نئے پاکستان کے صادق و امین حکمران

علی زاہد

نئے پاکستان کے صادق و امین حکمران

از، علی زاہد

اچھا ہوا جو ن لیگ کے سب کار کنان نواز شریف اور شہباز شریف سمیت بخریت گھر کو پہنچا دیے گئے۔ معاف کیجیے گا نواز شریف تو اڈیالہ جیل میں پسینہ بہا رہے تھے، یہ تو اللہ اللہ کر کے دل نے ایسا ساز گار ماحول پیدا کیا کے جیل سے اسپتال کو پہنچے۔ ن لیگ والے سب کے سب صادق و امین نہ تھے۔ نواز تو با لکل بھی صادق و امین نہیں تھا، اسی لیے تو دوسروں کو گھر کا راستہ دکھایا گیا اور نوازشریف کو جیل کا۔

ن لیگ کی چھان بین جاری و ساری ہے۔  جو تھئڑ ہوں گے چَھن جائیں گے، جو چاول ہوں گے وہ صادق و امین کا دانگ لے کر حکومت کی دیگ میں ضرور پکائے جائیں گے۔

صادق و امین تو کسی طور ق لیگ والے بھی نہ تھے۔ پر کہتے ہیں کہ ہیرا ہمیشہ کوئلے کی کان سے نکلتا ہے۔ سو خاصا وقت گزرا مشرف اور ان کے یاروں کی چھان بین کو۔  وقت کی چھاننی میں کوئلے سب چَھن گئے۔ باقی جا کر جو بچے وہ سب ہیرے۔ دیرینہ پاکستان کے صادق و امین اسی سبب ہی تو، نئے پاکستان کے صادق و امین حکمرانوں کی کشتی میں سوار ہوں گے۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کوئلہ ہو یا ہیرا دونوں کا عُنصر “کاربن” ہی ہوتا ہے۔

اب تو یہ بھی نہیں دیکھا جائے گا کہ سیاست کے گنگا جل سے تازہ اشنان کیے نکلے، سیاسی پنڈتوں کے ماضی میں کیسے کرتوت رہے ہیں۔ کس طریقے سے وہ ڈکٹیٹر کے کاندھوں پہ چڑھ کر چور دروازے  سے ایوانوں تک پہنچے۔ راتوں رات نئی پارٹی وجود میں آئی، اور کس طرح جمہوریت کا لباس پہن، انہوں نے آمر کے اشاروں اور آشیر باد سے حکومت کی۔

بس ان کا ماضی جیسا بھی تھا، اب یہ دوست ہیں،  تو پھر دوست کو دوست کی دوستی سے کام۔ خواری کیوں کی جائے۔ ایسے کتنے ہی کوئلوں کے ہمجولی ہیرے تو پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر انتخابات بھی لڑ چکے۔

صادق و امین تو اب پی ٹی آئی کے امید وار بھی نہیں رہے ہیں۔ جو انتخابات میں ہارے ہیں۔ اس قدر گَراں پروٹوکول کے با وجود تو وہ ہی ہار سکتا ہے جو صادق و امین نہ ہو! صادق و امین تو وہ آزاد  امید وار ہوئے جنہوں نے پی ٹی آئی کے امید واروں کو شکست دی۔ تبھی تو صادق و امین حکومت کی کشتی میں سوار ہونے کے لیے خوب مِنّت و سماجت کی جا رہی ہے ان کی۔

ایم کیو ایم والوں نے تو بذاتِ خود آغاز ہی سے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ صادق و امین قطعاً نہیں ہیں۔ تبھی تو کراچی میں ان کا صفایا ہوا۔ باقی جو بچے انہوں کا سی ٹی اسکین ہو رہا ہے۔ امید ہے کہ یہ بھی صادق و امین ہی نکلیں۔ ان کا سب سے معتبرو اعلیٰ صادق و امین عشرت العباد انہیں، دبئی میں بیٹھا ہدایتیں دے رہا ہے کہ کوئی شرط نہ رکھو، چاہے کوئی بھی عہدہ نہ ملے، مگر آپ کو حکومت میں شامل ہوکر صادق و امین بننا ہے۔ تا کہ مستقبل کے لیے ایم کیو ایم کا بیج بچ سکے۔

باعثِ مسرت بات ہے کہ مرکز، پنجاب، کے پی کے، بلوچستان میں صادق و امین حکومتیں قائم ہونے والی ہیں۔ رہا فقط بد بخت صوبۂ سندھ جہاں پر صادق و امین حکومت نہیں قائم ہو سکے گی۔ کیوں کہ سندھ کے لوگ ہی نہیں چاہتے کہ ان پر کوئی صادق و امین حکمران حکومت کرے۔ سندھ کے لوگ تو پیپلز پارٹی کے نشے میں غرق رہتے ہوئے بس سوتے ہی رہیں گے۔ باقی کا پاکستان آگے نکل جائے گا، صوبۂِ سندھ وہیں پرانے پاکستان میں ہی رہ جائے گا۔


مزید مطالعہ: صادق اور امین کو تو بخش دیں از، وسعت اللہ خان

وہ کافر کون تھا وزیر اعظم صاحب  از، معصوم رضوی


نئے پاکستان کے صادق و امین حکمرانوں کی نظر میں نہ صرف سندھی حکمران بَل کِہ سندھی لوگ بھی صادق و امین نہیں ہیں۔ اس لیے تو کراچی کی نشستوں سے انتخاب لڑنے کے لیے پی ٹی آئی کے نہ جانے کتنے ہی سندھی بولنے والے کار کنوں  نے درخواستیں دیں پر کسی کو بھی صادق و امین قرار نہ دیا گیا۔

