نواز شریف، اپنے خلاف فیصلہ خود ہی لکھا آپ نے
از، تنویر احمد
اڑتے تیر کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرکے گھائل ہونے کا شوق ہو یا پڑی لکڑی سے ٹھوکر کھا کر زخمی ہونے کا خبط۔ آ بیل مجھے مارنے کا سودا سر میں سمایا ہو یا پھر بم کو لات مار کر اپنے آپ کو ہلاکت خیزیوں کے حوالے کرنا ہو یہ تمام ’’خصائص‘‘ میاں نواز شریف میں بدرجۂِ اتم پائے جاتے ہیں۔ یار لوگ اگر ان کے بارے میں ابھی بھی کسی خوش فہمی کا شکار ہیں تو وہ ان کا تازہ ترین ارشاد ملاحظہ کرلیں جس میں موصوف نے بمبئی حملوں کی بابت غیر ریاستی عناصر کے ساتھ ساتھ ریاست کو بھی مُوردِ الزام ٹھہرا دیا۔
میاں صاحب کی چاہت میں مبتلا ’’مریضان عشق‘‘ لازماً ان کے اس بیان میں بھی فہم و فراست کے گوہر نایاب ڈھونڈنے کی سعی لاحاصل کریں گے۔ ان عشاق کی تو خیر بات نرالی ہے کہ کل کلاں سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکلنے لگے تو وہ قانون قدرت میں اس رد و بدل کو بھی میاں صاحب کے سر سجانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔
ایک طبقہ وہ بھی ہے جو آج کل میاں صاحب کی ’’جمہوریت پسندی‘‘ کے وارے صدقے ہوئے جا رہا ہے۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو آزاد خیال، روشن خیال اور خد ا جانے کون کون سے نظریات کا اپنے آپ کو پیرو کار بتلاتے ہیں۔ یہ طبقہ اس بات پر رنجیدہ خاطر ہے کہ میاں صاحب نے کچھ ایسا نہیں کہا کہ جس پر طوفان اٹھا دیا جائے یا پھر کچھ کے نزدیک میاں صاحب نے جس موضوع پر لب کشائی کی وہ غلط نہیں ہے۔ ان کے نزدیک یقیناً ایسا ہی ہوا ہو گا۔
میاں نواز شریف سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ ان کے بارے میں یہ عمومی تاثر ہے کہ وہ مبہم بات کرتے ہیں تاکہ بات فریق مخالف تک پہنچ بھی جائے اور وہ پکڑے بھی نہ جائیں۔ اب ممبئی حملوں والا معاملہ ہی لے لیں۔ میاں صاحب نے ایک سوالیہ انداز میں بات کر کے کنی کترانے کی کوشش کی لیکن خدا غارت کرے بھارتی میڈیا کو جس نے اس سوالیہ جملے پر کچھ ایسی رنگ آمیزی کی کہ میاں صاحب اس بات پر دھر لیے گئے۔ ممبئی حملوں کے بارے میں لا تعداد کہانیاں گردش کرتی رہی ہیں اور آئندہ برسوں میں بھی اس سے جڑے بہت سے حقائق اور افسانے منظر عام پر آتے رہیں گے لیکن میاں نواز شریف کی اس پر کچھ یوں لب کشائی جچتی نہیں کہ جو ملک کے لیے نئے مسائل کا موجب بنے۔
بلاشبہ موجود ہ دور میں احتساب کے شکنجے میں جکڑے جانے پر وہ شِکوہ کِناں ہیں اور وہ اسے انتقامی کارروائی اور خلائی مخلوق کی کارستانی سمجھتے ہیں۔ اداروں کے بارے میں ان کی لہجے میں بڑھی ہوئی تلخی قابل فہم ہے کہ جس طرح وہ کردہ و ناکردہ گناہوں کی پاداش میں عدالتوں میں پیشیاں بھگتنے پر مجبور ہیں اس میں کچھ صداقت بھی ہو سکتی ہے۔
اداروں کے مابین لڑائی ہمارے ہاں کا پرانا عارضہ ہے لیکن اداروں سے شکوہ کناں ہونے پر ریاست کو ہی رگید ڈالنا کہاں کی عقل مندی و دانش مندی ٹھہری۔ بلاشبہ پاکستان میں سرگرم غیر ریاستی عناصر نے اس خطے میں آگ بھڑکانے میں ایک منفی کردار ادا کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان غیر ریاستی عناصر نے ہمارے قومی وجود کو بھی چرکے لگائے کہ اس ملک کا چپہ چپہ، کونہ کونہ انسانی خون کے چھینٹوں سے داغ دار ہے۔ میاں نواز شریف اس ملک کے تین بار وزیر اعظم رہے۔ ملک کے انتظامی سربراہ ہونے کے ناتے وہ’’محرم راز درون مے خانہ‘‘ رہے ہیں۔
