تخلیق سے بچھڑی قوموں کا مقدر تخریب ہی ہوتی ہے
از، فارینہ الماس
علی احمد ایک اعلی تعلیم یافتہ نوجوان تھا ،ایم ۔بی ۔اے میں گولڈ میڈل لینے کے بعد انتہائی اعلی نمبروں سے اس نے ایم۔فل کی ڈگری حاصل کی ۔گزشتہ پانچ سالوں سے وہ ایک اچھی کمپنی سے وابستہ تھا۔سب کچھ عین اس کی خواہشات اور ترجیحات کے تحت ہورہا تھا۔اسے وہی کچھ ملا جس کے وہ کبھی خواب دیکھا کرتا تھا،لیکن محض پانچ سال بعد ہی نجانے اسے کیا ہوا کہ وہ بہت زیادہ بد دلی اور قنوطیت کا شکار ہو گیا۔اسے ہر شے بے معنی نظر آنے لگی ۔وہ اپنی روٹین سے اس قدر اکتاہٹ کا شکار ہوا کہ ہروقت بجھا بجھا سا رہنے لگا ۔وہ ڈپریشن جیسے نفسیاتی عارضے کا شکار ہو کراپنی اچھی خاصی زندگی کو روگ لگا بیٹھاتھا۔اب وہ کم عمری میں ہی ادھیڑ عمر نظر آنے لگا تھا۔ ہمارے ملک کے اکثر نوجوانوں کی یہی کہانی ہے۔یہاں تقریباً ہر دوسرا انسان بہت جلد پژمردگی کا شکار ہو کر زندگی کی تابانیوں اور روشنیوں سے منہ پھیرنے لگتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وقت سے بہت پہلے بڑھاپہ اسکی عمر اور روح دونوں کو اپنے شکنجے میں لینے لگتا ہے۔اب ایک اور کہانی سنئیے۔ٹورنٹو کے ایک مشہورمیڈیکل ڈائریکٹر ’’ڈاکٹر جیمز‘‘کی سب سے زیادہ پسندیدہ مریضہ 88سال کی ایک معمر خاتون ہیں۔کیونکہ وہ اپنی بیماری کو خود پر طاری نہیں ہونے دیتیں ۔نا صرف وہ زندہ دل اور انتہائی با حوصلہ خاتون ہیں بلکہ وہ اپنی خوش دلی اور پر عزم خصائص کی وجہ سے اپنی عمر سے کم از کم 20سال کم کی نظر آتی ہیں۔ڈاکٹر جیمز نے جب ان کی اس خوش دلی کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو انہیں اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت آرٹ کو دیتی ہیں ۔واٹر کلرز سے تخلیق کردہ چھوٹی چھوٹی تصاویر ان میں زندگی کی تابانی پیداکرتی ہیں ۔یہی خوشی انہیں بیماری سے لڑنے کا کمال حوصلہ عطا کرتی ہے۔اور وہ اپنے تخلیقی اظہار کی وجہ سے زندگی کے تناؤ سے کوسوں دور رہتی ہیں۔یہ دو متضاد معاشروں کی متضادترجیحات پر مبنی زندگیوں کی دو مختلف کہانیاں ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی پہچان اسکے خیالات سے ہوتی ہے۔ہم ایک ہی دنیا میں بسنے والے انسان متضاد زندگیاں گزانے پر مجبور ہیں ۔زندگی کا تضاد اسکی معنویت پر مبنی ہے۔
ایک معاشرہ وہ ہے جہاں زندگی کے معنی نعمت کے سمجھے جاتے ہیں لیکن اسکے بر عکس ایک دوسرے معاشرے میں زندگی بے معنویت کے احساس سے اس قدر جوڑ دی جاتی ہے کہ سب کچھ پا کر بھی انسان محرومیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گھرا رہتا ہے۔انسانی دماغ کی ساخت قدرت نے کچھ اس طور تخلیق کر دی ہے کہ یہ ہر لمحہ ہر لحظہ متحرک اور چاک و چوبند رہنا چاہتا ہے۔یہ ایک انتھک اور متحرک رہنے والا پرزہ ہے۔