سقوط ڈھاکہ : نظریہ و عمل کی شکست
از، پروفیسر محمد حسین چوہان
کسی بھی نظریے کی اہمیت و افادیت اس کے عملی اطلاق سے ظاہر ہوتی ہے، نظریہ چاہے سائنسی ہو، سیاسی و سماجی ہو، یا مذہبی و مثالی، عقلی ومنطقی اور تجرباتی بنیادوں پر نہ صرف اس کا صداقت پر مبنی ہونا ضروری ہے بلکہ اس کے مفید و مثبت اثرات و ثمرات سے بھی عامتہ الناس کامتمتع ہونا لازمی ہے، جہاں تک سیاسی و سماجی اور معاشی نظریات کا تعلق ہے وہاں نظریات کی صداقت پر تو کسی کو اعتراض نہیں ہوتا ،لیکن اس کے اطلاق میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں وہاں ایک مخلص سیاسی تنظیم کا متحرک کردار ہی اس کا عملی نفاذ ممکن بناتا ہے بلکہ زمینی حقائق کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے مسلسل اس میں تبدیلیاں بھی لاتا رہتا ہے۔
تحریک پا کستان میں دو قومی نظریے کا بنیادی کردار تھا ،جس کی بنیاد پر پاکستان معرض وجود میں آیا،لیکن دو قومی نظریہ کو بقول اندرا گاندھی خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا اور وہ نظریہ اپنی عملی و اطلاقی حیثیت کھو بیٹھا،ہر صاب نظر وفکر یہاں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ایک نظریہ پر معرض وجود میں آنے والی مملکت چوبیس سالوں میں کیسے اپنے نظریہ سے منحرف ہوگئی اور لادینی و سیکولر نظریات کی بھینٹ چڑھ کر مغربی پاکستان سے الگ ایک نئی مملکت بنگلہ دیش کے روپ میں ظاہر ہوگئی۔ایک غیر مسلم اور اپنے ازلی دشمن بھارت جس سے انہوں نے۔
بنگالیوں،آزادی حاصل کی تھی،وہ مشکل کی اس گھڑی میں ان کے نجات دہندہ بن گئے اور ان کے اپنے بھائی مغربی پاکستان والے ان کے دشمن ،گرچہ دونوں کا دین و ایمان ایک تھا۔ایک کتاب ،ایک رسول، اور ایک رب کی عبادت کرنے والے تھے،لیکن ان بنگالیوں نے پاکستانی بھائیوں کو اپنا دشمن اور ہندوؤں کو اپنا خیر خواہ سمجھنا شروع کر دیا۔اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ دو قومی نظریہ صرف ایک تجریدی وخیالی تصور نہیں تھا،بلکہ وہ ایک سیکولر ،علمی اور عملی سچائیوں کا بھی ترجمان تھا۔عقیدے کی حد تک تو سارے مسلمان چاہے وہ بنگالی ہوں یا پاکستانی آپس میں اظہار یکجہتی کر رہے تھے،مگرمعاملات و مسائل اور حقوق و فرائض کی ادائیگی میں حکمران طبقہ ہر طرح کی ذمہ داریوں سے بے نیاز ہو چکا تھا۔
ہماری سول اور ملٹری بیو روکریسی کا کردار نا قابل بیان حد تک قابل ملامت تھا۔ کیونکہ نظریے صرف ہواؤں اور فضاوءں میں ہی معلق نہیں رہتے،انہیں زمینی حقائق اور سماجی صداقتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر معاشرے کی اجتماعی حرکت کا ساتھ دینا ہوتا ہے،لیکن بنگلہ دیشی بھائیوں کے ساتھ پاکستانیوں کا معاندانہ رویہ،ظالمانہ اور نا انصافی پر مبنی سلوک ایسا تھا،کہ قیام پاکستان کے وقت ہی علیحد گی کی شروعات کا آغاز ہو گیا تھا۔بقول حضرت علی کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن نا انصافی پر مبنی کوئی نظام قائم نہیں رہ سکتا۔پاکستانی حکمرانوں کا عاقبت نا اندیشانہ کردار ہی تھا جس نے انہیں جئے بنگلہ کے نعرے لگانے پر مجبور کیا۔
