(نعیم بیگ)
:برٹرینڈ رسل اپنی کتاب ’نیو ہوپس فار چینجنگ ورلڈ‘ میں لکھتے ہیں
’’ ہماری عظیم جمہوریتوں میں اب بھی یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی بے وقوف شخص کا مکار یا چالاک آدمی کے مقابلے میں ایماندار اور مستند ہونے کا زیادہ امکان ہے جبکہ ہمارے سیاستدان اس تعصبانہ رائے کو اہمیت دیتے ہوئے مزید بے وقوف نظر آنے کی کوشش میں فطری بیوقوفوں سے بھی کم درجہ پر فائز ہونے میں مہارت رکھتے ہیں۔‘‘
پس منظر
بظاہر اوپر دیا گیا مقولہ اپنے معانی اور تفہیم میں غیر متعلق سا ہے لیکن ہم جتنا اس پر غور کرتے ہیں اتنا ہی عصری ملکی مسائل سے انسلاکی اہمیت کا حامل نظر آتا ہے ۔ جس مشکل سیاسی دور میں پاکستان کو آزادی ملی اور بعد ازاں نامساعد حالات نے جو ستم ڈھائے اس پر بہت کچھ کہا، سنا اور لکھا جا چکا ہے۔ تاہم اب بھی یہ بات تمہیدً کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے ابتدائی جمہوری دور میں قائداعظم کے کھوٹے سکوں کی آپسی سیاسی بدنظمی و افراتفری نے سب سے اہم کام آئین نوکی تشکیل کو نو برس تک معطل کر کے ملک میں اصولِ عمرانیت کی بنیادی شقوں سے رو گردانی کر دی ۔ مرتے کھپتے جو آئین سنہ چھپن میں بنا وہ فوراً مارشل لا کی نذر ہوگیا اور ملک ایک بار پھر نئے سیاسی نظام کی تلاش میں بدنظمی کا شکار ہوا ، جسے بنیادی جمہوریت کی آسان سیڑھی لگا کر طاقت کی باگیں ہاتھ میں لی گئیں اور اس طرح سب سے اولین مسئلہ جو آئین بنانے سے متعلق تھا ، وہ اپنی جگہ رہا اور معاملہ بڑھ کر سماجی تشکیل و معاشی ابتری پر آگیا۔
اس بے ترتیبی نے ملک میں نئے سرمایہ داری جہان کو جنم دیا اور ملک میں پہلی بار بائیس خاندانوں کا ذکر سن کر معاشرتی سطح پر طبقاتی صورتِ حال پیدا ہو گئی۔آزاد اور مستند سوچ رکھنے والے دانشور اور سیاسی زعماٗ ایبڈو کا شکار ہوئے۔ کچھ جلا وطن ہوئے کچھ سزا یافتہ۔ حالات نے ایک اور نئی کروٹ بدلی اور اگرتلہ سازش کیس کے بطن سے مشرقی پاکستان ’ بنگلہ دیش ‘ بن گیا۔ یوں ایک بار پھر نئے پاکستان کا وہی پرانا مسئلہ، آئینِ پاکستان اپنی جگہ کھڑا پایا گیا۔ لیکن اس کے ساتھ کئی ایک نئے مسائل مزید نتھی ہو چکے تھے جس میں سرِ فہرست جنگی قیدیوں کی واپسی ، مغربی پاکستان کے مقبوضہ علاقے کی واپسی، معاشی و سماجی و جمہوری نظامات ہائے کی تشکیل نو، اور فوری نوعیت کے سیاسی مینیفسٹو پر مبنی اقدامات کا جاری کرناجس کی بنیاد پر حکومت کو ووٹ ملے تھے۔ ان میں ترجیحاً معاشرے میں اسلامی سوشلزم کی بنیادیں فراہم کرنا، روٹی کپڑامکان اور یکساں تعلیمی نظام کی فراہمی اور صنعتوں کا قومیائے جانا سر فہرست تھا۔ملک نے پانچ برس اس تگ و دو میں گذار ے جب جاری شدہ اصلاحات کے نتائج سامنے آنے کا وقت آنے لگا تو اچانک ملک کو ایک نئے مارشل لاٗ کا سامنا کرنا پڑا۔