یہ تو ٹھیک مگر پارٹی میں سر گرم سارے سندھیوں میں سے کوئی بھی ایک  صادق و امین نظر نہیں آ رہا جسے گورنر کی کرسی پر بٹھایا جائے۔ اس کرسی کے لیے بھی لگ رہا ہے کہ کسی دوسرے صوبے میں صادق و امین گورنر کو امپورٹ کیا جا رہا ہے۔

ہمارے متوقع آنے والے صادق و امین وزیرِ اعظم نے ہمیشہ اپنی تقاریر میں بے حد زور و شور سے یہ کہا ہے کہ ہماری حکومت کا آغاز ہوتے ہی ہم کے پی کےکی طرح دوسرے صوبوں کی پولیس کو بھی تبدیل کریں گے۔ پنجاب کے ان ہی کے ایک صادق و امین ایم پی اے ندیم عباس بارا سے رہا نہ گیا تو اس نے قبل از حکومت قائم ہونے کے دیرینہ پولیس والوں کو مار مار کر لہو لہان کر دیا۔ شاید پولیس کی اصلاحوں اور تبدیلی کی شروعات پنجاب سے ہوچکی۔

تو اب بجز سندھ کے دوسرے صوبوں کے پولیس والے یا تو اپنی انشورنس کروا لیں، یا پھر کسی دوسری وردی والے مولوی سے صادق و امین کا تعویذ لے کر فٹا فٹ گلے میں پہن لیں۔ اور یاد رہے کہ تعویذ کو کپڑے یا چمڑے میں مڑھوانے کی صورت میں اس پر صادق و امین لکھوانا نہ بھولیں۔ یہ ہی نسخہ ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دوسری مخالف جماعتوں کے ایسے امید واروں کے لیے بھی کار گر اور مفید ثابت ہو سکتا ہے جو صادق و امین ہونے کے خواست گار ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو! ورنہ “کیا بنے بات جہاں، بات بنائے نہ بنے۔

آج نہ جانے کیوں بے چارے یوسف رضا گیلانی یاد آ گئے ہیں۔ جو ایک طویل عرصے تک صادق و امین نہیں تھے، خاصی ریاضت  اور چِلؔہ کَشی کے بعد اس دفعہ صادق و امین بننے کی راہ نظر آئی۔ مگر افسوس کے انتخابات میں ہار نصیب ہوئی۔ اور اب انہیں پھر سے پانچ برسوں تک صبر و تحمل سے انتظار کرنا ہو گا۔ کیوں کہ اگر جیت جاتے تو شاید آگے جاتے، کیوں کہ آنے والے ایام کی کسی کو کوئی خبر نہیں ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔

عین مکمن تھا کہ ایسا فقیر منش انسان بھی نئے صادق و امین حکمرانوں کی کشتی کے چپو سے چمٹ کر صادق و امین بن جاتا۔ یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران وزیرِ اعظم جیسے بڑے عہدے پر فائز ہونے کے با وجود خود کو صادق و امین ثابت کرنے میں نا کام رہے، فقط سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے کے گناہ میں عدالت کے اندر ملی مختصر ترین سزا کے عِوِض وہ نا اہل ہو کر نہ صرف وزیرِ اعظم کا عہدہ کھو بیٹھے بَل کِہ وہ صادق و امین بھی نہ رہے۔

کہتے ہیں کہ ووٹ کا تقدس پائمال کرنا ایک بڑا گناہ ہے۔ لیکن اگر کوئی صادق و امین ایسا گناہ سر زد کرتا بھی ہے تو وہ گناہ اتنا بڑا گناہ نہیں رہتا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جو ووٹ کا تقدس پائمال کرے گا، اس کے لیے قانون میں 6 ماہ قید اور جرمانہ کی سزا بھی رکھی ہوئی ہے۔ میں قانونی معاملات سے نا واقف ہوں، مجھے خبر نہیں کہ کیا اور کیسی سزائیں ہیں، اور کون ان سزاؤں سے بری ہے۔

مجھے بس یہ معلوم ہے کہ محترم عمران خان نے انتخابات والے روز سرِ عام، ٹی وی چینلوں کی کیمروں کے سامنے بیلٹ پییر پر اپنے انتخابی نشان کے اوپر مہر ثبت کی۔  جو نہ صرف ساری دنیا نے دیکھا مگر یہ منظر کتنے ہی لوگوں کے سیل فونز میں محفوظ ہے۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ یہ ووٹ کا تقدس پائمال کیا گیا ہے، جو کہ گناہ ہے۔ الیکشن کمیشن نے عمران خان کی طرف سے ووٹ کی راز داری نہ رکھنے والے عمل کا نوٹس بھی لیا اور عمران خان کو 30 جولائی کو عدالت میں طلب بھی کیا۔

جہاں عمران خان تو نہیں پہنچے لیکن ان کا وکیل بابر اعوان پہنچ گیا۔ الیکشن کمیشن نے عمران خان سے قلمی جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ  کیس کی سنوائی 16 اگست کو ہوگی۔ 16اگست تک توعمران خان وزیرِ اعظم کی پگڑی پہنے ملکی معاملات سنبھالنے میں پورے ہوں گے۔ پھر ظاہر ہے کہ ان کے پاس ایسے کیسز کے لیے وقت ہی نہ ہوگا۔

کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو اگر اس کیس میں سزا ملی تو وہ نا اہل ہوسکتے ہیں۔ پر مسئلہ یہ ہے کہ جس انسان کے بازو پر صادق و امین کے  لا تعداد تعویذ بندھے ہوں وہ نا اہل کیسے ہو سکتا ہے؟ مگر یہاں یہ بات بھی اتنی اہم نہیں، اہم بات تو یہ ہے کہ نئے پاکستان کے حکمران ہی صادق و امین ہیں۔