نظریے ابدی اقدار سچائی،انصاف اور مساوات کے محتاج ہوتے ہیں،اس کے بغیر وہ یا تو آسمانوں پر معلق رہتے ہیں یا خلیج بنگال میں غرق ہو جاتے ہیں۔اس بنا پر دو قومی نظریہ کا تصور کمزور اور متشکک ہو گیا،بنگال تو ہم سے ایک ہزار میل دور واقع تھا وہاں نظم و نسق کو قائم رکھنے کے لیے عذر خواہی سے کام لیا جا سکتا ہے،مگراندرون ملک پاکستان کے سیاسی و معاشی معاملات کی گھتیاں سلجھانے میں ارباب بست و کشاد نے کون سی مثالیں قائم کی ہیں۔نظریہ کے بغیر بھی امور مملکت بخوبی چلائے جا سکتے ہیں،اگر عمل کی صداقت اپنی گواہی آپ دے رہی ہو۔دو قومی نظریہ کی بنیاد ہی عمل کی صداقت پر قائم تھی ،مگراس کو حکمران طبقہ نے اپنے کردار وشخصیت کا حصہ نہیں بننے دیا۔یہ سوال کہ دو قومی نظریہ کا عملی اطلاق نہیں ہو سکتا۔اس میں بہت سے تضادات و تنا قصات ہیں اور یہ تضادات بنگلہ دیش کی علیحیدگی میں ظاہر ہو گے۔معترضین کے اعتراضات درست ہیں،لیکن دیکھنا یہ چائیے کہ وہاں کے ارباب واختیار یعنی ہماری سول اور ملٹری بیورو کریسی کے افکار و اعمال پر کیااسلامی تعلیمات کی ذرا سی بھی چھاپ تھی،اگر وہ سیکولر رجحان رکھتے تھے تو کیا ان میں احساس ذمہ داری،عوامی خدمت،انسان دوستی،معاشرتی فلاح وبہبود کا معمولی سا بھی جذبہ کار فرما تھا۔
گرچہ ہماری افواج نے اپنی ذمہ داریوں کو حسب توفیق پورا کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔لیکن ان کا کردار ایک مثالی مسلمان فوج کا نہیں تھا،سب سے بڑا الزام ملٹری بیورو کریسی کے کردار پر عائد ہوتا ہے اور سپہ سالاروں کے چہروں پر دھبے لگے ہوئے نظر آتے ہیں۔ہمیں بنگلہ دیش کے محاذ پر اسلامی نظریہء قومیت کی وجہ سے شکست نہیں ہوئی اس شکست کے ذمہ دار ہمارے سیاستدان اور حکمران تھے،اور ان کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی سول بیورو کریسی بھی تھی۔سقوط ڈھاکہ کی بنیادی وجہ مغربی پاکستان سے ایک ہزار میل دوری سے زیادہ دلوں کی دوری زیادہ تھی،جس نے بنگالیوں کے دلوں میں مغربی پاکستان والوں کے خلاف نفرت واحتجاج بھر دیا تھا۔دو قومی نظریہ کی بنیاد ہی ہمارے برے سلوک اور رویے کی وجہ سے ریت کی دیوار بن گئی تھی۔
