نیر مسعود کا انداز تحریر
از، خضر حیات
محقّق، مترجم اور افسانہ نگار نیر مسعود 12 نومبر 1936ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پروفیسر مسعود حسین رضوی ادیب، کئی کتب کے مصنّف اور لکھنؤ یونیورسٹی میں فارسی کے صدرِ شعبہ رہے۔ ابتدائی تعلیم لکھنؤ میں حاصل کرنے کے بعد نیّر مسعود 1957ء میں لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ فارسی سے وابستہ ہوئے اور 1997ء میں ریٹائرمنٹ تک اسی شعبے سے وابستہ رہے۔ ان کی وفات 24 جنوری 2017ء کو لکھنؤ میں ہوئی۔
ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ‘سیمیا’ 1984ء میں لکھنؤ سے شائع ہوا اور چند برس بعد لاہور سے اس کی دو بارہ اشاعت ہوئی۔ افسانوں کا دوسرا مجموعہ عطرِ کافور 1990ء میں، تیسرا مجموعہ طاؤس چمن کی مینا 1997ء میں جب کہ چوتھا اور آخری مجموعہ گنجفہ 2008ء میں کراچی اور پھر لکھنؤ سے شائع ہوا۔
نیّر مسعود کی کہانیوں میں ایک خواب ناک فضا کا بسیرا ہے جس پہ بعض اوقات گمان ہونے لگتا ہے کہ یہ فضا پوری طرح نشے سے مغلُوب ہے اور اس میں پاؤں کسی ایک جگہ پر ٹھہرتا ہی نہیں ہے۔ پڑھتے جاتے ہیں اور پھسلتے چلے جاتے ہیں۔
وہ اپنے ساتھ اپنے قاری کو بھی بھول بھلیوں میں لیے بھاگتے رہتے ہیں۔ مکانوں کی، گلیوں کی، بستیوں کی اور وقت کی بھول بھلیوں میں گھومتے گھماتے رہنا نیّر مسعود کو خاص پسند ہے۔
جگہ جگہ واہموں کی راہ داریاں ہیں جن پر چلتے ہوئے کسی نہ کسی طرف پہنچنے کا سفر جاری رہتا ہے۔
سبھی نہیں تو اکثر نقش دھندلکے میں لپٹے ہیں جنہیں دیر تک دیکھتے رہنے کے بعد پہچان کی کوئی صورت بر آمد ہوتی ہے اور اکثر نہیں بھی بر آمد ہوتی۔ ایک پینٹنگ دیوار پر لٹکی ہے مگر پہلی نظر میں دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جس شیشے کے فریم میں یہ جڑی ہے اس پر گرد کا بسیرا ہے۔ بس ذرا سی گرد جھاڑنے سے تصویر سامنے آ جائے گی مگر ہوتا یہ ہے کہ گرد جھڑنے کے بعد بھی تصویر دھندلی ہی رہ جاتی ہے۔ لیکن یہ ماننے کی بات ہے کہ گرد جھاڑنے کا یہ عمل بھی ایک طمانیت بھری آسودگی عطا کرتا ہے۔
بہت کم ہوتا ہے کہ گَرد جھاڑتے ہوئے پڑھنے والے کو گرد جھاڑنے والا عمل بے سُود یا لطف سے عاری محسوس ہو۔ نیر مسعود کا کہانی کہنے کا انداز قاری کو مَحوِیّت کے حصار میں لیے چلے جاتے ہیں اور اسی استغراق میں پتا ہی نہیں چلتا آپ طرح طرح کے جہانوں کی سیر سے واپس بھی لوٹ آتے ہیں۔
ان کا لکھنے کا انداز اتنا علامتی ہے کہ وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ نیّر مسعود اس علامت سے کیا مفہوم باندھ گئے ہیں۔ بس پڑھتے جاؤ اور سوچتے جاؤ۔ عام لکھنے والوں کی کہانیوں کو ذرا توَجُّہ سے پڑھیں تو سمجھ میں آ جاتی ہیں، مگر نیّر مسعود کی بعض کہانیوں کو با قاعدہ ڈی کوڈ کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ کوشش کبھی بار آور ثابت ہوتی ہے اور کبھی رائیگاں جاتی ہے۔
کبھی کبھی یہ گمان بھی ہونے لگتا ہے کہ یہ کہانیاں کسی بوڑھے شخص کی بُڑ بُڑاہٹ جیسی ہیں جس میں کہی سنی جانے والی باتیں بغیر کسی ترتیب کے بس وارد ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک ایسا بوڑھا شخص جس کی کُل متاع اس کا حافظہ ہے اور جو تمام عمر انوکھے جہانوں میں بھٹکتا پھرتا رہا ہے۔ کئی کہانیوں میں نیّر مسعود کا راوی بولتے بولتے باتیں بھول جاتا ہے، مثلاً اکلٹ میوزیم سے یہ اقتباس دیکھیں:
وہ میری اور اپنی یادوں کا ایک سلسلہ اپنے ساتھ لایا تھا لیکن وہ یادیں اب مجھ کو یاد نہیں۔
مزید دیکھیے: نئی صدی کی افسانوی ثقافت از، فرخ ندیم
کہانیوں میں کچھ آوازوں اور کیفیات کی باز گشت بھی سنائی دیتی ہے جیسا کہ مکانوں کے اندر کی فضا، ڈیوڑھیاں، راہ داریاں، دالان اور گھروں کے اندر کے نقشے، نوادرات کے قصے، جڑی بوٹیوں سے علاج کے منظر نامے۔ پھر اکثر کہانیوں میں راوی چلتے چلتے کسی ایسی جگہ ضرور پہنچ جاتا ہے جو اس نے پہلے نہ دیکھی ہو اور جو ویران ہو۔
پھر اندھیرے میں پہنچ کر سمتوں کا احساس اکثر کھو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی گویائی کو بھی ایک مرض سمجھتا ہے اور یہ بھی دُہراتا ہے کہ میں سوچنا چھوڑ چکا ہوں۔ یہ آوازیں جتنی بھی بار سنائی دیتی ہیں کانوں کو بھلی ہی لگتی ہیں اور بوریت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔
پھر ایک کہانی میں کئی کئی کہانیاں سنائی جاتی ہیں جن میں سے کچھ مکمل ہو جاتی ہیں اور کچھ ادھوری رہ جاتی ہیں یا کم از کم پڑھنے والے کو نا مکمل محسوس ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ لکھنے والا پوری کہانیاں ہی لکھ کے اس جہان سے رخصت ہوا ہو مگر پڑھنے والے کو اسے سمجھنے کے لیے مزید وقت اور توانائی کی ضرورت ہمیشہ محسوس ہوتی رہتی ہے۔
لیکن ایک بات بہ ہر حال حقیقی ہے کہ پڑھنے والا جب کہانی کی رَو میں بہنے لگتا ہے تو وہ کہانی کا سِرا ڈھونڈنے کے لیے نہیں پڑھتا بَل کہ توانا نثر اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور اور وہ اسی نثر سے لطف اٹھاتے ہنستے کھیلتے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔
کبھی کبھار یہ احساس بھی جاگنے لگتا ہے کہ لکھنے والا اپنے پڑھنے والوں سے قدرے بے نیاز ہے۔ وہ سمجھانے کے لیے لکھ ہی نہیں رہا بَل کہ لکھنے کے لیے لکھ رہا ہے۔
نیّر مسعود جہاں کھڑے ہیں وہ ایک زینہ نیچے آ کر قاری کو ساتھ ملانے پہ آمادہ نظر نہیں آتے بَل کہ قاری کو ہی وہ زینہ اوپر چڑھ کر لکھنے والے کے ساتھ ملنا پڑتا ہے۔ یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہر بڑا ادیب افہام و تفہیم کے معاملات سے بے نیاز ہوتا ہے۔ وہ کسی اپنی ہی لہر میں لکھتا چلا جاتا ہے اور اسے ہر گز یہ خطرہ نہیں ستا رہا ہوتا کہ پتا نہیں پڑھنے والوں کو میرے لکھے کی سمجھ آئے گی بھی یا نہیں۔ نیّر صاحب بھی اسی لہر کے آدمی ہیں۔
ایک اور بات جو میں نے نیّر مسعود کی کہانیوں کے بارے میں محسوس کی وہ یہ ہے کہ ان کی کہانیاں کہیں سے بھی شروع ہو جاتی ہیں اور کہیں بھی ختم ہو جاتی ہیں مگر ان میں ہمیشہ جاری رہنے کی ایک خاص اہلیت موجود ہوتی ہے۔ یعنی وہ ختم ہو کر بھی ختم نہیں ہوتیں اور محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسی طرح ہمیشہ جاری رہیں گی اور پڑھنے والا بغیر کسی اکتاہٹ کے پڑھتا چلا جائے گا۔
نیّر مسعود کی تمام کہانیاں اپنے منفرد اسلوب کی بناء پر الگ الگ مقام پر فائز ہیں اور ہر کہانی غور سے پڑھے جانے اور لطف اٹھانے سے تعلق رکھتی ہے۔ مجھے سب سے زیادہ جو کہانی پسند آئی وہ عطرِ کافور ہے جو ان کے اسی نام کے مجموعے میں شامل ہے۔
یہ بہت انوکھی کہانی ہے جو طاؤس چمن کی مینا سے بھی دو ہاتھ آگے کی کوئی چیز ہے۔ علامتوں کو محبت کی کہانی کے ساتھ اس طرح جوڑا گیا ہے کہ طبیعت عش عش کر اٹھتی ہے۔
