نواز شریف اور نظامِ عدل
ظفر محمود
پاکستان کے نظام عدل سے میری شناسائی اُس وقت ہوئی جب سکول جانا بھی شروع نہیں کیا تھا۔ چند ہفتوں کے وقفے کے بعد، یہ معمول تھا کہ برتن ٹکرانے کی آواز سے آنکھ کھل جاتی۔ چادر سے سر نکال کر دیکھتا تو اندھیرے میں والدہ کھانا بنا رہی ہوتیں۔ عارف والا شہر کے اندر جس احاطے میں ہمارا گھر تھا اُس کے دو دعویدار اور بھی تھے۔ تینوں فریقین کا مقدمہ بحالیات عدالت، لاہور میں زیرِ سماعت تھا۔ چار پانچ ہفتوں کے بعد پیشی کی تاریخ آتی تو مقدمے کی پیروی کے لیے والد صاحب رات دو بجے گھر سے نکلتے۔ سفر شروع کرنے سے پہلے والدین کے درمیان سرگوشیوں میں گفتگو ہوتی۔ دونوں سر جوڑ کر دعائیں مانگتے کہ اس دفعہ عدالت فیصلہ کر دے۔ بستر میں لیٹے ہوئے میں بھی ہاتھ اُٹھا کر خاموشی سے دُعا میں شامل ہو جاتا۔ عدالت میں پیشی کے بعد والد صاحب واپس آتے تو عام طور پر یہی اطلاع ملتی کہ کیس سنا نہیں گیا اور نئی تاریخ مل گئی ہے۔ وجہ عموماً یہی ہوتی کہ جج صاحب مصروف تھے یا وکیل دستیاب نہ ہوا۔
مالی مشکلات کا تجربہ ہر ذہن پر ناخوشگوار اثر چھوڑتا ہے۔ والدین آمدن اور اخراجات میں توازن قائم کرنے کی ہمہ وقتی کوشش میں مصروف رہتے۔ ہر دفعہ نئی تاریخ پیشی، وکیلوں کی بڑھتی فیس، منشیوں کی چھینا جھپٹی اوراہلکاروں کی نذرانہ طلبی کے قصے سن کر عدالتی نظام کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوا۔ لمبی مقدمہ بازی ہمارے گھرانے کے معاشی بوجھ میں مزید اضافہ کرتی رہی۔ یہ ناگوار معمول بچپن سے شروع ہوا اور پچیس سال بعد فریقین کے باہمی سمجھوتے پر ختم ہوا۔
انہی تلخ یادوں کے ساتھ ڈی ایم جی گروپ میں شامل ہوا۔ اُن دنوں عدالتی فرائض بھی ذمہ داری کا حصہ تھے۔ اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی عدالتی کرسی پر بیٹھا تو اپنے گھرانے کا ذاتی تجربہ ذہن میں گھومنے لگتا۔ ہمیشہ کوشش کی کہ بغیر معقول وجہ کے مقدمے کی سماعت میں توسیع نہ دی جائے، مگر اکیلا آدمی بوسیدہ نظام کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے۔ تکلیف دہ حقیقت ہے کہ انصاف کا طلبگار نظام عدل کے ہاتھوں مسلسل خوار ہوتا ہے۔عدالت کوئی بھی ہو‘ ہر جج کے پاس روزانہ چالیس پچاس مقدمے پیش ہوتے ہیں۔ زیادہ تر مقدموں میں بغیر کسی کارروائی کے نئی تاریخ مل جاتی ہے۔ اور اگر وقت ہو بھی تو کبھی جج صاحب کا موڈ نہیں ہوتا اورکبھی وکیل کسی دوسرے کام میں مصروف۔ لاکھوں لوگ ہر صبح پاکستان کے کونے کونے سے کچہریوں میں آتے ہیں۔ نظامِ عدل کا چہرہ دیکھنا ہو تو ایک دن کسی تحصیل یا ضلعی ہیڈ کوارٹر کی کچہری میں گزاریں۔ انصاف کے متلاشیوں پر زندگی بہت بھاری ہے۔نہ بیٹھنے کے لیے سایہ، نہ پانی کا انتظام۔ کھچا کھچ بھرے ہوئے کمرۂ عدالت میں دن بھر انتظار اور پھر ایک نئی تاریخ پیشی۔
