
نیلوفر کا کتا
از، حفیظ تبسم
نیلوفر اپنے کتے کے ساتھ شام کی واک پر جانے کی تیاری کر رہی تھی کہ ڈور بیل بجی۔ دو بار مسلسل اور اگلی باری ذرا وقفے سے… نوکرانی نے جا کر دروازہ کھولا تو جانی پہچانی آواز سنائی دی۔
”ہیلو، کیسی ہو؟“
نوکرانی کوجواب دینے کی مُہلت بھی نہ ملی اور دانی آگے بڑھ آیا۔
نیلوفر کتے کے گلے میں زنجیر ڈال رہی تھی۔ ایک دَم چونکی اور زنجیر وہیں چھوڑ کر ایسے دیکھنے لگی جیسے کھلی آنکھوں پر نیند میں خواب دیکھنے کا گمان گزر رہا ہو۔ سانس اپنی جگہ پر رکا ہوا تھا، مگر اتنے میں دانی اس کے قریب آ گیا تھا۔
”ہیلو، نیلو جان کیسی ہو؟“
نیلوفر نے گہرا سانس لیا تو وہ ایک قدم اور آگے بڑھا۔ نیلوفر نے ہاتھ ملانے کے لیے آگے کر دیا جیسے اسے ڈر ہو کہ دانی اسے بانہوں کے حصار میں جکڑ لے گا۔ دانی کے ہاتھ میں اُس کا ہاتھ کانپ رہا تھا، مگر جلدی سے خود کو سنبھال کر صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ دانی نے کاندھے پر لٹکا بیگ اتارا اور صوفے پر رکھ کر بیٹھ گیا۔ پھر نظریں گھما کر ڈرائنگ روم میں دیکھنے لگا۔ چارسال کے وقفے میں کچھ بھی تونہیں بدلا تھا۔ وہی فرنیچر اور پردے، دیواروں پر رنگ و روغن اورآویزاں تصاویر، چاک مٹی کا پھولوں سے سجا گُل دان…ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی بڑی شہرت والے شخص کا ڈرائنگ روم تھا۔
نیلوفر بھی اپنے بدن میں سنسنی محسوس کرتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس کے دماغ میں چار سال پہلے آخری ملاقات کے آخری الفاظ گونجنے لگے۔
”میں بوڑھی ماں کی مرضی کے آگے مجبور ہوں!“
کتنے ہی دن تک یہ الفاظ اُس کی سماعت میں گونجتے رہے، جب وہ سونے کے لیے بستر پر دراز ہوتی اور خاموشی سے دیواروں کو تکتے تکتے تھک جاتی تو رونے لگتی تھی۔ آنسوؤں میں گزرے دنوں کی یادیں بہہ نکلتیں، مگر افسردگی کا تسلط ہو جاتا تھا۔ وہ سوچتی کہ خواہش انسان کو بہادر بنا کر اس بات پر مجبور کر دیتی ہے کہ وہ رکاوٹوں کو اکھاڑ کر پھینک دے۔ وہ محبت میں اتنی آگے نکل چکی تھی کہ رسم و رواج کی ہر کھائی عبور کرنے کو تیار تھی، مگر اس کا ہاتھ تھام کر چلنے والا مرد پہلی ہی ٹھوکر پر منھ کے بل گر پڑا تھا۔ وہ ہر لمحہ خود کو دلاسا دیتی، مگر یقین نہ کر پاتی کہ یہ الفاظ دانی کیسے بول سکتا تھا؟ مگر پوری بازگشت اس نے خود پر عذاب کی صورت جھیلی تھی۔ برفانی پہاڑ پر پھنسے سیّاح کی طرح اپنی خواہشوں کے بوجھ تلے!
دونوں کے درمیان ذرا دیر خاموشی رہی۔ پھردانی گویا ہوا، ”زندگی کیسی گزر رہی ہے؟“
”اچھی، بہت اچھی!“ یہ کہہ کر نیلوفر نے سگریٹ سُلگایا اور دھوئیں کے مرغولوں کو دیکھتے سوچنے لگی، ”کیا اُن دونوں میں کوئی رشتہ ہے؟…کوئی ذرا سا بھی رشتہ؟“وہ اپنے آپ سے پوچھتی رہی اور جواب نہ پا کر الجھتی رہی۔ اس طرح کی دماغی حالت ہمیشہ جذبات کی شدت کے پیمانے سے ناپی جاتی ہے، مگر اُس کی روح بے جان شے کی طرح ہو گئی تھی اور دماغ پوری طرح چوکس! ”اِس نے میری شہ رگ کاٹی تو سارا خون بہہ گیا، لیکن میں ہنوز زندہ ہوں۔ کیا یہ دیکھنے آیا ہے کہ میں زندہ ہوں یا مردہ؟“ اُس نے بڑے کرب سے اپنے آپ سے پوچھا اور سامنے بیٹھے دانی کی طرف دیکھا جو ایک مرد تھا اور مردانگی کو اپنا اعزاز سمجھتا تھا۔ مگر نیلوفرکی نگاہوں میں تصوراتی عظمت اور طاقت کھو چکا تھا۔
اتنے میں نوکرانی ٹرے میں چائے کی پیالیاں رکھے اندرداخل ہوئی۔ اُس کے ساتھ کتا بھی تھا جو نیلوفر سے ذرا سا فاصلہ رکھ کر بیٹھ گیا تھا۔ نواکرانی نے چائے کی پیالیاں میزپر رکھیں اور چپ چاپ چلی گئی تو دانی نے نیلوفرسے پوچھا۔
”تم نے نوکرانی نہیں بدلی؟“
”کیوں، اس میں کیا خامی ہے؟“ نیلوفرنے چڑکرالٹا سوال پوچھ لیا۔
”خامی تو کوئی نہیں…پوری عورت ہے!“
نیلوفرنے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور دل کی دھڑکن دفعتاً تھم سی گئی کہ حرام کا پلاّ سیدھی سادی نوکرانی پربری نظر رکھے ہوئے تھا۔ اسی طرح کی ایک شکایت بہت پہلے نوکرانی نے بھی کی تھی کہ نیلوفرکی غیرموجودگی میں دانی صاحب اس کے ساتھ نازیبا باتیں کرتا تھا، مگر وہ اپنی محبت کے نشے میں ٹال گئی تھی۔ نیلوفرنے سوچا، ”آخر یہ معاشرہ ہے کیا؟ کیاان مردوں کو بچپن سے یہی سمجھایا گیا کہ عورت مرد کی کھیتی ہے۔ کیا مرد بھی عورت کی طرح اعصاب، پٹھوں، آنتوں اور ہڈیوں کاایک مجموعہ نہیں ہوتا؟“ پھر اُس نے غصے سے دانی پر لفظی وار کیا، ”عورتیں ساری ہی پوری ہوتی ہیں، یہ آدھی عورت کی تھیوری تم مردوں کی پیداوار ہے۔“
