عظیم قومی مکالمہ
نصیر احمد
میاں نواز شریف کی طرف سے ایک عظیم مکالمے کی دعوت ایک مثبت پیغام ہے۔ اگرچہ انھیں عظمت کی یاد اقتدار سے باہر ہی اتی ہے اور جب کوئی اونچا کام کرنے کا موقع ملتا ہے تو اکثر ثقافتی مجبوریوں میں ہی پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ لیکن جیسے کہتے ہیں اچھے کاموں میں کبھی بھی دیر نہیں ہوتی، جہاں سے بھی شروع ہو جائے ، اچھائی اپنی تاثیر نہیں کھوتی۔
اس عظیم مکالمے کے سلسلے میں سب سے اہم بات ہے شہریوں کی انسانی اور قانونی برابری کو آئینی طور پر تسلیم کرنا ہے۔ جب تک آئین کی اس سمت میں درستی نہیں کی جاتی، عظیم مکالمے کا آغاز ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے آئین کو جمہوری قوانین اور جمہوری اخلاقیات کے عین مطابق ترتیب دینا ضروری ہے۔ اور موجودہ آئین کی وجہ سے جتنے بھی لوگوں کے حقوق معطل ہیں، ان کو بحال کیا جائے۔ آئینی طور پر اپنے برابر کے انسانوں سے سوال پوچھنا آسان ہو جاتا ہے جبکہ مسیحاؤں اور نجات دہندوں کے سامنے بات کرنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔
سوال پوچھیں گے تو پالیسی میں بہتری آئے گی، احتساب ممکن ہو گا، اب دہرے جنم والوں سے شودر تو سوال پوچھنے سے رہے جس کی وجہ سے پالیسی بھی درست نہیں ہو پاتی اور احتساب بھی ممکن نہیں ہے۔ مذہب، قومیت، رنگ، نسل، صنف، علاقہ، ذات پات، طاقت پیسہ کے نام پر انسانی برابری کی آئینی تنسیخ کے نتائج پاکستان کے عوام کے لیے کچھ اچھے ثابت نہیں ہوئے۔
پچھلے ستر سال سے غربت اور تشدد کا ایک سلسلہ جاری ہے اور اگر آئین درست نہ کیا گیا تو جاری رہے گا۔ اب غربت اور تشدد پیری مریدی اور باشاہی غلامی کے لیے موافق ہیں لیکن ان میں عوامی مفادات دیکھنا تو سنگ دلی کی پاتال کو کوہسار کہنے کے مترادف ہے۔اب تو کاروباری بھی کہنے لگے ہیں کہ ریاست کی بھلائی اس کی عوام کی فلاح میں ہی ہے نہ کہ غلط سوچ پر مبنی کسی تجریدی شاہکار میں۔
اور عوام کی فلاح قصیدے کا صلہ نہیں ہے بلکہ شہریوں کا حق ہے اور یہ حق اسی وقت موثر ہو سکتا ہے، جب ریاستی آئین ریاست کے شہریوں کو یہ حق دے۔کیونکہ جب آئین اس حق کا مذہبی یا قومی بنیاد پر انسانی برابری کا انکار کردے، تو پھر ریاست کے با اثر ظبقات اس حق کو ناممکن بنا دیتے ہیں۔ مراتب اور درجات کا ایک شجر سا بن جاتا ہے، جس کی جڑیں، پتے، چھالیں، ٹہنیاں ، سب ظلم اور تشدد سے آلود ہو جاتی ہیں۔ اور اس سب کا علاج جمہوریت سے خلوص ہے اور آئین میں انسانی برابری اور یکساں حقوق کا اقرار اس خلوص کا سب سے شاندار اظہار ہے اور ہم سب لوگ اس اظہار کے بطور انسان مستحق ہیں۔
