نواز شریف نااہل : آخر ہوا کیا؟
اسد علی طور
نوازشریف گھر چلے گئے۔ کہیں فتح کے شادیانے بج رہے اور کہیں ماتم جاری ہے۔ لیکن اس فیصلے کے اثرات کو سمجھنے کے لیے اِس کو قانون، سیاست اور جمہوریت کے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے قانونی پہلو کو دیکھتے ہیں۔ میں آئین اور قانون کا ماہر نہیں ہوں لیکن جتنے ماہرین سے میری گفتگو ہوئی اور جتنی عدالتی تاریخ کو میں نے پڑھ رکھا ہے، پانامہ لیکس مقدمہ کی سماعت کے دوران بہت کچھ ایسا ہوا جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ جس نے تمام عدالتی کاروائی اور بعد ازاں اِسی غیر معمولی طریقہِ سماعت کی بنیاد پر ہونے والے فیصلہ کو موضوع بحث بنا رکھا ہے۔
سپریم کورٹ نے جس درخواست کو پہلے مضحکہ خیز قرار دے کر مسترد کیا پھر اُسی میں وہ اس حد تک گئی کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کو گھر بھیج دیا۔ درخواست دہندگان چار فلیٹوں پر وزیراعظم کی نااہلی مانگ رہے تھے لیکن وزیراعظم کو اقامہ پر گھر بھیجا گیا جس کا درخواست میں کہیں ذکر نہیں تھا۔ مقدمہ مبینہ کرپشن کا تھا لیکن فیصلہ الیکشن گوشواروں میں اثاثے چھپانے کا ہوا۔
آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت زیرِ سماعت درخواستوں میں پہلی بار سپریم کورٹ نے ایک چھ رکنی جے آئی ٹی اپنی نگرانی میں قائم کی۔ میں بہت حد تک متفق ہوں کہ سپریم کورٹ کی پشت پناہی کے بغیر ہمارے سرکاری افسران ملک کے چیف ایگزیکٹو کے خلاف بنا کسی خوف تحقیقات نہ کر پاتے۔ لیکن کیا عدالتِ عظمٰی کے دباؤ نے بطورِ شہری نوازشریف اور اُن کے بچوں کے “فیئر ٹرائل” کے حق کو متاثر نہیں کیا؟
کیا سپریم کورٹ کے پانچ سو صفحات کے عبوری فیصلے میں شریف خاندان کے موقف پر سخت ترین آبزرویشنز کے بعد جے آئی ٹی ممبران ججز کو غلط ثابت کرنے کی ہمت کرتے؟ کیا جے آئی ٹی کی تحقیقات میں وزیراعظم کا اقامہ سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کو الیکشن گوشواروں میں اثاثے چھپانے پر نااہلی کا فیصلہ متعلقہ فورم الیکشن کمیشن کو نہیں کرنے دینا چاہیے تھا؟
کیا سپریم کورٹ کو وزیراعظم کا صادق اور امین ہونا طے کرتے ہوئے اس سقم پر نہیں سوچنا چاہیے تھا کہ قتل کا مجرم تو پانچ سال کی نااہلی کاٹنے کے بعد دوبارہ الیکشن لڑنے کا اہل ہوسکتا ہے، لیکن ملک کا منتخب وزیراعظم صرف ایک معمولی اثاثہ چھپا کر تاحیات نااہل ٹھہرے گا؟
کیا سپریم کورٹ نے ایک رکنِ اسمبلی کے تنخواہ لیے بغیر بھی اقامہ کی حیثیت کو مالی اثاثہ قرار دے کر انتہائی سخت تشریح نہیں کردی؟ جس کے سامنے آنے والے دنوں میں کوئی “جانبر” نہیں ہوسکے گا۔ اگر کل یہی اصول تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے گوشواروں میں ظاہر نہ کی گئی آف شور کمپنی پر بھی لاگو کردیا( کپتان کا الیکشن گوشواروں میں ظاہر نہ کی گئی اپنی آف شور کمپنی کے دفاع میں موقف یہ ہے کہ نیازی سروسز لیمیٹڈ میں کوئی کیپیٹل نہیں تھا اس لیے اُس کا ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا)تو کیا ملک میں سیاسی عدم استحکام نہیں بڑھے گا؟