مزید ملاحظہ کیجیے: مائنس تھری، مائنس فور یا اس سے بھی آگے کچھ اور۔۔۔
درون خانہ کیا کیا ہنگامے برپا ہوتے ہیں یہ ملک کے عوام اور بیرون ملک والوں کے لیے پردہ اور اخفاء میں ہوتے ہیں۔ اس ملک کے ریاستی اداروں میں موجودہ عناصر بھی اگر کسی سازش میں ملوث ہوتے ہیں تو انتظامی سربراہ کو ملک کو بدنامی سے بچانے کے لیے تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کا ر لانا ہوتا ہے۔ یہ ذمہ داری فقط وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھے رہنے تک نہیں نبھانی ہوتی بلکہ انتظامی سربراہ کا سینہ ایسے رازوں کا مدفن ہوتا ہے جو اس کے ساتھ قبر میں جا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تہہ خاک ہو جاتے ہیں۔
میا ں نواز شریف اقتدار سے رخصتی اور احتساب کے مرحلے میں سختیاں جھیلنے سے تھک چکے تو ان کے تواتر سے ایسے بیانات پر منظر عام پر آنا شروع ہو گئے جس میں وہ دھمکی آمیز لہجے میں لب کشائی کرتے ہوئے پائے گئے کہ ان کے سینے میں بہت سے ایسے راز موجود ہیں جو وہ مناسب موقع پر افشاء کریں گے۔ یہ دھمکی کچھ یوں تجسیم ہو گئی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
بے شک ممبئی حملوں کے بارے میں کچھ ایسی باتیں پاکستان میں تواتر سے کی جاتی رہی ہیں اور جن بیانات کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہ ریکارڈ پر بھی موجود ہیں لیکن میاں نواز شریف اور ان افراد میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ میاں نواز شریف اس ملک کی وزارت عظمیٰ کے منصب تین بار براجمان ہو چکے ہیں اور بقول ان کے چاہنے والوں کے وہ اس وقت ملک کی مقبول ترین سیاسی قیادت ہیں۔ اس مقبول ترین سیاسی قیادت کو اایسے بیانات زیب نہیں دیتے جو ملک کے لیے جگ ہنسائی اور بدنامی کا باعث بنیں۔
اب یہ بھی عجب ٹھہرا کہ یہ ملک آپ کو وزارت عظمیٰ پر فائز کرے تو ریاست کے گن گائے جائیں اور اگر منصب سے معزول کر دیا جائے تو ریاست میں کیڑا کاری کی جائے۔ آپ سے تو اس ملک کا وہ عام فرد بھلا ٹھہرا جو لا تعداد مسائل کی زد میں رہنے کے باوجود ملک کے بارے میں الٹا سیدھا ہانکنے سے پہلے لاکھ بار سوچتا ہے۔
میاں نواز شریف کہتے ہیں وہ کشتیاں جلا چکے ہیں۔ میاں صاحب اس بیانیے کے ذریعے اداروں میں ان کے بارے میں پائی جانے والی مخاصمت کو بلاشبہ منظر عام پر لائیں لیکن ریاست کو ایسی کٹھنائیوں میں نہ دھکیلیں کہ جس سے اداروں کی نہیں ملک کی جگ ہنسائی ہو۔ نواز شریف اقتدار سے معزولی کے بعد مزاحمت کا بیانیہ لے کر چل رہے ہیں۔ ایک سیاست دان اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے لاکھ روپ بدلتا ہے اور نواز شریف کا بیانیہ بھی ان کا ایک نیا روپ ہو سکتا ہے۔
وہ سیاست دان ہیں اور انہیں اپنے بیانیے قبولیتِ عام دلانے کے لیے کھلی آزادی حاصل ہے۔ لیکن وہ اداروں میں موجود عناصر سے بدلہ چکانے میں اس حد تک گزر جائیں گے اس حد تک گزر جائیں گے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ اپنے حواریوں کے مشوروں پر میاں صاحب خود کش پر کاربند ہیں لیکن انہیں شاید کسی نے نہیں بتایا کہ اس عمل میں فریقِ مخالف تو بھسم ہو ہی جاتا ہے لیکن خود بمبار بھی صفحۂِ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