تانیثیت کا نیا دور
از، نوشی قمر
کتاب کے عنوان نے اپنی طرف توجہ مرکوز کروائی نیا اسلوب، نئی عورت، ہاں اسلوب نیا ضرور ہو سکتا ہے، سوچ نئی ہو سکتی ہے لیکن عورت وہ کیسے نئی_ ایک سوال کہیں رہ گیا__ یکا یک چار دریچے میرے سامنے اپنے عنوانات کے ساتھ کھلے۔
مقدمے کی صورت میں کتاب کی سرسری سی سیر ہوئی۔ خوشی اس بات کی ہوئی کہ لگی لپٹی تانیثیت کی تعریفیں اور لہروں کو نہیں دہرایا گیا البتہ ایک جامع انداز میں تبدیلیوں کو ضرور بیان کیا گیا ہے۔
پہلا دریچہ ہی مجھے اس عورت سے ملوا گیا جسے ہمارا معاشرہ معذور کہتا ہے، جو خود کسی معذوری کا شکار ہے جیسا سنبل سرور نے کہا تھا__ شاید یہی وہ عورت تھی جو بند آنکھوں سے مکمل دیکھتی ہے۔ آدھی معذوری کے مکمل وجود کے ساتھ اپنے اعتماد کے قدموں پر کھڑی ہے۔
مجھے اپنا آپ شاید معذور لگنے لگا۔ ساتھ ہی منزہ گیلانی نے میرے کانوں میں سرگوشی کی:
مجھے قلم کی طاقت پر پورا یقین ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ قلم کی طاقت کا موازنہ کسی اور قوت سے نہیں کیا جا سکتا۔
کس سے کہیں اے جان یہ قصہ عجیب ہے۔ مگر یہ تو اس عورت کا قصہ ہے جو کہتی ہے:
روایت سے بغاوت کر رہی ہوں
جفاؤں پر شکایت کر رہی ہوں
کھڑی ہو کر ہواؤں کے مقابل
چراغوں کی حفاظت کر رہی ہوں
مرے حق میں نہیں بولے گا کوئی
سو خود اپنی وکالت کر رہی ہوں۔
اپنے حق میں وکالت کرنے والیوں سے رابیل پیرزادہ کہتی ہیں:
مجھے کوئی چیز اپنے سر سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوئی۔ کچھ چوٹیں آئیں۔ جب گھر پہنچی تو امی نے کہا کیا کر دیا ماتھا خراب اپنا عورت ذات ہو نشان ڈال دیا ماتھے پر۔
پھر یہی وہ خوش قسمت لڑکی تھیں جو کہہ اٹھتی ہیں کہ جب بصارت ہوتے ہوئے بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا اور آج آنکھیں نہیں ہیں لیکن دل کی آنکھیں کھل چکی ہیں۔
سائرہ شمس جنھیں زمانے نے کہا معذور ہو کیا تماشا بنی پھرتی ہو گھر بیٹھو۔ سائرہ نے زمانے کو جواب دیا جو ایک معذور پشتون روایت پسند معاشرے کے منھ پر کسی طمانچے سے کم نہیں۔
پہلے دریچے سے سیمٹا فخر جس نے میرا قلم لوٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بند آنکھوں کو، منجمد سوچ کو اور زنگ آلود قلم کو جیسے خوراک فراہم ہونے لگی۔
اب میں فخر سے دوسرے دریچے میں قدم رکھ چکی ہوں جہاں رقیہ عباسی مجھے محترمہ کشور ناہید سے ملاتی ہیں۔ جو میری جھولی میں دو اہم کام رکھ چھوڑتی ہیں۔
اگر آپ بہت عرصہ الفاظ کو استعمال نہیں کرو گے تو الفاظ بھی روٹھ جاتے ہیں۔ یہ اللہ کی دین ہر کسی کو نہیں ملتی۔ لکھاری کو اصلاح کرنے والا نہیں بل کہ شعور بیدار کرنے والا ہونا چاہیے۔
یہیں فاطمہ حسن صاحبہ نسائی شعور کو بیدار کرتے ہوئے عورت کی اس عینک کا ذکر کرتی ہیں کہ جس سے وہ ایک باریک بین مطالعہ کر سکتی ہے۔ اس عینک کی وجہ ضخیم تاریخ کی کتابوں میں خصوصاً تاریخِ ادب میں کسی لکھنے والی کے نام کی تلاش ہو سکتی ہے۔
ناقدین کو نسائی شعور کے ساتھ سمجھ کر بیان کرنے والے ہر اینٹ پتھر تلے سے بر آمد ہوئے تبھی عورت کو پسِ پشت ڈال دیا گیا__اسلامی مسلم یا پاکستانی تانیثیت__ میں سمجھتی ہوں یہ ایسا مضمون ہے کہ جس میں تانیثیت کی اصل روح پورے آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ میں کم ہی کسی تانیثی فکر اور اس پر لکھے جانے والی مضامین سے مطمئن ہوئی ہوں جس میں عورت کو اس کے اصل وجود اور اس کے مقصد سے رُو شناس کروایا گیا ہو۔
