نظریہ قومیت کو خیر باد کہنے کا وقت
ڈاکٹر عرفان شہزاد
قومیت کا جدید تصور، قبائلی عصبیت کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ قبائلی عصبیت کا تقاضا ہوتا ہے کہ قبیلے کا سردار قبیلے کی نسل ہی سے ہو۔ سردار کے چناؤ میں قابلیت سے زیادہ ہم نسل ہونا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ قبائلی معاشرت کو اجنبی یا صرف غیر متمدن علاقوں کا کلچر سمجھنا درست نہیں، ہمارا اپنا سماج قبائلی نفسیات کی خصوصیات کا حامل ہے، جو جمہوریت کا سبق پاؤں پاؤں سیکھ رہا ہے۔ ہمارا برادری ازم، دراصل قبائلیت ہی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں قبائلی نفسیات کا مکمل مظہر ہیں۔
ان سیاسی جماعتوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی، جس کے قائدین نے بزعم خود ‘جمہوریت’ کے لیے جانیں تک قربان کیں ہیں’، انہوں نے بھی اپنی جماعت کی سربراہی کے لیے ایک نوخیز، ناتجربہ کار نوجوان کو اس لیے چن لیا کہ وہ ان کے قائدین کا نسلی جانشین ہے اور جماعت میں موجود قابلیت اور برسوں کا تجربہ اپنے سفید بالوں کے ساتھ اس کے لیے محض نعرے مارتے رہ گئے۔ ایک دو مستثنیات کے سوا دیگر جماعتوں کا حال بھی یہی ہے۔
قدیم قبائلی عہد کے بعد قبائل کی آبادی جب بڑھ گئی اور قبائل کی مرکزیت کمزور پڑ گئی، اور بقا کا خطرہ قبائلی دائرہ سے نکل کر جب علاقائی سطح تک پھیل گیا، تو لوگوں نے حالات کے دباؤ کے تحت، شعور کا ایک قدم بڑھا کر، یکساں جغرافیہ، تاریخ اور ثقافت وغیرہ کی زیادہ مشترکات کی بنیاد پر ایک بڑی وحدت، بنام قومیت تشکیل دی، تاکہ دیگر قوموں سے بقا کی جنگ لڑی جا سکے۔
قومیت کا یہ تصور متمدن اقوام میں ہمیشہ سے موجود رہا، لیکن انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں یورپ میں قومیت کے تصور نے ایک نیا رخ اپنا لیا۔ یہ تصور قومیت کی خاص سیاسی نوعیت تھی، جس کے مطابق کسی قوم پر حقِ حکمرانی اس کے ہم قوم کے علاوہ کسی کو نہیں تھا۔ یہی وہ تصور ہے جسے ہم قبائلی عصبیت کی ترقی یافتہ شکل کہتے ہیں۔ یعنی ہر حال میں، ہر قیمت پر اپنے ہم قوم افراد کی حکمرانی قائم کرنا اور اس کے لیے غیر قومی حکومتوں سے آزادی حاصل کرنا۔ یہ قومیت کا لازمہ قرار پایا۔
بیسویں صدی سے پہلے تک بادشاہتوں کا دور تھا۔ طاقت ور شاہی خاندان، خاندانی عصبیت کے زور پر غیر قوموں پر بھی حکمران ہو جایا کرتے تھے، لیکن عوام کو کچھ زیادہ پروا نہ ہوتی تھی۔ انہیں بس یہ فکر ہوتی تھی کہ حکمران خواہ جو بھی ہو، بس ذرا انصاف سے کام لے، رحم دلی کا مظاہرہ کرے۔ ظالم حکمران اگر ہم قوم بھی ہوتا تو لوگ کسی دوسرے غیر قوم کے طالع آزما کو اپنے ظالم ہم قوم حکمران پر ترجیح دے دیتے تھے۔ ہم قوم حکمران کو غیر قوم کے حکمران اگر شکست دے کر اس کے علاقے پر قبضہ کر لیتے پر انہیں کوئی زیادہ تاسف نہ ہوتا تھا، وہ غیر قوم کے نئے حکمران کے زیرِ حکومت رہنے لگتے تھے۔
لڑتے صرف فوجی تھے۔ عوام کو اپنے حالات سے غرض ہوا کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران کا مذھب اور قومیت، سیاسی طور پر زیرِ بحث نہ آتا۔ یہ صورتِ حال، برصغیر میں برطانوی حکومت کے قیام تک برقرار رہی۔ یہاں کے مقامی لوگوں نے دیگر غیر قومی حکمرانوں کی طرح انگریز کی بھی نوکری کی اور خوب کی۔ مسلم لیگ کے قیام کے مقاصد میں انگریز حکومت کے ساتھ وفاداری کی شق قیام پاکستان کے بعد تک موجود رہی۔
