ کہ آپ اس سماج کی باقیات پر اتنی گہری نگاہ رکھتے ہوں کہ آپ اُس کی تہذیبی نبض پر انگلی رکھ کر اُس میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلی یا نمو دار ہونے والے اثرات کو محسوس کر سکیں اور
  • سوم یہ کہ آپ اُس سماج کے ادب کو اُس کی اجتماعی حِسیّت اور مزاحمتی رنگ سمیت دوسری زبان میں منتقل کرنے جیسی ادبی جرات اور جمالیاتی ذوق کے حامل ہوں۔ تیسرا چیلنج اس لحاظ سے اور بھی مشکل ہوجاتا ہے جب منتقلی کا یہ سفر نظم کے پل صراط سے ہو کر گزرتا ہو۔

یہ کتاب محترم شاہ محمد مری کے نام معنون کی گئی ہے۔ (اتفاق سے ٹامس پین کی تصنیف اور شاہ محمد مری صاحب کا ترجمہ کردہ ایک رسالہ “کامن سینس” بھی ان دنوں زیرِ مُطالَعَہ ہے جسے پڑھ کر کتاب معنون کرنے کا یہ عمل مزید معنی خیز ہو جاتا ہے۔)”

کتاب کا مقدمہ (دیباچہ، مقدمہ اور تقریظ کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے) ڈاکٹر شہناز شورو صاحبہ کا لکھا ہے اور خوب لکھا ہوا ہے جس سے میں یہاں فقط چند اختتامی سطور نقل کرنا چاہوں گا۔ لکھتی ہیں:

میرا بس چلے تو میں وطنِ عزیز میں جھوٹ پر مشتمل، حملہ آوروں اور رہزنوں کے گُن گاتی نصابی کتب کی جگہ نسیم سید کی اس کتاب کو سوشل سائنسز کے نصاب میں شامل کروا کر اصحابِ طبل و علم سے دست بستہ عرض کروں۔ سرکار بہت ہو گیا جھوٹ، کئی نسلوں سے اپنے دشمنوں کو دلدار سمجھ کر اپنے ہاتھوں علم و دانش کی شمعیں گُل کرتی رہی ہیں۔ اس کتاب کو ہر سکول، کالج اور یونیورسٹی جانے والےبچوں کو پڑھائیں اورآگہی کے اک نئے دور کا آغاز کریں۔ مجھے یقین ہے کہ نسیم سید کی اس کتاب کو سچائی کے پرستار دیوانہ وار پڑھیں گے۔ اس کتاب  میں موجود شاعری پڑھ کر تیسری دنیا کے بے شمار شاعر ہمیشہ زندہ رہنے والی نظمیں لکھیں گے جو دھرتی کے اصل وارثوں کو انصاف دلوائیں گی۔ وقت قریب آیا چاہتا ہے کہ دنیا بھر کے مظلوم و محکوم عوام مرثیے نہیں، نوحے نہیں اب بغاوت کے گیت گائیں گے۔

آگے چل کر کتاب کے پیش لفظ کی صورت نسیم سید ہمیں اس کتاب کے سلسلے میں محرکات سے آگاہ کرتی ہیں اور پھر “پوسٹ کولونیل لٹریچر اور تھیوری” کے زیر عنوان ایک تفصیلی مضمون ہے جو ذہن کی کھیتی میں ہل چلانے کا کام کرتا ہے۔ نسیم بڑی مہارت اور جاں فِشانی سے قاری کے ذہن کو  تیار کرتی ہیں اُس کو شمالی امریکہ کے مقامی باشندوں کے ماضی بعید اور حالیہ تاریخ سے متعارف کرواتی ہیں یہ تعارف قاری کو یہ باور کرانے میں کامیاب نظر آتا ہے کہ یہ تاریخ بجائے خود ایک عظیم المیہ ہے اور اس کے با وجود اس حقیقت کا بین ثبوت بھی ہے کہ نو آبادیاتی جبر سیاسی نظام، معاشرتی ڈھانچے، خاندانی اکائی حتٰی کہ اقدار و نظریات کو بھی ملیا میٹ کر سکتا ہے لیکن سچا ادب ایک ایسی حقیقت ہے جو اس جبر کے تھپیڑوں میں بھی تہذیبی ورثے اور حِسیّت کو نکال لانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

