نکسل ازم ایک لال مزاحمت
از، حسین جاوید افروز
بھارت اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں بھانت بھانت کی ثقافتیں، زبانیں چپے چپے پر ملتی ہیں۔ پنجاب سے ہریانہ، بنگال سے اتر پردیش، کرناٹک سے تامل ناڈو، گجرات سے مہا راشٹر غرض ہر دو سو تین سو کلومیٹر پر ایک متنوع کلچر کی رنگا رنگی اپنے جوبن پر دکھائی دیتی ہے۔
یہ درست ہے کہ بھارت گزشہ ستر سال سے جمہوریت__ جس کو ہندی میں لوک تنتر کہتے ہیں__ اس کے ثمرات سمیٹ رہا ہے مگر دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس جمہوریت نے بھارت کی سبھی ریاستوں کو ترقی کے دھارے پر نہیں ڈالا۔
کئی ریاستیں ایسی بھی ہیں جہاں عوام میں مزاحمتی جذبات پائے جاتے ہیں کیوں کہ ان کے استحصال اور تحفظات کو دلی سنجیدگی کی عینک سے نہیں دیکھتا۔ انھیں محض طاقت سے ہانکا جاتا ہے، اسی لیے مسائل جنم لیتے ہیں اور آج بھی بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں منی پور، ناگا لینڈ، میزورام، تری پورہ، جب کہ شمال میں کشمیر میں زندگی معمول پر نہیں ہے۔
جہاں ایک جانب ان ریاستوں میں عوام جمہوری حقوق سے محروم ہیں اور افسپا کی غنڈہ گردی کا نشانہ بن رہے ہیں وہیں بنگال سے جھار کھنڈ، مدھیہ پردیش، اڑیسہ، آندھرا، تلنگانہ، چھتیس گڑھ اور مہا راشٹر تک ایک خانہ جنگی کی سی صورتِ حال موجود ہے۔
اس سارے علاقے کو ریڈ کوریڈور کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک گروہ مسلح جد و جہد کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ ماؤ نواز گوریلے ہیں جو ماؤ کی فلاسفی پر عمل پیرا ہیں اور نظام کو طاقت سے بدلنے کی جد و جہد پر کامل یقین رکھتے ہیں یہ جمہوریت اور بیلَٹ باکس کی سیاست کو کلی طور پر مسترد کرتے ہیں۔
1967 میں مغربی بنگال کے ایک گاؤں نکسل باڑی میں کسانوں نے اپنی زمینیں بچانے کے لیے مسلح جد و جہد شروع کی۔ ان میں چارو موجم دار کا کردار ابھر کر سامنے آتا ہے جنھوں نے کسانوں میں اپنے حق کے لیے بندوق اٹھانے کا جذبہ جگایا اور پھر اس مسلح جتھے نے پولیس والوں کو بھی بھون ڈالا۔
چُوں کہ یہ جد و جہد نکسل باڑی گاؤں سے شروع ہوئی اسی لیے یہ ماؤ نواز کارکن نکسلائیٹ کہلائے۔ اس طرح نکسل ازم دلی سرکار کے لیے مزاحمت کی علامت بن کر ابھرا۔
اس جد و جہد کے نتیجے میں اب تک 14000 سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں جن میں سویلین سمیت 3400 سیکورٹی اہل کار اور 4000 نکسلی شامل ہیں۔ اب جب کہ اس جد و جہد کو پچاس برس پورے ہو چکے مگر یہ مزاحمت بھارت سرکار کے تمام تر جبر کے با وُجود جاری ہے، اور اس کا کوئی حل خواہ وہ سیاسی ہو یا فوجی مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا۔
بھارت میں کل 600 سے زائد اضلاع موجود ہیں قریباً دس سال پہلے 200 سے زائد اضلاع نکسلی مزاحمت سے متأثر تھے اب ان کا اثر کچھ ٹوٹا ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 83 اضلاع تک نکسلی محدود ہوچکے ہیں۔
نکسل باڑیے سماجی گھٹن، سرمایہ دارانہ سسٹم کے بے رحمانہ پھیلاؤ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے محنت کش کسانوں کے استحصال کے خلاف صف آراء ہیں۔ اس سارے رَیڈ کوریڈور میں معدنیات بَہ کثرت موجود ہیں جن پر بھارت کے کارپوریٹ سکیٹر اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نظر جمی ہوئی ہے۔
