نوال السعدوی، دُنیائے عرب کی سیمون دی بوائر 

nawal el saadawi
نوال السعدوی بہ وساطت، الجدید ڈاٹ کام

نوال السعدوی، دُنیائے عرب کی سیمون دی بوائر 

از، ڈاکٹر اویس احمد بٹ

پلوامہ، جموں و کشمیر

نوال السعدوی (Nawal al-Saadawi) جن کاانتقال حال ہی میں، یعنی 21 مارچ 2021ء کو ہوا، مصر کی ایک ایسی با رعب فیمی نِسٹ، سماجی کارکن، ڈاکٹر، ماہرِ نفسیات اور کام یاب ادیب ہیں جنھوں نے عرب خواتین پر ہو رہے جنسی تشدد کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی استحصال پر بے باک اور بے لاگ ہو کر بولا اور لکھا ہے۔

اُنھوں نے عورتوں کے حق کے لیے کافی جد و جہد کی اور وہ عرب خواتین کو اُن کا جائز مقام اور رتبہ دلانے کے لیے پوری عمر کوشاں رہیں۔ اُنھوں نے عورتوں کے ایسے مسائل پر ارتکاز کیا جن کے تحت بالخصوص دیہاتی عورتوں کے ساتھ رسم و رواج یا مذہب کی آڑ میں استحصال ہوتا رہا۔

اُنھیں عورتوں کے مساوی حقوق کی جد و جہد میں جو مصیبتیں اُٹھانا پڑیں، اُن سے نہ صرف اُن کی ذاتی زندگی متأثر ہوئی بل کہ پیشے کے اعتبار سے بھی کافی دُشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

اُنھیں دُنیائے عرب کی سیمون دی بوائر (Simon de Beavoir) کے نام سے بھی جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ نوال نے جرأت مندی اور جذبۂِ شوق سے سرشار ہو کر ہر نوع کے استحصال اور نا انصافی بالخصوص عورتوں کے مسائل اور اُن کے جائز حقوق اور بالعموم انسانی حقوق کے لیے اپنی آواز اس قدر بلند کر دی کہ اُن کی آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دینے کی کوششیں بھی کی گئیں۔

نوال السعدوی مصر کے ایک صوبے قلیوبہ کے ایک گاؤں کفر طحلہ میں27 اکتوبر 1931ء کو پیدا ہوئیں۔ اُن کے والدین نے اُس دور کے ایک عام چلن سے بغاوت کر کے اپنی بیٹیوں کو سکول بھیج دیا تھا، کیوں کہ اُس دور میں صرف لڑکوں کی تعلیم کو اہمیت حاصل تھی جب کہ لڑکیوں کو سکول بھیجنے کی ممانعت تھی یا یوں کہیے کہ معیوب سمجھا جاتا تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب عرب اور مصر کی کم سِن بچیوں کا circumcision یعنی ختنہ کیا جاتا تھا۔ اگر چِہ نوال کے والدین نے ایک طرف عام رسم و رواج کے خلاف اپنی بیٹیوں کو بھی سکول بھیج دیا تھا وہیں دوسری طرف اُن سے قدامت پسندی کا دامن ہاتھ سے پوری طرح چھوٹ نہیں پایا اور 6 سال کی عمر میں نوال کا ختنہ کرا دیا، جس کا ذکر اُنھوں نے اپنے ناول The Hidden Face of Eve میں درد کے پُر اثر بیانیے کے ساتھ کیا۔ مثال کے طور پر اُنھوں نے لکھا ہے:

”جب تیز دھار بلیڈ میرے عُضو پر چلائی گئی تو خون کی ندی جیسے بہنے لگی اور درد کی انتہا یہ تھی کہ اگر دیگر اعضاء بھی کاٹ دیے جاتے تو مجھے محسوس ہی نہیں ہوتا۔“

چوں کہ نوال خود ایک ڈاکٹر تھیں لہٰذا اُنھوں نے نسوانی ختنے اور اُس سے پیدا شدہ خرابیوں کے حوالے سے نڈر ہو کر لکھا۔

نوال نے1955ء میں یونی ورسٹی آف قاہرہ (University of Cairo) سے ڈاکٹر آف میڈیسن (Doctor of Medicine) مکمل کیا جب کہ یونی ورسٹی آف کولمبیا، نیو یارک سے 1966ء میں ماسٹر آف پبلک ہیلتھ (Master of Public Health) کام یاب کیا۔