اسباب
اس بار تاریک دور گیارہ سال پر محیط تھا۔ پچھلے کئے گئے سب اقدامات پر مٹی ڈال دی گئی ہے۔ معطل شدہ آئین میں من پسند مذہبی تبدیلیوں کے بعد سماجی و معاشرتی برائیوں کو ملکی قانون اور سماجی روایات کی بنیاد پر حل کرنے کی بجائے اِن پر قالین بچھا کر نماز کھڑی کر دی گئی ۔ یوں ملک میں جہاد کا جذبہ پیدا کرنے میں جس سرعت سے کام لیا گیا، وہیں سرکاری سرپرستی میں سماجی عوامل سے چشم پوشی برتی گئی جس سے ہیروئین ، اسلحہ اور جہادی تنظمیں ملک کے سماجی وجود میں سما گئیں ۔ یوں گیارہ برس تک آئین کی کتاب کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر فاشست قوتوں نے ملک میں ریاستی سائے میں بد امنی، چور بازاری، رشوت ستانی منافقت اور سب سے بڑھ کر لسانی و فقہی تفرقہ بندیوں کا آغاز کر دیا۔ مقتدرہ قوتوں کے جبر کا اندازہ لگائیں کہ انہوں نے براہِ راست مستند قومی سیاست دانوں اور قیادت کو غیر ملکی سرزمین پر کتوں سے تشبیہہ دی اور یہ کہا گیا کہ ’’میرے ہڈی پھینکنے پر یہ سب دم ہلاتے میرے پیچھے آ جائیں گے۔ ‘‘
اس خون آشام رات کی سحر کی سپیدی اگست ۱۹۸۸.ء میں نمودار ہوئی۔ اس طرح ملکی آزادی کا جو سفر اگست ۱۹۴۷.ء سے شروع ہوا تھا اکتالیس برس بعد اپنی منزل سے کہیں دور بِلا کسی انجام کے ایک اندھرے غار کے منہ پر آکر رک گیا۔ یہاں سے آبلہ پا قوم کو ایک نئے سفر کی ترغیب دینا سرفہرست تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور مسلسل اقتدار کی جنگ نے عوامی سطح پر قومی جان و مال کی سلامتی ، معاشی بہتری، روزگار کے مواقع چھین لئے۔ یوں سماجی برائیوں کو نہ صرف پنپنے کی اجازت دے دی بلکہ دیگر اداروں ،جس میں احتسابی نظام، عدلیہ کا نچلی سطح پر انصاف کا فقدان، پولیس کی نااہلی اور کرپشن وغیرہ شامل تھے، نے مکمل طور پر کروڑوں عوام سے انکا اعتماد چھین کر انہیں بے توقیری ، بے منزل اور سماجی و اخلاقی دیوالیہ پن کی طرف دھکیل دیا۔ اسی اثناء میں دہشت گردوں کی صورت ایک بڑے منحرف مذہبی طبقے نے ملکی امن و شانتی کو تباہ و برباد کر دیا۔ اس جہانِ بربادی میں ماضی کے ناپسندیدہ فیصلوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی مفادات کی جنگ بھی شاملِ حال رہی۔
اس بیمار قوم کی ایک پوری نئی نسل ،جواگست ۱۹۸۸.ء سے طویل دشت نوردی اور صحراؤں کی تپتی ریت پر مسلسل چلنے سے کئی معاشی، نفسیاتی اور سماجی مسائل کا شکار ہوچکی تھی، کے لئے اب بھی نہ تو کسی عمرانی معاہدے کی بنیاد رکھی گئی اور نہ ہی معاشرتی طور پر کسی ایسے پروگرام کا آغاز کیا گیا جس سے سٹیٹ نیشن کے نظریہ کے تحت قرار پائی جانے والی قوم اپنے مسائل کا ادراک کر پاتی اور بعد ازاں ان مسائل سے نبٹنے کے لئے ان وسائل کو بروئے کار لاتی جو کسی نہ کسی صورت میسر تھے۔
