جولائی 5′ 1977 اور نوازشریف کا ام الجرائم
(محمد سعید اظہر)
5جولائی 1977! آج اس تاریخ کی 40 ویں برسی ہے۔ 40 ویں برسی کا ایک نمایاں اور مضبوط ترین استعارہ 10جولائی 2017 ہے جب عدالت عظمیٰ پاکستان کی قائم کردہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے منتخب وزیراعظم کے تناظر میں متعدد مختلف ایشوز پر اپنی حتمی تفتیشی رپورٹ سپریم کورٹ کی خدمت میں پیش کرنی ہے۔ یہ منتخب وزیراعظم جناب نواز شریف ہیں جنہیں چندروزقبل ایک برادر عزیز کالم نگار نے انہی صفحات پر ’’میاں نوازشریف کا ام الجرائم‘‘ کے ترازو میں تول کر پاکستانیوں کو ان کے وزن اور اس کے اثرات سے آگاہی دی ہے!
5جولائی 1977! وجاہت مسعود نے اسے ایک اور جہت سے یاد کیا۔ اپنی یادداشتوں کے بہی کھاتے میں سے 1857کی جنگ ِ آزادی کا صفحہ نکالا اور اس کی آخری سطر کے آگے بریکٹ ڈال کر 5جولائی 1977لکھ دیا۔ حقیقت ہی سہی مگر حیرت کی نوعیت بہرحال نئی ہے۔ ان کا بیانیہ ذہنی افق پر بجلی کی کوند بن کے لپکا۔ ہم کہاں کے اتنے صابر اور متوزن، ابھی تک ان کے اس بیانئے کے لفظوں نے واقعی حسرتوں کی قیامت ِ صغریٰ برپا کر رکھی ہے۔ آپ بھی کالم نگار کے ساتھ شیئر کرلیں، لکھتے ہیں:’’تمہید طولانی ہوگئی مگر یہ تو بتایا ہی نہیں کہ جنگ ِ آزادی کا ذکر کدھر سے چلا آیا۔ ٹھیک 160برس پہلے جولائی 1857کے پہلے ہفتے میں دہلی کامحاصرہ شروع ہوا تھا جو 21ستمبر 1857تک چلا۔ ٹھیک 120برس بعد 5جولائی 1977کو پاکستان کی پہلی منتخب حکومت ختم کردی گئی تھی۔ یہ محاصرہ گیارہ برس تک جاری رہا، ٹھہریئے، کیا یہ محاصرہ واقعی ختم ہو گیا؟ اور یہ بھی کہ کیا ہم نے 1947میں آزادی کی لڑائی جیت لی تھی؟‘‘
وجاہت مسعود ہی کو نہیں تمام پاکستانیوں کو اس سوال کا جواب درکار ہے۔ یہ جواب نہ ملنے سے آج پاکستانیوں کے مقدس ترین حق رائے دہی کی بنیاد پر قومی منتخب نمائندے کے ساتھ ’’ام الجرائم‘‘ کا اصطلاحی لاحقہ استعمال کرنے کی غیرمہذب جرأت کا مظاہرہ کیا جاسکا ہے چنانچہ ان کے اٹھائے گئے سوال کا جواب ہمیں 5جولائی 1977کی صدائے بازگشت پر دھیان دینے کی ناگزیریت کا احساس دلاتا ہے!
پاکستان کی زندگی میں 5جولائی وہ تاریخ ہے جس کی صبح پاکستانیوں کے لیے سحر نہیں قہر کا سورج لیے طلوع ہوئی۔ 5جولائی 1977کی شب جنرل (ر) ضیاءالحق کا فوجی شب خون پاکستان میں ’’قانون، تہذیب، آرٹ، ادب، شاعری حتیٰ کہ انسانیت کا قتل تھا‘‘ گزرے 40برس اس قول کا تصدیق نامہ وطن کے ہر ذرے پر ثبت کرتے رہے!
