نواز لیگ ، رعونت سے کسمپرسی تک
تنویر احمد
آج نواز لیگ ایک ’’قابل رحم‘‘ ہجوم کی صورت میں ڈھل چکا ہے جس کی صفوں میں ابھرتا ہوا اضطراب اور انتشار اب زبان زد عام ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک حقیقی اور نظریاتی سیاسی جماعت کے خد وخال پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر متحرک سیاسی جماعتوں میں ویسے ہی خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں اور نواز لیگ تو اس سے قطعی طور پر عنقا سیاسی افراد کا ایک گروہ ہے جو ایک آمر کے سایہ عاطفت تلے پروان چڑھے میاں نواز شریف کی خوشنودی اور وفاداری سے کھونٹے میں بندھا ہوا ہے۔
پی پی پی میں بھی بھٹو خاندان سے وفاداری کے بغیر کوئی چارہ نہیں لیکن پھر بھی ایک نظریے کی پر چارک ہونے کے باعث یہ جماعت بہت عرصہ بہت پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کے بیشتر خصائص اپنے اندر سموئے رہی ۔ آصف علی زرداری کے عنان اختیار سنبھالنے کے بعد اب اس کے نظریاتی خدوخال تاریخ کے سمندر میں غرقاب ہو چکے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری کے ذریعے پی پی پی جس عظمت رفتہ کو پانے کی تلاش میں سرگرداں ہے وہ شاید اب ممکنات میں نہیں۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے نواز شریف کو تو وزارت عظمیٰ سے نا اہل کرنے کے ساتھ ساتھ نواز لیگ کی رعونت پر بھی کچھ اس طرح خاک ڈالی کہ ا ب اس سیاسی ٹولے پر حقیقی معنوں پر رحم آنے لگا ہے۔ اپنی مظلومیت کی دہائیاں دیتے نواز لیگی ترجمان ان کڑے ایام سے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو بچانے کی نا بکار کوششیں کرتے پھر رہے ہیں جو نیب ریفرنسز کی صورت میں ان کے سر پر ہتھوڑے کی طرح برسنے کو ہے۔
نا اہلی کے فوراً بعد میاں نواز شریف نے معصومانہ لہجے میں اقامہ پر وزارت عظمیٰ سے اپنے اخراج پر عدالتی فیصلے کا مذاق اڑایا اور نواز لیگ کے ترجمان با ر بار یہ استفسار کرتے پائے گئے کہ کیس تو پانامہ کا تھا پھر اقامہ پر کیسے میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نا اہل کیا گیا۔
اب جب کہ عدالتی حکم نامے کے تحت نیب نے نواز شریف خاندان کو نیب عدالت میں حا ضری کے نوٹسز بجھوا دیے ہیں اور شریف خاندان حاضری سے گریزاں ہیں تو شعلہ صفت خواجہ سعد رفیق اب شکوہ کناں ہیں کہ شریف خاندان اس سلوک کا مستحق نہیں ہے۔خواجہ سعد رفیق جب جی ٹی روڈ پر اپنی شعلہ بیانی سے مجمعے میں طنز اور تنقید کے گولے برسا رہے تھے تو اس وقت ان کے ذہن سے شاید یہ محو ہو گیا تھا شریف خاندان کے لیے مزید آزمائش ان نیب ریفرنسوں کی صورت میں سر پر لٹک رہی ہے جو عدالت عظمیٰ نے اپنے اٹھائیس جولائی کے حکم نامے میں مرقوم کیا تھا۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں پر آزمائش اور امتحان کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن نواز لیگ اس آزمائش میں جس طرح حواس باختہ ہوچکی ہے وہ عجب ٹھہرا اور اس کی ایک کلیدی وجہ ایک سیاسی جماعت ہونے سے زیادہ ایک خاندان کے مفادات کی آبیاری کے لیے سیاسی افراد کا ایک گروہ ہے جو شریف خاندان کا بن کر اقتدار کے رنگین محلات میں اپنے داخلے کو ممکن بناتا ہے۔