اور شاید یہ وہ مضمون تھا جسے میں اپنے مطلب کا کہہ سکتی ہوں۔ جسے متوجُّہ ہو کر بار ہا پڑھنے اور اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شاید کہ دل میں ہمارے اتر جائے یہ بات کہ بچگانہ پلے کارڈز کے مطالبے جہاں عورت کے تقدس کی دھجیاں بکھیر کر اسے گھروں میں قید کر دیتے ہیں تو وہیں کسی دیار میں عورت کو سپیس کا لباس موزوں نہ ملنے پر ہر ادارے میں عورت کی جسمانی ساخت کے مطابق سہولیات فراہم کرنے کا عہد کیا جاتا ہے۔
یہی شعور ہے فرق صرف سوچ کا ہے۔ فرخندہ ملک اور اَسماء برلاس سے ملاقات کر کے اپنا آپ ہلکا محسوس ہوا۔ یہ دریچہ اس لگی لپٹی عورت اور مرد کی بحث سے نکل کر ایک اجتماعی سوچ کو جگاتا ہے۔ خبط صرف ہمارے ذہنوں کی مثبت منفی سوچ کا ہے، شعور کا ہے اور اسے جگانے کا ہے۔
کہنے کو تو عشق کا جادو ہے میرے پاس۔ اک تیسرا دریچہ وا ہوا ہے، جہاں تانیثی ادب اور اس کی عورت کی سیر کہیں حمیرا اشفاق صاحبہ کرواتی ہیں۔ جس کا پہلا جملہ ہی قصہ تمام کرنے کو کافی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے ادب کی دنیا میں مردوں کا سکہ رائج تھا۔ وہ زمانے بھی لد گئے۔ صاحب وہ کہتے ہیں کہ سینے سے اک پہاڑ سا ہٹتا نہیں ہے یہ۔
روایت کو ساتھ لے کر چلنا بھی ہماری روایتوں میں شامل ٹھہرا کہ اس سے ہونے والی تبدیلیوں کا خوب اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پرانے فسانوں نے اپنی عورت کے قصے سنائے۔ کہیں وہ اکبری اصغری کا چولا پہنے ہی دکھائی دی، کہیں پیدا ہوتے ہی دلہن بنا دی گئی، کہیں وہ باندی کی عید آج بھی زندہ دکھا گئی۔ کہیں ذات کا محاسبہ کرتے کرتے کسی شریف سے بھی ملوا گئی۔ تو کہیں خریدار نے عورت کے ہاتھوں بک جانے والے مبشر سے بھی ملاقات کروائی۔
ایک ترتیب سے ان افسانوں کی عورت نے اپنا روپ بدلا ہے۔ اسے میں شعور کی بیداری کی منزلیں کہوں تو بے جا نہ ہو گا۔
اب اس دریچے میں قدم رکھنے کی باری تھی، جہاں میرے سوال کا جواب بڑے فخر سے میرا مُنھ چڑا رہا تھا کہ نوشی صاحبہ یہ ہے وہ نئی عورت۔ ہاں اسے لکھنے پر اکسایا جا رہا ہے اور پھر وہ اثر کے باب میں اسے خوب چلاتی ہے۔
جہاں اسے بتایا جا رہا ہے کہ دماغ انسانی ہوتا ہے مردانہ یا زنانہ نہیں۔ فرق صرف سوچ کا ہے۔ جہاں لوح اور کاغذ کی کہانی ہر عورت کو اس کی اپنی کہانی لکھنے پر مجبور کرتی ہے۔
آمنہ مفتی کسی کہانی کو روکنے کی بات کرتی ہیں تو وہیں۔ فارحہ ارشد، ایک تصویر خدا کے بغیر بنا کر خود کو جلا دیے جانے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔
اور سیمیں کرن، چمکیلی روشنی کا اک منظر نامہ بیان کرتے ہوئے اس عورت کے وجود سے، اس آدم کی تخلیق کا ذکر کرتی ہیں جو آدم کو کسی پسلی سے نہیں بل کہ اپنی کوکھ سے جنم دیتی ہے۔
جہاں مریم تسلیم کیانی عورت کی سوچ کی اڑان کا غائبانہ بڑی خوب صورتی سے ایک سوچ کی صورت بیان کرتی ہیں۔
اک انوکھی محبت کے سراغ ہم فرحین خالد کی زارا سے سنتے ہیں۔ جس عورت کو میں پسند نہیں کرتی اس کی ترجمانی کرتا سائرہ اقبال کا افسانہ صدیاں میری سوچ کی ترجمانی کر جاتا ہے۔