عوام کا یہ غیر جانب دارانہ رویہ بیسویں صدی کے اوائل تک قائم رہا، یہاں تک کہ انگریز کے توسط سے قومیت کا جدید تصور آن وارد ہوا، جس کے مطابق حقِ حکمرانی صرف ہم قوم کو تھا۔ اب تک عوام سیاست اور حکومت کا حصہ نہ تھے۔ جمہوریت نے بادشاہ گری کی طاقت عوام کے ہاتھ میں تھما دی۔ اب طالع آزماؤں کو اپنی خاندانی عصبیت کی بجائے عوام سے طاقت حاصل کرنی تھی، تاکہ حکومت کی کرسی پر براجمان ہو سکے۔ چنانچہ پہلے جن سیاسی مفادات کے لیے خاندانی عصبیت بروئے کار لائی جاتی تھی، اس کے لیے عوام کو استعمال کیا جانا لگا۔ اس کے لیے عوام کو پہلے قومیت اور پھر مذھب کی بنیاد پر قومیت کے خانوں میں تقسیم کرنے کا عمل شروع ہوا۔ اور یوں قومیت در قومیت کی سیاست نے دنیا کو تقسیم در تقسیم کی راہ پر لگا دیا۔
یورپی ممالک نے صدیوں قومیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کا خون بہایا تھا، پہلی اور دوسری جنگ ہائے عظیم میں کروڑوں لوگوں مارے گئے تھے، کروڑوں زخمی اور معذور ہوئے، یہ سب اسی جدید تصور قومیت کا نتیجہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی فاتح اقوام نے شکست خوردہ یورپی اقوام پر قبضہ نہیں کیا تھا۔
قومیت کا یہ تصور کہ غیر ملکی حکومت سے ہر حال میں اور ہر قیمت پر آزادی حاصل کر کے ہم قوم افراد کو حکمران بنانا ہے، یورپ سے یورپ کی نوآبادیات میں پھیلا اور یوں آزادی کے نام پر قومی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ مشرق وسطی سے لے کر وسط ایشیا تک کی اقوام نے نو آبادیاتی طاقتوں سے خونی جنگیں اور خونی احتجاج کے ذریعے حقِ خود مختاری حاصل کیا اور یوں قومی ریاستیں دنیا کے تقشے پر ابھریں، جن کی سرحدوں کی لکیر انسانی خون سے کھینچی گئی تھیں۔
متحدہ ہندوستان نے بھی اسی تصورِ قومیت کی بنیاد پر حق خود مختاری کی تحریک اٹھائی، جسے پھر آزادی کی تحریک کا نام دے دیا گیا، گویا کہ ہندوستان میں پہلے غلامی کا دور چل رہا تھا!
کچھ عرصہ گزرا تو اس آزادی کی تحریک میں ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے مذھب کو شامل کر کے قومیت کی ایک نئی اکائی وجود میں لائی۔ اب جب نئی قومیت وجود میں آئی تو پھر وہی اصول آ موجود ہوا کہ قوم پر حقِ حکمرانی ہم قوم کو ہی حاصل ہے۔ اب غیر مذھب والوں سے علیحدگی کی تحریک اٹھا دی گئی۔ جو بالآخر تقسیم ہند اور وجود پاکستان پر منتج ہوئی۔
دنیا میں جدید قومیت کا صُور چونکہ پھونکا جا چکا تھا اور ادھر برصغیر ہمیشہ سے کثیر النسلی گروہوں کی رہائش گا ہ رہا ہے، چنانچہ اب دیگر بہت سے گروہوں نے بھی اپنے اپنے امتیازات تلاش کرنے شروع کر دیے اور خود پر قومیت کی اسی تعریف اور تصور کا اطلاق کر دیا جو چلا آ رہا تھا۔ انہوں نے بھی مطالبہ کر دیا کہ وہ بھی الگ ‘قوم’ ہیں، ان پر بھی حقِ حکمرانی ان کے ہم قوم کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں۔
ان ذیلی قومیتوں کے ابھرنے کی بنیادی وجہ درحقیقت استحصال کا احساس اور قومی رہنماؤں کی بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کی ہوس تھی۔ ان قومی حکمرانوں نے بجائے استحصال کے اصل مسئلے کو حل کرنے کے قومی حکومت کے قیام کو ہر مسئلے کا حل قرار دے دیا۔ درحقیقت انہوں نے اس مسئلے کو اپنے اقتدار کے حصول کی سیڑھی سمجھ کر برتا۔ لیکن ان کا مقصد استحصال کا خاتمہ نہیں بلکہ اقتدار کا حصول تھا۔ پھر جہاں جہاں ایسی قومی حکومتیں وجود پذیر ہوئیں، وہاں غریب اور کمزور عوام کے استحصال کا مسئلہ پھر بھی حل ہو کر نہ دیا۔ غریب کی حالت جیسے پہلے تھی، ویسی ہی رہی۔ یہ گمان کے ہم قوم زیادہ خیال کرنے والے ہوں گے، غلط ثابت ہوا۔ الٹا ہم قوم حکمرانوں کے ظلم کے خلاف عوام مسلح اور غیر مسلح احتجاج کرنے اٹھتے رہے۔
