اس نظم کی شان نزول
(ڈاکٹر ستیاپال آنند)
لندن کے ان برسوں (1972-75) میں میرا تعلیمی، تدریسی اور کسی حد تک ادبی لین دین اپنے ساتھی اسکالرز سے ہی رہا جو انگریزی کے حوالے سے تھا۔ اردو کے احباب سے کبھی کبھی ہی ملاقات ہوئی۔ اور وہ بھی بر سبیل’’ مشاعرہ بازی‘‘ جس سے میں حتیٰ الوسع کتراتا ہوں۔ لیکن عاشور کاظمی صاحب سے (وہ بھی اب مرحوم ہو چکے ہیں) کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ میں تب تک ترقی پسند تحریک سے تو الگ ہو ہی چکا تھا، لیکن وہ ابھی تک اس کے منشور پر سختی سے قائم تھے اور بحث و مباحثے میں مجھ سے اکثر ناراض ہو جایا کرتے تھے۔
اردو کے حوالے سے (خصوصی طور پر ن م راشد کے حوالے سے اور میری اپنی ایک نظم کی شانِ نزول کے تناظر میں) مجھے صرف ایک واقعے کا ذکر کرنا برا نہیں لگتا، چہ آنکہ اس ’’ادبی خود نوشت سوانح‘‘ میں میری کوشش یہ رہی ہے کہ میں اپنی ذاتی زندگی، شادی، بچے، غیر ادبی احباب، سر راہ ملنے والے اور صرف عارضی تاثر چھوڑ کر اڑنچھو ہو جانے والے عشق کے قصوں سے پرہیز کروں، تو بھی یہ واقعہ عرض کیے دیتا ہوں۔
یونیورسٹی میں ہی ایک انگریز خاتون سے ملاقات ہوئی جو میری ہم عمر تھی اور موروثی طور پر خطاب یافتہ ، امیر ’’نوابی‘‘ خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے نک چڑھی بھی تھی۔ اس کے والد کو ’نایٹ ہُڈ‘ یعنی ’’سر‘‘ کا خطاب ملا ہو ا تھا۔ میرے اردو کے ادیب ہونے کی وجہ سے اس کا ایک حوالہ اور بھی تھا کہ وہ ن۔ م۔ راشد کی دوسری بیوی شیلا سے سماجی سطح پر واقف تھیں اور جب میں نے اس سے اس بات کا ذکر کیا کہ راشد تو جدید اردو شاعری کے باوا آدم ہیں، تو اس نے کچھ ناک بھوں چڑھا کر جوا ب دیا، ’’ہاں، شیلا کو بھی اس بات کا احساس ہے، لیکن اس کا کیا علاج کیا جائے کہ وہ کم بخت شیلا سے عمر میں بہت بڑا ہے؟ جانوروں کی طرح کھانا کھاتا ہے اور اس کے ملنے جلنے والوں میں کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جسے برٹش سوسائٹی میں بطور خاص پہچانا جا سکے۔‘‘
یہ سوچ کر کہ اس موضوع پر مجھے اس خاتون سے کوئی بھی بات کرنا ضروری نہیں ہے، میں نے موضوع ہی بدل دیا، لیکن وہ شاید مجھے مرعوب کرنا چاہتی تھی یا اپنا احسان مند بنانا چاہتی تھی کہ کچھ دنوں کے بعد ایک شام وہ مجھے اس کے اپنے اور شیلا کی ایک دوست کے ہاں لے گئی، جہاں راشد کی بیوی سے میری سرسری سی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کا کوئی تاثر میرے ذہن میں نہیں ہے، سوائے اس کے کہ شیلا ایک معمولی چہرے مہرے کی خاتون تھیں اور بات چیت میں بھی ادب یا آرٹ کے حوالوں سے بالکل عاری تھیں۔
انہیں کے قلم سے دیکھئے: Thief’s charity is robber’s gain
کچھ دن با ت چیت کے بعد میری رفیق کارخاتون کو اس بات کا احساس ہوا کہ میں ہندوستانی ہونے کے باوجود علمی سطح پر اس سے کم تر نہیں ہوں اور …خیر، شکیل، وجہیہ اور مردانہ حسن کا ایک اچھا نمونہ ہونا یا گوری چمڑی کا ہونا تو اللہ کی بخشش ہے، لیکن اس زمرے میں بھی اس کے انگریز دوستوں سے کم نہیں ہوں۔ ہمارے ہاں ہندوستان میں شادی شدہ ہونے کی نشانی کے طور پر انگوٹھی پہننا کبھی ضروری نہیں سمجھا گیا اور میں ویسے بھی مردانہ بناؤ سنگھار کا قائل نہیں رہا ہوں۔ شاید اس خاتون نے یہ فرض کر لیا کہ میں غیر شادی شدہ ہوں۔ (حالانکہ میں تب تک تین بچوں کا باپ بن چکا تھا!) اس نے کئی بار سوئمنگ پول میں، فیکلٹی ہاؤس کی بار میں، لاؤنج میں، لائبریری میں یا کار پارکنگ لاٹ میں بات چیت کرتے ہوئے مجھے عندیہ دیا کہ وہ مجھے ایک شام اپنے اپارٹمنٹ میں مدعو کرنا چاہتی ہیں۔ کھانا، ڈرنکس وغیرہ، اور چونکہ موسم کا کچھ بھروسہ نہیں اس لئے میں لمبے ویک اینڈ کی دو راتیں اس کے گھر میں قیام کر سکتا ہوں۔