جمہوریت پر مبنی شہریت کے بارے میں بات چیت کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ ادارے اس وقت تک مستحکم نہیں ہوتے،جب تک توانا شہری ان کے تحفظ کے لیے موجود نہیں ہوں۔اداروں کے عہدے داروں کے سامنے گڑگڑاتے شہری اپنی بے کسی کا دکھی منظر ہیں، اداروں کے استحکام کی وجہ نہیں۔شہریت کی عدم موجودی شہریوں کو روبوٹ بنانے کی کوشش ہے، لیکن انسان روبوٹ نہیں ہیں، اور شہریت کی عدم موجودی میں انسانیت کا بہتر رخ کھو دیتے ہیں اور ظلم کرنے اور ظلم سہنے لگتے ہیں اور مذہب، تصوف اور قومیت کے نام پر رنگ برنگے دھوکوں کے ذریعے اپنی بگڑی ہوئی زندگیوں کو معتبر نام دینے کی مشقت میں مصروف رہتے ہیں۔لیکن بات نہیں بنتی۔
حق مانگتے، حق دلاتے اور فرض ادا کرتے شہری کے حصول کے لیے ریاست کو بہت سارے ذرائع شہریوں کی تعلیم و تربیت پر صرف کرنے پڑتے ہیں۔اور یہ تعلیم سائینس، ریاضی، معاشیات ،ادب اور جمہوری اخلاقیات پر مبنی ہو، تجربے کی حوصلے افزائی کرے، چیزیں بنانا سکھائے، نئے خیالات کو پروان چڑھائے، اورامن افزا رویوں کو فروغ دے تو دوچار نسلوں میں معاملات کچھ بہتر ہو جائیں گے لیکن اس سمت میں تو سفر کا ابھی آغاز ہی نہیں ہوا۔ اور آغاز اس لیے نہیں ہو پا رہا کہ ہم دو گوئی ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور وہ دو گوئی ہمارے میں آئین میں موجود ہے۔
سب شہری برابر ہیں لیکن مسلمان دوسرے مذاہب سے متعلق شہریوں سے زیادہ حقوق کے حامل ہیں۔ ہمارے بہت سارے دانشوروں کو اس بات میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ لیکن اس بات سے جمہوریت کی تنسیخ ہو جاتی ہے۔
سب شہری برابر ہیں لیکن مرد عورتوں سے بہتر ہیں۔اس بات کے لیے نیک بیبیوں کے لیے وسیع النظر قمر النسا کی کتابوں سے حوالے دیے جاتے ہیں۔ اب وسیع قمر النسا ہمارے لیے ثقافتی برتری کی علامت ہی سہی لیکن مہذب دنیا کے قانون ساز، فلسفی، سائنسدان اور عوام کی ایک کثیر تعداد وسیع النظر قمر النسا کی باتوں پر کبھی ہنسنے لگتے ہیں اور کبھی دکھ میں گھر جاتے ہیں۔
چونکہ یہ دو رنگی ہمارے آئین میں موجود ہے اس لیے ہماری معاشرتی زندگی کے ہر پہلو میں بھی دکھائی دیتی ہے اور ذاتی اور اجتماعی اچھائی کا مسلسل انکار کرتی رہتی ہے۔اگر ہم ایک جمہوریت ہیں، تو ہمیں ان تضادات سے آزاد ہونا پڑے گا، ورنہ جمہوریت غریب خانے کا ایک اچھا سا نام ہی ہے جس کے ہمارے لیے عملی طور پر کچھ معنی نہیں ہیں۔