دانی ہنسا۔ ”ادب پڑھتے پڑھاتے پوری فلاسفر بن گئی ہو۔“
نیلوفرکا غصہ بڑھ رہا تھا کہ نوکرانی کے متعلق اس قدر بے معنی بکواس کی کیا ضرورت پڑی تھی۔ پھرکتے کی طرف دیکھا جواگلی ٹانگوں پر بڑے انہماک سے بیٹھا تھا، جیسے دونوں کی باتیں سن رہا ہو۔ نیلوفرنے پلیٹ میں کیک کا ایک ٹکڑااٹھا کر رکھا اور کتے کوآواز دی۔
”کم آن دانی!“
کتا دونوں کان ہلا کر آگے بڑھا اور نیلوفرکی ٹانگ کے ساتھ لگ کربیٹھ گیا۔
دانی کے سارے وجود پرایک ناگوار احساس چھا گیا۔ وہ اکیلا دانی نہیں تھا۔ اُس کے سامنے چار ٹانگوں والا دانی بھی بیٹھاتھا۔ اسے ایسا لگا جیسے کسی بھیانک خواب کے دوران آنکھ کھل گئی ہو۔ کتے کی طرف دیکھتے ہوئے اُس کے اندرآگ سی لگی، جیسے رقابت کا زہر رگوں میں پھیل رہا ہو۔ ایک آن میں دانی نے نیلوفرکی سرد مہری کا رویہ دل میں اترتا محسوس کیا اور دماغ میں شور مچاتے جذبات کوچپ کروانے کے لیے بول پڑا۔
”بتیاں کیوں بند کررکھی ہیں؟“
نیلوفرنے کوئی جواب نہ دیا تو رانی نے خود ہی اٹھ کر بلب روشن کردیا۔ حیرت انگیز حد تک درست بٹن دبایا تھا۔ یوں کہا جا سکتا تھا کہ ڈوربیل بجانے کے مخصوص انداز سے بورڈپر لگے بٹن تک کچھ بھی نہیں بھولاتھا۔ دانی بورڈ کے قریب دیوار پر لگی ایک تصویر دیکھنے لگا۔ تصویر میں نیلوفرنے بغیرآستین کی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس پر سورج مکھی کے بڑے پھول نقش تھے۔ لمبے گھنے سیاہ بال کاندھے پر جھولتے ہوئے، موٹی آنکھوں میں شرارت پن اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان…تصویرلگ بھگ پانچ سال پرانی تھی، مگراُس میں رتی برابر بدلاؤ نہیں آیاتھا۔
دانی نے پلٹ کرنیلوفرکی طرف دیکھا اور بولا، ”یہ تصویر نتھیاگلی کی ہے۔“
”تمھیں کیسے پتا؟“
سوال بہت معمولی تھا اور نیلوفرنے پوچھ بھی یوں ہی لیا تھا، لیکن دانی چونک پڑا۔
”میں بھی ساتھ ہی تھا۔“
”اچھا! میں توبھول بھال گئی۔ تصویرتو حفیظ نے کھنچی تھیں۔“
دانی گہراسانس لے کرپلٹ آیا اور صوفے پر بیٹھ کرسگریٹ جلاتے ہوئے بولا، ”حفیظ سے کوئی رابطہ ہے؟“
”نہیں! اُس کے دوست حسن زبیری سے بھی پوچھا، مگرکوئی رابطہ نمبرنہیں مل سکا۔“
دانی نے لگاتار دو تین کَش لگائے۔ ”آپ کو تو پتا ہونا چاہیے۔ آپ کا گہرا دوست تھا۔“
سوال بہ ظاہر سادہ مگربہت تیکھا تھا کہ نیلوفرہونٹ کاٹ کررہ گئی۔
”اُس کی کہانی بھی بڑی عجیب وغریب ہے۔ سنا ہے کسی لڑکی سے کورٹ میرج کرلی اور اپنا شہر چھوڑکرکہیں اورچلا گیا ہے۔“
”جھوٹ ہے! تمھیں کس نے بتایا؟“ نیلوفرکویقین نہیں آ رہا تھا۔
”اس کے شہرکا ایک آدمی ملا تھا۔ اسی نے پوری کہانی سنائی!“
دانی نے ٹھہرٹھہرکرکہانی سنائی تو نیلوفر کا چہرہ شام کے خواب ناک دھندلکے میں ڈوبتا چلا گیا۔ پھردانی ذرا سا رک کربولا۔”اُس کی ”دشمنوں کے لیے نظمیں“ کتاب چھپ گئی ہے مگر کمینے نے ہم پر لکھی نظمیں شامل نہیں کیں۔“
نیلوفر کے لیے اُس کی کتاب کا چھپنا بھی ایک انکشاف تھا۔ ذراچونک کر بولی۔”اچھا کیا،
عزت بچ گئی۔ مجھ پر ’سانولی حور‘ کے عنوان سے بڑی عجیب وغریب نظم لکھی تھی۔“
”اور مجھ پر ’ریچھ کا اندھا مداری‘ کے عنوان سے۔“
نیلوفر سوچ میں غرق ہو گئی۔ وہ اس طرح کی عورت معلوم ہونے لگی جو بہ یک وقت پچھتاوے اور جذبات کی اسیر ہو۔ شاید اُس کے دل میں کسی اور کی محبت بھی تھی جسے اس نے باری آنے پریاد کیا۔ ایک لمحے میں نیلوفر پر ہزاروں خیالات نے یلغار کر دی اور سوچا کہ حفیظ ضدی اور انا پرست تھا۔ اگر وہ اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی تو دونوں کی زندگی ایک لامحدود نظم و ضبط میں لائی جا سکتی تھی۔
اُن کے درمیان خاموشی کا طویل وقفہ تھا۔ دانی پربے زاری طاری ہونے لگی اور ایک مقید پرندے کی طرح پھڑپھڑا کے رہ گیا۔ نیلوفرکی سرد مہری اُس کے دل میں خار بن کر چبھنے لگی۔ اس کا جی چاہا کہ اٹھ کر چلا جائے مگرضبط کر کے بیٹھا رہا کہ غلطی کی سزا ایک نہ ایک دن بھگتنا پڑتی ہے۔
دانی بولا، ”تم نے پوچھا نہیں کہ میں اچانک کیوں چلاآیا؟“
”جیسے اچانک گئے تھے، ویسے ہی!“ نیلوفرنے روکھے پن سے جواب دیا اور ایک ٹک اس کی جانب دیکھتی رہی۔
”کہہ سکتی ہو، تمھارا حق ہے۔“
”حق؟“ نیلوفرطنزسے مسکرائی۔
”میں نے اپنی بیوی کوطلاق دے دی ہے۔“
