اب نوازشریف کی واپسی سراب کا تعاقب کرنے کے مصداق ہے
نصرت جاوید
کیوبا کے مہا انقلابی فیڈل کاسترو نے کہا تھا کہ انقلاب درحقیقت ماضی اور مستقبل کے درمیان کش مکش کا نام ہے۔ محض حال کا اسیر بن کر انقلابی سمت کی طرف بڑھا ہی نہیں جا سکتا۔ بہت گہری فلسفیانہ بحث میں الجھے بغیر جو ویسے بھی مجھ ایسے کوتاہ علم کے بس کی بات نہیں، جٹکی زبان میں التجا صرف یہ کرنا ہے کہ گاڑی چلاتے ہوئے سامنے کے علاوہ بیک مرر پر بھی نگاہ رکھنا پڑتی ہے۔ اسے نظرانداز کرتے ہوئے گاڑی چلائیں تو حادثے سے بچنے کا کوئی امکان ہی نہیں۔
اپنے اس دور کی سیاست کو مگر ہم idiot box کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جی ہاں ہمارے بہت ہی آزاد اور بے باک ٹیلی وژن چینلز جن پر ربّ کریم کے فضل سے ایک دو مستثنیات کے سوا عقل کل حق گو خواتین و حضرات براجمان ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہماری صحافت کے یہ صادق و امین ان دنوں اس ملک کی اشرافیہ کے خلاف انقلاب برپا کرنے والوں کو اپنے پھیپھڑوں کے زور سے ہانکا دینے والے غول کی صورت نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
شریف خاندان گزشتہ 30 برسوں سے ہماری سیاست پر کسی نہ کسی طرح مسلط رہا ہے۔ اپنی جوانی کے دنوں میں مجھ ایسے بدنصیب نے بھی ان کے عروج میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ مزاحمت کی ان کوششوں کی بدولت کچھ اذیتیں بھی سہنا پڑیں۔ ایک بات بالآخر سمجھ آ گئی کہ دو ٹکے کے رپورٹر کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ اشرافیہ باہمی رفاقتوں اور اختلافات کے بارے میں حتمی فیصلے خود ہی کیا کرتی ہے۔ ہم ان میں سے کسی ایک فریق کے محض آلہ کار کے طورپر استعمال ہونے والے منشی یا بھاشن فروش ہوا کرتے ہیں۔
12 اکتوبر 1999ء ہوا تو ہمارے ملک میں مٹھائیاں بٹیں۔ بی بی سی جیسے جید کہلاتے عالمی صحافتی ادارے نے نواز شریف کے زوال کے اسباب بیان کرنے کے لیے ایک خصوصی ڈاکومنٹری تیار کی۔ اس ڈاکومنٹری میں نواز شریف کے ”عبرت ناک انجام“ کے بارے میں ہمارے کئی نامور صحافی بھی بہت شاداں دکھائی دیئے۔ ان میں سے چند نواز شریف کے تیسرے دور میں ان کے کافی چہیتے قرار پائے۔ میں ان کے نام لے کر ایک فروعی بحث میں الجھنے کو البتہ ہرگز تیار نہیں ہوں۔
انگریزی اخبارات کے لیے میں 1985ء سے قومی اسمبلی کے اجلاسوں کی کارروائی کے بارے میں پریس گیلری کی نگاہ سے 2006 تک ایک کالم لکھتا رہا ہوں۔ نواز شریف کے دونوں ادوار میں ان کے طرزِ حکومت کا شدید ناقد رہا۔ جنرل مشرف نے جب فوجی ٹیک اوور کے ذریعے انہیں فارغ کیا تو نئے بندوبست کے کئی اہم لوگوں نے مجھ سے رابطے کئے۔ انہیں گماں تھا کہ میں نواز شریف کو ”عبرت کا نشان“ بنانے کی کوشش میں ان کا سہولت کار بن سکتا ہوں۔ اپنی اوقات کو خوب پہچانتے ہوئے میں لیکن انہیں غچہ دے کر کونے میں دہی کھانے میں مصروف ہو گیا۔ گوشے میں قفس کے مجھے اب آرام بہت ہے۔
اس کالم میں قارئین مگر مجھ سے محض سیاسی موضوعات پر لکھنے کی توقع رکھتے ہیں۔ گوشہ قفس میں خاموشی سے بیٹھے رہنا لہٰذا ناممکن ہو جاتا ہے۔ کچھ نہ کچھ کہنا مجبوری ہے کیونکہ سیاست پر لکھنے سے میرا رزق وابستہ ہے۔ مجھے لکھنے کے سوا اور کسی ذریعے سے رزق کمانا آتا ہی نہیں۔ عمرکے اس حصے میں بھی پہنچ چکا ہوں جہاں رزق کمانے کا کوئی اور ہنر سیکھنے کے امکانات بھی معدوم ہو چکے ہیں۔
