نا اہلی فیصلہ اور انصاف پر سوال
انعام رانا
سپریم کورٹ نے اٹھائیس جولائی کو ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوے نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے سے نااہل قرار دے دیا اور شریف فیملی کے خلاف نیب مقدمات درج کرنے کا حکم دے دیا۔ جب یہ مقدمہ شروع ہوا تو معزز جج صاحبان کا یہ بیان سامنے آیا کہ وہ ایک “تاریخی فیصلہ” دیں گے۔ شاید کل کا فیصلہ “تاریخ میں امر ہونے کی اسی خواہش” کا نتیجہ تھا۔
مجھ جیسے شخص کے لیے یہ ایک روحانی اذیت ہے کہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کروں۔ بطور ایک پاکستانی شہری اور سیاسیات کے طالب علم میں یقین رکھتا ہوں کہ شریف فیملی اعلٰی درجے کے کارپوریٹ فراڈ میں ملوث ہے اور جے آئی ٹی جیسی تفتیش کے بغیر اسے احتساب کے دائرے میں لانا ممکن نہیں تھا۔ تحریک انصاف کا ہمدرد ہونے کے ناطے میں عمران خان کو وزیراعظم دیکھنے کا بھی خواہش مند ہوں اور مجھے گذشتہ کل کے فیصلہ پر خوشی ہونی چاہیے۔
لیکن بطور وکیل، بطور ایک آفیسر آف کورٹ میرا یہ بھی فرض ہے کہ میں سچ بولوں اور فیصلے کو قانونی نظر سے دیکھوں۔ اسی وجہ سے کچھ سوالات ہیں جو تشنہ ہیں اور ان کے جوابات سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اس کی تمام تشریحات فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ آئیے مل کر جائزہ لیں۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے بیس اپریل دو ہزار سترہ کو اپنے ایک فیصلے میں چیف جسٹس پاکستان سے جے آئی ٹی عمل درآمد بنچ بنانے کی درخواست کی۔ پانچ رکنی بنچ میں سے دو ججز نے پیش کردہ ثبوتوں کی روشنی میں وزیراعظم کو غیر دیانتدار تصور کیا۔ البتہ تین ججز نے جے آئی ٹی بنانے اور مزید ثبوت و شواہد کی فراہمی کا حکم دیا۔
مجھے یقین تھا کہ نواز شریف یا تو استعفٰی دے کر عزت بچائیں گے یا مالی کرپشن کی بنیاد پر نااہل۔ جے آئی ٹی کی تمام تر کارروائی کے بعد سترہ سے اکیس جولائی تک تین جج صاحبان نے جے آئی ٹی رپورٹ ہر مکمل سماعت کی (اس دوران نتیجے کے متعلق مختلف شبہات بھی پیدا ہوئے) اور گزشتہ کل فیصلہ سنایا گیا۔
تینوں ججز نے میسر کارروائی کے نتیجے میں حکم دیا کہ نواز شریف اور باقی مدعا علیہان اپنے معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے رکھتے ہیں اور اسی لیے پیرا چودہ میں نیب آرڈیننس کے تحت شریف فیملی اور اسحاق ڈار پر ریفرنسز قائم کرنے کا حکم دیا گیا۔ میرے خیال میں عدالت اس معاملے میں مکمل درست ہے اور موجود ثبوت کافی ہیں یہ طے کرنے کے لیے کہ شریف فیملی کے خلاف ٹرائل کیا جائے اور ان کو کارپوریٹ فراڈ کی سزا دی جائے۔
لیکن ایک سپریم کورٹ جج کا اس عمل کا نگران بننا قطعا غیر ضروری اور فیئر ٹرائل کے اصولوں کے خلاف ہو گا کیونکہ ماتحت عدالت آزادی سے فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نا ہو گی۔ پیرا پندرہ میں ججز نے وزیراعظم کو اس لیے غیر دیانت دار قرار دیتے ہوے نا اہل کر دیا کیونکہ انھوں نے اپنے الیکشن کے نامزدگی کاغذات میں “کیپیٹل ایف زی ای” کے چیئرمین ہونے اور اس کا تنخواہ دار ملازم ہونے کو آشکار نہیں کیا۔