سوویت یونین فتح ہوا یا نہیں؟ دہلی کے لال قلعے پر جھنڈا لہرایا یا نہیں؟ پاکستان کے عام آدمی کے پاس اس سوال کا جواب تو نہیں مگر وہ اپنی زندگی میں پاکستان کی دھرتی پر انسانوں کے اجتماعی لہو کی اجتماعی ارزانی قبول کر چکا، ’’مقدس افراد اور گروہوں‘‘ نے نارمل زندگی کے لیے ہر لمحے کو اس کی فطری جبلت اور ساخت میں برباد کرکے رکھ دیا۔ اب یہاں صرف قتل کا بازار گرم ہے۔ 5جولائی 1977کی آمد پر ذوالفقار علی بھٹو نے بہت کچھ کہا تھا، پاکستان کا چہرہ ان کے افکار کے آ ئینے میں دیکھنے کی کوشش کریں۔ آج 40 برس بعد اس پاکستان کو پہچاننے کے سفر پر نکلیں!!
ذوالفقار علی بھٹو کا کہنا تھا:’’بگاڑ کا یہ عمل 5جولائی 1977کو شروع نہیں ہوا تھا بلکہ اس کا آغاز اس وقت ہو گیا تھا جب اکتوبر 1954کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کیا گیا تھا۔ پاکستان کی وفاقی عدالت نے اسمبلی کی تحلیل کواس مبہم عمومی سچائی پر جائز قرار دے دیا کہ لوگوں کی فلاح و بہبود ہی اعلیٰ ترین قانون ہے….. حالات بڑی سنگدلی کے ساتھ حتمی تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس کا انجام انتہائی بھیانک بھی ہوسکتا ہے۔ اسپین بھی اس طرح کے تصادم سے دوچار ہوچکا ہے لیکن ہسپانوی عوام کو اس وقت کی یادیں ایک ڈراؤنے خواب کی طرح آج بھی ڈراتی ہیں۔اسپین آج بھی ان زخموں کی وجہ سے لڑکھڑا رہا ہے۔ مغربی مورخ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسپین سے اسلام کا نام مٹانے میں فرڈیننڈ اور ازابیلا کا ہاتھ ہے۔ اسلام اپنے غرناطہ تک اس وجہ سے پہنچا کہ مسلم دشمن نے غداری کی اور اس کے خلاف حد سے کام لیا تھا۔ اسپین پاکستان کو دو طرح سے انتباہ کرتا ہے۔ ان میں سے ایک انتباہ فوج اور عوام کے درمیان متوقع تصادم کے بارے میں ہے اور دوسرا اس اسلامی ریاست کے خاتمے سے متعلق ہے۔‘‘
5جولائی 1977، ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخ کے مزید اوراق پلٹے۔ انہوں نے پوچھا ’’جب ہم ’’اعلیٰ اور طاقتور لوگوں‘‘ کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو یہ پوچھنا بے جا نہ ہوگا کہ اس وقت ان جیسے ’’اعلیٰ اور طاقتور لوگوں‘‘ کے ساتھ کیا ہوا تھا کہ انہوں نے پاکستان کے جاں بلب خالق کو ماری پور میں شدید گرمی میں تین گھنٹوں تک ایک ناکارہ ایمبولنس میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا تھا۔ قائداعظمؒ کے معالج کرنل الٰہی بخش نے ان کے آخری ایام کے بارے میں جو اپنی کتاب میںتحریر کیا اس کتاب کو آخر کس لیےممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ ان ’’اعلیٰ اور طاقتور‘‘ لوگوں کے ساتھ کیا ہوا جنہوں نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل کرنے کی سازش تیار کی اور جنہیں راولپنڈی میں ایک عوامی جلسے کے دوران گولی ماردی گئی؟ اس پولیس افسر کو جس نے قاتل کو گولی ماری تھی اسے ترقی سے کیوں نوازا گیا؟ اسے ترقی کےانعام سے اس لیے نوازا گیا کیونکہ مُردے کبھی بولا نہیں کرتے…..میں یہ بھی جاننا چاہوں گا کہ وہ جرنیل جنہوں نے یہ موجودہ فوجی حکومت بنائی ہےاس وقت اتنے پریشان کیوں ہوگئے تھے جب مجیب الرحمٰن نےدھمکی دی تھی کہ وہ ڈھاکہ میں جنگی مقدمات شروع کرے گا۔ یہ جرنیل اتنےکیوں پریشان تھے کہ ان مقدمات کی کارروائی شروع نہ کی جائے….. میرے پاس پوچھنے کے لیے کئی مدلل سوالات موجود ہیں، ان سوالوں کو پوچھنےکا وقت بھی آئے گا، اگر مجھے پھانسی د ےکر قتل کردیا گیا تو پھر یہ سوالات اور اونچی آوازوں میں پوچھے جائیں گے، جب تک ان سوالوں کے جوابات نہیں مل جاتے ملک میں شور و غل، گڑبڑ، تصادم اور آتشزدگی رہے گی!‘‘
5جولائی 1977، وہیں موجود ہے، 1857 میں بھی کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ 1947میں آزاد ہوئے یا نہیں؟ ذوالفقار علی بھٹو یہ سوالات نہ پوچھ سکے مگر وقت شوروغل، گڑبڑ، تصادم اور آتشزدگی کی شکلوں میں ان سوالات کا جواب دے رہا ہے۔5جولائی 1977پاکستان میں قانون اور تہذیب کا قتل تھا، 4اپریل 1979کو اس قتل کی لاش لاڑکانہ لے جائی گئی۔17اگست 1988کو جنرل ضیا ء کی ہلاکت نے وقت کی جہت میں اپنے جواب کی صرف ایک پرت اتاری تھی۔ آج چالیس برس گزرنے پر بھی وقت تہذیب و قانون کے اس قتل کی پرتیں کراچی سے پاراچنار تک اتار رہا ہے مگر اعلیٰ اور طاقتور لوگوں کی ذہنی فلم سے متفق فلمی ناظرین کے تسلسل میں بھی رتی بھر فرق نہیں پڑا اور منتخب وزیراعظم کا ’’ام الجرائم‘‘ کے عنوان سے 5جولائی 1977کے ’’آئینی شب خون‘‘ کی مردہ صدائے بازگشت کو زندگی دینے کا وہ عمل جاری ہے جس پر پاکستانیوں کی روح کے زخموں کا کوئی شمار نہیں!
غیر مہذب جرأت کا اظہاریہ منتخب وزیراعظم کے فیصلے پر اس کےماتحت ریاستی اہلکار کے الفاظ ’’یہ مسترد کیا جاتا ہے‘‘ کو قانونی خلاف ورزی کے بجائے اداروں کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کی دلیل کے طور پر سامنے لاتا ہے، کیا یہ بہتر نہیں تھا قائداعظمؒ کے اس پہلےاجلاس کی کارروائی کو بھی اپنے دلائل کی دنیا میں بسا لیاجاتا جب انہوں نے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا ریاستی نصب العین حکومت کے زیر احکامات اپنے فرائض کی بجا آوری قرار دیا تھا خواہ کوئی بھی حکمران ہو انہیں کسی اور دائرے میں قدم نہیں رکھنا ہوگا بلکہ انہیں ایسا سوچنے کی بھی اجازت نہیں۔ کیا 1958، 1969 اور 1977نے نواز شریف کے پیدا کردہ ادارتی کشمکش سے جنم لیا تھا؟ کیابی بی شہید کی منتخب حکومتوں کو چلتا کرنے میں نواز شریف فیصلہ کن عنصر تھا؟لگے ہاتھوں سقوط ِ مشرقی پاکستان کے المیے میں بھی نواز شریف سے منسوب شدہ میڈیا ٹرائل کے بہ عنوان ’’اداروں سے تصادم‘‘ کو شامل کرلیں جب ٹارگٹ میں آئین کی چھتری اور عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ حکومتیں اور وزرائے اعظم ہیں تب کوئی بھی معقولیت اہتمام کی بھینٹ چڑھائی جاسکتی ہے!
کالم کی گنجائش تمام ہوئی مگر گفتگو ابھی جاری ہے!