یہ بات دیوار پر لکھی تحریر کی صورت عیاں ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے ”گاڈ فادر“ قرار دئیے جانے کے بعد اب شریف خاندان کو جسے اس عدالت نے ”سسیلین مافیا“ بھی کہا تھا ہماری ریاست کے دائمی اداروں کے پاس عبرت کا نشان بنانے کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں رہا۔ پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیراعظم کو ”اقامہ“ کی حقیقت نہ بتانے کے جرم میں صادق اور امین نہ پاتے ہوئے نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا۔ نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر واپسی کا امکان تلاش کرنا سراب کا تعاقب کرنے کے مترادف ہے۔
اس نااہلی کے بعد شریف خاندان کا مقدر بدعنوانی کے الزامات کے تحت چلائے وہ مقدمات ہیں جنہیں سپریم کورٹ کے ایک معزز رکن کی براہِ راست نگرانی میں احتساب بیورو نے تیار کر کے احتساب عدالتوں کے روبرو پہنچانا ہے۔ اِن مقدمات کو نمٹانے کے لیے 6ماہ کے مدت بھی طے کر دی گئی ہے۔
ریاست کے دائمی اداروں میں بیٹھے نواز مخالفین کی اب یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ ان مقدمات کی تیاری پر مبذول رکھیں۔ اپنے ساتھ ”زیادتی“ کا بیانیہ شریف خاندان کے بھی کسی کام نہیں آئے گا۔ ان کی پہلی اور آخری ترجیح بھی بدعنوانی کے الزامات کے تحت قائم ہوئے مقدمات کے بھرپور قانونی دفاع کی تیاری ہونا چاہیے۔
ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے شریف خاندان اور اس کے مخالفین اس کے علاوہ جو بھی راستہ اختیار کریں گے وہ انگریزی زبان والے X-Factors کی طرف لے جائے گا۔ دیوار سے لگے نواز شریف کے پاس فی الوقت کھیلنے کو کوئی X-Card نہیں ہے۔ خدشہ مجھے یہ لاحق ہے کہ شریف خاندان کو عبرت کا نشان بنانے کے جنون میں نواز مخالفین کہیں پنجابی محاورے والے ”زیادہ مٹھا“ نہ ڈال دیں۔ ایسا ”مٹھا“ جب بھی ریاست کی جانب سے ڈالنے کی کوشش ہوئی تو معاملات الٹ ہو گئے۔ لینے کے دینے پڑ گئے۔
سپریم کورٹ سے نواز شریف کی نااہلی کے بعد ہمارے ہاں ”تاریخ میں پہلی بار“ کے چرچے بھی بہت ہیں۔ یہ چرچا کرتے وقت شاید ہی کسی کو یاد رہا ہو کہ ایک زمانے میں نیشنل عوامی پارٹی نام کی ایک جماعت بھی ہوا کرتی تھی۔ خان عبدالولی خان اس کے سربراہ تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس جماعت کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک باقاعدہ ریفرنس پیش ہوا تھا۔اس ریفرنس کے ذریعے طے یہ ہوا کہ ولی خان اور ان کی جماعت ”غدار“ ہے۔ وہ پاکستان توڑ کر افغانستان اور بھارت کی معاونت سے پشتونستان قائم کرنا چاہتی ہے۔ صرف خان عبدالولی خان ہی نہیں ان کی پوری جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے لہٰذا نااہل قرار دے دیا گیا۔
نااہلی کے اس فیصلے کے بعد حیدر آباد ٹربیونل قائم ہوا۔ اس کے روبرو نیشنل عوامی پارٹی کے بے شمار قائدین پر بغاوت کے سنگین الزامات کے تحت مقدمات چلا کر انہیں عبرت کا نشان بنانا تھا۔ خان عبدالولی خان اور ان کے ساتھی مگر اپنے طے شدہ انجام تک نہ پہنچ پائے۔ 4 جولائی 1977ءہوا تو جنرل ضیاءالحق نے انہیں جیلوں سے رہا کر کے ان کے خلاف مقدمات ختم کر دیئے۔ 90 دنوں میں انتخابات کروانے کے بجائے بھٹو اور پیپلز پارٹی کے احتساب کا فیصلہ ان مقدمات کے خاتمے کے بعد ہی ہوا تھا۔ عبرت کا نشان بالآخر نیشنل عوامی پارٹی کے سرکردہ رہ نما نہیں تارا مسیح کے ہاتھوں محض بھٹو ہی پھانسی لگوا کر بنائے گئے۔
نواز شریف کے حوالے سے اب ”مٹھا“ زیادہ ڈالنے کی کوشش ہوئی تو طویل المدتی تناظر میں معاملات یقیناً ویسے نہیں رہیں گے جو ان دنوں ہمیں نظر آ رہے ہیں۔ ”گاڈ فادر“ کو اگر گھیر لیا گیا ہے تو توجہ صرف اور صرف ان مقدمات کو بھرپور انداز میں تیار کرنے اور اس انداز میں چلانے پر دینا ہو گی جہاں انصاف ہوتا ہوا بھی نظر آئے۔ اپنے صحافتی سفر کو جاری رکھتے ہوئے بیک مرر پر نگاہ رکھتے ہوئے فی الوقت میں صرف یہ رائے دینے پر اکتفا کر رہا ہوں۔
بشکریہ: nawaiwaqt.com.pk