یہ کہہ کردانی نے گہراسانس بھرا اور سگریٹ سُگا لیا۔ نیلوفرکی آنکھیں دفعتاً پوری کی پوری کھل گئیں اور سوچنے لگی کہ ایک اور درسے ٹھوکر کھاکے لوٹاہے۔
دانی نے دوبارہ بات چلائی۔”شادی کرنا ایک جذباتی فیصلہ تھا اور تمھارے بغیر رہنا بھی… جانتی ہو، میں اپنی بیوی کے ساتھ لیٹ کر بھی تمھارے ساتھ لیٹا ہوتا تھا، مگرنیند نہیں آتی تھی۔“
”تو نیند کی گولیاں کھا لیا کرتے۔“
نیلوفر نے گہری چوٹ کی تو دانی نے اُس سے پوچھا، ”کیا تم آسانی سے سو لیتی ہو؟“
”بہت دیرتک سوتی رہتی ہوں۔“
”دیرتک؟“
”ہاں دیرتک!“
”بڑی اچھی بات ہے۔ پھرتوخواب میں مَیں بھی دکھائی دیتا ہوں گا؟“
نیلوفرنے سر جھٹکا، ”اور بہت سارے خواب ہیں۔“
یہ کہہ کر نیلوفرکواحساس ہوا کہ وہ اُس کے ساتھ کچھ زیادہ ہی بول رہی تھی۔ چاہیے تویہ تھا دروازے ہی سے دُھتکار دیتی اور اُس کی طرف دیکھتی بھی نا! جو ہاتھ جھٹک کر جانا چاہے اسے تو روکا جا سکتا ہے، مگرجو دل توڑ کر ہر بندھن سے آزاد ہوکر گیا ہو، وہ تو گلی کے آوارہ کتے سے بھی زیادہ ناقابل رحم ہوتا ہے اور پھر جب بندھن کے تمام دھاگے ہی ٹوٹ چکے ہوں تو…یہ سوچتے ہوئے نیلوفرکے دماغ میں غصہ پھیلنے لگا، مگراتنے میں نوکرانی نے پاس آ کر کہا۔
”بی بی جی! سات بج رہے ہیں، میں جاؤں؟“
نیلوفر نے دیوار پر لگی گھڑی پروقت دیکھا۔ پھر اُس نے بے اطمینانی کے ساتھ دانی سے پوچھا۔
”تم کب تک جا رہے ہو؟“
”میں کچھ دن کے لیے آیا ہوں…تمھارے پاس ٹھہروں گا۔“
یہ سن کر نیلوفرنے ہونٹ کاٹے، ”ایسا ممکن نہیں، یہ ایک عورت کا گھر ہے، میرے پڑوسی باتیں کریں گے۔“
”پڑوسی؟ تم ایسی باتوں کی پروا کب کرتی ہو؟“
”میں اب ہرچیزکی پروا کرتی ہوں۔“
نیلوفرنے تیز لہجے میں جواب دیا تو دانی کے ماتھے پر پسینے کے قطرے جھلملا اٹھے، مگر خفت مٹانے کے لیے ذراسا ہنسا۔ ”ٹھیک ہے، میں چلا جاتا ہوں۔“ لیکن خود اسے محسوس ہوا جیسے یہ ہنسی مضحکہ خیزحد تک کھوکھلی تھی۔ آخر جھنجلا کر اس نے اپنے بیگ کی طرف دیکھا اور اٹھا کر گود میں رکھ لیا۔ نیلوفر نے اس کی طرف بہ غور دیکھتے ہوئے سوچا، ”مجھے اس سے محبت تھی یا نہیں…اب اس قصے میں کیا رہ گیا تھا! اور اٹھتے ہوئے بولی، ”بیٹھو! میں آتی ہوں۔“ اور اپنے کتے کو آواز دے کر خواب گاہ میں چلی گئی۔ اُس نے دروازہ بند کرکے کتے کی طرف دیکھا اور دونوں گھٹنے موڑ کر بیٹھ گئی۔ اُس کے دل میں مختلف جذبات کا طوفان برپا تھا۔ ایک طرف دل میں غصہ اور دوسری طرف انتقام کا جذبہ…ایک لمحے کے لیے اپنے غرور کی مستی میں اُس نے دایاں گال کتے کے منھ کے قریب کر دیا۔ کتے نے پہلے زبان نکال کر پھیری، پھرگال پر تھوتھنی رگڑی۔ وہ اٹھی اور ہاتھ کی پشت سے گال صاف کرتی باہر نکل گئی۔ کتا دم ہلاتا پیچھے تھا۔ اسے آتے دیکھ کر دانی اپنا بیگ اٹھا کراٹھ گیا تو وہ دروازے کی طرف بڑھی۔ دانی اس کے پاس آ کر رکا اور گہرا سانس لے کر بولا۔
”مانتاہوں میں نے تمھیں تکلیف پہنچائی مگر…“
نیلوفرنے اس کی بات درمیان میں ٹوک دی۔” نہیں! کوئی تکلیف تونہیں پہنچائی۔ اب آدھی عمر گذر چکی ہے اور ایسی باتوں پر نہ رویا جاسکتا ہے اور نہ ہی ہنسی آتی ہے۔“
”بات یہ ہے،“ دانی نے جلدی سے کہا، ”میں اپنے کیے پرشرمندہ ہوں۔“
”شرم…“ نیلوفرنے طنزسے ہنس کر نظریں جھکالی۔ دانی نے آگے بڑھ کردروازے کی کنڈی کھولی تو نیلوفر کو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی چیز اس کو روندکر گزرتی جا رہی ہو۔ بے قراری سے اس کی آواز گلے سے نکلی۔
”دانی!“
دانی نے پلٹ کر دیکھا تو دونوں کی آنکھوں میں لرزیدہ خوف ایک لمحے کوٹھہرسا گیا۔ نیلوفر نے ذرا سا پیچھے کھسک کر نظریں جھکا لیں تو دانی کو لگا جیسے غصے اور نفرت کی برف پگھل رہی تھی۔ ایک جذبۂِ بے اختیار نے اسے اس قدر بے تاب کردیا کہ وہ آگے بڑھااور نیلوفرکے جسم سے لپٹ گیا۔ اسے ایسا لگا جیسے ساری کائنات کو اپنی بانہوں میں لپیٹ لیا تھا۔ نیلوفرپتھر کے بت کی مانند ساکت کھڑی تھی۔ دانی کے بے قرار ہونٹ بوسہ لینے کی چاہ میں آگے بڑھے تونیلوفر دایاں گال آگے کرکے آنکھیں بند کرلیں۔ دانی کے ہونٹ دائیں گال پر ذراسے ٹکے تو نیلوفر کو اپنے جسم میں کوئی سنسنی یا جذبہ دوڑتا ہوا محسوس نہ ہوا۔ بس بے انت افسردگی تھی اوربس! پھر نیلوفرنے اپنے آپ کو اس کی بانہوں کی گرفت سے آزاد کیا۔
”اب جاؤ! اور یہ آخری ملاقات تھی بس!“
یہ کہتے ہوئے نیلوفرکے چہرے پرنفرت انگیز سختی تھی۔
دانی چونک پڑامگر اُس کے پاؤں بے اختیاردروازے کی جانب چل پڑے تھے۔
۰۰۰O۰۰۰