سقوط ڈھاکہ کی بنیادی وجہ اس کا جغرافیائی تشکیلی ڈھانچہ تھا،جو مغربی پاکستان سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع تھا،جہاں انتظام و انصرام قائم رکھنا مشکل تھا۔دوسری وجہ بنگالیوں کی اپنی تہذیب و ثقافت تھی۔ان کا نسلی وتہذیبی ورثہ اپنی الگ شناخت کا متقاضی تھا۔لیکن مسلم لیگ کی بنیاد ڈالنے والوں میں بھی تو بنگالی شامل تھے۔مسلم لیگ کا انیس سو چالیس میں اجلاس بھی تو بنگلہ دیش میں ہوا تھا۔اس وقت بنگلہ دیشی زبان و کلچر اور جغرافیائی دوری کو بھول کر ایک اسلامی اخوت کے رشتے میں کیسے اکھٹے ہو گئے تھے۔لیکن ان کو بعد میں یہ کلچر وزبان اور جغرافیہ کے تضادات کیوں نظر آئے۔اصل میں بنگلہ دیشیوں کو اپنے مغربی پاکستان کے بھائیوں سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ایک تو ہماری بیورو کریسی کا رویہ معاندانہ تھا،پنجابی و پٹھان ان کو کمتر اور گھٹیا سمجھتے تھے۔ان سے جذباتی وابستگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔انگریزی اور اردو کے سوا بنگالی سیکھنا اور بولنا انہیں پسند نہیں تھا۔ان کی ثقافتی تقاریب اور مظاہر میں شریک ہونا پسند نہیں تھا۔ بنگالی عورتوں سے شادیاں نہیں کرتے تھے،بلکہ ریپ اور جذ وقتی جسمانی لذت تک ان کی جمالیات و جنسیات کی حدیں قائم تھیں۔نواب آف کالا باغ جب مشرقی پاکستان کے گورنر جنرل بن کر وہاں گئے تو وہ اپنے ساتھ پاکستانی باورچی اور کھانے لے کر گئے۔ہمارے گورنر جنرل،سربراہء مملکت کی اکثریت لہو لعب کا تو شکار تھی ہی مگر تفریح طبع کے لیے ان کی داشتاوٗں کا تعلق مغربی پاکستان سے ہی ہوتا تھا۔بنگلہ دیشی حسیناوٗں کو صرف بلیک بیوٹی کے القابات سے نوازتے رہتے تھے۔بنگالی حسینائیں ڈھاکہ کی چھاونیوں کے ارد گرد منڈھلاتی رہتی تھیں۔جنسی استحصال کی مثالیں جو ہمارے ارباب و اختیار نے بنگلہ دیش میں قائم کیں اس کی مثال مہذب دنیا میں ملنا محال ہے۔جب بگلہ دیش میں ۱۹۷۰ میں علیحدگی کی تحریک اور قتل وغارت زوروں پر تھا،تو اس معاملے کے سدھار کے لیے یحیےٰ خان پنڈی سے کراچی روانہ ہوئے،تو ایک ہفتہ ایک حسینہ کے دام تزدیر میں ایسے پھنسے کہ انہیں بنگلہ دیش کی یاد ہی نہیں رہی۔جنرل نیازی جب جنرل خادم حسین سے چارج لینے لگے تو یوں گویا ہوئےتم اپنی عورتوں کا چارج کب مجھے دے رہے ہو،،۔جب بنگلہ دیش کی تحریک زوروں پر تھی تو مغربی پاکستان میں اشرافیہ اور حکمران طبقہ شراب و شاہد کی محفلوں میں بے فکری کی لمبی تان لے کر سو رہا تھا۔پرمٹوں کی فروخت،زمینوں کی منظور نظر افراد کو الاٹمنٹ،کمیشن کلچر،اور رشوت و سفارش کے مظاہر ہمارے سیاسی کلچر میں عام ہو چکے تھے۔ذو الفقار علی بھٹو نے عوامی سیاست کی داغ بیل ڈال کر پاکستانی عوام کو بہت کچھ دیا مگر غنڈہ گردی،بدمعاشی،قتل و غارت،بد امنی و انتشار،اور شرفا کی پگڑیاں اچھالنے میں بھی پیپلز پارٹی کے جیالوں کا اہم کردار ہے۔ جب حکمران اور سیاسی کارندے اتنی اخلاق باختگی کا شکار ہو جائیں،تو ایسے حالات میں ملکوں کے ٹوٹنے اور تقسیم ہونے میں دیر نہیں لگا کرتی۔بنگالی عوام سے عدم دلچسپی اور مغائرت اتنی بڑھ چکی تھی کہ ہمارے ملٹری اور سول بیورو کرٹوں نے عام زندگی تو کیا نماز جمعہ تک ان کے ساتھ ادا نہیں کرتے تھے۔ڈاکٹر مالک جب وہاں کے گورنر جنرل بنے تو وہ ڈھاکہ کی مسجد بیت المکرم میں نماز جمہ ادا کرنے کے لیے گئے تو معلوم ہوا کہ اس سے قبل جنرل ٹِکا ایک بار بھی اس مسجد میں بھولے سے بھی تشریف نہیں لائے۔بیت المکرم ڈھاکہ کی بڑی جامع مسجد ہے پا کستانی اور بنگالی دونوں مسلمان تھے مگر پاکستانیوں نے قومی اور ملی یکجہتی کے لیے ان کے ساتھ مساجد میں بھی شریک ہونا گوارہ نہیں کیا تاکہ عوام کے ساتھ ہم آہنگی پیدا ہو سکے۔بنگالی مسلمان ان کی دید کے لیے ترستے رہے۔وہ بنیادی طور پر کمزور،محبت اور تعاون کرنے والے تھے،مگر ہم نے ہر محاز پر ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی اور بندوقوں کے زور پر ان کو دبانے کی کوشش کی۔دلوں کو فتح کرنا سیاستدانوں کا کام تھا،مگر یہ پہلے ہی طوا ئفوں و اقتدار کے ہاتھوں مفتوح ہو چکے تھے،تھا جو نا خوب وہی بتد ر یج خوب ہوا۔
بنگلہ دیشی عوام ایک طرف سیاسی و سماجی سطح پر احساس کمتری اور احساس بیگانگی کا شکار تھے،اور دوسری طرف اعلیٰ ملازمتوں پر یا تو ہندو بیوروکریٹ فائز تھا یا مغربی پاکستان والے۔چار سو سی،ایس،پی افسران سات کروڑ آبادی پر من مانیاں کر رہاتھا،جن میں بنگالیوں کی تعداد بہت کم تھی،بیوروکریٹوں نے سوائے معاندانہ سلوک اور تضحیک آمیز رویے کے سوا انہیں کچھ نہ دیا۔۱۹۵۸ میں ایک سو اڑتالیس کروڑ کا صنعتی سرمایہ بنگال میں لگا ہوا تھا،جس کی آبادی سات کروڑ کے لگ بھگ تھی اور صرف مغربی پاکستان میں تین سو آٹھ کروڑ کی سرمایہ کاری ہو رہی تھی،صرف اکیلے کراچی میں۱۱۴ کروڑ کی سرمایہ کاری سے صنعتیں لگی ہوئی تھیں۔پٹ سن اور دیگر خام مال بنگلہ دیش سے لا کر کراچی کی فیکٹریاں چلائی جا رہی تھیں۔روزگار کے مواقع بنگالیوں کے لیے عملاٗ بند تھے۔پٹ سن سے ستر فیصد آمدنی بھی مغربی پاکستان منتقل ہوجاتی تھی۔دفاع پر چھپن فیصد بجٹ میں سے دس فیصد مشرقی پاکستان پر خرچ ہوتا تھا۔۔ہندو کی ایک کروڑ آبادی اسی فیصد دولت کی مالک تھی اور تمام کاروبار،عمارات۔اعلیٰ پیشے ڈاکٹری،وکالت،انجنیرنگ پر وہ چھائے ہوئے تھے،ہندو سالانہ اسی کروڑ سرمایہ بھارت منتقل کر دیتے تھے۔ بیس کروڑ سے زائد سرمایہ سالانہ مغربی پاکستان منتقل ہوجاتا تھا۔اسی نا منصفانہ سیاسی کلچر،غیر منظم ادارتی ڈھانچوں اور بدعنوانی نے پاکستان میں بائیس خاندانوں کو جنم دیا۔بنگالیوں کے پاس آسمان سے ایک ہی تحفہ سیلاب کی شکل میں نازل ہوتا تھا جس میں ان کی بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام ہوجاتی تھی۔