نظریہ پاکستان اور کچھ فکری مغالطے حصہ اول
اسد رحمٰن
محمد دین جوہر صاحب کا طویل اور قسط وار مضمون 92 سنڈے میگزین میں شائع ہوا جس کا بنیادی جوہر اور مقصد نظریہ پاکستان کی موجودہ علاقائی و عالمی سیاست میں مطابقت کو سامنے لانا تھا اور نئے سماجی علوم کے میتھڈ کو استعمال کرتے ہوئے نظریہ پاکستان کے بیانیے کو کنکریٹ علمی قدموں پہ کھڑا کرنے کی کوشش بھی، اس مضمون کا ایک اہم موضوع تھا۔
اسی طرح انہوں نے پھر سے ایک مضمون جو کہ دلیل ڈاٹ کام پہ چھپا اسی پچھلے مضمون کا ایک طرح سے نظریاتی اپلائیٖڈ فریم ورک بھی فراہم کر دیا کہ آج نظریہ پاکستان کو اصول کے طور پہ مان کر ہمارے کرنے کے ٹاسک کیا کیا ہیں، اور پاکستان کے اندر اور باہر جو جدل جاری ہے اس بابت نظریہ پاکستان ہماری کیا کیا سیاسی رہنمائی کر سکتا ہے۔
جوہر صاحب کا یہ نقطہ نظر ہندوستان میں جدید ریاست اور سیاست کی پیدائش اور استحکام کے وقت سے ہی مختلف شکلوں میں موجود ہے؛ اور اس کے بیان میں کوئی کوئی نُدرتِ خیال یا علمی تازگی کا شائبہ تک بھی موجود نہیں۔ پان اسلام ازم کے بانیوں سے لے کر مسلم لیگ کے رؤسا ہوں، علی گڑھ کی ہائبریڈ تعلیمی درسگاہ سے برآمد ہونے والی فکر کے متوالے ہوں، یا پھر ہندوستان کے نامور شاعر اور آخری متکلم ڈاکٹر اقبال ہوں یا جدید سیاسی اسلامی کے سب سے بڑے نظریہ ساز جناب مودوی صاحب، ان سب مختلف النوع دانشوروں اور گروہوں کے درمیان ہمیں ایک تھیم مشترک نظر آتی ہے اور وہ ہے طاقت کے ساتھ گندھا ہو رومانس؛ جس میں طاقت کو حاصل کرنے کی شرط کا پیمانہ اہلیت کی بجائے نسب پہ ناز ہے؛ اور پاکستان کی آج کی خارجہ پالیسی بھی اسی فکری کج روی کا منہ بولتا تصور ہے۔ جس میں سیاسی، سٹریٹیجک اور نظریاتی برابری کی تمنا ساری دنیا سے کی جاتی ہے اور پھر جب کھیلن کا چاند نہیں ملتا تو اس کو دنیا کی اسلام دشمنی پہ محمول کیا جاتا ہے۔
ہمارے خیال میں اس وقت کا پاکستان کے چند اہم بنیادی مسائل میں سے ایک مسئلہ نظریہ پاکستان اور اسلام کا آپسی تعلق ہے جو کہ سیاسی، معاشی اور سماجی تینوں پہلوں سے پاکستان کی ریاست اور معاشرے کو خلفشار کا شکار کر رہا ہے۔ ریاستی سطح ہہ مقتدر ادارے اس تعلق کی بنیاد پہ ایسی کوئی پالیسی بنانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے جو جہاد اور دہشت گردی کے مابین فرق کر سکے۔ سماجی سطح پہ فرقہ واریت اور عدم برداشت اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ کسی بھی شخص سے نظریاتی اختلاف کا مطلب اس کو کسی بھی دینی حمیت کی آڑ میں صاف کیا جا سکتا ہے اور معاشی سطح پہ کسی بھی قسم کے عدل کا کوئی تصور اس قوم اور مزہب کی آپسی جڑت میں نہیں، سوائے خیرات کی تلقین کے۔ جس معاشرے کی اشرافیہ قانون کو درخورِ اعتنا نہ سمجھے اس کو حمیت پہ تلقین کے اثر کا جائزہ لینے کے لیے زیادہ لمبی چوڑی تحقیق کی ضرورت نہیں۔
بحث کو الجھنے سے بچانے کے لیے مضمون کی ابتداء کچھ سیاسی و علمی اصطلاحات کے احاطے سے کرتے ہیں تاکہ کنیفیوزن کم رہے اور پڑھنے والے کو بھی آسانی ہو کہ جن لفظوں کو وہ پڑھ رہا ہے ان کے مستعمل معنی تک اس کی رسائی ہے۔