یہ دریچہ اس روایت کی بھی یاد دہانی سیمی کرن کے چھام چھاب کی صورت کروا جاتا ہے جہاں ایک نسل کا کیا اگلی کئی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس کا کردار ڈارک ویب سائیٹ کے کاروبارکی ایک جھلک سی دکھا جاتا ہے، کھڑکی کے اس پار، فرحین جمال ایک ماں کی کہانی بیان کرتی ہیں جو مثبت انجام لیے ہے۔ مریم مجید ڈار کی بکھی ایک مخصوص اسلوب کا حامل افسانہ کہ جس کا اختتام شوکے کو اس کی مردانگی لوٹا جاتا ہے۔ کھڑکی کے اس پار میں فرحین جمال ایک ماں کی کہانی بیان کرتی ہیں جو مثبت انجام لیے ہے۔ جہاں فاطمہ عثمان رانی کا گھونسلا بُنتی ہیں تو ایک عورت اولاد کی طرف سے دی جانے والی ہمت کو بَہ رُوئے کار لاتے ہوئے ایک گھونسلے کو بچا لینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
صدف مرزا کے سانڈ سے مل کر خوشی ہوئی جو معاشرے کے سانڈوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ جہاں ایک سانڈ کی پہلی نسل ہی اس برائی کو سمجھ کر اپنے ہاتھوں سے اس کا خاتمہ کر ڈالتی ہے۔ خود کا کیا اقرار نامہ شاید سب سے بڑا اقرار جرم بھی ہے اور روایت سے بغاوت بھی۔
ماہ وش طالب کی کرماں والی دادی کی اک آواز پر کانٹریکٹ سائن کرتی ہے۔ کرماں والیے تیری ٹانگیں چھنی ہیں کرم نہیں۔ عروسہ وحید کی ماسی منظوراں بچپن کی کہانی چغل خور کی یاد دلا جاتی ہے۔ شاہدہ شاہ ایک ایسے رواج کی کہانی لکھتی ہیں جو شازمینہ اور خاتمہ گل کو امر کر جاتی ہے۔
حمیرا فضا کے خواہشوں کے پھیر بدل جاتے اگر یہ قلم بینا کو شہر بھیجنے کے بعد مثبت موڑ دے دیتا، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آج بھی ایسے کردار موجود ہیں۔
گل ارباب کا دنداسہ اک ایسی روایت کو جنم دیتا ہے جسے معاشرے نام نہاد ملاؤں نے فتووں تلے دبا دیا ہے۔ مجھے زرگل کی بیوگی کی سفید اوڑھنی میں دنداسے کا رنگ پھیلانے والے بیٹے پر فخر محسوس ہوا۔
اور پھر مہوش فاطمہ ملک کا تسکین کا ایک خوب صورت لمحہ ہو اور بس انتہائی خوش گوار جاتا اگر اس میں لفظ مرد کا ذکر نہ آتا اور صرف انسانیت اور انسان سمجھنے کی بات کا پاس رہ جاتا۔
جس خوب صورتی سے لا اور میں کی کہانی لکھی گئی مرد کو لائے بنا ہی قصہ تمام تھا شاید۔ یہیں سے اک طلوع مہتاب کی کہانی سبین علی سناتی ہیں جس کی زر غونے اپنی بیٹی کو استانی بنائے گی اور کسی مرد سے کم نہیں جو دہشت گردوں کا پتا دیتی ہے۔ یہ ہے وہ نئی عورت اس کا نیا شعور اور اس کا نیا اسلوب۔ وہ عورت جسے یہ سمجھنے کی ضرورت تھی کہ وہ صرف نئی زندگی کو ہی نہیں جنم دے سکتی بل کہ اس کا قلم کئی زندگیوں کو نہ صرف بدل سکتا ہے، بل کہ جنم بھی دے سکتا ہے۔
اس شعور کو کہانی کی صورت جگانے کا جو سلسلہ اس کتاب کی صورت شروع ہوا ہے ایک اہم اقدام ہے۔ ایک امید قائم کہ آنے والے وقت میں ایسی کئی کہانیاں لکھی جائیں گی جس میں عورت کا تقدس، اس کا وجود اور اس کا شعور ایک ایسی کہانی کو جنم دے گا جو اس کی اپنی کہانی ہے، جو ایک انسان کی کہانی میں سے ہے، جو کسی بھی صنف سے ماوراء ایک کہانی ہے۔
جو اس بینائی کی کہانی ہے جسے کھلی آنکھوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاک وِیمِن رائٹرز فورم کو، سائیٹ سیورز کو اس کام یابی پر مبارک باد۔ اپنے حصے کی شمع جلانے والوں کی خیر ہو۔