نئے پاکستان میں نیا احتساب
از، محمد عاطف علیم
’’مراد، باہر کے بینکوں میں لوٹ کا کتنا مال پڑا ہے؟‘‘
’’آنے جانے کا خرچہ نکال کر دو سو ارب ڈالر، ہارڈ کیش۔‘‘
’’اور بیرونی قرضہ؟‘‘
’’ صرف سو ارب ڈالر۔‘‘
’’پکی بات؟‘‘
’’میں نے خود گوگل کیا تھا خان اعظم۔‘‘
’’واپسی کب تک ہو جائے گی؟‘‘
’’کل ہی ہم چٹھی ڈال دیں گے۔‘‘
’’اگر چٹھی سے پیسے نہ آئے تو؟‘
’’آپ کی دہشت ہی بڑی ہے مائی لیڈر! بنکوں والے دوڑے آئیں گے۔‘‘
’’اگر نہ آئے تو؟‘‘
’’ان کا توباپ بھی آئے گا، وہ جانتے نہیں کہ میں غصے کا س*ر ہوں؟‘‘
’’اچھا اچھا زیادہ ڈینگیں نہ مارو، جیسے ہی مال آ جائے سو ارب مانگنے والوں کے منھ پر دے مارنا۔‘‘
’’سیدھے منھ پر خان جی، میرا مطلب مائنڈ تو نہیں کر جائیں گے وہ؟‘‘
’’فکر نہ کرو تم پر تو ۳۰۲ بھی نہیں لگتی۔‘‘
’’باقی سو ارب خان اعظم؟‘‘
’’پہلے سو دنوں میں بہت خرچہ کرنا ہے۔ ککڑ ہیں،ککڑیاں ہیں اور پھر برطانوی راج کی نشانیاں بھی مٹانی ہیں۔‘‘
(مراد مارے جوش کے خان کا منھ چومنے کے لیے بڑھتا ہے لیکن چہرے پر وزارت عظمیٰ دیکھ کر دبک جاتا ہے۔)
’’پاکستان میں روزانہ کتنی کرپشن ہوتی ہے؟‘‘
’’خان اعظم، جمہوریہ فیس بک کے مطابق بارہ ارب روپے روزانہ۔‘‘
’’بارہ ارب روزانہ؟۔۔۔ کچھ زیادہ نہیں ہو گیا؟‘‘
’’نہیں خان جی،پکی رپورٹ ہے۔‘‘
’’پھر جاؤ سوات میں جلسہ کرو اور بتاؤ کہ نئے پاکستان میں چوروں کا احتساب شروع۔ اب چوروں اور ڈاکوؤں سے چھتر پھیر پھیر کر پیسے نکلوائے جائیں گے۔ صرف دو دن میں کرپشن ختم اور دولت کی ریل پیل شروع۔‘‘
’’لیکن اتنے سارے پیسوں کا ہم کیا کریں گے خان جی؟‘‘
’’ہم مودی سے لال قلعہ اور دلی کی جامع مسجد کا سودا کریں گے اور شکرانے کے نفل ادا کریں گے۔‘‘
’’پھر خان جی؟‘‘
’’پھر ؟۔۔۔ وہ میں بشریٰ بی بی سے پوچھ کر بتاؤں گا۔‘‘