دو قومی نظریہ، مسلم قومیت اور نظریہ پاکستان یہ تین مختلف اصطلاحات ہیں جو کہ مسلم لیگ کے سیاسی سفر میں وقت اور جگہ کی مناسبت سے مختلف اوقات میں مختلف سیاق و سباق میں استعمال ہوتی رہی ہیں۔ ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ تھیوری اور آئیڈیالوجی دونوں کا اردو ترجمہ نظریہ کیا جاتا ہے، جبکہ مستعمل معنوں میں تھیوری اور نظریہ میں ایک فرق ہوتا ہے جس کو روا رکھنا، خاص طور پہ جب مدعا علمی طور پہ کسی خزینہ گم گشتہ کی بازیافت ہو تو، میرے نزدیک خاصا اہم ہے۔
دوسرا اہم ترین معاملہ کمیونٹی اور قوم کے تصور کو اپنی علمی اور سماجی و سیاسی تینوں پہلوؤں سے سمجھنا لازمی ہے تب ہی کہیں جا کے ان تینوں کے آپسی تعلقات اور نوعیت کو زیرِ بحث لایا جا سکتا ہے۔جوہر صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
کمیونٹی سے وسیع تر معنوں میں معاشرہ مراد ہے اور اس میں سیاسی مفہوم شامل نہیں ہے، اور جب کوئی معاشرہ سیاسی طاقت حاصل کرنے کا اہل ہو جائے تو وہ قوم بن جاتا ہے۔ (صفحہ نمبر12
اول تو ان دونوں اصطلاحات کی کوئی بھی کنکریٹ تشریح صاحب مضمون نے کی ہی نہیں جس سے پتا چلے کہ اگر وہ ان اصطلاحات کو مروجہ معنوں سے ہٹ کر استعمال میں لا رہے ہیں تو اس کی نوعیت واضح ہو جائے۔
دوسرا ان اصطلاحات کے استعمال سے جو مقدمہ انہوں نے تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے وہ علمی اور تاریخی اعتبار سے نہایت کمزور ہے۔ سب سے پہلے کمیونٹی کے تصور کی طرف بڑھتے ہیں۔ ہم روزمرہ کی زندگی میں اگر اس لفظ کے استعمال کو دیکھیں تو اس سے ہرگز مراد معاشرہ نہیں بلکہ ایک مخصوص خصائل کا مالک کوئی بھی گروہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ اساتذہ کمیونٹی، خانہ بدوش کمیونٹی، آرٹسٹ کمیونٹی وغیرہ وغیرہ۔
ان سب مثالوں میں ایک چیز نہایت واضح ہے کہ کیمنوٹی میں کسی نہ کسی سطح پہ کوئی مماثلت کا ہونا ضروری ہے، لیکن ہندوستان کے مسلمان جو کہ فرقوں، ذاتوں، قوموں اور نسلوں میں منقسم تھے ان کے مابین کون سی سانجھ تھی؟ کیا وہ مذہبی شناخت تھی؟ یقننا ان کی شناخت مذہبی تھی۔ لیکن کیا ان کے اندر جو اندرونی اختلافات تھے ( اور جو آج تک سماجی اور مذہبی سطح پہ موجود ہیں) ان کی کوئی اہمیت نہیں؟
دوسرا اہم تصور قوم کا تصور ہے۔ تو کیا ہر وہ معاشرہ (جوہر صاحب کی کمیونٹی) جو سیاسی طاقت کا دعویدار ہو جائے تو پھر وہ قوم کہلائے گا؟ قومیت یہ تصور تو بلوچوں سے لے کر پوٹھوہاریوں اور یہاں تک کے ہزارہ ڈویژن کے رہائشیوں کو بھی ایک قوم بنا دے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے مقدمے کو بظاہر موثر بنانے کے لیے صاحبِ مضمون نے ایسی خود ساختہ تعریفیں گھڑی ہیں جن کا دور دور تک حقیقی اور تاریخی واقعات و مسائل سے کہیں دور کا رشتہ ہی بنتا ہے۔
