سر تا پا انقلاب
از، معصوم رضوی
الحمداللہ نئے پاکستان میں چار سو خوش حالی ہے، عدل و انصاف کا ڈنکا بج رہا ہے، شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی ہی نہیں پیتے بلکہ غسل آفتابی بھی ساتھ ہی کرتے ہیں، مجال ہے پیش دستی اور دھول دھپے کی نوبت آئے۔
کروڑ نوکریاں تو دور کی بات اب تو پاکستانی لاکھوں کو روزگار فراہم کر رہے ہیں، وطن عزیز عالمی ٹائیگر بن چکا ہے، کثیر تعداد میں غیر ملکی رفیقوں کی آمد کے باعث پچاس لاکھ مکانات کم پڑ گئے لہذا کروڑ مزید بنائے جا رہے ہیں۔
روپیہ، ڈالر کو کچل کر آگے بڑھ چکا، پاکستانی مصنوعات عالمی منڈی پر چھائی ہوئی ہیں۔ بجٹ اتنا سرپلس کہ بچی ہوئی رقم کا مصرف سمجھ نہیں آتا، عرب برادران اور ترقی یافتہ ممالک تک کو سالانہ امداد دی جاتی ہے، بھارت اور افغانستان دشمنی بھول کر خوشامد درامد کرتے پھرتے ہیں، وجہ یہ کہ ایک تو انکے باشندے بڑی تعداد میں یہاں نوکریاں کر رہے ہیں، دوئم ان کی معشیت کا دارومدار اب پاکستان پر ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے ہاتھ باندھے اذن باریابی چاہتے ہیں مگر کوئی سنوائی نہیں ہے۔
امریکہ اپنی رو بہ زوال معیشت کی بحالی کے لیے پاکستانی ماڈل کو اپنانے کی بات کر رہا ہے، دنیا بھر کے سرمایہ کار جھولی بھرے کھڑے ہیں۔ حضور یہ ہے وہ نیا پاکستان جہاں عوام ہاتھ اٹھا اور نظر جھکا کر مقدس اداروں معاف کیجیے گا حکومت کو دعائیں دیتے نہیں تھکتے۔
درون خانہ صورتحال یہ ہے کہ غدار، کرپٹ اور غیر جمہوری اپوزیشن سلاخوں کے پیچھے، 100، 200 بندے اندر ہوئے تو سب سدھر گئے، ایمنسٹی اسکیم سے پہلے ہی ٹیکس چوروں نے بوریاں بھر بھر کے خزانے میں جمع کروا دیں۔ کج بحثی کرنیوالے دو، چار ججز، آٹھ، دس صحافی اور سرکاری افسران کا ایسا بر وقت اور موثر علاج کیا گیا ہے کہ اب نظر اٹھانے کے قابل نہ رہے۔ جوش صاحب زندہ ہوتے تو کچھ یوں کہتے
کام میرا ہے تصور، نام میرا ہے شراپ
میرا نعرہ احتساب و احتساب و احتساب
سچ تو یہ ہے کہ ادارے عوام کا گھر اور افسران اعلیٰ خادم، حکومت سر تا پا خدمت، عجز و نیاز کا پیکر، عوام الناس کا حکومت پر اندھا اعتماد، کابینہ ایسی پاکباز و پارسا کہ فرشتے وضو کریں۔ ایسا ایسا ہیرا جمع کیا ہے کہ اکبر کے نورتن شرما جائیں، جو ذرہ جس جگہ وہیں محو خواب ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ ہاؤسز میں بین الاقوامی معیار کی جامعات اور گورنر ہاؤسز یتیم خانے بنا دیے گئے ہیں۔ وفاقی وزرا دو کمروں اور صوبائی ایک کمرے کے مکانات میں رہتے، گھر کا کام بھی خود کرتے ہیں اور اپنی اپنی آلٹو بھی خود ہی چلاتے پھرتے ہیں۔
کوئی وی آئی پی نہیں، جس نے ذرا اختیارات سے تجاوز کیا اسے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ ارب پتی وزرا نے اپنی تمام دولت بیت المال کو سونپ دی سو کھربوں جمع ہیں ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں والی کیفیت ہے۔
ابھی رمضان میں لوگ زکوۃ لینے والوں کو ڈھونڈتے پھرے مگر ندارد، بیت المال والوں نے بادل ناخواستہ لے تو لئے مگر اب سوچا جا رہا ہے کہ یہ رقوم یورپ کے غربا یا پھر بل گیٹس کے خیراتی ادارے کو بھجوا دی جائے۔ آپس کی بات ہے ملک عزیز میں اب کتنے بل گیٹس، وارن بفٹ اور جیف بیزوس ہیں گنتی کرنا ناممکن ہے۔
معیاری تعلیم اور صحت بالکل مفت، غیر ملکی طلبا اور بیرون ممالک سے علاج کروانے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ جرائم کا ایسا خاتمہ ہوا ہے اب تو حکومت یہ سوچ رہی ہے پولیس کا محکمہ ہی ختم کر دیا جائے، پرائیوٹ سیکورٹی ادارے تو کب کے بند ہو چکے۔ خیر ابھی تو حکومت کو ایک سال بھی نہیں ہوا تمام وعدے اور منصوبے پورے ہو گئے، ایسا نظام بن چکا ہے کہ تمام کام آٹو پائلٹ پر لگے ہوئے ہیں چنانچہ اکثر وزرا فراغتے و کتابے و گوشہ چمنے کی تصویر نظر آتے ہیں۔
فکر نہ کریں عوامی حکومت غافل نہیں، اب ایک نئی وزارت بنائی جا رہی ہے جو سرکار کے لیے مصروفیات تلاش کرے کہ باقی چار سال کیا کرنا ہے۔