نوال نے1955 سے 1965ء تک یونی ورسٹی آف قاہرہ ہسپتال، دیہاتی طبی مرکز، طحلہ اور طبی وزارت میں بہ حیثیت ڈاکٹر کام کیا۔

اس دوران اُنھوں نے اپنا ایک رسالہ ہیلتھ بھی جاری کیا۔ وہ 1966ء سے 1972ء تک وزارتِ صحت میں پبلک ہیلتھ ایجوکیشن کی ڈائریکٹر جنرل بھی رہیں اور مصری میڈیکل ایسوسی ایشن کی اسسٹنٹ جنرل بھی رہ چکی ہیں۔ 1973ء سے 1976ء تک اُنھوں نے عین شمس یونی ورسٹی کے فیکلٹی آف میڈیسن میں کام کیا اور اس دوران عورت اور عصبانیت Women and Neurosis پر تحقیق کر کے قاہرہ کے آرٹس اور سوشل سائنس میں 1974ء سے1978ء تک ایک مصنف   کے عہدے پر فائز رہیں۔ سنہ 1978ء سے 1979ء تک اقوام متحدہ میں افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کی مشیر بھی رہی ہیں۔

نوال کی ادبی، سائنسی اور سماجی خدمات سے اس بات کا بَہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُنھوں نے کس طرح قلیل عرصے میں ادب اور سائنس میں شہرت حاصل کر لی۔

لیکن جس رفتار سے اُنھوں نے ترقی کے زینے طے کیے؛ اُسی رفتار سے وہ مصر اور عرب کی ایک متنازِع شخصیت بھی بن گئیں جس کے لیے اُنھیں نہ صرف ذاتی طور پر بل کہ پیشے کے اعتبار سے بھی کافی بھاری قیمت چکانا پڑی یعنی وزارتِ صحت سے اُن کی کتاب Women and Sex کی اشاعت کے فوراً بعد نوکری سے برخاست کر دیا گیا، کیوں کہ مذکورہ کتاب ممنوعہ موضوعات جیسے لڑکیوں کا ختنہ، سیکس اور مذہب وغیرہ کا احاطہ کرتی ہے۔

اتنا ہی نہیں بل کہ اُن کے رسالے ہیلتھ کے ساتھ ساتھ اُن کی طبی خدمات پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ علاوہ ازیں اُن کی دیگر کتابوں کی اشاعت پر بھی روک لگا دی گئی۔

اس کے با وجود بھی نوال نے ایسے حساس موضوعات پر لکھنے کا عمل جاری رکھا جو کسی عام ادیب کے بس کی بات نہیں تھی۔ مثال کے طور پر اُنھوں نے عورتوں کے مسائل،جنسیت، تزویج محرم، طوائفیت، کنواریت کی رسم اور دیگر سماجی مسائل یعنی پدر شاہی، رشوت، طبقاتی جبر اور بنیاد پرستی وغیرہ جیسے موضوعات پر بے باکی اور جرأت مندی کے ساتھ قلم اُٹھایا۔

جب 1981ء میں نوال نے صدر انور سادات کی یک جماعتی حکومت پر تنقید کی تو اُنھیں دو ماہ قید کی سزا دی گئی۔ اُنھیں پھر انور سادات کے قتل کے بعد ہی رہا کیا گیا۔ جب اُن سے سزا ملنے کی وجہ پوچھی گئی تو اُنھوں نے کہا:

”مجھے اس لیے سزا ہوئی کیوں کہ میں نے سادات پر یقین کیا تھا۔ اُنھوں نے کہا تھا کہ ہمارے یہاں جمہوریت ہے اور کثیر جماعتی نظام ہے، اس لیے تم تنقید کر نے کے لیے آزاد ہو۔ بَہ ہر صورت میں نے اُن کی پالیسی پر تنقید کی اور میں جیل پہنچ گئی۔“

نوال نے 1982ء میں ایسوسی ایشن بَہ راہِ یک جہتئِ عرب خواتین کی بنیاد ڈالی لیکن 1991ء میں سرکاری حکم نامے کے مطابق مذکورہ ایسوسی ایشن پر روک لگا دی گئی۔ Stephanie McMillan کے نوال سے مکالمے سے یہ پتا چلا ہے کہ 1992ء میں نوال کا نام death list میں شامل کر لیا گیا تھا جو ایک سعودی اخبار میں بھی شائع ہوئی تھی۔

اُنھوں نے Rachel Cook کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جو The Guardian میں 11 اکتوبر 2015ء کو شائع ہوا تھا، کہا ہے:

”ایک دفعہ میں نے مؤذن سے اذان دیتے وقت یہ اعلان سنا کہ نوال السعدوی کو قتل کیا جانا چاہیے۔“

جس کے بَہ مُوجِب اُنھیں ملک بدر ہونا پڑا لیکن ملک بدر ہو جانے کو اُنھوں نے منفی زاویے سے نہیں دیکھا کہ وہ اب اپنے ملک کے لیے کچھ نہیں کر سکتیں یا یہ کہ وہ اب اپنے ملک میں عورتوں پر ہو رہے ظلم و زیادتی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتیں؛ بل کہ اُنھوں نے ملک بدر ہو جانے کو بھی مَثبت زاویے سے دیکھا اور وہ اس نتیجے پر پہنچیں:

”موت کی دھمکی نے میری زندگی کو ایک نئی اہمیت سے رُو شناس کرایا۔“

نوال مصر کی پہلی خاتون ہے جنھیں ارتداد کے لیے مُوردِ الزام ٹھہرایا گیا اور مذاہب کا احترام نہ کرنے کی صورت میں زندقہ (ملحد) قرار دے دیا گیا۔ مزید یہ کہ انھیں اسلام کی توہین کے لیے جبری طلاق کی دھمکیاں بھی دے دی گئیں۔

اُس کے بعد الازہر، قاہرہ نے اُن کے ناول The Fall of the Imam پر پابندی بھی عائد کر دی۔ جس عرصے کے لیے وہ مصر سے باہر رہیں اُس دوران وہ کئی یونی ورسٹیوں اور کالجوں جیسے ڈیوک یونی ورسٹی، واشنگٹن یونی ورسٹی، شکاگو یونی ورسٹی وغیرہ میں بہ حیثیتِ وزیٹنگ پروفیسر کام کرتی رہیں۔

جب اُن سے ملک بدر ہو جانے پر طرح طرح کے سوالات پوچھے گئے تو اُنھوں نے ایک انٹرویو میں جو کہ رسالہ Two Eyes میں شائع ہوا، یہ کہا:

”مصر میں میری جان کو خطرہ تھا، اس لیے اپنی جان بچانے کے لیے مجھے مصر کو چھوڑنا پڑا۔ میں ہمیشہ کے لیے بیرونی ممالک میں نہیں رہ سکتی ہوں۔ مجھے مصر میں ہی رہنا ہے اور تھوڑے سے عرصے کے لیے بیرونِ ملک بھی رہنا ہے…میری اصل زندگی مصر میں ہے… ہمیں مقامی سطح پر رہ کر ہی کام کے ساتھ ساتھ جد و جہد کرنا ہے اور مقامی سطح سے ہی اپنے کام اور جد و جہد کو عالمی سطح تک لے جانا ہے۔“

نوال نے عورتوں کے حقوق کے لیے لڑتے لڑتے اپنی زندگی میں بہت کچھ کھو دیا۔ اُنھیں قتل کی دھمکیاں ملیں، ملک بدر ہونا پڑا لیکن کبھی بھی اُن کے دل میں اپنے ملک کے تئیں نفرت پیدا نہیں ہوئی۔

انسانی حقوق بالخصوص عورتوں کے حقوق کے حوالے سے جو کام اُنھوں نے کیا ہے اُس کا اعتراف نہ صرف مصر اور عرب میں کیا گیا ہے، بل کہ بیرونی ممالک میں بھی اُسے لائقِ ستائش تصور کیا گیا ہے لیکن اس کے با وجود بھی اُنھیں اُس اعتبار سے قابلِ توجہ نہیں سمجھا گیا جس کی وہ حق دار تھیں۔ جس کی شکایت اُنھیں خود بھی رہی ہے:

”مجھے اپنے ہی ملک نے دھوکا دے دیا۔ مجھے مصر کا سب سے بڑا اعزاز ملنا چاہیے کیوں کہ میں نے عورتوں اور بچوں کے ساتھ ہو رہی نا انصافی کے خلاف کافی جد و جہد کی تھی۔“

اس بات کا اعتراف کشور ناہید نے بھی کیا ہے:

”عرب عورتوں میں نوال السعدوی نے کس قدر کام کیا، جیل کاٹی، کتابیں لکھیں، عورتوں کی مساوات کی جد و جہد کی؛ چوں کہ کبھی امریکہ کی حمایت نہیں کی، اس لیے قابلِ توجہ نہیں مانی گئیں۔“