ہمیں اس بات کو ماننے سے کوئی انکار نہیں ہے کہ مسلمان کمیونٹی کو اگر کسی بنیاد پہ کمیونٹی کہا جائے تو وہ مذہب ہی ہو گا۔ لیکن کیا برصغیر کے مسلمان مفکرین کمیونٹی کی کسی ایک تعریف پہ متفق تھے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ فرزانہ شیخ لکھتی ہیں:
پاکستان کے تصور کے تشکیلی عناصر ۔۔۔ کیمونٹی، قوم اور طاقت۔۔۔ جو کہ زیادہ تر اسلام سے ہی اپنی تعریف لیتے ہیں اختلافات میں گھرے ہوے ہیں۔۔۔ پاکستان کا اپنی شناختی بحران اور برصغیر کے مسلم مفکرین کی (کمیونٹی) کے بارے میں اتفاق کی تلاش میں ایک حیران کن مماثلت ہے۔
کیمونٹی کے اس تصور پہ اختلاف صرف سیاسی نوعیت کا نہیں ہے، بلکہ اس کی علمی بنیادیں اسلامی روایت کے اندر ہی پنہاں ہیں۔ مسلم قومیت کو ایک سیاسی نعرے کے طور پہ ماننے والے روایت کے اندر موجود ان اختلافات سے صرفِ نظر کر کے ایک سیاسی نظریے کو تمام تاریخی اور زمینی حقائق پہ فوقیت دے کر حقیقت میں ریاست اور اس کی طاقت پہ متمکن اشرافیہ کو سوشل انجنیئرنگ کرنے کی گنجائش پیدا کرتے ہیں۔
جبکہ آج کے پاکستان سماج اور اس کی سیاسی حقیقت اس بات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ کمیونٹی سے قوم کی جانب کا جو سفر انیسویں صدی کے اوائل میں مسلمانوں نے برصغیر میں شروع کیا تھا وہ پچھلی ربع صدی سے اپنے الٹ میں بدل چکا ہے۔
مسلم قومیت کے نام پہ وطن حاصل کرنے کے بعد ریاست نے مسلم کیمونٹی کی حدود کو طے کرنے کا بیڑہ بھی اٹھانے کا ذمہ لیا اور مسلمانیت کی تعریف کو طے کرتے ہوئے احمدیوں کو مسلمان کیمونٹی سے باہر کر دیا۔ جس سے ایک سیاسی و قانونی مثال ترتیب پا گئی جس کی وجہ سے مزید مسلم کیمونٹی بھی ریاستی طاقت کے حصول کے ذریعے دوسروں کو مسلم کمیونٹی کی حدود سے پرے دھکیلنے کی سیاست میں شامل ہوئے۔ اہلِ تشیع کو غیر مسلم قرار دینے کی کوششیں اسی سیاسی نظریے کا حصہ ہیں۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم قومیت سے پہلے مسلم کمیونٹی کا قضیہ نمٹانے کی اہمیت سیاسی اور نظری طور پہ زیادہ اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ مسلم قوم کی بنیاد ایک وحدت پہ مبنی مسلم کمیونٹی ہے جو کہ اسلامی قانون سے اپنی تعریف لیتی ہے اور موجودہ شرعی قوانین ، اسلامی ریاست کے تصورات اور ان کی سیاست اس وقت تک کسی بھی طور پہ پاکستانی سماج اور ریاست کے لیے کوئی مشعلِ راہ نہیں بن سکتے کہ جب تک مسلمانیت اور مسلم کمیونٹی کے تصور میں نظری ہم آہنگی اور سیاسی اتفاقِ رائے نہ پیدا کیا جا سکے جو کہ پچھلی تین صدیوں سے ابھی تک ادھورا ہے۔
مضمون کے اس حصے کے اختتام میں کچھ تاریخی حقائق کی درستی کرنا مناسب ہو گا۔ پاکستانیوں کا تاریخ سے ایک باہمی محبت اور نفرت کا متوازی رشتہ ہے۔ ہمارے نصاب اور جرائد و رسائل میں تاریخ کو یا تو اپنی دلیل کو ثابت کرنے کے لیے من مرضی کا چولا پہنا دیا جاتا ہے، یا پھر سرے سے ہی تاریخ کو علم ماننے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