خیر اب تو لوگ بھول چکے ہیں، ایک زمانہ تھا جب اسٹیبلشمنٹ کسی حکومت کو چلنے نہیں دیتی تھی، بالواسطہ یا بلاواسطہ، فسانہ یا حقیقت یہ ایک الگ بحث ہے، بہرحال اب تو اسٹیبلشمنٹ کا ٹنٹا ہی ختم ہو گیا، مگر پھر بھی ایک لمحے کو سوچیے اگر وہی اسٹیبلشمنٹ آج ہوتی تو کیا کرتی، حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں، اس کے علاوہ چارہ بھی کیا ہوتا، بھلا کون ہے جو ایسی قابل اور ذھین اور عوامی حکومت پر قابو پا سکے؟
سو اسٹیبلشمنٹ فی الوقت ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم والی کیفیت میں مبتلا ہے۔ یہ تو خیر ماننا پڑیگا کہ دو کرپٹ سیاسی قوتوں کا دھڑن تختہ کرکے تیسری قوت کو سامنے لانے کا سہرا اسی اسٹیبلشمنٹ کے سر ہے، مگر اب وہ مسائل ہیں نہ ویسے کٹھ پتلی وزیر جن کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔
دیکھیے عید کے چاند کا مسئلہ ہوا کرتا تھا، علما سمیت پوری قوم تقسیم، دو، دو، تین، تین عیدیں، اس معاملے کو کس خوبی سے حل کیا گیا۔ خیر سے عید کا چاند اب صوبائی معاملہ ہے، باقی گیارہ مہینے رویت ہلال کمیٹی کے حوالے، مسئلہ ہی حل ہو گیا۔
اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ منتخب نمائندوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتی تھی اور ووٹ حاصل کرنے والے بھی بلا وجہ عوامی نمائندگی کے زیر اثر اکڑتے پھرتے تھے، تو اب پچاس فیصد کوٹہ غیر منتخب ارکان کے حوالے، گویا حکومت اور کابینہ میں جمہور و غیر جمہور کا ایسا فقیدالخیال توازن پیدا کیا گیا ہے جس کا کوئی توڑ ہو ہی نہیں سکتا۔
ایک زمانہ تھا وزیر اطلاعات و نشریات کا بڑا ٹیکا ہوا کرتا تھا مگر اب ایک مجاہدانہ ٹوئٹ یہ فرض انجام دیتا ہے، سو صحافیوں سمیت سب قبول است و قبول است و قبول است کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں، پھر بھی اگر ضرورت پڑے تو وزیر یا مشیر اطلاعات تین بار یکے بعد دیگرے اوپر نیچے گردن ہلا کر تصدیق کر دیتا ہے۔
جناب ٹی وی چینلز پر سنسنی پھیلانے والی بریکنگ نیوز اور ایکسکلوسو اسکینڈلز بھولی بسری داستان بن چکے ہیں، خیرویسے بھی نیوز چینل تو اب کوئی دیکھتا بھی نہیں، ہاں انٹرٹینمنٹ چینل عوام کی توجہ کا مرکز ہیں جہاں ڈپٹی نذیر احمد کی توبتہ النصوح، مراۃ العروس، بنات النعش اور نسیم حجازی کے قیصر و کسریٰ، اور تلوار ٹوٹ گئی، یوسف بن تاشقین وغیرہ وغیرہ، ان جیسے دیگر مصنفوں کی ڈرامائی تشکیل بمع عربی اور چینی ترجمہ چلا کرتی ہے۔ وزارت آبی وسائل اور سابق منصف اعلیٰ کی مشترکہ خواہشوں کی باعث سیکڑوں ڈیم تخیلاتی مراحل میں ہیں، ہر ڈیم کنارے ایک جھگی بھی ڈال دی گئی ہے، بس جھگی نشین کا انتظار ہے۔
سمندری امور کی وزارت نے ایسے ایسے نایاب آبگینے تلاش کیے ہیں کہ آنکھیں اور ذرا غور سے دیکھو تو عقل چندھیا جائے۔ وزارت خارجہ نے پوری دنیا میں سبز پرچم کی ایسی دھاک بٹھائی ہے کہ اب سکریٹری خارجہ کا استقبال خود ڈونلڈ ٹرمپ بہ نفس نفیس کرتے ہیں۔ پاکستان جنگ کرنیوالے ممالک کے درمیان ثالثی کے فرائض انجام دینے پر عالمی برادری میں قائدانہ عزت و تکریم کا باعث ہے کہ اقوام عالم نے پاکستانیوں کے لیے ویزے کی شرط ہٹا دی ہے۔
پوری دنیا سے سیاح بلوچستان اور فاٹا کا رخ کرتے ہیں، دہشت گرد جو ٹوٹی کمر مٹکاتے پھرے تھے ان کی گردن ہی مروڑ دی گئی، سو وزارت دفاع کی حیثیت اعزازی اب کر دی گئی، کس کی مجال ہے کہ ٹیڑھی نظر سے اس طرف دیکھ سکے۔
ارے ہاں یہاں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ بڑی نا انصافی ہو گی، اس وزارت نے تو عالمگیر فلاح کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے، سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے ایسے ایسے بیش قیمت فارمولوں سے کہ دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ یقین نہ آئے تو بس وزیر کا نام لکھیں اور دیکھیں پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔
تو میرے عزیز ہم وطنوں حقیقت ہے کہ نیک نیت، دیانتدارانہ، پرخلوص بیانات اور مثبت رپورٹنگ نے سر تا پا ایسا انقلاب برپا کیا ہے جس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں۔