انگریز کی آمد سے پہلے ہماری دیہی اور قبائلی معاشرت میں پنچایت، جرگہ اور برادریوں کے فیصلے ہمیشہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتے تھے، مگر نتیجہ فوراً مل جاتا۔ نئی قانون سازی ہوئی اور وکالت کا انتظام و انصرام وکلاء کی نمائندہ تنظیموں کے سپرد کر دیا گیا۔ معیار تعلیم کی شرط، عدالت میں مقدمہ لڑنے کی تربیت اور وکلا کے لیے لائسنس کا اجراء انہی کی نمائندہ تنظیموں کے سپرد کر دیا گیا۔ مگر بد قسمتی سے اختیارات کے استعمال میں اعلیٰ معیار قائم نہ ہوئے۔ آہستہ آہستہ نظامِ عدل کا چہرہ بگڑ گیا۔ آج یہ حال ہے کہ کہ زیادہ تر مقدمے بازی حصول انصاف کے لیے نہیں بلکہ کسی ناانصافی کو دوام بخشنے کے لیے ہوتی ہے۔ وکلاء میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو مقدمات کو لٹکا دینے کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اُن کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاور کلچر کے اثرات ہر ادارے میں سرایت کر چکے ہیں۔ اب قاضی بھی دیرینہ اور الجھے ہوئے مقدمات میں سر کھپانے کی بجائے اُن معاملات کو ترجیح دیتا ہے جو انتظامی اختیارات سے متعلق ہوں۔ سیاسی معاملات نے جوق در جوق عدالت کا رُخ کیا تو بتدریج مدعی سے ضروری سوال پوچھنے کا رواج ختم ہوگیا۔ یہ سوال ضرور پوچھے جانے چاہئیں کہ کیا مدعی کے پاس استحقاق ہے؟ کیا اُس کے ہاتھ صاف اور مقدمہ دائر کرنے کا قانونی جواز دستیاب ہے؟
عدالتی نظام کی زبوں حالی پر دل کڑھتا تھا مگر چند دن پہلے پرانے زخم پھر تازہ ہوئے۔ ذمے دار نواز شریف ہیں۔ اُنہوں نے پرانے گھاؤ کو چھیڑا تو ٹیس اس قلم میں منتقل ہو گئی۔ عہدے سے سبک دوشی کے بعد سابق وزیرِ اعظم نے لاہور میں خطاب فرمایا۔ مستقبل کے لیے ایک نئے عزم کا اظہار ہوا۔ قوم کو خوشخبری سنائی کہ اب وہ عدالتی نظام میں ایسی تبدیلی لائیں گے کہ ہر مقدمے کا حتمی فیصلہ نوے دن کے اندر ہو جائے۔ اِس ارادے کا اظہار ہوا تو یہی شعر ذہن میں آیا :
مجھے بار بار ستم گرو نہ نویدِ فصلِ بہار دو
وہی اِس فریب میں آئیں گے جو جئیں گے فصلِ بہار تک
پھر یہ سوچ کر ایک موہوم امید دل میں جاگی کہ فوری انصاف سے نواز شریف کا عشق بہت پرانا ہے۔ جو شخص اخبارات کا مطالعہ کرتا رہا ہو، اسے اندازہ ہو گا کہ نواز شریف بطور وزیراعلیٰ پنجاب اور پھر وزیرِ اعظم پاکستان‘ ہمیشہ ایسے طریقہ کار کی تلاش میں رہے جو خطرناک مجرموں کو فوری سزا دلوا سکے۔ 1980ء کی دہائی میں انہوں نے خصوصی عدالتیں قائم کیں اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ایک قابل افسر کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ پنجاب میں مقدمات کی سماعت پر نظر رکھے اور ہر شام اُنہیں رپورٹ کرے۔ پرائم منسٹر بن کر بھی اپنے تینوں ادوار میں اُنہوں نے خصوصی اور فوجی عدالتیں قائم کیں۔ جمہوریت پسند سیاسی حلقوں کو ان فیصلوں پر تحفظات تھے مگر نواز شریف ثابت قدم رہے۔ قدرت کی ستم ظریفی تھی کہ جنرل مشرف نے حکومت کا تختہ الٹا تو نواز شریف کی قائم کی ہوئی خصوصی عدالت میں اُنہی کے خلاف ہائی جیکنگ کا کیس چلا۔ مگر فوری انصاف کی تمنا اتنی شدید ہے کہ تیسری بار وزیرِاعظم بن کر بھی خصوصی عدالتوں سے نواز شریف کی لگن میں کوئی کمی نہیں آئی۔
سابق وزیر اعظم نے نظام انصاف کو بدلنے کی نیت ظاہر کی ہے، یہ بہت خوش آئند خبر ہے۔ مجھے ہمیشہ سے خوش گمانی کا لاعلاج مرض لاحق رہا ہے۔ وزارت عظمیٰ سے سبک دوشی کے بعد اگر نواز شریف سنجیدگی سے اس ارادے کی تکمیل میں جُت گئے اور کامیاب ٹھہرے تو اِس ملک کے لوگوں پر ایک احسان عظیم کریں گے۔
سیاست دان عموماً اپنے وعدے بھول جاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ بھی بھول جاتے تھے، مگر اب لوگوں کو یاد دلانے کے لیے ایک نیا کھلاڑی میدان میں وارد ہو چکا ہے۔ اُس کے پاس ہر بات کا ریکارڈ ہے۔ پہلے تو چند اینکر اس کام کے ماہر تھے، اب اُن کی تعداد بڑھ چکی ہے۔ ٹیلی وژن سکرین پر میدانِ حشر بپا ہوتا ہے۔ زبان، گم گشتہ وعدوں کی گواہ بن جاتی ہے۔ شرمندہ کرنے کے لیے سیاست دانوں کے سالوں پرانے دعوے اُن کو سامنے بٹھا کر سنائے جاتے ہیں۔ اب سیاست میں حسرت موہانی کے اس شعر کی افادیت بہت کم ہو چکی ہے:
اُمید تو بندھ جاتی، تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے، وعدہ تو کیا ہوتا
اگر نواز شریف نظام عدل کو بدلنے میں سنجیدہ ہیں تو فوری پیشرفت نظر آنی چاہیے۔ ماہرین کی ٹیم تشکیل دی جائے۔ نظام عدل میں بہتری کے لیے گزشتہ رپورٹوں کا جائزہ لیا جائے۔ تمام شراکت داروں سے مشاورت کا عمل فوراً شروع ہو۔ عدالتی نظام میں تبدیلی لانا آسان نہ ہو گا، خاص طور پر دیوانی مقدمہ بازی میں۔ تمام متعلقہ افراد اور اداروں سے مشورہ کرنے کے بعد احتیاط سے ترتیب دیا ہوا لائحہ عمل، پارٹی منشور کا حصہ بنا کر آئندہ الیکشن میں عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ اِس تبدیلی کے لیے عوامی تائید حاصل ہو گی تو قدم اعتماد کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔
نواز شریف تین دفعہ وزیر اعظم بنے۔ مستقبل میں کیا ہو گا اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ مگر تاریخ میں امر ہونے کے لیے وزیراعظم کا منصب ضروری نہیں۔ زندگی میں یہ موقع کبھی بھی نصیب ہو سکتا ہے۔ شکسپیئرنے جولیس سیزر میں لکھا۔ (There is a tide in the affairs of men….) ۔ اگر سابق وزیر اعظم کے ذہن نے اِس مکالمے کی روح کو اپنے اندر جذب کر لیا تو وہ تاریخ کے اِن مہربان لمحوں کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیں گے۔
بشکریہ: روزنامہ دنیا