نیا سورج، نئی زمین، نیا سب کچھ
سعد اللہ جان برق
ایک ماہر علم نجوم جناب ڈاکٹر پروفیسر علامہ عامل کامل نے بڑی اچھی پیش گوئیاں کی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ان دل خوش پیش گوئیوں کو آپ کے ساتھ شیئر کریں۔ پروفیسر ڈاکٹر علامہ عامل کامل مذکور عام قسم کے بازاری اخباری اور اشتہاری ماہر نجوم نہیں ہے بلکہ عام طور پر دستیاب بھی نہیں ہے ۔صرف ہمیں ہی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہے وہ بھی کبھی کبھار جب ہم آئینہ دیکھتے ہیں کیونکہ ان کا جائے قیام صرف آئینے میں ہے اور چونکہ آئینے میں سب کچھ الٹ ہوتا ہے، اس لیے ان کی پیش گوئیاں بھی اُلٹ ہوتی ہیں مثلاً یہ آسمان کے تاروں، ستاروں اور بروج و افلاک کے بجائے ’’زمین کے ستاروں‘‘کے چال چلن کو دیکھ کر پیش گوئیاں کرتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ چونکہ مرشد نے آسمان کے تاروں کو بالکل ہی ناقابل اعتماد قرار دیا ہوا ہے کہ
ہیں ستارے کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا
اس لیے وہ آسمان کے دھوکا باز کو اکب کے بجائے زمین کے ’’اسٹارز‘‘ کو ترجیح دیتے ہیں خاص طور پر سیاست کے آسمان پر چمکنے والے ستارے تو نہایت ہی معصوم اور سچائی سے بھرپور ہوتے ہیں، جھوٹ تو سرے سے جانتے ہی نہیں ہیں، کردار بھی ان کا قابل رشک ہوتا ہے اور دن رات خلق خدا کی بھلائی اور رہنمائی کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عوام کی ازلی ابدی اور جدی پشتی بد قسمتی سے رہنمائی گمراہی بن جاتی ہے اور رحمت کی جگہ زحمت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ فرمایا مجھے پہلے ہی سے اندازاتھاکہ تم مملکت خداداد پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ضرور پوچھو گے اس لیے میں پہلے ہی خوب تیار ی کر کے آیا ہوں کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا ؟
میں ستاروں کی چال بھی دیکھ رہا تھا ڈھال بھی اور چلن بھی اس لیے جب سارے زائچے کنڈلیاں وغیرہ ملائیں تو معلوم ہوا کہ کچھ ہی دن میں اس ملک کے عوام کی قسمت بھرنے والی ہے اور پھر ایسی بھرے گی کہ بھرتے بھرتے بھر کی ہو جائے ۔سب سے پہلے تو نئے پاکستان کا سورج طلوع ہو گا کیونکہ یہ پرانا سورج اب کسی کام کا نہیں رہا ہے، عمر بھی اس کی زیادہ ہو گئی تقریباً سٹھیا چکا ہے اس لیے تو اس کے گھرانے کے سارے افراد اس سے دور دور رہتے ہیں اور اب تو اس کے دل میں سوراخ بھی ہو چکا ہے۔
اس لیے اس کی جگہ نئے پاکستان کا نیا سورج نکالنا ناگزیر ہے ۔اس نئے پاکستان کے نئے سورج کا پہلاکمال یہ ہوگا کہ پرانے سورج کی طرح اپنے سات رنگوں کو چھپا کر بن رہے گا بلکہ ساتوں کے ساتوں رنگ ایک ساتھ نئے پاکستان پر نچھاور کر دے گا اور یوں نیا پاکستان بلیک اینڈ وائٹ کے بجائے ٹیکنی کلر ہوجائے گا ہر طرف رنگ ہی رنگ پھیلے ہوئے نظر آئیں گے اور لگے گا جیسے ہولی ہے ہولی ۔