کیا عدالتِ عظمٰی نے باسٹھ تریسٹھ کی اس بے رحمانہ تلوار کا استعمال کرکے پارلیمنٹ پر دوزخ کے وہ دروازے نہیں کھول دیے جس میں سب جل کر بھسم ہوجائیں گے؟ اور اس امر سے ججز بخوبی واقف ہیں جس کا ثبوت پانامہ لیکس مقدمہ کی سماعت کے دوران باسٹھ تریسٹھ کے اطلاق کی پی ٹی آئی کی استدعا پر لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس تھے کہ “اگر صادق اور امین کے پیمانے پر جانچنا شروع کردیا تو اسمبلیوں میں سوائے سراج الحق کے کوئی نہیں بچے گا۔”
اختلافی نوٹ والے ججز کو حتمی جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد والی سماعت کا حصہ نہیں بنانا تھا تو پھر ان کو فیصلہ میں کیوں بٹھایا گیا؟ کیا اب جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد کے اختلافی نوٹ کی حیثیت جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن والے اضافی نوٹ کی ہو جائے گی؟
ایک ایسا ملک جہاں سپریم کورٹ کا جج ایک سخت جملہ کسی ملزم کے بارے میں لکھ دے تو ماتحت عدالتیں اُس کی ضمانت لینے کی جرات نہیں کرتیں، کیا ایسے ملک میں سپریم کورٹ کے جج کی زیرِ نگرانی اپنے سامنے سپریم کورٹ کے سخت ترین فیصلہ کی دستاویز اور جے آئی ٹی کی دس کُتب کی موجودگی میں نیب کورٹ کا مجسٹریٹ لیول کا جج خود مختار ذہن کے ساتھ شریف خاندان کو سننے کے قابل ہوگا؟
جبکہ اُس کو فیصلہ بھی چھ ماہ میں سنانا ہوگا۔ کیا اتنے دباؤ میں رکھ کر نیب کورٹ سے حصولِ انصاف ممکن ہوگا؟ یا یہ تاثر گہرا ہوگا کہ اداروں کو ہر حال میں شریف خاندان کو مجرم قرار دلوانا مقصود تھا اور ان کو اپنے قانونی دفاع کے پورے موقع اور شفاف ٹرائل کے جس حق کی ضمانت آئین نے بطور شہری دے رکھی ہے اُس سے انحراف کیا گیا۔
کیا سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دے کر انصاف کا اتنا بلند معیار نہیں طے کر دیا، جسے مستقبل میں ججز کو پہنچتے ہوئے خود بھی مشکلات نظر آئیں گی اور اگر وہ انہی شقوں کا ایسا بےرحمانہ استعمال دوسرے مقدمات میں نہ کرسکی تو کیا ن لیگ کو تعصب کا الزام لگا کر اپنے ووٹر کے سامنے شہادت کارڈ استعمال کرنے کا موقع نہیں دے گی؟
یاد رہے عدالتِ عظمیٰ میں ججز کو جب ذوالفقار علی بھٹو اور ارسلان افتخار کیس کی مثال کوئی وکیل دے تو ججز “بیک فُٹ” پر چلے جاتے ہیں، تو کل یہ کیس بھی ایسی نظیر ہی نہ بن جائے۔ آئین و قانون کی بالادستی اور اداروں کی مضبوطی و خودمختاری پر یقین رکھنے والے ایک شہری کے طور پر میرے لیے یہ باعثِ تشویش ہے کہ انصاف کے اعلیٰ ترین فورم کی ساکھ اپنے ہی فیصلوں کی وجہ سے متاثر ہو۔
