جدید ترین افکار کا بانی ، مارکس
(شاداب مرتضٰی)
یوں تو اسانی فکر کی تاریخ میں کئی نامور مفکر ہو گزرے ہیں لیکن اگر تاریخ کے عظیم ترین مفکروں کا نام لیا جائے تو افلاطون، ارسطو اور ہیگل کے بعد جو نام آتا ہے وہ جرمن مفکر اور سائنسی کمیونزم کے بانی کارل مارکس کا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ عظیم مارکس کے فلسفے، سائنس، معاشیات، سیاسیات، سماجیات، لسانیات، ریاضی اور تاریخ کے میدانوں میں برپا کیے گئے کارناموں کا تسلی بخش احاطہ ایک مضمون میں کیا جا سکے۔ سو ہم اس مضمون میں چیدہ چیدہ مارکس کے ان افکار اور دریافتوں کا زکر کریں گے جو ان کے مکتبہِ فکر، مارکس ازم، میں مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔
فلسفے کے میدان میں مارکس نے اپنے ہموطن اور فلسفے میں دیوہیکل قدوقامت رکھنے والے فلسفی، ہیگل، کی “منطق کی سائنس” کو خیال پرستانہ روش سے آزاد کر کے اسے حقیقی سائنسی بنیاد پر کھڑا کیا، مادیت پسندی اور مثالیت پسندی میں تقسیم علمِ فلسفہ میں ایک نئے مکتبہِ فکر کی بنیاد ڈالی جسے جدلیاتی مادیت کہا جاتا ہے اور پچھلے تمام فلسفیوں کے برعکس جو خواہ مادیت پسند ہوں یا خیال پرست، فلسفے کو خیال کے تجریدی عشق سے نکال کر اس میں موجود “روح لافانی ہے یا جسم؟” یا “زہن بنیادی ہے یا مادہ؟” جیسے ہمیشہ سے چلے آرہے دوہرے پن کو انسان کی عملی سرگرمی سے یعنی محنت کے عمل سے جوڑ کر فلسفے کو عمل کے میدان میں لاکھڑا کیا۔ مارکس کا شہرہِ آفاق مقولہ ہے: فلسفیوں نے اب تک بس دنیا کی تشریح کی ہے لیکن اصل نکتہ تو اس کو بدلنے کا ہے!
جدلیاتی مادیت کے قوانین کا علمِ تاریخ پر اطلاق کرتے ہوئے مارکس نے تاریخ کے ارتقاء کا قانون دریافت کیا اور اس سوال کا سائنسی جواب فراہم کیا کہ انسانی معاشرہ کن وجوہات کی بنیاد پر ترقی کرتا اور آگے بڑھتا ہے۔ انہوں نے معاشی ضروریات کی تسکین کو انسانی تاریخ کے ارتقاء کے محرک کے طور پر تلاش کیا اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انسان کی محنت کو بنیادی عنصر کے طور پر دریافت کیا۔ مارکس کے نزدیک انسان کی معاشی ضرورتیں انسان کو غور و فکر کرنے، آلات و اوزار ایجاد کرنے، قدرتی وسائل کو استعمال میں لانے اور زندگی کو بہتر بنانے پر، الغرض انسان کو زینی اور جسمانی محنت کرنے ہی پر اکساتی ہیں اور محنت کے اس عمل میں انسان معاشرے کو بہتر سے بہتر بناتا رہتا ہے۔
مارکس کے مطابق انسانی معاشرے کی بنیاد اس کا معاشی نظام ہوتا ہے۔ جس طرز کا معاشی نظام ہوتا ہے معاشرے میں اسی سے مطابقت رکھنے والے سماجی رشتے، خیالات، اخلاقی و جمالیاتی اقدار، قوانین، آرٹ وغیرہ تشکیل پاتے ہیں۔ مثلا قدیم انسانی معاشرے کا طرزِ معاشرت، خیالات، اقدار اور فنون آج کے معاشرے سے یکسر مختلف تھے۔ جاگیرداری عہد کے انسان شعوری، تیکنیکی، اخلاقی و جمالیاتی قدروں کے اعتبار سے آج کے جدید دور کے انسان سے مختلف خیالات، میلانات اور رجحانات رکھتے تھے۔
