نواز شریف نے خود کو نااہل ثابت کیا؟
انور عباس انور
بہت شور شرابا برپا کیا ہوا ہے مسلم لیگ نواز نے کہ عدالت نے وزیر اعظم کو پانامہ مقدمہ کے تحت نااہل قرار نہیں دیا۔ اور عدالت نے جمعہ کے دن فیصلہ سنا کر ایک بحران پیدا کرنے کی کوشش کی۔ عدالت کو معلوم تھا کہ اگلے دو دن چھٹی ہے۔ وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار نہ رہنے سے کابینہ بھی تحلیل ہوجائے گی تو کاروبار مملکت کیسے چلیں گے؟ ملک اگلے پانچ روز تک کسی حکومت کے بغیر کیسے چلے گا، کسی ہنگامی صورتحال سے کیسے نبٹا جائے گا؟ نون لیگیوں کا حق بنتا ہے کہ وہ عدالت سے سوالات کریں مگر انہیں خود بھی کچھ سوالات کے جوابات دینے ہوں گے۔
سوال ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ اور اس کے سربراہ کو علم تھا کہ پانامہ کیس میں عدالت عظمٰی نے فیصلہ محفوظ کیا ہوا ہے، اور اس فیصلے کا اعلان کسی بھی وقت ہونے کے امکانات موجود تھے، تو مسلم لیگ نواز اور اس کے سربراہ نے کیوں کر حکمت عملی ترتیب نہ دی؟
فیصلے کے دو امکانات ہو سکتے تھے، ایک نواز شریف اور ان کے خاندان کے حق میں اور دوسرا ان کے خلاف۔ میڈیا پر ماہرین قانون و آئین برملا اظہار کرتے رہے کہ وزیر اعظم نااہل ہو سکتے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف کو چاہیے تھا کہ وہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس بلا کر اس میں عبوری وزیر اعظم کے نام کو فائنل کرتے اور صدر مملکت کو ایڈوائس دے کر جمعرات کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلوانے کا نوٹیفیکیشن کا اجراء کرواتے۔ اس اجلاس کو جمعہ اور ہفتہ تک چلایا جاتا، جمعہ کے روز عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد قومی اسمبلی نواز شریف کی طے کردہ حکمت عملی کے مطابق عبوری وزیر اعظم کا انتخاب اتوار کو بھی عمل میں لا سکتی تھی۔
اس طرح پیر منگل کو وطن عزیز حکومت اور سربراہ حکومت سے خالی نہ رہتا، ویسے مسلم لیگ نواز اور ان کے رہنماؤں سے دریافت کیا جا سکتا ہے کہ خدا نہ خواستہ اگر نواز شریف کو اوپر سے اچانک بلاوا آجاتا تو پھر بھی تو ملک نے کئی دن تک سربراہ حکومت کے بغیر چلنا تھا، تو اس صورتحال میں وہ کس سے شکوہ شکایت کرتے؟ دنیا بھر کے جمہوری ممالک نے اپنے دساتیر میں اس قسم کی ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کے لیے صدر کے ساتھ نائب صد ر اور وز اعظم کے ہمراہ نائب وزیر اعظم کے عہدے رکھے ہوئے ہیں ، جو کسی بھی رہنما کے لیے پیدا ہونے والے ہنگامی حالات میں اپنaآائینی کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان شائد دنیا کا واحد ملک ہے جہاں نائب صدر اور نائب وزارت عظمٰی کے عہدے نہیں رکھے گئے، ایسا وطن اور جمہوریت کی محبت میں نہیں کیا گیا ایسا صرف اور صرف اقتدار کو اپنی ذات تک محدود رکھنے کی نیت اور عزائم کے پیش نطر کیا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سینٹ آف پاکستان کے چیئرمین بلحاظ عہدہ نائب صدر ہیں، چلو مان لیا کہ ایسا ہی ہے لیکن وزیر اعظم کا نائب کون ہے؟ سابق صدر آصف علی زرداری نے مسلم لیگ قائد اعظم کے رہنما چودہری پرویز الہی کو ڈپٹی پرائم منسٹر مقرر کیا تھا، یہ سب ایک انتظامی حکم نامے کے تحت تھا، اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ ختم ہوگیا۔
آئین میں ترمیم کرکے یا اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے وقت نائب وزیر اعظم یا ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ پیدا کیا جا سکتا تھا۔ جیسے جنرل ضیاء کی اچانک موت کے بعد سینٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان نے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال میں صدر مملکت کا عہدہ سنبھال کر خلا کو پر کیا تھا ایسے ہی نائب وزیر اعظم اپنی ذمہ داری نبھا سکتے ہیں۔ لیکن اقتدار کے مزے بلا شرکت غیرے لوٹنے والے سیاسی قائدین نے اس اہم معاملے کوئی لائق توجہ ہی نہیں سمجھا، ،جس کا خمیازہ بھگتا جا رہا ہے۔
ایسے ہی جمہوری حلقے جن کی خواہش ہے کہ ملک میں جمہوری عمل چلتا رہے، جمہوریت اور جمہوری ادارے استحکام حاصل کریں، وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 62-63 جو ایک آمر اور غیر جمہوری حکمران کی آخری نشانی کے طور پر آئین میں موجود ہے، کو از سرنو دیکھا اور پرکھا جائے اس کی تشریح کو واضح کیا جائے۔ سیاستدان دل بڑا کرکے آئین میں سینٹ کے چیئرمین کے علاوہ نائب صدر اور نائب وزیر اعظم کے عہدے پیدا کریں تاکہ ملک وقوم کسی بڑی پریشانی سے محفوظ رہ سکیں۔
یہ تو آئینی ماہرین اور پارلیمنٹرین ہی بتا سکتے ہیں کہ اگر آئین میں نائب وزیر اعظم کے عہدے کی گنجائش پیدا کرلی جائے تو کسی بھی وزیر اعظم کے انتقال یا نااہلی کی صورت میں باقی کابینہ تحلیل ہونے سے بچ جائے گی یا نہیں؟ میرا خیال ہے کہ صدر مملکت نائب وزیر اعظم کو نئے وزیر اعظم کے انتخاب تک کام جا ری رکھنے کی ہدایت کر سکتے ہیں، عبوری وزیر اعظم اور آئندہ کے لیے مستقل وزیر اعظم شہباز شریف کو اس بارے غور و فکر ضرور کرنا چاہیے، کیونکہ یہ سودا ملک وقوم کے حق میں بہتر ہوگا۔ بس فرق صرف یہ پڑیگا کہ وزیر اعظم کو اختیار ات میں کمی برداشت کرنا ہوگی۔
سیانے کہتے ہیں کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جس کی نگاہ منزل پر ہو، کروڑوں عوام اپنے میں سے ان شخصیات کو اپنی قیادت، رہنمائی اور رہبری کے لیے منتخب کرتے ہیں جن کے متعلق ان کی پختہ رائے ہوتی ہے کہ یہ انہین اور ملک و قوم کو مسائل کی دلدل سے نکال لیں گے۔ انہیں درپیش دگرگوں مشکلات سے نجات دلائیں گے، اور ان کی منتخب کردہ شخصیات ملک و قوم کو ترقی اور خوشحال کی شاہراہ پر گامزن کرنے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔
وطن عزیز کو عالمی سطح پراعلی مقام دلانے کی صلاحیتوں سے یہ مالا مال ہیں، اور عوام اپنے منتخب قائدین ،راہنماؤں اور رپبروں سے یہ بھی توقعات وابستہ رکھتے ہیں کہ یہ ان کے اعتماد ،بھروسے اور یقین کا ٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