ایک ہی طرح کا ماحول اور حالات اسے اکتاہٹ کا شکار بنانے لگتے ہیں۔اسے انتھک خیالات کے ہجوم میں سکون نصیب ہوتا ہے۔قصہ محض خیالات پر آکر ختم نہیں ہو جا تا بلکہ اسکے بعد انسان کے دل میں اپنے احساسات اور خیالاتکی باہر کی دنیا کو ترسیل کی خواہش شدت اختیار کرنے لگتی ہے ۔تاکہ اسکے اندر کی دنیا کا باہر کی دنیا سے ربط قائم ھوسکے۔یہاں تک کے درجے کو ہر انسان جان جاتا ہے لیکن ایک اور حقیقت بھی اس سے وابستہ ہے جہاں تک ہر انسان پہنچ نہیں پاتا .گو کہ وہ منزل بہت کٹھن نہیں لیکن انسان کے حالات،اسکا ماحول اور ماحول سے وابستہ کچھ بیرونی عوامل اسکے اس حقیقت کو پہچاننے کے درمیاں حائل ہو جاتے ہیں۔یہ وہ منزل ہے جہاں ہم اپنی زندگی کو نا صرف اپنی نظر میں اہمیت کے قابل بناتے ہیں بلکہ دنیا کو بھی اپنی اہمیت کا معترف کرواتے ہیں ۔یہ مرحلہ ہمیں ہماری ذات کا اعتماداور اسکی پہچان دیتا ہے۔اس مرحلے میں ہم اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کے خزانے کو باہر لانا سیکھتے ہیں۔اسی مرحلے کو طے کرنے والے انسان الحمراء اور تاج محل جیسے شاہکار کھڑے کر دیتے ہیں۔بہزاد کے شاہکار فن پاروں کی شکل میں مصوری کو سوچ کی تابانی اور بصارت کی موسیقی عطا ہو جاتی ہے۔دنیائے ادب میں بوستان اورگلستان جیسے نادر نسخے امر ہو جاتے ہیں۔ 1980کی دہائی سے انسان نے انڈسٹریل سوسائٹی کو informative society میں بدلنا شروع کیا۔1990 تک لوگ knowledge کے متعلق بات کرتے ہوئے اور اس سے متعلق اپنی حساسیت دکھاتے ہوئے نظر آئے۔کیوں کہ معلومات یاinformations اس وقت ہی سودمند ثابت ہوتی ہیں جب وہ نالج میں منتقل ہوتی ہیں۔لیکن اب ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جب کہ ہمیں صرف نالج سے ہی واسطہ نہیں رہا۔آج کا معاشرہ بہت سے نا قا بل فہم اور غیر متوقع مسائل کا شکار ہو چکا ہے۔ایسے مسائل سے نپٹنے کے لئے ھمیں تخلیقی حل ( creative solutions )چاہئیں ۔آج کامیابی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ آپ کیا جانتے ہیں؟ اور مذید کیا جان سکتے ہیں؟ بلکہ آپ کی قابلیت اس میں ہے کہ آپ کیا سوچتے ہیں؟ اور آپ اپنے اندر کی تخلیقیت کو کس قدر قابل استعمال بناتے ہوئے اپنے بیرونی مسائل سے نپٹتے ہیں۔ نہ صرف ایک انسان کی شخصی کامیابی اور قابلیت بلکہ ایک انسانی معاشرے کی بھی کامیابی اسی میں پوشیدہ ہے کہ اسکے اہل معاشرہ کس قدر تخلیقیت کے حامل ہیں۔سو اگر ہم دنیا کی لا متناہی اشیا سے واقف ہیں لیکن اگرہم خود اپنے آپ سے ہی نا واقف ہیں تو ہمارے لیئے یہ جاننے کا علم ایک بے معنی حیثیت کا حامل رہ جاتا ہے۔اسی لئے سقراط نے کہا’’خود کو جانو‘‘کیونکہ خود کو جانے بغیر انسان کو ذہنی اور قلبی آسودگی حاصل نہیں ہو تی۔زندگی میں ایک کمی رہ جاتی ہے۔اپنے آپ سے گریز زندگی کو بے رنگ اور بد ہیت بنا دیتا ہے اور زندگی میں دکھ ،الم اور رنجیدگی جنم لیتے ہیں ۔