عدلیہ ریاست کا وہ ستون ہے جس کی غیر جانبداری پر عام آدمی کے اعتماد میں ہی اس کی بقاء ہے لہٰذا سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کا اصل امتحان اپنے اُجلے کپڑوں کو ایسے مقدمات کے گدلے تالاب سے محفوظ رکھنا ہے۔
اب ذرا سیاسی پہلو بھی دیکھ لیں۔ کیا ہمارے سیاستدانوں نے انتخابی اکھاڑے میں ووٹ کی طاقت سے مخالف کو سرنگوں کرنے کی جگہ عدالتی فورم چُن کر اپنا اور اپنے ووٹر کا حق غیر منتخب لوگوں کے حوالے نہیں کردیا؟ کیا آپ ایک ایسا فیصلہ نہیں کروا بیٹھے جو کل کو بقول جسٹس آصف سعید کھوسہ کے منتخب ایوانوں میں صرف سینیٹر سراج الحق کو ہی چھوڑے گا؟
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا یہ کہنا کانوں کو بہت بھلا لگتا ہے کہ چاہے مجھے بھی نااہل کردیں لیکن وزیراعظم کو سزا دیں۔ خان صاحب پاکستان جیسے ملک جہاں اداروں میں بیٹھے غیر منتخب افراد نے ہمیشہ عوام کا مینڈیٹ لے کر آنے والوں کو ہانکا ہو وہاں اس خواہش پر عملدرآمد جمہوریت کی کمزوری اور سیاسی عدم استحکام کا باعث بنے گا۔
ابھی ہم اپنے سیاسی مخالف کی شکست پر فتح کے نشے میں سرشار ہیں لیکن جیسے جیسے وقت گزرے گا ہمیں معلوم پڑے گا کہ ہم اپنے ہاتھ کٹوا بیٹھے ہیں۔ ن لیگ کو بھی سوچنا ہوگا کہ آخر انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی کی قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی میں پانامہ لیکس کا ایشو طے کرتے وقت رعونت کا مظاہرہ کیوں کیا؟ جہاں اپوزیشن نے سپریم کورٹ جاکر منتخب ایوان کا وزن کم کیا، وہیں حکمران جماعت بھی اس جرم سے بری الزمہ نہیں۔
آخر میں جمہوریت کو بھی دیکھ لیں۔ ہم جیسے لوگ جن کا پہلا اور آخری “رومینس” جمہوریت اور آئین سے ہو وہ پانامہ لیکس سامنے آنے کے بعد مارشل لاء کے ماہر ادارے کی طرف سے اس ایشو کو جمہوری نظام کی کمزوری کے لیے استعمال کرنے پر احتجاج کرتے رہے لیکن ہوا وہی جو اُن کی مرضی تھی۔ لیکن کیا کسی نے سوچا ایسا کیوں ہوا؟
تین دفعہ عوام کی طرف سے منتخب کرکے وزیراعظم ہاؤس بھیجے جانے والے میاں نوازشریف آج ہمارے ہاتھوں میں کیا چھوڑ کرکے گئے ہیں؟ صرف یہ کے دیکھو “میرے سینے میں بہت سے راز ہیں، دل کرتا ہے عوام کے سامنے کھولوں۔” بس؟ جب جے آئی ٹی کی تحقیقات کے دوران آپ نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا تھا تو آپ کو ایک تقریر کرکے مستعفی نہیں ہوجانا چاہیے تھا؟