وہ اس علاقے میں پھیلے قبائل، ان کے جنگلات اور زمینوں پر اپنے پلانٹس لگانا چاہتے ہیں، ڈیم بنانا چاہتے ہیں اور کانوں پر قبضہ چاہتے ہیں چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ ان لال ماؤ نواز عناصرکا مقصد کیا ہے؟
در اصل یہ انقلاب بہ زورِ طاقت لانے کے داعی ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ رَیڈ کوریڈور میں پھیلی قبائلی بیلٹ پر قبضہ کیا جائے ان کو آزاد زون بنا کر ریگولر فوج کا قیام عمل میں لایا جائے، تا کہ انقلاب کی راہ ہم وار ہو سکے۔
یہ ہر قصبے گاؤں گاؤں جا کر پرچار کرتے ہیں کہ ہمارے وسائل پر ایک ایلیٹ قابض ہے، اسے اور ریاستی طاقت کو فورسز پر حملے کر کے تباہ کر دو۔ در اصل، یہ ماؤ کی فلاسفی پر کار بند ہیں کہ طاقت سے سسٹم بدل دو اور طاقت ہی استحصال کا جواب ہے لہٰذا یہ ہر طرح کے سیاسی اظہار کے مخالف ہو چکے ہیں۔
سیاسی لیڈروں پر حملے اب معمول کی بات ہے۔ نکسلائیٹ جانتے ہیں کہ ان کے نظریے کے پھیلاؤ کے لیے خوف اہم ہتھیار ہے۔ قبائل ان نکسلائیٹ کی مدد کرتے ہیں۔ ان کو پناہ دیتے ہیں اگر کوئی سیکورٹی فورسز کا ٹاؤٹ بن جائے تو اسے نشانِ عبرت بنایا جاتا ہے، جب کہ دیہاتوں میں تھانوں پر بھی حملے کیے جاتے ہیں۔ فوجی کانوائے پر گھات لگانا ان کا پسندیدہ طریقۂِ واردات ہے۔
سی آر پی ایف، ناگا فورس، کوبرا فورس، حتیٰ کہ بھارتی فوج کو ملا کر لاکھوں کا اجتماع رَیڈ کوریڈور میں تعینات ہے مگر ان سب کے لیے بھی جنگل میں جا کر نکسلائیٹ کا تعاقب کرنا ایک دردِ سَر سے کم نہیں۔ سیکورٹی فورسز والے ماؤ وادیوں کے گڑھ والے علاقوں کو پاکستان کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔
بھارتی حکومت نے 2009 میں آپریشن گرین ہنٹ نکسلائیٹ کی سر کوبی کے لیے شروع کیا مگر بعد ازاں سیکورٹی فورسز پر ایسے خوف ناک حملے کیے گئے کہ حکومت کو آپریشن گرین ہنٹ کی اصطلاح سے گریز کرنا پڑا اور اس وقت کے وزیرِ داخلہ چدم برم کو کہنا پڑا:
”آپریشن گرین ہنٹ تو میڈیا کی اختراع ہے۔“
ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ نکسلائیٹ کی جانب سے بچوں کا استعمال بھی حملے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ان کے مسلح جتھوں میں عورتیں بھی بڑی تعداد میں ماؤ فلسفے پر کاربند ہو کر اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ حتیٰ کہ سیکورٹی فورسز کے ٹارچر سیل میں بد ترین تشدد سہنے کے با وُجود بھی یہ عورتیں زبان نہیں کھولتیں۔ نکسلی، بھرتی کے لیے قبائل کا رخ کرتے ہیں لوگ استحصال کے خلاف نعرے سے متأثر ہو کر ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر جبری بھرتی بھی کی جاتی ہے۔ یہاں دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ صرف کسان، اور قبائلی ہی نہیں بل کہ ستر اور اسی کی دھائی میں پڑھے لکھے نو جوانوں نے بھی اپنے گھر چھوڑ کر اس تحریک میں شمولیت اختیار کی۔
ان نو جوانوں کو ریاستی جبر، قید سہنا پڑی مگر ان کا خیال تھا کہ یہ ایک استحصال سے پاک سسٹم کی جستجو میں رومانوی راہوں پر گام زن ہیں اور جیل تو ان کی گویا کائنات ہے۔ یہ لینن، مارکس اور ماؤ کی تحریروں کے اسیر رہے اور جد و جہد کرتے رہے۔
نکسلائیٹ کی اس وقت تعداد 80 ہزار کے قریب ہے۔ 80 کی دھائی تک 30 مسلح گروپس ریاست کے خلاف بَر سرِ پیکار تھے۔ ان میں پیپلز وار گروپ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