میں، بطور قانون کے ایک طالب علم، اس پر شدید تحفظات رکھتا ہوں۔ عدالت نے خود یہ مانا کہ “روپا ایکٹ” (عوامی نمائندگی کا قانون) اثاثوں کی کوئی واضح تعریف نہیں کرتا۔ اس صورت میں عدالت نے “بلیک لاء ڈکشنری” کا سہارا لیا۔ بلیک لاء ڈکشنری ایک قانونی ڈکشنری ہے جس میں قانونی اصلاحات کی تعریفیں دی گئی ہیں۔
پہلی حیرت تو یہ ہے کہ جب کوئی قانون یا ایکٹ واضح طور پر اثاثے کی تعریف نہیں کرتا، تو فقط ڈکشنری کی تعریف پر نااہلی جیسا سخت فیصلہ کتنا ضروری تھا؟
آئیے ذرا اس تعریف پر بھی نظر ڈال لیں۔ بلیک لاء ڈکشنری کے مطابق ” اثاثہ کیش، مشینری، زمین جائیداد، کوئی “قابل وصول اکاؤنٹ”، ٹریڈ کاپی رائٹ وغیرہ پر مشتمل ہے۔”
عدالت نے طے کیا کہ “گو وزیراعظم بطور چیئرمین کمپنی سے تنخواہ نہیں لے رہے تھے، مگر یہ تنخواہ “account receivable ” ہے، اور چونکہ ظاہر نہیں کی گئی، اس لیے وزیراعظم اسے ظاہر نا کر کے بد دیانتی کے مرتکب ہوئے۔” اس کے بعد فیصلہ receivable کی تعریف کرتا ہے اور بزنس ڈکشنری کو بھی استعمال کرتے ہوئے یہ طے کرتا ہے کہ وزیراعظم کی یہ نا لی جانے والی تنخواہ، اثاثہ ہی تصور ہو گی۔
آپ کو یہیں روکتے ہوئے میں عرض کروں کہ بلیک لاء ڈکشنری account receivable کی کیا تعریف کرتی ہے، اہم ہے۔ عدالت نے خود کہا کہ ” account receivable is a claim against a debtor usually arising from sales or services rendered”۔
یعنی یہ ایک ایسی رقم ہے جو فروخت یا خدمات کے عوض قابل وصول ہے۔” میں نے ذرا دائیں بائیں کچھ اور تعریفیں دیکھیں تو یہ سمجھا ہوں کہ receivable accounts دراصل ایک کمپنی کے کھاتے کے لیے مروج اصطلاح ہے جو قانونی طور پر ایک کمپنی یا فرم کی وائنڈنگ اپ یا insolvency کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ جہاں کمپنی کے اثاثوں اور اس کی liabilities کا مکمل حساب رکھ کر کھاتہ داروں کے قانونی حقوق کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔
اکاؤنٹنگ ڈکشنری کے مطابق accounts receivable دراصل وہ رقم ہے جو کمپنی کو کسی کمپنی کے باہر کے شخص سے وصول کرنا ہوتی ہے۔ کمپنی کے کھاتے میں accounts receivable دراصل ان انوائسز کو ظاہر کرتی ہیں جو کہ کمپنی کے کلائنٹس کو بھیجی جا چکی ہیں۔ افسوس کہ مجھے accounts receivable کی کوئی ایسی تعریف نہیں ملی جس میں ایک فرد کی ذاتی تنخواہ اس کا حصہ ہو۔ میں اپنے قارئین سے اس خشک پیرا کی معافی چاہتا ہوں۔
مگر یہ ضروری تھا اور اس کی روشنی میں میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ شاید عدالت نے accounts receivable جو کہ ہر جگہ کمپنی یا فرم کے کھاتے کی اصطلاح پر برتے گئے ہیں، اسے غلط طور پر ایک فرد کی ایسی تنخواہ کے لیے برت دیا جو اس نے کبھی وصول نہیں کی، یا بقول اس کے وصولنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔
مزید ازاں عدالتی فیصلے کی پیرا تیرہ اور پندرہ کی اپنی بحث سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ اثاثے کی جامع تعریف قانون میں موجود نہیں ہے (اسی لیے تو قابل احترام عدالت کو ڈکشنری کھولنی پڑی۔)
یہ جامع تعریف ڈکشنری کھولے بغیر نا عدالت کو معلوم تھی اور نا ہی نواز شریف کے حامی و مخالف وکلا کو، ایسے میں یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ نواز شریف جیسے layman کو یہ تعریف معلوم ہو گی۔ چنانچہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ نواز شریف نے اسے غیر ضروری یا اثاثہ نا سمجھتے ہوے ڈیکلیئر نا کیا ہو۔
قارئین اکرام، قانون کا ایک اصول ہے کہ ہر شک کا فیصلہ ملزم کو جاتا ہے (تاکہ کسی صورت بھی بے گناہ کو سزا نا ہو۔) اوپر کی بحث سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ “ملزم نواز شریف” شاید بد دیانت کے بجائے بے پروا یا اتنا ہی لا علم ہو جتنا ڈکشنری کھولنے سے قبل معزز جج صاحبان تھے۔
مجھے حیرت ہے کہ ایک ایسا سیاسی کیس جس کے اثرات ملک گیر ہی نہیں، بین الاقوامی اہمیت کے تھے، اس میں ایسے شک کا فائدہ ملزم کو کیوں نا دیا گیا۔ کیا ایسے شک کی موجودگی میں نا اہلی جیسی کڑی سزا دینا واقعی انصاف کے معیار پر پورا اترتا ہے؟ مجھے یہ خوف ہے کہ اب سپریم کورٹ کونسلر سے لے کر اگلے وزیراعظم تک کئی کیسز سنے گی جس میں مدعا علیہ کسی غلط فہمی یا بھول یا کسی بھی وجہ سے نامزدگی کاغذات میں یہ بتانا بھول گیا کہ اس نے اپنے چھوٹے بھائی سے بائیس ہزار تین سو روپے لینے ہیں، گو لیے نہیں، مگر وہ اس کیس کی رو سے اثاثہ تھے۔
سیاسی معاملات کو عدالت نہیں سیاست سے ہی حل ہونا چاہیے۔ وزیراعظم اور ان کی فیملی کی کرپشن کے لیے بہترین طریقہ اپنایا گیا اور نیب کیسز درج کرنے کا حکم دیا گیا۔ شاید بہتر ہوتا اگر عدالت اپنے فیصلے میں ایک “مشورہ” دے دیتی کہ نیب کیسز کی موجودگی میں وزیراعظم کا مستعفی ہونا بہتر اقدام ہو گا۔
ایسے “مشورے” سے نواز شریف اخلاقی اور سیاسی دباؤ کا شکار ہو کر شاید مستعفی ہو جاتے اور عدالت بھی اس الزام سے بچ جاتی کہ مقصد فقط نااہلی تھا خواہ وجہ کوئی کمزور قانونی وجہ ہی کیوں نا بنانا پڑے۔
آپ نے شاید دیکھا کہ میں نے تین ججز، جنھوں نے جے آئی ٹی کارروائی کو سنا، ان کے علاوہ وہ دو ججز جو اس بنچ کا حصہ نا تھے، ان کے صفحہ انیس سے پچیس پر فیصلے میں شریک ہونے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ کیونکہ یہ فیصلہ چونکہ “صدیوں یاد رکھنے” کے لیے ہے، اس لئیے ان دو ججز کا اس فیصلے میں شریک ہونا شاید ان کی “تاریخی مجبوری” تھا۔
انعام رانا لندن میں قانون کی پریکٹس کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مکالمہ ڈاٹ کام جیسے عمدہ ویب سائٹ کے مدیر بھی ہیں۔ اس مضمون کے لیے ادارہ ایک روزن، مکالمہ کا شکر گزار ہے