پھر منو، کوتلیہ چانکیہ، صوفیا اور بیسویں صدی کے کاملیت پسندوں کے خیالات پر مبنی ایک ہماری ثقافت ہے کہ جتنا دکھ پہنچاتی ہے ،اتنا ہی ہم اس سے لپٹتے ہیں اور اس عمل کو نیکوکاری اور پرہیزگاری سمجھتے ہیں۔ خود ہی دیکھیے کہ بادشاہ کو لذت حواس سے ماورا ہونا چاہیے، ساتھ ہی بادشاہ کی خلوت گاہ میں لائی جانے والی حسیناؤں کی زینت کے طریقوں پر مشورے دینے لگتے ہیں۔ پرجا کی بھلائی کے ٹوٹکے بتاتے ہیں اور ساتھ ہی راجکماروں کو قتل کرنے کا ہدائت نامہ جاری کردیتے ہیں۔ اب جو اپنے ہی بیٹے قتل کرے گا، اس نے پرجا کی کیا بھلائی کرنی ہے۔ اور صوفیا کی تعلیم فرد کی بے وقعتی پر مسلسل اصرار ہے، اب جو اپنے آپ کو بے وقعت سمجھتے ہوں وہ کب حق مانگیں گے، کس کو حق دلائیں گے اور کونسا فرض ادا کریں گے؟
اور بیسویں صدی کے کاملیت پرستوں نے لینن اور ہٹلر سے لے کر خمینی تک تشدد اور غربت کے علاوہ انسانیت کو کیا دیا ہے؟ تاج محل جیسی دو چار چمکتی دمکتی مثالیں باقی سب کچھ غارتگری، اس غارت گری میں فلاح و بہبود دیکھنا ایک دھوکہ ہے جو پچھلے ستر سالوں سے ہم خود کو دیتے آ رہے ہیں۔جب ثقافتیں شہریت اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ترویج سے سنواری جا سکتی ہیں تو ہم میں کیا کمی ہے کہ ہم اپنی ثقافت کی اصلاح نہیں کر سکتے ؟
جب ہم نے جمہوریت کے ذریعے جمہوریت کے لیے ہم نے ایک نیا ملک حاصل کیا تھا تو ہم سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں کہ ہم دنیا بھر کے مسلمانوں کے رہبر بنیں گے، لیکن ہم نے جمہوریت کھو دی اور دوبارہ جمہوریت حاصل کر کے ہم مسلمانوں کی رہبری کا شوق بھی پورا کر سکتے ہیں لیکن اس رہبری کے لیے جمہوریت سے ہمیں مخلص ہونا ہی پڑے گا۔
کاملیت پرستی کا یہی پیغام ہے کہ کروڑوں کو قیدی بنا کر، پامال کرتے ہوئے چند لوگ طاقت اور دولت کو اپنی ذات میں مرتکز کرتے ہوئے اپنے لیے آسائشیں حاصل کر لیتے ہیں، لیکن ان چند لوگوں کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوتا۔ لینن ایک شعلہ فشان مقرر تھا لیکن جب سٹالن اس کی شریک حیات کی توہین کر رہا تھا، لینن قوت گویائی کھو بیٹھا۔
ٹراٹسکی نے جس انقلاب کے لیے بے پناہ ظلم کیے، وہ انقلاب ٹراٹسکی سمیت اس کا سارا کنبہ کھا گیا۔ کامنیف انقلاب لایا تھا لیکن اسی انقلاب کی دشمنی کے الزام میں جان سے گیا۔ بخارین انقلاب کا فلسفی سٹالن سے زندگی کی بھیک مانگتے جعلی ٹرائل کی نذر ہوا۔ اور سٹالن تنہائی میں اپنے تیار کردہ بے دردوں سے اپنی تکلیف کہنے کی ناکام کوشش کرتے مر گیا۔ کاملیت پرستی ایسی ہی ڈائین ہے، اپنوں کو بھی کھا ہی جاتی ہے۔
لیکن کاملیت پرستی ہمارا رستہ نہیں ہے، ہمارا خواب نہیں ہے، ہماری آرزو نہیں ہے۔ ہمارا رستہ، ہمارا خواب، ہماری آرزو قائد اعظم نے طے کر دی تھی اور وہ کاملیت پرست نہیں تھے، وہ جمہوریت سے مخلص ایک شاندار انسان تھے۔ ہمیں ان کی ہی سننی چاہیے کہ اسی میں ہماری بقا ہے، ان شاعروں کی لفاظی میں اپنی تفہیم گم کرنے سے کیا حاصل جن کو جیسے پوٹھوہاری میں کہتے ہیں باجرے کی بھی کچھ خبر نہیں تھی۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.