صرف ۱۹۷۱ میں دس لاکھ بنگالی سیلاب کی موجوں کی نذر ہو گئے۔اسی سال ایک لاکھ دس ہزار آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے مارے گئے۔اسی عرصہ میں ڈیم مغربی بنگال میں بنتے رہے اور سیلاب کی موجوں کی نذر بنگالی ہوتے رہے۔بنگالیوں کے پاس بے موت مرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھی۔بھوک ،قحط،استحصال اور ظلم و جبر کے سائے میں جینے پر مجبور تھے۔پاکستانی سپاہ اور سیاستدانوں سے جو انہوں نے توقعات وابستہ کر رکھی تھیں سب خاک میں مل گئیں۔سب سے بڑی وجہ جس نے انہیں بغاوت پر مجبور کیا وہ ان کا معاشی استحصال تھا اور دوسری بڑی وجہ ہمارا رویہ اور بد سلوکی تھی۔یہی بڑی وجہ تھی جس نے انہیں جئے بنگلہ کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا۔ہماری فوج نے جب ایک عوامی لیگ کے نوجوان کو پکڑا اور سینے پر بندوق رکھ کر راز اگلوانے کو کہا کہ موت چاہتے ہو یا زندگی تو اس نے زمیں پر سر رکھا اور اٹھ کر کہا کہ مجھے اپنے وطن کی آزادی سے زیادہ کچھ عزیز نہیں۔ پاکستانیوں کے خلاف نفرت اور آزادی کا جذبہ مجیب الرحمٰن نے ان کے دل و دماغ میں کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا۔ جب ڈھاکہ میں پاکتانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی تقریب ہو رہی تھی تو اس وقت جنرل امیر خان نیازی پر بنگالی نے ہی جوتہ پھینکا تھا اور جب جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ جہاز سے اترا تھا تو بنگالیوں نے اس کو اور اس کی بیوی کو نجات دھندہ سمجھ کر پھول نچھاور کیے تھے۔اس وقت دو قومی نظریہ کی موت واقع ہو چکی تھی کیونکہ نظریے انصاف اور عدل کے بنا قائم نہیں رہ سکتے۔سقوط مشرقی پاکستان کی تماتر ذمہ داری و الزام ہمارے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے،فوج کا کام تو دفاع تھا،ان سے جو غلطیاں سر زد ہوےءں وہ حالات کی مجبوری کے باعث تھیں۔ملکی نظم و نسق کو قائم رکھنے کی ذمہ داری مقتدر طبقے کی ہوتی ہے۔بھٹو نے جب کہا ادھر ہم اور ادھر تم تو اس وقت بہت سا پانی سروں پر سے گزر چکا تھا ،مگر اصولی طور پر اکثریت کی حامل سیاسی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے میں ہی عافیت تھی،لیکن بھٹو اس مقام پر ایک چالاک،حریص اور متعصب شخص کے طور پر نمودار ہوا۔پیپلز پارٹی کی ۱۳۸ میں سے ۸۱ اور عوامی لیگ کی۱۶۲ میں سے ۱۶۰ نشستیں تھیں۔یہاں بھی اقتدار بنگالیوں کو سونپنا ہم نے گوارہ نہیں کیا۔اس تما م صورتحال میں جماعت اسلامی کا قومی یکجہتی میں کردار مثالی رہا۔البدر اور الشمس نے دو قومی نظریے کی لاج رکھنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔مگر ہمارے حکمران و بیورو کرسی کی نا اہلی اور بنگالیوں کیساتھ امتیازی وظالمانہ سلوک کے خلاف انہوں نے احتجاج بھی نہیں کیا۔سقوط مشرقی پاکستان میں بیرونی طاقتوں کا بھی بڑا اہم کردار تھا جس میں ہمسایہ ملک بھارت نے ہر سطح پر عوامی لیگ و مکتی باہنی