لکھتی ہیں:

نوآبادیاتی لوٹ کھسوٹ کے بعد بھی جس قوم کے تخلیق کاروں کے تخلیقی سوتے خشک نہیں ہوئے انہوں نے اپنے کچلے اور پسے ہوئے لوگوں کا ہاتھ تھام کےخاک سے اٹھایا اور تسلط کاروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا نیا لہجہ، نیا ڈھنگ اور نیا وقار عطا کیا۔

بات یہاں پر مکمل ہوتی نظرآتی ہے لیکن اتنی کہ ہمارا ذہن اُن تاریخی حقائق کو جان جاتا ہے اور ہم منطقی انداز میں یہ سوچنے پر قائل ہو جاتے ہیں کہ  جمہوریت اور انسانی آزادی کے ناخدا بنے بیٹھے یورپ و امریکہ کا اپنا قومی مقام و مزاج انسانی حقوق اور مساوات کی یہ اچھی اچھی باتیں ہڈیوں کے ڈھیر پر بیٹھ کر کر رہا ہے جس کے پاس ہی وہاں کے مقامی باشندوں کے آنسوؤں اور لہو کے جوہر ہیں جن پر خوب صورت غلاف رکھ دیے گئے ہیں۔

لیکن ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ تاریخی حقائق اور منطقی استدلال کے با وجود ایک اجنبی زمین ایک مٹتی ہوئی تہذیب اور ایک غیر مانوس فکری نظام سے ہمارا جذباتی اتصال نہیں ہوتا اور یہی وہ مقام ہے جہاں نسیم سید ایک شاعرہ، ایک ادیبہ کے طور پر مسکراتی ہوئی اپنے قاری کو یہ کہتی سنائی دیتی ہیں کہ یہ تو فقط کھیت کی تیاری تھی یہ تو پیش لفظ تھا ذہن کی پگڈنڈیوں سے ہو کر مجھے اصل میں دل کی کھیتی میں اترنا تھا  جہاں میں اُن بھولے بسرے لوگوں اور اُن کی اُس لٹی ہوئی تہذیب کی فصل لگاؤں گی جو ہر عالمی شہری کو کاٹنی ہی ہے۔

جب ترجمے با لخصوص شاعری کے ترجمے کی بات آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ترجمہ ایک محبوبہ کی طرح ہے جو خوب صورت ہو تو با وفا ہونا مشکل اور با وفا ہو تو خوب صورت ہونا مشکل۔ نسیم شاید اس مشکل سے واقف تھیں اسی لیے انہوں نے کسی خوب صورت محبوب کو با وفا یا با وفا کو خوب صورت بنانے کی بے سود کوشش ہی نہیں کی بل کہ انہوں نے شمالی امریکہ کے مقامی باسیوں کی تہذیب و تمدن سے مٹی لی اور اُس کو اپنے احساس میں گوندھ کر اپنی مرضی کرنے کی ٹھانی، اب چوں کہ سب اُن کے بس میں تھا سو انہوں حسن و وفا کو یک جا کر کہ اپنی اچھوتی نظموں کی ایسی مورتیں بنا ڈالیں جن میں حسن و وفا دوںوں کو یک جا دیکھا جا سکتا ہے۔

اگر قاری ایک لفظ یا ایک ترکیب میں اس خوب صورت کتاب کو بیان کرنا چاہے تو یہ مقامی باشندوں کے عزم کی داستان اور اُن کی اپنی مٹی، اپنی تہذیب سے وفا کے عہد کی تجدید ہے۔ سو یہ “تجدید عزم و وفا ” ہے جس کو ہماری پیاری شاعرہ نے قرطاس پر منتقل کر دیا ہے۔

لفظوں، جملوں اور کلمات کے تراجم تو آپ نے پڑھے ہوں گے، آئیں دیکھتے ہیں آنسوؤں، سسکیوں، عزم و ہمت اور مٹی کی خوش بو، تہذیب کی نیرنگی کا ترجمہ کیسے کیا جاتا ہے۔