کیوں آپ نے معاملات اس حد تک جانے دیے کہ آج نااہلی کا زخم لیے بیٹھے ہیں۔ آپ کو اتنا کچھ دیا اس ملک کے عوام نے لیکن اب آپ پر فرض نہیں بنتا تھا کہ آپ بیس کروڑ لوگوں کو بتاتے کہ آپ ہمیں ڈلیور کیوں نہیں کر پاتے؟ کون ہے جو عوام کے ٹیکس سے تنخواہ بھی لیتا ہے، لیکن اُس کے ووٹ اور مینڈیٹ کو “بوٹ” کی ٹھوکر پر رکھتا ہے؟ کون ہے جس پر یہ عوام اپنے لیے صحت کی بنیادی سہولتیں اور تعلیم کا حق قربان کرکے سو روپے میں سے اسی روپے لگا رہے ہیں، مگر وہ اِسی عوام کو بیوقوف قرار دے کر اِس کے منتخب کردہ لوگوں کے لیے “بلڈی سویلین” کی تحقیر آمیز اصطلاح استعمال کرتا ہے۔
کون ہے جو ملک کے سرکاری خزانے میں سے اسی روپے براہِ راست اور دس روپے سے زائد مختلف کاروباروں کی مد میں عوام کی جیبوں سے چُرا کر بھی اِن پیسوں کا حساب نہیں دیتا۔ کون سا ادارہ ہے جس کے ریٹائرڈ افسران اربوں روپے کی کرپشن میں رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں تو وہ اُن کو سروس پر بحال کر کے عدالتوں کو احتساب نہیں کرنے دیتا اور محکماتی کاروائی میں “اظہارِ ناپسندیدگی” کی کڑی سزا سنا کر چھوڑ دیتا ہے۔ آخر وہ کون لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ادارے کے وقار کے نام پر قومی مجرموں کا تحفظ کرتے ہیں؟
میاں صاحب کیا آپ پر قرض نہیں تھا آپ قوم کو بتاتے سابق آمر جنرل مشرف کے آئین شکنی مقدمہ کی سماعت کے دوران سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کس طرح حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے جی ایچ کیو میں پڑی پانچ لاکھ فوجیوں کی طرف سے اظہارِ ناراضگی والی نام نہاد “نبض رپورٹ” سنایا کرتے تھے اور آپ میں ہمت نہیں ہوتی تھی کہ آپ اپنے ایک کروڑ چالیس لاکھ ووٹروں کی نبض رپورٹ جنرل راحیل شریف کے سامنے رکھ سکتے۔
کن افسران نے اپنے چیف کی موجودگی میں حامد میر پر حملے کے بعد ہسپتال میں عیادت پر آپ سے اتنا “احتجاج” کیا کہ آپ میں جرات نہ ہوئی اُس ادارے سے تحقیقات میں تعاون حکم دیتے۔ قوم کو وہ آڈیو ریکارڈنگز سنواتے جس میں ریاست کے سب سے طاقتور خفیہ ادارے جو آپ کو جوابدہ ہے، لیکن آپ ہی کے خلاف دھرنے کے دنوں میں ایک سیاسی جماعت کے ارکان سے فون پر سازشی گفتگو میں مصروف تھے۔
ہمیں وہ وڈیوز ٹی وی پر دکھاتے جس میں سب سے زیادہ ریاستی وسائل رکھنے والے ادارے کے اہلکار دھرنے کے شرکاء کو کھانا پہنچانے والوں کو بل “ادا” کرنے جاتے تھے۔ بتاتے جب اسی بحران میں ایک ریاستی ادارے کا سربراہ آپ سے ملاقات کے لیے آیا تو اس کے ساتھ موجود ایک اعلٰی افسر نے آپ سے کس لہجے میں گفتگو کی اور جب آپ نے ان فلموں کو سامنے رکھ کر “ٹیبل ٹرن” کیا تو میٹنگ کے شرکاء کے چہروں پر کیا تاثر تھے اور پھر کیا گفتگو ہوئی؟
کس طرح ایک ادارے کا سربراہ دورانِ ملازمت سعودی حکام سے وہاں ریٹائرمنٹ کے بعد اگلی نوکری کے لیے تنخواہ پر مذاکرات کرتا رہا اور اُس چیف کے ایماء پر ایرانی صدر کے دورہ کے موقع پر ادارے کے ترجمان نے ٹویٹس کرکے دورہ کو سبوتاژ کیا جبکہ آپ بے بسی سے ہاتھ ملتے رہ گئے۔