کی سیاسی و عسکری مدد کی،مگر ایسا اس وقت ہوا جب ہم نے ان کو ہر طرح کے مواقع فراہم کیے،ان کے لیے فضا ساز گار بنائی،بنگالیوں کے دلوں میں نفرت پیدا کی۔اگر گڈ گورننس سے بنگالیوں کے دل ہم نے جیتے ہوتے تو سوال ہی پیدا نہیں ہونا تھا کہ وہ ہم سے جدا ہوتے۔اس سلسلے میں ایک سوال یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان کا جغرافیائی سٹرکچر اور تہذیبی و ثقافتی پس منظرعلیحدگی کا متقاضی تھا،مگر الگ زبان کے مسئلے کو پہلے ہی حل کر دیا گیا تھا،اصل مسئلہ حکمران طبقے کی نا اہلی وبدعنوانی تھی،جس سے تلخیوں میں دن بدن اضافہ ہوتا رہا،اور بعد ازاں ان کی بغاوت کو کچلنے کے لیے پاک فوج کی تشدد آمیز کاروائیوں نے جلتی پر تیل چھڑکا،اور دشمنوں کو مداخلت کرنے کا موقع مل گیا۔
مشرقی پاکستان کے سانحہ سے سبق حاصل کرنے کی پھر بھی ہم نے کوشش نہیں کی۔ مغربی پاکستان میں عنان حکومت مقتدر طبقات،جن میں جاگیردار و سرمایہ دار پیش پیش رہے نے قومی و ملی جذبے کو پروان نہیں چڑھنے دیا۔ملکی سیاسی سوچ لسانیت، فرقہ پرستی،علاقائیت اور خاندانی و موروثی سیاست کے چنگل میں پھنسی رہی۔اس کی بڑی وجہ وسیع طبقاتی تفریق اور غربت تھی،وسائل چند گروہوں کے ہاتھوں میں رہے۔ ترسیل زر یعنی منی لانڈرنگ بنگلہ دیش کی طرح پاکستان میں بھی ہوتی رہی ملکی سرمایہ بیرونی ممالک میں منتقل ہوتا رہا ۔بیروز گاری اور محرومیوں کی وجہ سے عوامی سوچ فرقو ں اور علاقوں تک محدود ہوگئی۔قومی سوچ اجتماعی عدل اور معاشی آسودگی کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔کرپشن ،نا اہلی اور کام چوری کا کلچر اداروں پر چھایا رہا۔بد انتظامی اور خود غرضی مزاج کا حصہ بن گئے۔کرپشن ایک وسیع اصطلاح ہے جس نے قوم کے جسم و روح میں حلول کر کے پورے قومی جسم کو بیمار و لاغر کر دیا ہے جس کے اثرات سانس لینے میں بھی محسوس ہوتے ہیں۔ اگر آئندہ بحیثیت قوم صرف بد عنوانی و نا اہلی کو ختم کرنے میں ہم کامیاب ہو جائیں،تو صحراوٗں میں بھی سبزہ اگنے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔چلو بنگلہ دیش جغرافیائی سٹرکچر کی وجہ سے ہم سے الگ ہو گیا،لیکن یہاں کا باسی ویسے ہی اس گلے سڑے نظام میں کب تک گلتا سڑتا رہے گا۔جب تک عوام بالائی استحصالی طبقے اور خاندانی و موروثی سیاست سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔یہاں بھی علیحدگی کی تحریکیں چلتی رہیں گی۔