اُنھوں نے اپنی خود نوشت کے پہلے حصے A Daughter of ISIS میں لکھا ہے کہ اُنھوں نے ایک ایسے سماج میں آنکھیں کھولی جہاں بیٹی کو بیٹے کے برابر تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اُن کی دادی کہا کرتی تھیں:

”ایک بیٹا پندرہ بیٹیوں کے برابر ہے۔ بیٹی ایک طرح کی بیماری ہوتی ہے۔“

نوال کی تین شادیاں ہوئیں۔ پہلی شادی احمد حلمی سے ہوئی لیکن بعد میں جب وہ منشیات کے عادی ہو گئے اور ایک دفعہ نوال کو مار ڈالنے کی کوشش کی تو پھر بعد میں اُن کی طلاق ہو گئی۔

دوسری شادی ایک وکیل سے ہوئی لیکن اُنھیں نوال کے لکھنے سے کافی چِڑ تھی اور ایک دفعہ جب نوال کو اپنے شوہر اور لکھائی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لیے کہا گیا تو اُنھوں نے اپنی لکھائی کا انتخاب کیا اور اس طرح دوسرے شوہر نے بھی طلاق دے دی۔

تیسری شادی شیرف ہتاتا سے ہوئی جو ایک ڈاکٹر اور ناول نگار کے ساتھ ساتھ نوال کی کئی کتابوں کے انگریزی مترجم بھی تھے۔ بہ قول نوال، ”ہتاتا دنیا کے واحد فیمی نسٹ مرد ہیں۔“

لیکن نوال نے اُنھیں بھی طلاق دے دی کیوں کہ اُنھوں نے کئی عورتوں سے تعلقات استوار کیے ہوئے تھے۔ جس پر نوال نے ایک جگہ لکھا ہے:

”اُنھوں نے صنفی مساوات پر کئی کتابیں تو لکھ ڈالیں لیکن اپنی ہی بیوی کے ساتھ دھوکا کیا۔“

نوال جب جیل میں تھیں تو لکھنے کا جنون اس حد تک تھا کہ ایک خاتون قیدی سے کہیں سے eye pencil چوری کروا لی تھی اور toilet paper پر لکھنا شروع کیا تھا، کیوں کہ وہ جد و جہد کے لیے لکھائی کو سب سے بڑا ہتھیار تصور کرتی تھیں۔ شاید اسی لیے اُنھوں نے کہا تھا:

Nothing can defeat death like writing.

وہ اکثر کہا کرتی تھیں:

”دنیا کی کوئی طاقت مجھ سے میری لکھائی نہیں چھین سکتی ہے۔“

جب وہ جیل میں تھی تو جیلر نے اُن سے کہا تھا کہ ”اگر مجھے آپ کی سَیل میں کاغذ اور قلم مل جائے تو اُس سے کم خطرناک یہ ہے کہ مجھے آپ کی سَیل میں بندوق مل جائے۔“

اُن سے جب پوچھا گیا کہ جد و جہد کے لیے آپ کے نزدیک سب سے بڑا ہتھیار کیا ہو سکتا ہے؟ تو اُنھوں نے کہا:

”غربت اور جہالت سے لڑنے کے لیے لکھائی سے اچھا اور بڑا ہتھیار کوئی نہیں ہو سکتا۔“

نوال خود اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ اُن میں غصہ بہت ہے اور یہ غصہ تقریباً پوری زندگی اُن کے ساتھ رہا ہے۔ حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اُن کا غصہ کم نہیں ہو پایا۔

اُنھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا:

”… بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ادیبوں کے برتاؤ میں نرمی آ جاتی ہے، لیکن میرا معاملہ بالکل اس کے بر خلاف ہے۔ میرا غصہ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ کم ہونے کے بَہ جائے مزید بڑھ رہا ہے۔“

نوال نے اپنی زندگی میں کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا، چاہے وہ اپنی ذاتی زندگی کا معاملہ ہو یا پھر عورتوں کے حق اور انصافی کی لڑائی ہو۔ اُن کے دل میں کبھی بھی موقع پرست بننے کی خواہش نہیں جاگی۔

اُنھوں نے انعام و اکرام کی خاطر مظلوم اور تشدد کا شکار خواتین سے مُنھ نہیں پھیرا اور اُنھوں نے اپنی جان کی پروا کیے بَہ غیر عورتوں کے حقوق کے لیے کام کیا۔ اس تناظر میں اُنھوں نے ایک انٹرویو میں بھی کہا تھا:

”جب میں جیل سے واپس آئی تو میرے سامنے دو ہی راستے تھے: ایک وہ راستہ جو مجھے حکومتی اداروں کا غلام بنا دیتا، سیکورٹی حاصل ہوتی، جعلی کام یابی ہاتھ آ جاتی، حکومت کی طرف سے انعامات مل جاتے، بہترین ادیب کے خطاب سے نوازا جاتا۔ یہ ایک ایسا راستہ تھا جہاں میں اخباروں اور ٹیلی ویژن پر چھا جاتی۔ دوسرا راستہ جو بہت کٹھن تھا اور مجھے جیل تک لے جا سکتا تھا۔ جب سے میں نے قلم ہاتھ میں لیا اور لکھنا شروع کیا تب سے خطرہ میری زندگی کا جزوِ لا یَنفک بن گیا۔“

نوال کو اُن کی ادبی، سائنسی اور سماجی خدمات کے اعتراف میں کئی اعزات و انعامات سے نوازا گیا۔ اُنھیں یونی ورسٹی آف یارک، یو کے، یونی ورسٹی آف اِلی نائے، شکاگو، یونی ورسٹی آف اینڈریوز، سکاٹ لینڈ اور یونی ورسٹی آف ٹرمسو، ناروے سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں تفویض ہوئیں۔

اس کے علاوہ اُنھیں کئی ادبی انعامات سے بھی نوازا گیا ہے، مثلاً عرب ایسوسی ایشن آف آسٹریلیا ایوارڈ، پیرس اور فرانس کی فرانکو۔عرب فرینڈ شپ ایسوسی ایشن، سپریم کونسل بَہ راہِ آرٹس اور سوشل سائنس، قاہرہ، مصر، پندرہویں پرمی انٹرنیشنل کٹالونیا ایوارڈ، بین الاقوامی مصنف بَہ راہِ 2003 ایوارڈ، The Great Minds of 21st Century Award اِننا انٹرنیشنل انعام، بلجئیم، فنلن نکولاس ایوارڈ، افریقن لٹریری ایسوسی ایشن وغیرہ جیسے انعامات سے نوازا گیا ہے۔

نوال السعدوی ایک ڈاکٹر، ماہرِ نفسیات، سماجی کارکن کے ساتھ ساتھ کام یاب ادیب بھی رہی ہیں۔ اُنھوں نے ناول، افسانے، ڈراما، غیر افسانوی ادب اور مضامین کے ساتھ ساتھ خود نوشت بھی لکھی ہے۔

اُن کی جملہ تصانیف عربی زبان میں ہیں۔ جس کہ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں تبدیلی لانے کی خواہاں تھیں۔ اُن کا ماننا تھا کہ تبدیلی کا آغاز مقامی سطح سے ہو جانا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے ذریعۂِ اظہار کے لیے عربی زبان کا انتخاب جان بوجھ کر کیا تھا۔ اُن کی کتابوں کا ترجمہ تقریباً تیس زبانوں جیسے انگریزی، فرانسیسی، جرمنی، ہسپانوی، پرتگالی، سویڈن، ڈینش، اطالوی، جاپانی، ترکی، اردو وغیرہ میں ہوا ہے۔ اُن کے ناولوں میں:

Memoirs of a Woman Doctor

Two Women in One

Women at Point Zero

The Death of Only Man on Earth

آخرُ الذّکر کتاب کا اردو ترجمہ آخری آدمی کی موت کے نام سے ہوا ہے۔

The Fall of the Imam

Love in the Kingdom of Oil

God Dies by the Nile

The Innocence of the Devil

بہ طورِ خاص شامل ہیں۔ اُن کے افسانوی مجموعوں میں

I Learnt Love

The Moment of Truth

The Thread and The Wall

She was The Weaker

Breaking Barriers

She Has No Place in Paradise

وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

اسی طرح ڈراما میں:

Twelve Women in a Cell

ISIS

God Resigns in the Summit Meeting

اہمیت  کے حامل ہیں۔ دیگر کتب میں:

Women and Sex

Women is the Origin

Men and Sex

The Naked Face of Arab Women

Women and Neurosis

A New Battle in Arab Women Liberation

The Hidden Face of Eve

وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ اُنھوں نے دو حصوں پر مشتمل خود نوشت بھی لکھی ہے جس کے پہلے حصے کا ترجمہ A Daughter of ISIS کے نام سے ہوا ہے اور دوسرے حصے کا Walking through Fire کے عنوان سے ترجمہ ہوا ہے۔