تخلیق ،تصوراتی اور تخیلاتی خیالات کو حقیقت کی دنیا میں لانے کا عمل ہے۔یہ ایسا ہنر ہے جو انسان کی روح کے اظہار کا مثبت ذریعہ بنتا ہے ۔اسے مایوسی اور بد دلی سے بچاتا ہے۔اس کے رویوں اور سوچ میں خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نفسیات دان آرٹ اور موسیقی کو نفسی تھیراپی کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ایک تخلیقی انسان خواب دیکھتا ہے لیکن ان چیزوں کے خواب جو existنہیں کر رہیں۔وہ کرنا چاہتا ہے وہ سب جو وہ کر سکتا ہے۔ہر انسان کے اندر ایک تخلیق کار چھپا ہوتا ہے جو اپنا اظہار چاہتا ہے،اسے محض حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے اپنے ماحول اپنے خاندان اور اپنے معاشرے سے ملتی ہے ۔یہ اس کے اندر کا اظہار ہے اور اگر اندر کا اظہار مرنے لگے تو معاشرے مرنے لگتے ہیں۔ایک تخلیق کار ہی معاشرے کی سوچ اور اسکی اقدار کو نئی جہتیں دیتا ہے۔اسکا اظہار کچھ نیا کرنے اور اپنے سماج کو کچھ خاص دینے کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔یہ اظہار ہی معاشرے کے کلچر کو متحرک کرتا ہے۔معاشرے اسکی موجودگی میں خوش شکل اور اسکے بنا بد شکل ہو جاتے ہیں۔اس سے معاشرے revitalizeہوتے ہیں۔اسکے ذریعے جو ثقافت ابھرتی ہے وہ قوم کی پہچان بنتی ہے۔یہی پہچان قوم کو یک جہتی عطا کرتی ہے۔آج کے دور میں تخلیقیت ایک انڈسٹری کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔تخلیقی انڈسٹری ریاست کی معاشی ترقی کا بھی باعث بنتی ہے۔اس سے مارکیٹ کو جدت طرازی میسر آتی ہے۔ایسی انڈسٹری کی عالمی ساکھ پیدا ہوتی ہے جو اس ریاست اور ملک کی عالمی پہچان کا بھی باعث بنتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ترقی کی جانب رواں دواں ممالک میں ’’تخلیقی علم ‘‘کے بغیر تعلیم کو ادھورا سمجھا جاتا ہے ۔وہ بچوں کو کم عمری میں ہی تخلیقی بنانے کے لئے کوشاں ہو جاتے ہیں۔کیوں کہ ریسرچ بتاتی ہے کہ جن بچوں کی ذہنی وابستگی آرٹ اور تخلیق سے ہوتی ہے ان کی ذہنی و جسمانی کارکردگی بھی نسبتاً دوسرے بچوں کے زیادہ ہوتی ہے۔وہ ٹیلی وژن ،کمپیوٹر اور موبائل کی نسبت سوشل سرگرمیوں میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اپنی صلاحیتوں اور ہنر کا اظہار انہیں مستقبل کے لئے بھی مقابلے کی فضا میں کام کرنا سکھاتا ہے۔وہ اپنے تعلیمی اور شخصی مسائل نپٹانے کی بھی زیادہ استطاعت کے حامل ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں طلباء کی تعلیم و تربیت میں تخلیقیت کے عنصر کو بہت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔انگلینڈ میں ہر سال ’’تخلیقی ادب‘‘ کو پروموٹ کرنے کے لئے حکومت مختلف منصوبے بناتی ہے۔