نیلوفرکوہمیشہ نیند با آسانی، جلداور بغیرکوشش کے آیا کرتی تھی، لیکن اس رات بہ ظاہر پڑی ہوئی تھی، گویا غافل سو رہی تھی مگردرحقیت بالکل بے خواب اور ہوشیار…قطع نظر اسے کوئی تکلیف نہیں تھی۔ زندگی کے تردد کبھی اس کی نیند خراب نہیں کرتے تھے۔ درحقیقت اس کی زندگی میں ترددات کچھ بھی نہ تھے۔ اس نے دور دراز کے شہر سے آ کرپڑھائی کی اور حال ہی میں تدریس کا پیشہ اختیار کیا تھا۔ اپنی علمی زندگی کے متعلق وہ بہت کچھ توقعات رکھتی تھی۔ زندگی کا وسیع میدان اس کے سامنے تھا۔ ماں باپ کب کے مرچکے تھے اور وہ شادی کو سماجی بندھن قراردیتی تھی۔ آمدن بھی معقول تھی۔ پھراُسے کیا فکرہوسکتی تھی۔ مگراُس رات نیلوفرکے خیالات و افکار نیند اچٹ جانے کے بعد خوش گوار، آرزومندانہ اوردل چسپ تھے۔ پڑے پڑے اس کے خیال میں جونقشہ جم رہا تھا، وہ قدرے صاف مگرقدرے بے سبب تھا۔ جوچیز اس کے تخیل میں آ رہی تھی، اس کو بہ غور اُس نے دیکھا بھی نہ تھا یعنی دانی کاچہرہ…ادھورا، کٹا پھٹا اور گھبرایا ہوا چہرہ…جو احساس پر چھا گیا تھا۔
نیلوفرایک خوب صورت عورت تھی۔ اڑتیس سال کے لگ بھگ ہوتے ہوئے بھی وہ کم عمر دکھائی دیتی تھی۔ قدرے فربہی کے باوجود وہ چست اور پھرتیلی تھی۔ عورت کے ناتے حاصل ہونے والے اختیارات پراسے نازتھا۔ وہ شفیق، ہم درد، پرسکون اور دوسروں کا خیال رکھنے والی… کسی بھی طرح کی الجھن کودوراندیشی اور اپنی ذات سے حل کرنا اسے پسند تھا۔ ہروقت مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر یوں کھیلتی جیسے زندگی نے اسے دکھوں سے محفوظ کردیا ہو۔ وہ اداس، دکھ درد میں کڑھنے والی عورتوں کو اللہ میاں کی گائے کہتی تھی اور خود کوپوراانسان تصورکرتی تھی۔
شاید اس کی زندگی کی پہلی رات تھی کہ عجیب وغریب خیالات اس کے دل میں اودھم مچا رہے تھے اور دانی کی رحم طلب آواز کان میں گونج رہی تھی، مگر وہ اپنے آخری فیصلے سے مطمئن تھی۔ اس کا نظریہ تھا کہ ایسی غلطی معاف کردینا، جواپنی زندگی کا دھارا بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہو، زندگی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور اس نے دانی کومعاف نہ کرکے اپنے زخموں پر مرہم رکھا تھا۔
اسی کیفیت میں رات کا تیسرا پہرتھا۔ اس نے دیکھا کہ کتا بھی نرم گدے پر پڑا جاگ رہا تھا۔ اس نے آوازدے کر کتے کوبلایا تو کتا بھاگ کربسترپر چڑھ آیا اور اپنی تھوتھنی اس کے چہرے پر پھیرنے لگا۔ نیلوفر نے تکیہ اٹھا کر کتے کے مارا اور پیار سے بولی، ”نو، دانی۔“ اس نے اپنا ہاتھ گال پر رکھ لیا، مگر کتے کی آنکھیں گویا اس کی روح کے اندر سرایت کر رہی تھیں۔ اس وقت تک نیلوفر کوان آنکھوں کی گہرائی، معصومیت اور وفاداری کا کچھ اندازہ نہ تھا۔ کتا دوبارہ آگے بڑھا اور اس کے سینے پر منھ رکھ دیا۔ پھر اگلے پنجے سے شرٹ کھینچنے لگا تو فوراً نیلوفر کے دل میں خیال لپکا کہ کتے اور مرد ایک جیسی فطرت رکھتے ہیں، بدن کو نوچ کھاتے ہیں، مگر اس کا کتا تو ایسا نہیں تھا۔ وہ چھوٹا سا پلِّا تھا جب اس نے پالا تھا اور اب جوان تھا۔ شاید غیرارادی طور پرپہلے بوسے سے کتے کی شہوانی حس بیدار ہوگئی تھی۔ نیلوفر نے ذراغصے سے ڈانٹااور دوبارہ تکیہ مارا۔ ”پیچھے ہٹو، دانی۔“ کتا بستر سے اترکراگلی ٹانگوں پر بیٹھ گیا، مگراسی کی طرف دیکھ رہاتھا، گو دیکھتا کچھ بھی نہ تھا۔ ذرا دیر نیلوفر بھی کتے کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر نجانے کہاں سے نیلوفرکے دل میں ایک شعلہ سا بھڑکا اور بولی، ”کم آن، دانی!“ کتاجیسے آواز کے انتظار میں تھا، بسترپر چڑھ آیا تو نیلوفر نے دونوں بازو کھول کر اسے سینے پرلٹا لیا۔ اس کے ہونٹوں نے اس کی پیشانی پر ایک بوسہ دیا۔ وہ کسی قدرزرد پڑ گئی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ اس کے ہاتھ اور بازو بے جان ہوکر گر پڑے تھے، مگراس کے سینے میں ایک عجیب اور شدید بجلی کی سی لہر پیداہوئی۔ سر سے پاؤں تک جسم میں اک لہرسی دوڑگئی۔ جنگل کی سی خاموشی میں اس کے دل میں مختلف جذبات کا ایک طوفان برپاتھا۔ مگرساتھ ہی اس کے دل میں ایک خوف پیدا ہوا اور اس نے آہستہ سے کتے کوپکارا، ”دانی!“ کتے نے منھ اٹھا کر دیکھا اور اس کے جسم کواپنی گرفت سے آزاد کرکے اپنے اوپرلحاف کھینچ لیا توکتا بسترسے اترکر نرم گدے پر چلا گیا۔
۰۰۰O۰۰۰
اتوار کا دن تھا۔ سہ پہر کے وقت ڈوربیل بجی تو نیلوفر نے تیزقدموں سے جا کردروازہ کھول دیا۔ سامنے اس کی دوست صدف اپنی کتیا کے ساتھ موجود تھی۔ نیلوفرنے اسے گلے لگا لیا۔