قوم کے علم میں لاتے کہ قومی سلامتی اجلاس کی کہانی ڈان اخبار کو کس ادارے نے لیک کی اور بعد ازاں وہ کس طرح آپ کی حکومت کے سر تھوپ کر آپ سے اپنے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع مانگی گئی۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کن افسران سے ملاقات کر کے آپ کے لیے پیغام لے کر آتے تھے کہ حکومت بچانی ہے مدت پوری کرنی ہے تو فلاں کو توسیع دے دیں۔
کیوں لاک ڈاون اسلام آباد بحران کے دوران اپنے ہی ایک ماتحت ادارے کے سربراہ کو ایک پڑوسی دوست ملک سے فون کروا کر “غیر فعال” کروانا پڑا تاکہ آپ کو صرف ایک محاذ پر لڑنا پڑے۔ آپ کو وزیر اطلاعات کی پرویز رشید کی قربانی کس کے کہنے پر دینی پڑی؟ کس طرح آپ کی نامزدگی کو “ناک آوٹ” کرنے کے لیے ایک ادارے کے کچھ افسران نے اپنے ہی ممکنہ چیف پر احمدی ہونے کا الزام لگوایا؟ کیسے آپ نے سنی ملٹری الائنس میں پاکستان کی شرکت سے بچنے کی اور راحیل شریف کو وہاں نوکر بننے سے روکنے کی کوشش کی مگر ایک ادارے نے آپ کی یہ کوشش ناکام بنا دی اور زِچ ہو کر آپ نے اُس ادارے کے سربراہ کو بلا کر ایرانیوں کے تحفظات دور کرنے کا کہہ کر خود کو سائیڈ پر کر لیا۔
عوام کو بتاتے کہ ڈان لیکس کی رپورٹ پر آپ کو کن افسران نے آپ کے قریبی ساتھی کے ذریعے کیا پیغام بھیجا تھا؟ پھر مسترد کا ٹویٹ جاری ہونے کے بعد راولپنڈی اور اسلام آباد میں کیسے تناؤ رہا اور پھر آپ کے سامنے ایک ادارے کے سربراہ نے اپنے کس ماتحت پر اس کی ذمہ داری ڈال کر معذرت کرلی۔
آپ پر یہ اس لیے بھی فرض تھا کہ پاکستان نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ سے عوام کے لیے فلاحی ریاست تب تک نہیں بن سکتا جب تک اس پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت کمزور نہیں ہوتی۔ اور یہ کام میاں صاحب ایک مقبول پنجابی وزیراعظم ہی کرسکتا ہے۔
اس سے قطع نظر کوئی آپ کا ووٹر ہے یا اپوزیشن سیاسی جماعتوں کا، پاکستان کے وہ سب ووٹر جو کسی بھی سیاسی جماعت کو ووٹ دے کر جمہوری نظام کے دوام کا باعث بنتے ہیں، یہ جاننا اُن کا حق ہے کہ آخر اُن کے منتخب لوگوں کے ساتھ ہوتا کیا ہے؟ ہم ہمیشہ اپنے ہی منتخب لوگوں کا احتساب کرنے کے نعرے پر تو بہت جلدی راغب ہوجاتے ہیں، لیکن جو بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ اس نظام کا اصل فائدہ اٹھا رہا ہے اُس کے احتساب پر راضی کیوں نہیں ہوتے؟ پتہ ہے کیوں؟ آپ جیسے منتخب وزیراعظم ہاتھ کٹوا کر گھر تو چلے جاتے ہیں لیکن ہم سے آپ بیتی شیئر نہیں کرتے۔
بہترین تحقیقاتی اور تائثراتی تحریر ہے کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس گندے کھیل میں الیکٹرانک میڈیا بالخصوص اے ار وائی نے جو کردار اد کیا ہے اس پر بھی روشنی ڈالتے کہ اب میڈیا بھی اسی نام نہاد establishmnet کا حصہ بن چکا ہے