نکسل باڑی تحریک کے بانی موجم دار کو اپنے ہی ایک ساتھی ستیہ نارائن سنگھ کی بغاوت کی وجہ سے گرفتار ہو نا پڑا۔1972 میں جیل میں موجم دار کی موت ہو گئی۔ اس وقت کی وزیرِ اعظم اندر گاندھی نے آپریشن steeplechase شروع کیا جس کے نتیجے میں 20 ہزار نکسلائیٹ کو جیل میں ٹھونسا گیا۔
لیکن تحریک چلتی رہی۔ نکسلی مزاحمت کا سب سے شدید حملہ چھتیس گڑھ کے ضلع دانتے واڑا میں 6 اپریل 2010 کو کیا گیا جب سی آر پی ایف کے کانوائے پر ایک ہزار نکسلیوں نے گھات لگا کر حملہ کیا اور 76 جوان مار گرائے۔ یہ حملہ بھارتی سیکورٹی فورسز کی نفسیات پر ایک کاری وار ثابت ہوا۔
2011 میں ماؤ لیڈر کشن جی بھی مارے گئے جو تحریک کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ بھارتی حکومت نے مہندرا کرما کی قیادت میں 2006 میں سلوا جدم بنائی جس کو سرکاری آشیرواد سے نکسل ازم کے خلاف مسلح تنظیم کے طور پر کھڑا کیا گیا۔
اس تنظیم میں کان کن مزدوروں، بچوں کو بھرتی کیا گیا۔ 644 دیہات خالی یا جلائے گئے۔ یہاں تک کہ ریپ کے واقعات بھی سامنے آئے۔ حکومت نے اس تحریک کو کچلنے کے لیے سپیشل پولیس افسر بھی بھرتی کیے لیکن عدلیہ نے 2011 جولائی میں اس سپیشل فورس کو بند کرنے کا حکم دیا۔ سلوا جدم کی کارروائیوں کے دوران لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔
نکسلیوں نے اس کا بدلہ مئی 2013 میں کانگرسی رہ نماء نند کمار کے ساتھ سلوا جدم کے مہندرا کرما کو بھی موت کے گھاٹ اتار کر لے لیا۔ جب کہ مئی 2019 میں گڈ چڑولی مہا راشٹر میں 16 پولیس اہل کاروں اور 21 مارچ 2020 کو سی آر پی ایف کے 17 اہل کاروں کی نکسلییوں کے ہاتھوں اندوہ ناک ہلاکتوں نے اس سارے منظر نامے کو دلی سرکار کے لیے مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔
ایک اہل کار نے بتایا کہ نکسلی متأثرہ علاقے ترقی سے دور ہیں۔ یہاں ٹی وی اور خبروں کے پھیلاؤ سے ہی شعور پھیلے گا۔ اس کو دبانے کے لیے طاقت کوئی حل نہیں ہے۔
اس ایشو پر بھارت میں کئی با مقصد فلمیں بھی سامنے آئیں جن میں لال سلام، ہزار چوراسی کی ماں، ریڈ الرٹ، چکر ویو اور نکسلائیٹ شامل ہیں۔
یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں کہ ادا کار متھن چکرورتی بھی اس تحریک سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ نکسلی آج بھی سبز یونی فارم میں ریڈ کوریڈور میں دندنا رہے ہیں اور وہ بھارتی دستور کو ماننے سے یک سر انکاری ہیں۔
یوں اس خانہ جنگی کی بَہ دولت اس متأثرہ بیلٹ میں تعلیمی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہوئی ہیں اور یہ علاقہ شدید پس مادنگی سے بھی دوچار رہا ہے۔ سابق بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کہہ چکے ہیں کہ نکسل ازم بھارت کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
بھارتی حکومت نکسلیوں کے خلاف اسرائیلی موساد سے بھی تربیت و ہتھیار لے چکی اور سپیشل جنگل وار فئیر کے کالجز کا جال بھی بچھایا گیا مگر ان کی سمجھ میں یہ نہیں آ سکا کہ جب تک طاقت کے بَہ جائے نکسل باڑیوں سے مکالمہ نہیں ہو گا تب تک عدم مساوات کا خاتمہ نہیں ہو گا۔ جب کہ اس کے ساتھ ساتھ جب تک پس ماندہ قبائل کے مفادات کو کارپوریٹ مفادات پر برتری نہیں دی جائے گی، دہشت گردوں اور سماج کے باغیوں میں امتیاز نہیں ہو گا ریڈ کوریڈور بَہ دستور دلی کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بنا رہے گا۔