”بارہ بجے سے انتظارکررہی ہوں۔“
”یار، تجھے پتا ہے، چھٹی کے دن ٹائم ملتا ہے توسونی کو نہلاتی ہوں!“
صدف کے جواب پروہ ہنس دی اور کتیا کی طرف دیکھا جونہلا دھلا کر لائی گئی تھی۔ صدف جھک کرکتیا کے گلے سے زنجیر نکالنے لگی تو نیلوفر نے اس کی کمر پرہلکا سا مکا مارا۔
”تُو بھی نہا لیتی!“
صدف ہنس دی، ”تیری طرح ہفتہ وار پروگرام نہیں ہوتا، روز نہاتی ہوں۔“
نیلوفرنے قہقہہ لگایا، ”ہاں، روز بھول جاتی ہوں۔“ اور اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ دونوں ڈرائنگ روم میں آ کررکیں۔ نیلوفر کا کتا ایک طرف خاموش اور ساکت بیٹھا دونوں کی طرف دیکھ رہاتھا۔ کتے کی آنکھیں اُن پر جمی ہوئی تھیں۔ صدف نے کتے کوآوازدی۔
”اٹھو بھئی دانی… سونی آ گئی ہے۔“
کتے نے آواز پر کان ہلائے، مگر اپنی جگہ سے ہلا نہیں۔ صدف نے نیلوفر کی طرف دیکھا۔
”تُونے دانی کوکیا کہا ہے؟ یہ توڈرا ہوا بیٹھا ہے۔“
”کچھ نہیں کہا، ایسے ہی دماغ خراب کرتا ہے۔“ نیلوفرنے سر کو ہلکا سا جھٹک کر کہا اور پھرپوچھا، ”چائے پیو گی یا کولڈ ڈرنک؟“
”گرما گرم چائے!“ صدف نے لہک لہک کرکہا جیسے چائے بنانے والی کمپنی کا اشتہار دے رہی ہو۔ نیلوفرکچن کی طرف چل دی تواس کے پیچھے صدف بھی…کچن جدید طرز کا تھا۔ عجیب و غریب پیالے، چینی کے برتن الماری میں سجے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں فریج پڑا تھا۔ صدف لکڑی کا ایک اونچا سا سٹُول کھینچ کربیٹھ گئی تو نیلوفر سوس پین میں چائے بنانے لگی۔
”پتی زیادہ ڈالنا۔“
صدف کی فرمائش سن کر نیلوفرنے گردن موڑکرترچھی نظروں سے دیکھا اور پتی کا ایک اور چمچ ڈال دیا۔ پانی اُبلنے لگا تونیلوفر نے دودھ ڈالتے ہوئے کہا۔
”دانی آیا تھا۔“
”دانی؟“ صدف کے لہجے میں حیرت تھی۔
”ہاں۔“ یہ کہتے ہوئے نیلوفرکی نرم اور ملائم آواز کرخت ہوگئی۔
”کتنے دن رکا؟“
نیلوفرنے ایک پل کو اسے دیکھا اور پھرنگاہیں پھیرلیں۔ صدف کے ذہن میں بیتے ہوئے برسوں کے منظر گھوم گئے۔ محبت کے دنوں میں وہ کس قدر جوان اور الھڑ تھی۔ کیسے وہ ہر ایک کوچھیڑتی اور ہرایک سے مذاق کرتی تھی۔
نیلوفر دوبارہ بولی، ”معافی مانگ رہا تھا، مگر میں نے ذلیل کرکے نکال دیا۔“
”اچھا کیا! دو چار تھپڑ بھی لگا دیتی… کمینے انسان کوسمجھنا چاہیے کہ عورت محبت کرسکتی ہے، مگر اس ناگن کی طرح بھی ہوتی ہے جو اپنے بچوں کو ہڑپ بھی کرجاتی ہے۔“
نیلوفر ہنس دی، ”تھپڑسے بھی براسلوک کیا تھا۔“
”واقعی؟“ صدف کو یقین نہ آیا تو نیلوفر نے اسے پورا قصہ سنایا اور دونوں ہاتھ پرہاتھ مار کر خوب ہنسیں۔ نیلوفرنے دو پیالیوں میں چائے انڈیلی اور اپنی پیالیاں تھامے ڈرائنگ روم میں آ گئیں۔ کتا اپنی جگہ پر موجود تھا اور کتیا صوفے پر چڑھی بیٹھی تھی۔ یہ دیکھ کرنیلوفر بے چین ہو گئی۔ کتے کی آنکھوں میں انکسار کے بجائے غضب ناکی اور سرکشی دکھائی دے رہی تھی۔ صدف کے منھ سے بے اختیار نکلا۔
”یار، یہ توابھی بھی الگ الگ بیٹھے ہیں۔“
نیلوفر مسکرا دی اور کتے کوآوازدی تووہ فوراً بھاگتا ہوا آیا اور نیلوفر کی ٹانگوں سے لپٹنے لگا۔ نیلوفر کا ہاتھ ہلا اور چائے گرتے گرتے بچی۔ غصے کی لہر نیلوفر کے تن بدن میں دوڑگئی۔ اس نے پیر کی ٹھوکرماری۔ کتے نے پیچھے ہٹ کرگردن اوپراٹھا لی۔ وہ خوف اور حیرت کے عالم میں گھورنے لگا توصدف بولی۔
”یار، یہ تو عجیب وغریب حرکتیں کر رہا ہے…کہیں نام کا اثر تو نہیں لے گیا۔“
نیلوفر نے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سنساہٹ محسوس کی۔ صدف اس کے آر پار اور بدن کی گہرائیوں میں جھانک رہی تھی، اُن رازوں کا بھید لینے کے لیے جو خود نیلوفرسے بھی مخفی تھے۔ آخر نیلوفرنے دانی کا ذکر چھیڑدیا اور ملاقات کا احوال سنانے لگی تو اس کے چہرے پراطمینان نمایاں تھا۔ ہلکی پھلکی باتوں میں چائے کی پیالیاں ختم ہو گئیں تو نیلوفر نے کپ رکھ کر صدف کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس وقت نیلوفر کی دماغی حالت جذبات کی شدت کے پیمانے سے ناپی جا سکتی تھی۔ گرم ہاتھ جو صدف کے ہاتھ کو دباتا نرم جذبات کااظہار کررہا تھا۔ صدف شرمیلی لڑکی تھی، مگر جذبات میں برابر شدت تھی۔ شماریات کا قانون یہ کہتا ہے کہ دوجانی پہچانی قوّتیں ایک دوسرے کوکاٹ دیتی ہیں۔ ضرور یہ بات جنسی جذبات میں بھی سچی ثابت ہوتی ہے۔ اسی لمحے نیلوفر کے جذبات کی شدت بڑھ گئی اور دونوں ایک دوسری کمر میں ہاتھ ڈالے خواب گاہ میں چلی گئیں۔