ساتھ ہی اس کے اوپر ایک بہت ہی حسین اور رنگین دھنک بھی طلوع ہوجائے گی جس کا ایک سرا بنی گالہ اور دوسرا بھی بنی گالہ میں ہوگا۔ دھنک رنگ ہر طرف دکھائی دے گا جسے دیکھ کر نئے پاکستان کے رہنے والے ’’دھنیہ‘‘ ہو جائیں گے نہ کوئی غم رہے گا نہ دکھ نہ رنج نہ بیماری نہ خزن نہ ملال ۔۔یعنی
بہشت آں جا کہ آزارے نہ باشد
کسے را با کسے کارے نہ باشد
رنگوں کے ساتھ ساتھ اس نئے سورج کی تمازت اتنی ہوگی کہ کرپشن کا وہ پہاڑ جسے آج تک کوئی خراش تک نہیں لگا سکا ہے اور جتنے بھی فرہاد اسے کھودنے گئے وہ واپس نہیں آئے اس پہاڑ میں کہیں ادھر ادھر غائب غلہ ہوگئے بلکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کرپشن کا یہ پہاڑ کچھ مقناطیسی صفات بھی رکھتا ہے جو بھی اس کے قریب جاتا اسے کھینچ کر اور پتھر کا بنا کر اپنے ساتھ چپکا لیتا ہے۔لیکن نئے پاکستان کا نیا نویلہ سورج اس پہاڑ کو برف کی طرح پگھلا کر نہ صرف ختم کر دے گا بلکہ اس جگہ ایک سمندر بنا دے گا جس میں رنگ برنگی مچھلیاں ہوں گی اور اگر نئے پاکستان کے عوام اور کچھ بھی نہ کریں تو اس سمندر کے ’’سی فوڈ‘‘ پر کم از کم سو سال تک زندہ رہ سکیں گے ۔
لیکن چونکہ نئے پاکستان کے لوگ صرف ایک ہی خوراک پر قانع نہیں ہوں گے اور وہ کچھ اور سبزیاں، دالیں، گوشت اور ترکاریاں بھی مانگیں گے اس لیے اس سمندر یا جھیل سے پانی اُلٹا بہہ کر ان نہروں نالوں میں پہنچ جائے گا جو نئے سورج کے ساتھ ہی بنی ہوگی وہاں سے کھیتوں میں جائے گا اور ہر طرف ہر قسم کی فصلیں اور باغ بہلتا اٹھیں گے جن کے لیے انسانوں کو کچھ بھی نہیں کرنا پڑے، سارا کام نیا سورج کرے گا جتائی، بوائی، آبپاشی اور کٹائی گہائی ۔لوگوں کو صرف باردانہ لے کر جانا اور بھربھر کر لے آنا ہوگا۔اس کے ساتھ ہی زمین میں بھی تبدیلی آجائے کیونکہ نیا سورج نے اسے بھی نیا نویلہ کیا ہوگا ۔
زمین اچانک کھمبیوں کی طرح زر و جواہر اگلنے لگے گی اور سونے چاندی کے پیڑوں کے جنگل پیدا ہوجائیں گے کچھ دنوں میں زمین پوری کی پوری ایک خزانے کی صورت اختیار کر جائے گی اور لوگ گانے لگیں گے کہ
’’چاند میری زمین پھول میرا وطن‘‘
سب سے بڑی تبدیلی انسانوں میں آجائے گی ہر کوئی صبح اٹھے گا تو اس تلاش میں نکلے گا کہ کہیں کسی کو کسی مذمت کی ضرورت تو نہیں؟ انصاف اتنا زیادہ ہو جائے کہ ہر گھر کی ہر دہلیز سے باہر بسنے لگے گا، گھروں کی دہلیزوں سے بہہ کر گلیوں میں، گلیوں سے بہہ کر سڑکوں پر اور سڑکوں پر بہتے بہتے شہروں میں پہنچے گا جہاں حکومت کے قائم کردہ تالابوں میں پہنچے گا، سرکاری اہل کار اس سے کنستر اور بیرل بھر کر دساور بھیجنے کے لیے جمع کریں گے۔ یوں زرمبادلہ کا ایک سیلاب بھی اُمڈ پرے گا ، نتیجہ یہ ہوگا کہ ساری دنیا کے سارے ممالک کے باشندے نئے پاکستان میں رہائش کے لیے درخواستیں دینا شروع کر دیں گے ۔