اقدامات
اِسی وجہ سے بادی النظر میں دو مسائل اپنی جگہ مسلم رہے ، جو بدقسمتی سے آج بھی موجود ہیں ۔ پہلا سٹیٹ نیشن کا عمرانی معاہدہ اور دوسرا مستند اور ایماندار قیادت کا بحران۔ راقم سٹیٹ نیشن کے نظریہ کے تحت عمرانی معاہدے کی بات اس لئے کرتا ہے کہ جن پانچ اکائیوں نے مملکت کی بنیاد رکھی تھی اُن میں سے ایک اکائی پہلے ہی الگ ہو چکی تب بچنے والے جن چار صوبوں نے آئینِ پاکستان پر دستخط کئے، بعد ازاں اس میں سے دو اکائیوں ( سندھ اور بلوچستان ) نے کھلم کھُلا انحراف کیا ، بلوچستان کی حد تک کمزور علیحدگی کی تحریک (بھلے غیر ملکی امداد سے) تادمِ تحریر جاری ہے۔ سندھ میں ایک نئی اکائی نے بھی سر اٹھایا جسے ہم مہاجر کے نام سے پکارتے ہیں۔ نوے کی دھائی سے لیکر اب تک سیاسی ابتری کو جیسے تیسے ہم نااہل اور کرپٹ جمہوری حکومتوں اور مارشل لاٗ کے زیر سایہ گزارتے رہے ہیں لیکن اب پانی سروں سے اوپر آ چکا ہے۔
جو اقدامات ابتدا ئی ایام کی ضرورت تھے وہ اب بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ زمانہ تیزی سے اپنے ارتقا میں قومی ضروریات کو کہیں آگے لے جا چکا ہے لہذا اب معمولی مسائل کی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے۔
سیاسی عقدہ کشائی
فی الوقت جن مسائل کی طرف توجہ دینے کی فوری ضرورت ہے اس میں سرِ فہرست فوری طور پر ایک مخلص ، ایماندار ( یہاں ایماندار سے مراد شفاف ماضی)، مستند اور ویژنری سیاسی قیادت کی ملکی سطح پر فراہمی ہے۔ جو قوم کو فوری طور پر ایک ریفرنڈم کے ذریعے قائل کر ے کہ جن حالات میں قومی قیادت یہ اقدامات اٹھا رہی ہے وہ ملکی بحران سے نکلنے کے لئے ہیں۔ قومی مفاد میں غیر مقبول فیصلے بھی اگر کرنے پڑیں تو اس سے اجتناب نہ برتا جائے۔ اس میں اجتماعی قیادت مکمل طور پر ایمرجنٹ قانون سازی مکمل کرے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کی سپرٹ کو بحال کیا جائے اور آئین کی متنازع شقوں (زیرِ بحث) کو تادم نئے اجلاس قانون ساز اسمبلی معطل کر دیا جائے۔ فوج کے تینوں اداروں کو بالائی سطح پر یک جا کرکے قومی ایکشن پلان کے کئی ایک پرت مقرر کر دئے جائیں اور انہیں مکمل طور پر آئینی تحفظ دیا جائے تاکہ مارشل لاٗ کا راستہ مستقبل میں عملاً ناکارہ ہو جائے۔ اس ضمن میں آرمی ایکٹ میں بھی جو تبدیلیاں حال میں ملٹری کورٹس و دیگر اختیارات کے ضمن میں کی گئی ہیں انہیں مستقل طور پر آرمی ایکٹ کا حصہ بنا دیا جائے تاہم اس کی ایکٹیویشن قانون ساز اسمبلی کے حوالے کر دی جائے۔
