جرات نواز تاریخی فیصلہ
جو فرد موت اور زندگی کی کش مکش میں گرفتار ہو اور اس سے زندگی اور موت میں سے کسی ایک کے چناؤ کا کہا جائے اور وہ زندگی کو چھوڑ کر موت قبول کرنے کا فیصلہ کر لے تو تاریخی طور پر یہ اس ریاست کے قانون اور حاکمیت پر ایک ایسا بھر پُور اخلاقی طمانچہ ہے جو ملک کی سیاسی تاریخ کی جراتوں میں ایک اہم اضافہ قرار دیا جا رہا ہے۔
صدیوں پہلے بھی سقراط کو زہر کا پیالہ پلا کر ریاستی حاکم اسے اپنی فتح جان رہے تھے مگر سقراط کے اس جرات مند اور موت کو گلے لگانے کے قدم کو تاریخ نے جبر کے منہ کا ایسا طمانچہ بنا دیا جس کو جبر کے حکم ران آج تک سہلا ریے ہیں اور جرات کے اس تھپڑ کی سوجن ان کے گھناؤنے کردار پر اب بھی دکھائی دے رہی ہے۔ صدیوں بعد آج پاکستان ایسے پس ماندہ ملک میں عمران خان کی سلیکٹیڈ کہی جانے والی حکومت اور حزبِ مخالف کی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے درمیان ایسی ہی صورتِ حال در پیش ہے۔
https://youtu.be/bogn507QmD0
طبی ماہرین کی رپورٹ مطابق مسلم لیگ ن کے رہبر نواز شریف کی بیماری تشویش ناک حد تک بڑھ چکی ہے اور اس بیماری کو لاحق خطرات کی تفتیش کے لیے بیرونِ ممالک کی طبی صلاحیتوں کی بر وقت فراہمی کو ضروری قرار دیا گیا ہے، جس واسطے مسلم لیگ ن نے تمام تر قانونی راستوں کو عبور کرنے کے بعد نواز شریف کی ضمانت عدالت سے حاصل کر لی ہے جس کے عِوض زرِ ضمانت کے طور عدالتی حکم پر رقم کے ذاتی مچلکے داخل کرائے جا چکے ہیں۔
نواز شریف کو عدالتی ضمانت کے بعد رہائی مل چکی ہے اور نواز شریف نہ چاہتے ہوئے بھی خاندان کے دباؤ میں بیرونِ ملک علاج پر راضی کر لیے گئے ہیں۔ اسی اثناء حکومتی رکاوٹ ای سی ایل لسٹ میں نوازشریف کا نام ہے جو بَہ غیر حکومت کی رضا مندی یا پا بندی سے مشروط ہے۔
اس سلسلے میں قانونی تقاضوں کو بَہ رُوئے کار لاتے ہوئے شہباز شریف نے حکومت سے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست بھی دے دی ہے، جس میں حکومت اس وقت تک مختلف حیلے بیانوں سے باجوہ ڈاکٹرائن کے زیرِ اثر نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے نئے نئے بہانے اور جواز ڈھونڈنے کی کوششوں میں سرگرم ہے۔
ای سی ایل سے نواز شریف کا نام نکالنے کے لیے نیب نے اپنی رائے حکومت کے کورٹ میں ڈال کر سلیکٹیڈ کو مشکل صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ دوسری جانب کابینہ کو اتنا غیر مؤثر کرنے کا ایک ایسا اشارہ قوم کو دیا جا رہا ہے کہ گویا کابینہ اس اہم فیصلے کو کرنے کی اہل نہیں، یا اسے اس کی اجازت نہیں۔
شاید اسی واسطے قانونی رائے کے بہانے کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا قیام کیا گیا جو جمہوری روایات میں ایک مضحکہ خیز بات دکھائی دی۔ کابینہ کی یہ ذیلی کمیٹی بادی النظر میں باجوہ ڈاکٹرائن کی کابینہ پر گرفت مضبوط رکھنے کا وہ عندیہ ہے جس کے اراکین کو واشگاف انداز سے فوجی اشرافیہ کا نمائندہ بنایا گیا ہے۔
ذیلی کمیٹی کی قانونی رائے سے پہلے ہی سلیکٹیڈ کابینہ ہدایت کاروں کو خوش رکھنے کے لیے ایک غیر قانونی اور غیر اخلاقی فیصلہ لائی ہے جس کی رُو سے نواز شریف کے بیرونِ ملک علاج پر جانے سے پہلے حکومتی شرط، یعنی surety bonds دینا ہوں گے۔
سوال یہ ہے کہ جب ذیلی کمیٹی کی حتمی سفارشات ہی نہیں موصول ہوئیں تو کابینہ نے حتمی فیصلہ کیوں کر دیا۔ اس کی بَہ ظاہر دو وجوہات سمجھ آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ سلیکٹ کی جانے والی تحریک انصاف کے بیانیے، کرپشن کے ملزم کو ملک سے نہیں جانے دیں گے اور تمام پیسے وصول کریں گے کو بچانا تھا تا کہ آئی ایم ایف کی شرائط سےمھنگائی سے جکڑی عوام میں اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو بچایا جائے۔
جب کہ دوم شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا دار کردار کی دو بارہ توثیق کہ جو باجوہ ڈاکٹرائن چاہے گی وہ ان کے کرنے سے پہلے ہم کر دیں گے۔ واضح فیصلہ نہ کرنے والی تحریک انصاف کی سلیکٹیڈ حکومت کے لیے اب ایک نئی صورتِ حال اور مشکل نے جنم لے لیا ہے کہ ذیلی کمیٹی کے حتمی اجلاس کے تا حال نتائج اب تک طاقت کے خدا روکے ہوئے ہیں جب کہ دوسری جانب نواز شریف اور مسلم لیگ نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ وہ کسی صورت غیر قانونی اور عدالتی فیصلے سے ہٹ کر کوئی قدم نہیں اٹھائے گی اور کسی صورت نواز شریف پیشگی گارنٹی حکومت کے متعصبانہ فیصلے کی صورت میں نہیں دے گی، بَل کہ مسلم لیگ کے وکیل عطا تارڑ نے واضح کر دیا ہے کہ عدالتی زرِ ضمانت ادا کرنے کے علاوہ حکومت کی کوئی شرط نہیں مانی جائے گی۔
اسی کے ساتھ نواز شریف نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ حکومت کی کسی پیشگی شرط کو ہر گز نہیں مانیں گے۔
اس صورتِ حال نے حکومت، باجوہ ڈاکٹرائن اور کسی حد تک شہباز شریف کو ایک مشکل سے دوچار کر دیا ہے۔ جب کہ ملک کے قانونی ماہرین حکومت کی پیشگی شرط کو غیر قانونی اور بد نیتی قرار دے رہے ہیں۔
اس صورت حال میں ممکنہ طور پر مسلم لیگ ن اپنے بیانیے کو تقویت دینے کے لیے عدالت جانے میں ایک دو روز لینا چاہتی ہے جب کہ حکومت اور باجوہ ڈاکٹرائن کے وفا دار شہباز شریف کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔
اس پورے منظر نامے میں زندگی کے مقابلے میں موت کو ترجیح دینے والے نواز شریف کے فیصلے کی فتح نظر آتی ہے جب کہ سلیکٹیڈ حکومت اور باجوہ ڈاکٹرائن وضاحتوں کی سبیلیں نکالنے کی گتھی ہی سلجھاتی رہے گی اور آخرِ کار تاریخ میں موت قبول کرنے کے فیصلے کی فتح کے امکانات واضح ہیں۔
از، وارث رضا