مثلا گزشتہ سال تقریباً50ہزار طلباء و طالبات کو شکسپئیر کا کوئی نا کوئی ڈرامہ پیش کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔مغرب میں ایسی بہت سی نیٹ ورکنگ سائیٹس بنائی گئی ہیں جہاں نوجوان نسل کو اپنے فن اور ہنرکے اظہار کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔ایسے saturday clubsبھی بنائے جاتے ہیں جہاں نوجوان اکٹھے ہو کر اپنے ہنر کا اظہار کرتے ہیں ۔وہاں ایسی کارپوریشنز بھی ہیں جو نو جوانوں کو ان کے فن کے اظہار کے لئے مالی معاونت دیتی ہیں۔بلاشبہ اس معاملے میں ان کی حکومتوں کی دلچسپی اور سنجیدگی قابل تحسین ہے۔اس طرح ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی سے نا صرف افراد معاشرہ اپنی جبلتوں کے اظہار کو اپنے تشخص کی آبیاری کے لئے استعمال کر پاتے ہیں بلکہ ان کی استعداد اور صلاحیتیں معاشرے کے لئے بھی کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔وہاںquality of lifeامپروو ہوتی ہے،اور اداروں میں بھی innovatory ideas پنپتے ہیں جو ان کی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔اسطرح تمام معاشرے کی فرسٹیشن کو اس کی نکاسی کی راہیں بھی میسر آتی ہیں۔ جرمنی،سویڈن،جاپان،سوئٹزرلینڈ 2016 کے bloomberg innovation index میں نمایاں اہمیت کے حامل ممالک قرار پائے ہیں ۔امریکہ کا اس انڈیکس میں ساتواں نمبر ہے۔آج امریکہ کو اپنی معیشت بچانے کا سب سے بڑا چیلنج لاحق ہے جس کی وجہ وہاں innovatory افراد کی کمی بتائی جاتی ہے۔ گلوبل انوویشن انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ایجادات نو اور معیشت کی ترقی میں 140ممالک میں سے 131ویں نمبر پر ہے۔ہمارے یہاں اعلی تعلیم یافتہ افرادبھی اپنی قابلیت اور استدلالی سوچ میں دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہماری صورت حال دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ ہم تعمیر اور تخلیق سے بچھڑی ہوئی قوم ہیں ۔کیوں کہ ہم ابھی تک حلال اور حرام کے چکر سے باہر نہیں نکل پائے۔ہماری نظر میں میوزک،شاعری ،آرٹ ،رقص اورمجسمہ سازی کو حرام سمجھا جاتا ہے،لیکن ہمارے ہاں جرم اور عورتوں کی بے حرمتی حرام نہیں سمجھی جاتی ،یہاں تو خودکشی اور قتل و غارت گری بھی حرام نہیں رھی۔اسلئے کہ یہ سب افعال ہم بہت تواتر اور پر اعتمادی سے انجام دینے لگے ہیں۔ہم دہنی طور پر ایک بیمار قوم بن چکے ہیں اپنی فرسٹیشن کا اظہار منفی سرگرمیوں میں ڈھونڈنے لگے ہیں ۔عورتوں اور بچوں پر جنسی حملے،توڑپھوڑ،مار دھاڑ،خواتین پر تشدد اس سب کی وجہ بھی ہماری یہی ذہنی اور نفسیاتی بیماری ہے۔