شریف خاندان کا دور ابتلاء اب صحیح معنوں میں شروع ہوا ہے اورنواز لیگ کا اس پر گلہ کرنا جچتا بھی نہیں ہے کیونکہ یہ وہی ادارے ہیں جو ماضی میں آپ کو ریلیف دیتے رہے ہیں۔ اب شریف خاندان اور ان کے وفاداروں کی حالت دیکھ کر ترس بھی آتا ہے کہ پاکستان کے طول و عرض میں سوائے چند فیصد افراد کے ہمدردی کی کسی لہر نے ابھی تک جنم نہیں لیا۔
جی ٹی روڈ کی بے معنی اور فضول ریلی سے میاں نواز شریف چی گویرا یا نیلسن منڈیلا تو نہیں بنے تاہم انہیں اداروں سے تصادم کی سوچ کو ضرور پروان چڑھایا۔ عدالتی بنچ کے اراکین کو بار بار تنقید اور تضحیک کا نشانہ بنا نے کے بعد اب وہ پھر نظر ثانی کے لیے اس بنچ کے سامنے اپنا کیس لے کر پیش ہو چکے ہیں۔ نواز لیگ کے عاقبت نا اندیش مشیران شاید ان کی لٹیا کو مکمل طور پر ڈبونے کی درپے ہیں وگرنہ اس طرح کی حکمت عملی سے گریز کرتے جو ان کے لیے مزید آزمائش کے در وا کردے۔
نواز لیگ کے خوشہ چیں اس خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیں کہ میاں نواز شریف کی ذات میں انقلابی اور نظریاتی خوبیوں کے ایسے نگینے جڑ چکے ہیں جو انہیں انقلابی رہنماؤں کی صف میں کھڑا کرتے ہیں نواز لیگیوں کو ایسی خام خیالی سے پہلے ذرا دنیا بھر کے انقلابی رہنماؤں کی کتاب زیست کے چند اوراق کھنگال لینے چاہئیں کہ انقلابی رہنما کا خمیر جس مٹی سے اٹھتا ہے وہ نواز لیگ اور ان کی قیادت میں نا پید ہے۔
اب نواز لیگ ایک مضطرب اور بے قرار ٹولہ ہے جو نواز شریف کی نیب ریفرنسوں میں پیشی اور اس کے منطقی نتیجے کے حوالے سے خوف و اندیشے کے آسیب کا شکار ہے۔اگرچہ مرکز اور پنجا ب میں نواز لیگ کی حکومت بد ستور موجو د ہے لیکن یہ حکومتیں اس خوف کا ازالہ کرنے سے قاصر ہیں جو اس وقت نواز لیگیوں کو دامن گیر ہے۔ نواز شریف کی رخصتی کے بعد نواز لیگی صفوں میں جو ہلکا ہلکارارتعاش پیدا ہو رہا ہے اس کا آنے والے ایام میں جوار بھاٹے میں بدلنے کا بھر پور امکان موجود ہے۔ کیایہ ارتعاش پارٹی میں کسی بڑے انتشار کا پیش خیمہ تو نہیں اس کے بارے میں بھر پور امکانات موجود ہیں اور اس کے آثار بھی پارٹی کی صفوں میں ہویدا ہیں۔
اپنے آخری دور اقتدار میں پی پی پی اپنے اعمالوں کی وجہ سے راندہ درگاہ ہوئی اور اب نواز لیگ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے معتوب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ موروثی سیاست اور خاندانی اقتدار کے علامات یہ سیاسی جماعتیں اب اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ یہ دونوں سیاسی جماعتیں کلی طور پر اپنا وجود نہیں کھو پائیں گی اور ملک کے مخصوص حصوں میں اپنا وجود رکھنے میں کامیاب ہوں گی لیکن ان کی ملک گیر سطح پر قبولیت شاید اب ممکن نہ ہو پائے۔ شاید ایک نیا عالم جنم لے رہا ہے اس پر سوویٹ شاعر جمبول جابریاد آیا جس نے کہا تھا ع
یہی محشر ہے دو عالم کا تصادم ہے یہی
ایک پرانا عالم
ایک نیا
ایک مرتی ہوئی بڑھیا کا لنگڑاتا پاؤں
ایک ڈھلتی ہوئی چھاؤں
دوسرا ایک ابھرتے ہوئے سینہ کاشاب
تیز اور تند شراب