مربوط اورخود ا کتسابی آئینی ترمیم سے نظریاتی سرحدوں کی شرح تفہیم میں جغرافیائی سرحدوں کا تعین نیشنل اسمبلی خود طے کر ے تاکہ مغربی سرحدوں کا تعین یکبارگی پاپولر ووٹ سے مکمل ہو جائے ۔ یوں ڈیورینڈ لائن کے مسلے کو اسمبلی کے ذریعے حتمی قرار دلوا کر ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے ا ور منسلک قبائیلی علاقوں اور شمالی علاقوں کو صوبوں کا درجہ دیکر پاکستان میں ضم کر دیا جائے ، تاکہ معاشی اور سیاسی سرگرمیوں کو تازہ دم کیا جا سکے اور فاٹا و دیگر شمالی علاقہ جات کے اضلاع کو مین سٹریم میں لایا جا سکے ۔ تاہم کشمیر کی لائن آف کنٹرول اور کشمیر پر اپنے سخت موقف کو جاری رکھا جائے۔
گڈگورننس
دوسری ترجیح میں الیکشن کے قوانین اور قانون ساز اسمبلی میں الیکشن کے پروسس سے اخراجات کا قطعی منہا ہونا لازم ہو، تاکہ متوسط طبقے سے میسر نمائندے اوپر آ سکیں۔ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے الیکشن سے پہلے امریکی طرز پر مناظرے کا میڈیا پر اہتمام ہو ۔ ہر سیاسی پارٹی کی شیڈو کیبنٹ اپنے منشور کو طشت از بام کرے۔ عمل درآمد کرنے کی میکرو لیول پرتشریح کرے۔ الیکشن کے فوراً بعد لیکن حلف سے پہلے ممبران اپنے انتخابی مالی اکاؤنٹ اور ذاتی گوشواروں تک عوامی رسائی کو ممکن بنائے تاکہ انتخابی عزرداریاں کم سے کم ہوں اور اعتراضات کے پلندوں کو اخبارات کی کہانیاں بننے سے روکا جائے۔
عدل و انصاف
تیسری ترجیح میں انصاف قدرتی اور فطری تقاضے پورے کئے جائیں۔ عدلیہ بشمول عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ مکمل آزاد ہو۔ احتسابی ادارے مکمل آزاد و خود مختار ہوں اور انکی سرگرمیوں تک عوامی پہنچ ممکن ہو۔ انصاف کے اداروں پر بجائے بڑی سطح کے ججز ، نچلی سطح پر ججز کی تعداد کو عوامی ضلعی کمیٹی کی مشاورت سے طے کیا جائے۔ یہ ججز صرف ہائی کورٹ کو جواب دہ ہوں جہاں فوری انصاف ( فوری انصاف سے مراد چار ہفتے) مہیا کرنا لازم ہو۔ سزا و ر جزا کا نظام قانونی موشگافیوں سے ہٹ کر فوری انصاف کی فراہمی طے کرے۔
عوامی و سماجی سلجھاؤ
چوتھی ترجیح میں صوبائی حکومتوں کو کریش پروگرام کے تحت وسیع پیمانے پر محکمہ صحت ، تعلیم ، بہبودِ آبادی کے مسائل سے نبٹنے کے لئے میسر وسائل کو پوری طرح استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ملی سطح پر نوجوانوں کی سرگرمیوں پر مبنی پروگرام طے کئے جائیں۔ میڈیا کو پاپند کیا جائے کہ اپنے چینلز پر دن کے دو گھنٹے آرٹ و کلچر پر صرف کریں گے۔ نجی اسکولوں میں کھیلوں کی وسیع پیمانے پر سرگرمیاں جاری کی جائیں۔ لوکل گورنمنٹ میں مقامی نمائندوں کو سرگرم کیا جائے اور ٹارگٹس دیئے جائیں۔ مانیٹرنگ کمیٹیوں کا احیاٗ کیا جائے۔ نجی اسکولوں کی قرار واقعی حوصلہ افزائی کی جائے تاہم اسکولوں کے فیس سٹریکچر پر قانون سازی کی جائے۔
راقم کی ان معروضات پر مزید کام ہو سکتا ہے، عرض مدعایہ ہے کہ ملک کا اولین اور سرفہرست مسلّہ مستند اور ایماندار قیادت کا ہے۔