ہماراآرٹ،ادب،فن اور فنکار سب ہی جمود اور زوال کا شکار ہیں۔آج ہمارے پاس صادقین جیسا کوئی بھی آرٹسٹ نہیں،ہمارے ادب کو فیض احمدفیض،فراز،ابن انشاء ،مجید امجد اور اشفاق احمد جیسے ادیب میسر نہیں۔ ایک اچھا تخلیق کار انسانیت کے سلگھتے وجود سے بھی زندگی تلاش کر لیتا ہے۔معاشرے میں انسانیت دشمن سوچ کو پنپنے نہیں دیتا ،حق اور سچ کے لئے آواز بلند کرتا ہے۔لیکن ہمارے ہاں صورتحال بہت مختلف ہو گئی ہے۔ہمارا تخلیق کار سچائی سے بہت دور ہوتا جا رہا ہے۔وہ مصلحت اور حالات کا شکار ہے۔وہ کرپشن میں بھی حصہ دار بن چکا ہے۔اسی لئے اسکا فن اپنی افا دیت کھو رہا ہے۔ایک عجیب طرح کی تلخی ہمارے حلق میں اتری رہتی ہے۔کیوں کہ تخلیق کی رونقیں ماند ہوتی جا رہی ہیں ۔ہم حادثات اور تنازعات کا شکار قوم بنتے جا رہے ہیں۔ہمارے ہاں زندگی کے راستے معدوم اور محدود ہوتے جارہیہیں۔جب کہ موت اور تشددکی طرف جاتے راستے بہت آسان اور کشادہ ہوتے چلے جارہے ہیں۔ہم تخلیق سے بیزار اور تخریب کا شکار ہوچکے ہیں ۔یہاں تخلیق کار بننا دشوار اور تخریب کار بننا آسا ن ہے۔ایک کم عمر لڑکا یا لڑکی اپنے ہنر کے اظہار کے لئے گٹار یا وائلن خریدنا چاہیں تو والدین اسکی سخت مخالفت کرتے ہیں اور اگر وہ اس سے بھی دگنی قیمت کا موبائل خریدنا چاہے تو اسے ایسی مخالفت کا سامنا نہیں ہوتا۔ہمارے معاشرے میں اگر ایک ادھیڑ عمر انسان پیانو بجانا یا آرٹ سیکھنا چاہے تو اس کی اس خواہش پر ہنسا جاتا ہے۔ اسکی دل شکنی کی جاتی ہے ۔اسطرح روح کا یہ مثبت اظہار اسقدر پابندیوں اور اختلافات کا شکار ہو جاتا ہے کہ رفتہ رفتہ فرد کے اندر ہی دم گھٹنے سے مر جاتا ہے۔ہماری تعلیم بھی تخلیق سے یکسر عاری ہے۔طلباء کو ذات کے اظہار (self expressions) کے مواقع فراہم نہیں کئے جاتے۔درس گاہوں میں تخلیقی ذہنوں کی آبیاری کی جاتی ہے اور نا ہی علم کو استدلالی اور تخیلاتی راہیں فراہم کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔اسطرح طلباء کا فن اور ہنر کبھی نکھر نہیں پاتا۔ایک ہی طرح کے نصاب کو ایک ہی قدیم طریقہ تدریس سے ان کے دماغوں میں انڈیل دیا جاتا ہے۔اسی لئے وہ آگے چل کر اپنے اپنے شعبے میں نئے خیالات اور تصورات کو اپنانے سے قاصر رہتے ہیں۔الغرض تخلیقیت ہماری حکومتوں ،ہماری درس گاہوں اور مجموعی طور پر ہمارے معاشرے کی تر جیحات میں شامل ہی نہیں ۔یہاں فن اور فنکار شدید قسم کی بے قدری کا شکار ہیں۔یہاں تخلیق کے اظہار کے خلاف فتوے آجاتے ہیں لیکن تخریب کو جہاد سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ہماری سوچ و فکر،ہمارا آرٹ وفن،ہماری روح ،ہمارے رویے سب بنجر ہو چکے ہیں۔قابل افسوس امر یہ ہے کہ آج تک ہم نے یہ بھی سوچنا گوارہ نہیں کیا کہ کہیں تخلیق سے ہٹنے ہی کی وجہ سے ہم تخریب سے جڑتے تو نہیں جا رہے۔اگر ہم یوں ہی اس حقیقت سے چشم پوشی کرتے رہے تو ہماری تہذیب اورمعاشرت خون کے دھبوں سے رنگی جاتی رہے گی ۔اور ہمارے معاشرے کی شکل اور بھی بدہیت اور بد نما ہوتی رہے گی۔
عمدہ تحریر ہے اور یہ میرا ذاتی تجربہ بھی ۔۔۔۔۔۔۔ بہت خوب