اب وہی قبائلی عصبیت، چھوٹی چھوٹی قومیتوں کے نام پر ایک مدت سے کارفرما ہے، جو کبھی تامل ناڈو میں بھارت سے علیحدگی کی تحریک اٹھاتی ہے تو کبھی کشمیر اور بلوچستان اورر دیگر صوبوں میں علیحدگی پسند اپنے خیالات کا بیج بوتے رہتے ہیں۔ ان تحاریک نے ہزاروں بلکہ لاکھوں جانیں گنوا دیں ہیں۔
قومی ریاستوں کے قیام کے بڑھتے مطالبات ان گنت مسائل پیدا کر دییے ہیں۔ ایک طرف تقسیم در تقسیم کی صورت میں ان گنت جغرافیائی اور انسانی مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں تو دوسری طرف نئی بننے والی قومیتوں کے مطالبے کو رد کرنے کا اخلاقی جواز بھی ان اقوام کے پاس نہیں ہوتا، جن سے علیحدگی کا مطالبہ کیا جا رہا ہوتا ہے، کیونکہ وہ خود بھی ایک سطح پر قومیت کے اسی تصور کو نہ صرف اپنائے ہوئے ہیں، بلکہ بیشتر نے اسی بنیاد پر خود بھی خود مختاری حاصل کی ہوئی ہوتی ہے۔
تو سوال کو اگر ہم شروع سے اٹھائیں کہ یہ کیوں ضروری ہے کہ کسی قوم پر حقِ حکمرانی اس کے ہم قوم کو ہی حاصل ہے؟ اگر ایسا ضروری ہے تو قوم کی تعریف کیا ہے؟ قوم کی تعریف کرنے کا اختیار کس کو ہے؟ کیا کسی بھی گروہ کو اپنے لیے قوم کی تعریف اختیار کرنے سے روکا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو ان کے حق حکمرانی کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر سب گروہوں کو یہ اختیار اور حق حکمرانی حاصل ہے تو قومیت کے نام پر ان اکائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ کہاں جا کر رکے گا، انسانیت، اور اس زمین کے مزید کتنے بٹوارے ہوں گے، اور کتنی خون کی لکیریں کھینچی جائیں گی؟
کیا اب بھی وقت نہیں آیا، کہ ہم قومیت کے اس غلط نظریے کو چیلنج کریں کہ ‘کسی قوم پر حق حکمرانی اس کے ہم قوم کے علاوہ کسی اور کو نہیں؟ کیوں کسی غیر قوم کا زیادہ قابل، زیادہ اہل حکمران یا جماعت، دوسروں پر حکمرانی نہیں کر سکتے؟ اگر یہ عذر پیش کیا جائے کہ اپنے ہم قوم حکمرانوں سے استحصال کا خطرہ کم ہوتا ہے تو اس مفروضے کی دھجیاں بکھر چکی ہیں۔ عرب سپرنگ کیا ہے؟ اپنی ہی قومی ریاستوں میں اپنے قومی حکمرانوں کے ظلم و استحصال کے خلاف عوام کے مختلف گروہوں کی جدوجہد۔ خود پاکستان میں کتنی بار، عوام اپنے ہی ہم قوم حکمرانوں کے خلاف سٹرکوں پر نکلے اور کتنوں نے اپنی جانیں دے دیں۔ قومی حکمرانوں نے اپنی قوموں کے ساتھ، غیر قومی حکمرانوں سے بدتر نہیں تو برابر کا ہی برا سلوک کیا ہے۔ بلکہ اہلیت اور لیاقت میں تو اور بھی کم تر ثابت ہوئے ہیں۔
مزید برآں، ہم دیکھتے ہیں لوگ، اپنا آزاد ملک چھوڑ کر ان غیر قوموں کے زیر حکومت رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں سماجی انصاف اور مساوی ترقی کے مواقع میسر ہوں۔ تو اگر غیر قوموں کے ملک جا کر ان کے زیرِ حکومت رہنا درست ہے تو اپنے ملک میں ان کے زیرِ حکومت رہنا ناجائز کیوں ہے؟
انسانی مسائل کا حل قومی حکومتوں کے قیام میں نہیں، سماجی انصاف کے قیام میں ہے۔ اسی کا شعور پیدا کرنا ہی اصل کرنے کا کام ہے، اس پر محنتیں لگائی جائیں اور قومی ریاستوں کے قیام کی بے فائدہ تحریکوں میں جان، مال اور وقت ضائع نہ کیا جائے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.