ہرخواہش بہادربنا کراس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ تمام رکاوٹوں کو اکھاڑ کر پھینک دے۔ وہ دونوں بیڈ پر لیٹی سرگوشیاں کررہی تھیں کہ کتا دروازے پر پیر مارنے لگا۔ خاموش فضا میں دروازے کی آواز کسی دھماکے سے کم نہیں تھی۔ پل بھرکاوقفہ آیا۔ پھر کتا بھونکنے لگا تو صدف بولی۔
”کمینی تُونے کتے میں جان ہی ڈال دی!“
نیلوفر کسی بات کا جواب دینے کوتیار نہ تھی۔ اس کی آنکھیں مسرت سے لب ریز تھیں۔ وہ ایسے جذباتی بہاؤ میں تھی کہ کتے کے بھونکنے اور دروازہ بجنے کی آواز تک سنائی نہ دے رہی تھی۔
۰۰۰O۰۰۰
مصیبت وہاں سے نازل ہوئی تھی جہاں سے نیلوفر کو بالکل امید نہ تھی۔ اسے عجیب سی آگ میں جلنا پڑ رہا تھا جو ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ نیلوفر کے نزدیک یہ عجیب و غریب وقت تھا یا ایک اَن دیکھی پر اسرار دنیا کی سیر! کتاجو بڑے غور سے نیلوفرکی باتیں سنا کرتا اور ایک آواز پر کا ن ہلا کر حکم کی تعمیل کرتا تھا، مگر درد ناک تصور تو یہ تھا کہ آواز پر کان ہی نہ دھرتا، بَل کہ پتھر کے بت کی طرح بیٹھا رہتا یا چکر کاٹتا ہوا دوڑتارہتا۔ بعض اوقات چھلانگ لگا کر اپنی تنی ہوئی ٹانگوں کے بل زمین پر آتا تو اس وقت کانپ رہا ہوتا۔ اس کے کان کھڑے ہو جاتے۔ اس کی آنکھیں گھومنے لگتیں اوراس کے سفید ڈیلے نظر آنے لگتے تھے۔ نیلوفر غصے سے آواز دیتی تو وہ خوف زدہ ہونے کا بہانہ کرتا۔ آخرِ کار وہ نتھنے پھڑپھڑاتا ہوا پانی کے برتن کی طرف بڑھتا اور اپنی ناک نتھنوں تک ڈبو دیتا تھا۔ نیلوفر کا غصہ کم ہونے لگتا تھا کہ کتا اپنے کیے پر نادم ہے۔ وہ سوچتی اور کتے کا جائزہ لیتی تو اسے وہ باتیں نظر آتیں جو کسی دوسرے پالتو کتے میں دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ چھوٹے سے پلّے سے پورے کتے تک کا سفر اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزرا تھا، مگر اتنے نزدیک اور غور سے کتے کا کبھی جائزہ نہیں کیا تھا۔ وہ حرکت کرتے ہوئے کان دیکھتی جو کتے کے چہرے کو دل آویز آثار عطا کرتے تھے۔ کتا کان سے باتیں کرتا تھا جس انداز میں اس کے کان کھڑے ہوتے، اس سے اندازہ لگ جاتا کہ کتا اپنے دل میں کیا محسوس کر رہا تھا۔ بعض اوقات اس کے کان سیدھے کھڑے ہو کر تن جاتے۔ بعض اوقات کان سکڑ جاتے اور ڈھیلے پڑ جاتے۔ جب اسے غصہ آتا تو اس کے کان پیچھے کی طرف مڑ جاتے۔ انھی باتوں سے نیلوفر اندازہ لگا لیتی کہ کتے کے دل میں کون سا جذبہ کارِ فرما تھا۔ نیلوفر نے کبھی پیار، کبھی غصے اور کبھی سزا دے کر کتے کی تربیت کا دوبارہ آغاز کیا، مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا۔
ایک سہ پہر نیلوفرکالج سے تھکی ہوئی واپس لوٹی تو کتا دیوار پر لگی اُس کی تصویر کے سامنے اگلی ٹانگوں پر بیٹھا تھا۔ نوکرانی نے اپنازخمی ہاتھ دکھایا اور بتایا کہ وہ صفائی کر رہی تھی تواس نے کتے کو تصویر کے سامنے سے اٹھایا۔ کتے نے ایک دم وحشی جان ور کی طرح اس کے ہاتھ پر پنجہ مارا۔ نیلوفر نے نوکرانی کی بات سن کر غصے سے ہونٹ کاٹے اور کتے کی طرف دیکھا جو تصویر کے پاس بیٹھا اُن دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
نوکرانی دوبارہ بولی، ”بی بی جی، یہ شریر بنتا جا رہا ہے، اسے زنجیر ڈال دیں۔“
نیلوفر کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ کتے نے پنجہ مارا تھا، مگر نوکرانی کے ہاتھ پر خراش واضح ثبوت تھا اور فوری طور پر کتے کے گلے میں زنجیر ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ جب کتے کو زنجیر ڈالی گئی تو وہ اپنے سر کو جھٹکتا رہا اور زنجیر کو دانتوں سے کاٹنے کی کوشش میں دانت بھینچ کر عجیب عجیب آوازیں نکالتا رہا تھا۔ اس کے کان پھڑپھڑاتے رہے۔ آنکھیں خوف اور بے تکے پن سے سرخ ہو گئیں مگر نوکرانی خوش تھی کہ اب مزاحمت نہیں کرے گا۔ نیلوفراس خیال سے ہی کانپ گئی تھی کہ کتے کے گلے میں زنجیر تھی۔ اس میں شرم کی بات تھی کہ اس کی تربیت میں کوئی فرق تھا۔ وہ یہ بات بھی اچھی طرح جان گئی تھی کہ کتا اسے پسند کرنے لگا تھا اور انجانے پن میں ایک بوسہ اسے خواہش کی آگ میں جلا کر وحشی بنا رہا تھا۔
۰۰۰O۰۰۰