پہلی شام ہی ڈرنکس اور کھانے کے بعد جب ہم صوفوں پر نیم دراز ہو گئے تووہ اندر جا کر اپنے شب خوابی کے لباس میں عیاں ہوئی۔ ایک طشتری میں دو سیب ایسے رکھے ہوئے تھے کہ اسی حجم اور گولائی کے اس کے سرخ و سپید نیم برہنہ پستان اور سیب مل کر چار سیبوں کا نقشہ پیش کرتے تھے۔ میرے سامنے آ کر جھک گئی اور طشتری آگے بڑھاتے ہوئے، شرارت کے سے انداز میں ہی، اس نے کہا:
You are probably accustomed to black apples in India. Well, here are four red and white apples. Take your pick, you, the youngman from India, a country that was our colony only a few years back
میرے لیے ایسے جنسی حادثے کو ئی نیا تجربہ نہیں تھے اوراس لمحے تک میں واقعی ایک تلاطم خیز شہوانی سحر میں مبتلاہو چکا تھا، لیکن جسمانی سطح پر یہ حالت ہونے کے باوجود کہ میری سانسیں اوپر نیچے ہو رہی تھیں، مجھے جیسے ایک بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔
ایک لمحے کے لیے مجھے ن۔م۔راشد کی نظم ’’انتقام‘‘ بھی یاد آئی اور میں نے شاید اپنے تحت الشعور میں اس خواہش کا بھی اعادہ کیا کہ ان سیبوں کو انتقام کے جذبے کے تحت کچا چبا جاؤں، لیکن میں نے خود کو سنبھالا۔ اس کو ذرا سا پیچھے ہٹاتے ہوئے میں اٹھا، اور پھر میں نے کہا:
I am sorry, I have to go
اپنے بوٹ اور اپنا اوور کوٹ پہننے کے بعد میں نے سیڑھیاں اترتے ہوئے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ اس کی کیا حالت ہے۔ اپنا ہینڈ بیگ میں نے اٹھا لیا تھا۔ کار تک پہنچ کر مجھے ہوش آیا کہ جو کچھ میں نے کیا ہے، اس کا مطلب شاید وہ یہ سمجھے گی کہ میں نا مرد ہوں۔ لیکن جو کچھ میں کر چکا تھا، اسے لوٹانا ممکن نہیں تھا۔
اپنے گھر پہنچ کر میں نے محسوس کیا کہ مجھے اپنے سسٹم سے اس حادثے کو رفع کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ تب جو نظم راشد کے اور اس واقعے کے حوالے سے خلق ہوئی، وہ میں لکھ رہا ہوں۔
انتقام
’اس کا چہرہ، اس کے خد و خال‘ اب تک یاد ہیں
’اک برہنہ جسم‘ بھی بھولا نہیں
جامعہ کے ہاسٹل میں شام وہ لنڈن کی
جب سرخ و سپید و نرم دو پھل طشتری میں
وہ سجا لائی تھی اور اس نے کہا تھا
تم یقیناً ان پھلوں کے لمس سے واقف نہیں ہو
ذائقہ ان کا جدا گانہ ہے ان کالے پھلوں سے
جن کو پاک وہند میں تم آج تک چکھتے رہے ہو
اس کا لہجہ حکمراں طبقے کی اس خاتون کا تھا
جس کے آبا مدتوں تک
میرے ’بے بس‘ ملک پر قابض رہے تھے
اور میں جو اس ارادے سے گیا تھا
جامعہ کے ہاسٹل میں اس کے کمرے میں
کہ شاید ’رات بھر‘ میں
’اپنے ہونٹوں سے‘ برابر صبح تک لیتا رہوں گا
’اس سے اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام‘
وہ ’برہنہ جسم‘، وہ ’چہرہ‘، وہ ’خدّو خال‘ سب کچھ
بِن چھوئے ہی لوٹ آیا تھا کہ میرے ملک اب آزاد تھے
اور یہ مکافاتی طریقہ
مجھ کو بچگانہ لگا تھا