اسکول یا عقوبت خانہ

لیانا مارسل/ نسیم سید

ساٹھ سال کی دھندلی آنکھوں میں

وہ منظر

گیلی لکڑی کی طرح جلتے ہیں

اور ڈراؤنے خواب

مجھے سوتے سے جگا دیتے ہیں

“ماں زمین پر بیٹھی

ہچکیوں سے رو رہی ہے

پھر

وہ اچانک اٹھتی ہے

اور نوکیلے بوٹ والوں کے

پیروں سے لپٹ جاتی ہے

نوکیلے بوٹ والوں نے

اُس کے سر پر زور کی ٹھوکریں لگائیں

وہ مجھے اور میرے بھائی کو

گھسیٹے ہوئے لے جا رہے ہیں۔”

میری آنکھوں میں گیلی لکڑیاں

جل رہی ہیں

بہت دھواں بھر گیا ہے

میری بوڑھی آنکھوں میں۔

سچ بتائیے کیا نظم کی قرات کے دوران آپ کو یہ خیال رہا کہ آپ وطن عزیز میں ایک دو روز پہلے ہونے والے کسی سانحے پر لکھی نظم پڑھ رہے ہیں یا کوئی ترجمہ شدہ شاعری پڑھ رہے ہیں اور یہ نظم بلوچستان کے کسی گاؤں کے ہمارے اپنے کسی گھر میں بیٹھی ماں کی نہیں بل کہ شمالی امریکہ کی کسی بوڑھی عورت کے جذبات کی ترجمانی ہی کر رہی ہے۔


مزید دیکھیے: 1۔ پیرس پر (ثقافتی) حملہ یا پیرس کے  نو آبادیاتی حملوں کی کرچیاں

برطانیہ میں تاریخ کی نصابی کتب میں سابقہ سامراج کی دانشی بد دیانت

بنیادی تنقیدی تصورات : تھیئری (theory) کی ایک اہم کتاب کا اردو ترجمہ


ہم شعر و ادب کے جواز اور مباحث  میں ادب برائے ادب یا ادب برائے زندگی پر جھگڑتے ہیں، دیکھیے چند لفظوں میں یہ جھگڑا کیسے ختم ہو جاتا ہے اور شعر و ادب  کا جواز خود زندگی کے جواز میں سمو جاتا ہے:

میری زبان

شاعری کے لعاب سے

تر ہے

اگر یہ لعاب دہن نہ ہو تو

میری زبان

خشک ہو کر چٹخ جائے۔

یہ شاعری فقط مزاحمت کی شاعری ہی نہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ نو آبادیاتی تسلط اور جبر اپنی تمام تر بے رحمی کے با وجود ان محکوم باشندوں سے اُن کی محبت اُن کی زندگی اور اُن کا رُومان نہیں چھین سکا۔

میری ساتھی

میرے بکھرے دانے چُن کے

کتنے پیار سے

دانہ دانہ

پھر سے مجھے پِروتی ہے

میرے بدن کے دکھ سکھ سارے

اپنے اوپر ڈھوتی ہے

آنسو میرے ہوتے ہیں

لیکن میری ساتھی

میرے سارے آنسو روتی ہے۔

اب میں یہاں اس کتاب میں سے اپنی پسندیدہ نظم لکھنے کی اجازت چاہوں گا

مالک

کیا تجھے اس بات سے

کبھی اکتاہٹ نہیں ہوتی

کہ تیرے اور ہمارے درمیان

ہمیشہ…

بادلوں کی دھند

چھائی رہتی ہے۔

اردو دنیا جو ہر معاملے میں بین الاقوامی علم و ادب سے پیچھے ہے وہاں ابھی تک یہ بے سود بحث جاری ہے کہ غیر عروضی نظم کو شاعری مانا جائے یا نہیں۔ میری ادنیٰ رائے میں سیاسی مزاحمت کو کمک پہنچانے اورادبی رجحانات کے لیے جمالیاتی ترغیب کے علاوہ یہ کتاب جو اہم ترین کام انجام دے سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے بعد اردو دنیا میں غیر عروضی نظم کو شاعری نہ ماننے کا جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم ہو جانا چاہیے۔