کتے کے گلے میں زنجیر ڈالنے کاایک فائدہ ہوا کہ اب وہ پورے گھر میں اودھم نہیں مچاتا تھا۔ مگروقفے وقفے سے اس پر بھونکنے کا دورہ پڑتا جو کبھی شدت اختیار کر جاتا تو نیلوفر کو ہلکی پھلکی لات یا چپت مارنا پڑتی جس پر وہ افسوس اور ندامت بھی محسوس کرتی۔ نوکرانی کا بیان تھا کہ نیلوفرکی غیر موجودگی میں کتا بالکل خاموش اور ساکت بیٹھا نیلوفرکی تصویر کی طرف دیکھتا رہتا تھا۔ ایک دن نوکرانی نے سادہ لوحی سے پوچھا۔
”بی بی جی، یہ تصویر ہی کیوں دیکھتارہتا ہے؟“
نیلوفرکو لفظ ’تصویر‘ نے خوف زدہ کردیا۔ اس نے فوری طور پر ڈرائنگ روم سے تصویر ہٹاکر اپنے کمرے میں لگا دی اور سوچا کہ آخریہ شہوانی حس ہے کیا؟ جس نے کتے کو وحشی بنا دیا تھا۔ لمحہ بھر کے لیے تو کتے کی حالت پر ترس آیا اور سوچا کہ ایک بار کتے سے جنسی تعلق قائم کرے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تصویر سی بننے لگی، مگر کتے کے عُضوِ تناسل کے تصور سے اسے متلی ہونے لگی تھی۔
ایک صبح نیلوفرکالج جانے کے لیے تیار ہورہی تھی تونوکرانی نے بتایا کہ کتا بیمار لگ رہا ہے۔ یہ سنتے ہی نیلوفرکا دل ڈوب گیا اور کتے کے پاس جا کر دیکھا۔ کتے کی آنکھیں نیم وا تھیں۔ پلکیں خشک اور سوجی ہوئی تھیں۔ اس کی آنکھوں کے کناروں پر گید جمی تھی۔ کان لٹکے ہوئے اور جھول رہے تھے۔ نیلوفر نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو کتے نے زبان نکال کر انگلیوں پر پھیری۔ پھراسے کھانسی آئی اور کھانسنے کی کوشش میں کتے کا بدن سکڑ گیا۔ اس کے نتھنوں سے پتلا پتلا سا مواد بہہ رہاتھا۔ نیلوفر نے نوکرانی کی طرف دیکھا، ”یہ تو زیادہ بیمار ہے۔“ نیلوفرنے کتے کی کمر پر ہاتھ پھیرا اور بولی۔”میں آج چھٹی کرلیتی ہوں۔“
”بی بی جی، آپ کیوں دیہاڑی ضائع کرتی ہیں، میں دیکھ لوں گی۔“
نیلوفر کا کالج جانا بھی ضروری تھا، مگر اس پر اکتا دینے والی اداسی طاری ہو گئی۔ کتا فرش پر گردن ٹکائے لمبے سانس لے رہا تھا۔ ایک ہی رات میں کتا اجنبی اور بوڑھا سا لگنے لگاتھا۔ شاید یہ محض محبت کااحساس تھا کہ جب کوئی محبت کرتا ہے، چاہے انسان یا حیوان تواُس کی کوئی چیز محبت کرنے میں منتقل ہو جاتی ہے۔ آہ،خوش بُو، آواز یا کوئی انداز اور سیدھی دل کا رخ کرتی ہے اور یوں اندر رہنے بسنے لگتی ہے جیسے روح! نوکرانی نے پیالے میں دودھ لا کر رکھا جسے کتے نے منھ بھی نہ لگایا تو نیلوفر کا کلیجہ کھینچ گیا۔ اس نے کتے کے بدن پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے ہاتھ کا لمس پا کر کتے نے آنکھیں کھولیں۔ کتے کی آنکھوں میں رحم کی التجا تھی جواُس کے دل میں اندرتک اترگئی۔ تب وہ بدن سہلانے لگی تو کتے نے پیالے میں رکھے دودھ سے دو چار گھونٹ بھرے اور آنکھیں بند کر لیں۔ اسے کالج جانے میں دیر ہو رہی تھی اور کتے کا درد برداشت کرنابھی مشکل تھا۔ اس نے کتے کے گلے سے زنجیر نکالی اور نوکرانی کو اچھی طرح خبرگیری کی ہدایت کرکے کالج چلی گئی۔
وہ کالج میں اداس رہی۔ وہ کسی سوال کا جواب نہ دے سکی۔ اس سے کچھ دل جوئی سے پڑھایا بھی نہ گیا اور کسی کو یہ بھی نہ بتا سکی کہ کتا بیمارتھا۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے اس کا مذاق اڑایا جاتا۔ جس وقت کالج میں چھٹی ہوگئی تووہ تقریباً تیز چلتی ہوئی ایک سٹور میں چلی گئی اور کتے کے کھانے کے لیے کئی قسم کی چیزیں خریدیں، مگر اس کا جی چاہ رہا تھا کہ بھاگ کر گھر پہنچ جائے۔
مقررہ وقت پر جب وہ فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچی تو نوکرانی سامنے والے فلیٹ میں رہنے والی عورت سے باتیں کررہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی نوکرانی نے رونے جیسے صورت بنا لی۔
”بی بی جی، وہ کتا…“
”کیا ہوا اسے؟“ اس کی تیکھی سوالیہ نگاہیں نوکرانی کے چہرے پر مرکوز تھیں، مگر نوکرانی کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ نیلوفرنے جلدی سے دروازہ کھول کر اندر قدم رکھا تو نقشہ ہی بدلا ہواتھا۔ میز کا شیشہ چکنا چور پڑا تھا اور صوفے کا کپڑا پھٹا ہوا تھا۔ چاک مٹی کا گل دان اور اس میں لگے پھول پورے ڈرائنگ روم میں بکھرے پڑے تھے۔ وہ آگے بڑھی تو کتا اپنی جگہ پر بیٹھا ایک ٹک دیکھ رہا تھا۔ اس بات پر شبہ ہو رہا تھا کہ کتا دیکھ بھی سکتا تھا یا نہیں! نیلوفرکے اندر غصے کا لاوا اتنی شدت سے ابلنے لگا کہ اس نے کتے کے زور دار لات ماری۔ کتا چیخا، مگر نیلوفرنے اگلی لات اس کے منھ پر ماری۔ کتااپنی تکلیف بھول کر آگے بڑھا اور اس کی ران پر زبان پھیرنے لگا۔ نیلوفر نے پیچھے ہٹ کرایک اور لات ماری اور نوکرانی کو زنجیر لانے کے لیے آواز دی۔ نوکرانی بھاگ کر زنجیر لائی جسے نیلوفرنے کتے کے گلے میں ڈالا تو کتے نے کوئی مزاحمت نہ کی، مگر اس کی آنکھیں ابھی تک نیلوفر پرجمی تھیں۔ اسے اس بات کی پروائی نہیں تھی کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا تھا۔ کتے کی آنکھیں جتنی کھلی تھیں ان پرایک دھند چھائی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ نوکرانی قریب ہی بالکل خاموش کھڑی تھی۔ نیلوفرسے رہا نہ گیا تونوکرانی پر برس پڑی۔