عطرِ کافور میں ایک معصوم محبت کی کہانی کہی گئی ہے جس پہ پیار ہی پیار آتا جاتا ہے۔ راوی اور ماہ رخ سلطان سے پڑھنے والے کو بے پناہ اُنسیت ہو جاتی ہے اور اسی اُنسیت کا ہی نتیجہ ہے کہ ماہ رخ سلطان کی بیماری کا پتہ چلتے ہی پڑھنے والا مغموم ہو جاتا ہے اور آخری منظر کے بعد کچھ یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے ہمارا اپنا، کوئی بہت قریبی، کوئی بہت پیارا اس جہاں سے رخصت ہو گیا ہو۔
پہلے اور آخری حصے کے تعلق کو جوڑ کے دیکھیں تب کہانی پوری طرح اپنا آپ ہم پہ کھولتی ہے۔ راوی کو تحفے میں دیے جانے والے فانوس کی ایک شیشی خالی رکھی گئی تھی جس میں ماہ رخ سلطان نے راوی کو اپنی مرضی کا عِطر ڈالنے کا کہا تھا۔
راوی ماہ رخ کے مرنے کے بعد تمام عمر وہی خُوش بُو ڈھونڈنے اور بنانے میں مَحو رہتا ہے جو اس نے آخری مرتبہ ماہ رخ سلطان کے ہاتھوں کو سُونگھ کر محسوس کی تھی اور اس خُوش بُو کو بنانے میں اسے جتنا بھی وقت لگتا ہے وہ اس سے کسی قسم کی اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا۔ یہ اس کا محبت میں مبتلا رہنے کا انوکھا انداز ہے۔
یہ بِلا شُبہ نیّر مسعود صاحب کی سب سے خوب صورت کہانی ہے۔
چکھانے کی غرض سے کہانیوں سے کچھ اقتباسات یہاں درج کرنا چاہیں گے:
“لکھنؤ میں میرا دل نہ لگنا اور ایک مہینے کے اندر بنارس میں آ رہنا، ستاون کی لڑائی، سلطانِ عالم کا کلکتے میں قید ہونا، چھوٹے میاں کا انگریزوں سے ٹکرانا، لکھنؤ کا تباہ ہونا، قیصر باغ پر گوروں کا دھاوا کرنا، کٹہروں میں بند شاہی جانوروں کا شکار کھیلنا، ایک شیرنی کا اپنے گورے شکاری کو گھائل کر کے بھاگ نکلنا، گوروں کا طیش میں آ کر داروغہ نبی بخش کو گولی مارنا، یہ سب دوسرے قصے ہیں اور ان قصوں کے اندر بھی قصے ہیں۔”
کہانی: طاؤسِ چمن کی مینا
کتاب: طاؤس چمن کی مینا
***
“باہر جب میں اس کی تیمار دار سے باتیں کر رہا تھا تو بار بار مجھے احساس ہوا کہ میری گویائی ایک نَقص ہے، اور وہ مریض کسی ایسی راہ پر جس سے میں واقف نہیں، مجھ سے بہت آگے چل رہا ہے۔”
اور
“مجھے یقین تھا کہ وقت کی جو رفتار مکانوں کے باہر ہے وہ مکانوں کے اندر نہیں ہے۔ مجھے یہ بھی یقین تھا کہ ایک ہی مکان کے مختلف حصوں میں وقت کی رفتار مختلف ہو سکتی ہے۔”
کہانی: اوجھل
کتاب: سیمیا
***
“اور ہوا چلتے چلتے رک جاتی ہے، پھر جیسے چونک کر تیزی سے چلنے لگتی ہے اور آسمان کا نیلا پَن واپس آ جاتا ہے؛ پھر ہوا رک رک کر چلتی ہے جیسے ٹھوکریں کھا رہی ہو، اور آسمان گدلا ہو جاتا ہے۔ لیکن مجھے نہیں معلوم تھا، نہ کسی نے مجھے بتایا کہ یہ بڑی آندھی کے آثار ہیں۔”
اور
“کبھی یہ معلوم ہوتا کہ ہوا پاگل ہو گئی ہے یا بچوں سے کھیل رہی ہے، اور کبھی یہ کہ کئی ہوائیں ہیں جن میں جنگل کے درختوں کے لیے چھینا جھپٹی ہو رہی ہے۔ ہوا نے دم بھر کو رک کر نیچے سے اوپر کی طرف زور باندھا۔ اب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارے جنگل کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں۔ یہ ابتدا تھی۔ اس کے بعد کبھی یہ معلوم ہوتا تھا کہ آسمان کسی پھنکارتے ہوئے اَژدھے کی طرح پورے جنگل کو اپنی سانس سے کھینچ کر نگل لینا چاہتا ہے، کبھی یہ کہ درخت کھنڈروں کو عقابوں کی طرح پنجے میں دبوچ کر اڑنے ہی والے ہیں۔ لیکن کھنڈر اپنی جگہ سے نہیں ہِلے، البتہ پتلے تنوں اور گھنی چھتریوں والے کئی درخت اکھڑ کر اپنی جڑوں کی مٹی اڑاتے ہوئے دُور دُور جا گرے۔”
کہانی: تحویل
کتاب: طاؤس چمن کی مینا