نظریہ پاکستان نامی مضمون میں جوہر صاحب نے بھی تاریخی مندرجات کا من چاہا انتخاب کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہندو خود کو ایک قوم اور مسلمانوں کو ایک کمیونٹی کہتے ہیں۔ اس طرح تو پھر سارے علمائے کرام جو کہ مسلمانوں کو ایک امت سمجھتے تھے، کیا وہ ہندووں کی طرح مسلمانوں کو بھٹکانے کے موجب تھے؟
جنابِ اقبال سے پہلے قومیت کا تصور مسلم روایت کا کہیں بھی حصہ نہیں رہا، بلکہ ہندوستان میں کمیونل شناخت کے تصورات کی بنیاد ہی مسلمانوں نے انیسویں صدی میں سیاسی طاقت کے چھن جانے کے بعد رکھی اور ہندو کمیونل ازم کے تصورات کی بنیاد بھی اس مسلم کمیونل تصورات سے ہی کشید کی گئی۔ حتی کہ ہندو کمیونل ازم کا سب سے بڑا نمائندہ دیانند سرسوتی، جس نے آریہ سماج کی بنیاد رکھی، کے سارے مذہبی دلائل ہندو مت کو اسلام اور عیسائیت سے بہتر ثابت کرنے پہ صرف ہوئے، کیونکہ اس نزدیک عیسائیت اور اسلام دونوں ابراہیمی مذاہب ہیں۔
تاہم اس کی بحث کا نشانہ زیادہ تر ان علما کے دلائل ہی رہے جو کہ مسلمانوں کو ایک مذہبی کمیونٹی تصور کر کے سیاسی طاقت پہ ان کا حق ثابت کرتے تھے۔ ہندو کمیونٹی کی سیاسی طاقت کا مقدمہ بنیادی طور پہ مسلمانوں کے سیاسی طاقت کے مقدمے کے بعد سامنے آیا اور اسی تاریخی ترتیب کو جھٹلانا اپنی عوام کو جاہل رکھنے کے مترادف ہے اور پاکستانی اشرافیہ اس کِھلواڑ کی ہمیشہ سے سرپرست رہی ہے۔
اسی تناظر میں ہم سمجھتے ہیں کہ تاریخ کا درست مطالعہ ہی ہمیں اسلام ، سیاست اور ریاستی طاقت کی تکون کے محرکات اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل جس کا سامنا آج پاکستان ریاست اور سماج کر رہے ہیں، سے نپٹنے کا سامان مہیا ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی ایسا بیان جو کہ محض خاص زاویوں سے چنیدہ selective حقائق نگاری کرے، کسی بھی طور پہ خردمندی کی پنیری لگانے میں مدد گار ثابت نہیں ہو سکتا۔
[iii] معروف معنوں میں نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کو ایک ہی لیا جاتا ہے جس کے پیچھے خواہش شاید علمی سطح پہ مزہب اور قوم کے تصور کو ہم آہنگ کرنا ہو سکتا ہے یہ دونوں اپنے معنی اور استعمال میں مختلف اصطلاحات ہیں دو قومی تھیوری ایک دلائل کو مجموعہ ہے جو کہ مسلمانوں کو ہندووں سے ایک الگ قوم ثابت کرتی ہے جبکہ نظریہ پاکستان اس قوم کیلئے ایک الگ وطن کے مطالبے کی نشاندہی کرتا ہے۔
[iv] نظریہ آئیڈیالوجی کا ترجمہ ہوتا ہے جبکہ تھیوری ایک سائنٹفک اصطلاح ہے جس کو عام لفظوں میں مختلف بیانات اور معقولات کا ایک ایسا مجموعہ جو کہ اصولا جن حقایق کی وضاحت کرے اس سے آزاد ہو
[v] Shaikh, Farzana 2009, Making Sense of Pakistan, p. 2,3
[vi] Stern, R. W. (2001). Democracy and dictatorship in South Asia: dominant classes and political outcomes in India, Pakistan, and Bangladesh. Prayer Publishers USA,p.23-30 .
مضمون نگار کو غالباََ خود بھی علم نہیں کہ ایجنڈہ سیٹ کرنے والے اس سے کیا لکھوا کر کیا معنی نکلوانا چاہتے ہیں!