”اِس حرامی کوزنجیر ڈال دیتی۔“
”بی بی جی،مجھے کیاپتاتھا یہ ہوجائے گا۔“
نیلوفر نے غصے سے پرس صوفے پر پھینکا تو نوکرانی نے اپنی صفائی پیش کی، ”اچھا بھلا سکون سے لیٹا تھا۔ یک دم بھونکنے لگا اور پھر پاگل ہوکر چیزیں پھینکنے لگا۔ میں نے روکنے کی کوشش کی تو کاٹنے کو دوڑا تھا۔“
یہ سن کر گھبراہٹ سے نیلوفر کو پسینہ آ گیا مگر وہ بیٹھی نہیں، بَل کہ ٹیلی فون سے نمبر ڈائل کرنے لگی۔ بات کرتے ہوئے اس کی آواز میں کپکپی اور غصہ نمایاں تھا۔ نوکرانی چپ چاپ کھڑی تھی، مگر اس کی آنکھیں نیلوفر پر جمی تھیں اور کان پوری طرح متوجُّہ تھے۔ نیلوفر ریسیور رکھ کر صوفے پر بیٹھ گئی۔ آدھا گھنٹہ اسی کیفیت میں گزرنے کے بعد ڈور بیل بجی۔ نیلوفر نے خود ہی جا کر دروازہ کھولا تو سرکاری ہسپتال کا ڈاکٹر اپنے ہاتھ میں چمڑے کا تھیلا لیے موجود تھا۔ وہ ڈاکٹر کو ساتھ لیے کتے کے پاس گئی تو کتا اگلی ٹانگوں پر بیٹھا تیز تیز سانسیں لے رہا تھا۔ نیلوفر نے ڈاکٹر کو سارا احوال سنایا۔ ڈاکٹر نے سر ہلایا اور چمڑے کے تھیلے سے ایک سرنج نکال لی۔ پھردوائی کی شیشی سے سرنج میں گہرے سرخ رنگ کا محلول بھرا۔ نیلوفر ساکت کھڑی دیکھ رہی تھی جب ڈاکٹر نے کتے کے بدن میں سرنج ماری اور ایک ہی جھٹکے میں آخری قطرہ تک انجیکٹ کر دیا۔ نیلوفر کی آنکھیں کتے پر جمی ہوئی تھیں۔ اس کے کان آہ و بکا کی ڈوبتی آواز سننے کے لیے پوری طرح متوجُّہ تھے اور بڑی توجہ سے انوکھے منظر کا مشاہدہ کر رہی تھی اور ذہن زندگی کے ایک نئے مفہوم سے آشنا ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر اپنا تھیلا سنبھال کر جانے لگا تو نیلوفر نے فیس دینے کے لیے اپنے پرس کی طرف ہاتھ بڑھایا، مگر ڈاکٹر نے نفی میں سر ہلا دیا۔ اس نے ڈاکٹرکا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر چلا گیا تو نیلوفر نے کتے کی طرف دیکھا جو لیٹ گیا تھا، مگر پوری آنکھیں کھول کر دیکھ رہا تھا۔ نیلوفر کے وجود میں عجیب سا جذبہ سر اٹھانے لگا تو وہ اپنے کمرے میں جا کر بیٹھ گئی۔
ذرا دیر گزری تو نوکرانی سہمی ہوئی آئی اور بولی، ”بی بی جی، کتا تو آنکھیں کھول کر لیٹا ہے۔ سانس بھی نہیں لے رہا۔“
نیلوفر نے بند آنکھیں کھول کر دیکھا اور گہرا سانس لے کر اسے اپنے مرد کو بلانے کے لیے کہا تو نوکرانی چلی گئی۔ نیلوفر پر اداسی طاری ہونے لگی جیسے کوئی قریبی رشتے دار مر گیا ہو اور محسوس کرنے لگی جیسے تابوت تیار ہو، ابھی ذرا دیر میں کچھ لوگ آئیں گے اور آخری رسومات کے لیے لے جائیں گے، مگر وہ جانتی تھی کہ جان وروں کی آخری رسومات ادا نہیں ہوتیں چاہے جان ور انسان کو کتنا ہی پیارا کیوں نہ ہو۔ وہ دیر تک کتے کے بارے میں سوچتی رہی کہ کس طرح اولاد کی طرح پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ بھلے کتا مر گیا تھا مگر اس کے اندر اپنی غلطی کا احساس اور محبت کا جذبہ موجود تھا۔ اس کے ذہن میں نت نئے خیالات آتے رہے اور وہ کتے کو کسی مخصوص جگہ پر دفن کروانے کے بارے میں سوچتی رہی۔ وہ پتھر کے بت کی مانند ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے بیٹھی تھی کہ اسے نوکرانی کی آواز سنائی دی جو اپنے مرد سے مخاطب تھی، ”ہٹاؤ، ہٹاؤ، اسے یہاں سے، سارے گھر میں بد بو ہو گئی، ہٹاؤ۔“ اور مرد مردہ کتے کو پھینک کر آنے کے لیے کوئی بوری یا تھیلا مانگ رہا تھا۔ نیلوفر باہر نکلی اور محسوس کیا کہ جوعورت کتے کی دیکھ بھال کرتی رہی اب اچانک نفرت اور کراہت کا اظہار کر رہی تھی۔ اس نے کوئی بات نہ کی اور پرس سے کچھ نوٹ مرد کے ہاتھ میں دیے جو نوکرانی کی ماہانہ تن خواہ سے زیادہ تھے، اور مرد کو ہدایات دینے لگی۔ دونوں اس کی طرف حیرت سے دیکھتے بَہ غور سن رہے تھے۔ آخر مرد کتے کوایک بڑی سی چادر میں لپیٹ کر گھسیٹتا ہوا فلیٹ سے باہر نکل گیا۔
!….نیلوفر نے آنکھیں بند کر لیں اور سوچا… وہ کتا… وہ..!