مارکس کا تعلق چونکہ یورپ کے صنعتی دور سے تھا لہذا انہوں نے تاریخی ارتقاء کے قانون کا اطلاق اپنے عہد کے معاشی نظام اور اس سے پیدا ہونے والے معاشرے پر کیا اور “قدرِ زائد” کا قانون دریافت کیا جس کے مطابق گزشتہ استحصالی معاشی سماجی نظاموں کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام میں حکمران سرمایہ دار طبقہ اشیائے صرف کی پیداوار کے عمل کو اور خود انسان کی محنت کو بازاری جنس میں تبدیل کردیتا ہے۔ مزدور کو اس کی کل محنت کی آدھی اجرت ملتی ہے اور بقیہ آدھی اجرت سرمایہ دار صنعتکار اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے۔ مزدور کی محنت کے اس استحصال سے سرمایہ دار کی دولت پیدا ہوتی ہے۔ مارکس سے قبل ماہرینِ معاشیات کے سامنے یہ بنیادی سوال تھا کہ آخر جدید انسانی معاشرے میں، صنعتی معاشرے میں، پرانے معاشرے سے وجود میں آنے والا سرمایہ دار طبقہ یعنی صنعتکار جو انسانی معاشرے میں پہلے کبھی موجود نہیں تھا وہ اپنی دولت کہاں سے اور کس طرح حاصل کرتا ہے؟ مارکس وہ پہلے فلسفی اور ماہرِ معیشت تھے جس نے جدید معاشیات کے اس بنیادی سوال کا جواب صنعتی پیداواری عمل میں “قدرِ ذائد” کو دریافت کر کے کھوج نکالا۔ اس کے ساتھ مارکس نے سرمایہ دارانہ معیشت پر استوار جدید انسانی معاشرے میں اس مخصوص معاشی نظام سے پیدا ہونے والے سماجی رشتوں، اخلاقی و جمالیاتی اقدار، ریاستی قوانین، ثقافت اور علوم و فنون کا بھی بھرپور تجزیہ پیش کیا اور دکھایا کہ سرمایہ دارانہ سماج میں ہر شے بکاؤ مال بن جاتی ہے اور سرمایہ دار طبقے کی دولت کی ہوس بہترین انسانی خیالات، رشتوں، اقدار اور ضابطوں کو تباہی و بربادی سے دوچار کردیتی ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شخص پیسے کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور پیسے کی خاطر گھٹیا سے گھٹیا سطح کے کام کرنے پر یا تو اپنی معاشی تنگدستی کی وجہ سے یا پھر اپنی دولت میں مسلسل اضافے کی ہوس کی وجہ سے مبتلا ہے۔ خود غرضی، لالچ، دھوکہ دہی، منافقت، کرپشن، اقربا پروری، رشوت ستانی، جھوٹ، فریب، مقابلے بازی، ظلم، ناانصافی، جعلسازی الغرض سماجی، اخلاقی اور قانونی اقدار کی تنزلی عام ہوچکی ہے۔ انسانی ضروریات کی تمام چیزیں کاروبار بن چکی ہیں۔
مارکس نے اس فلسفیانہ معمے کو بھی حل کیا کہ انسان کی ترقی کا دارومدار اس کے شعور پر، اس کی سوچ پر ہے یا معاملہ اس سے مختلف ہے؟ مارکس نے یہ دکھایا کہ انسان کے شعور اور اس کے حالاتِ ذندگی میں جدلیاتی ربط ہے۔ انسان کی سوچ اس کے سماجی ماحول سے پنپتی ہے اور اسی کی عکاسی کرتی ہے۔ مثلا انسان اسی قسم کے خیالات، رویے اور رجحانات اپناتا ہے جو اس کی گھریلو تربیت اور تعلیم کے زریعے اسے سکھائے جاتے ہیں۔ جب سماجی میں تبدیلی کی ضرورت کا احساس پیدا ہوتا ہے تو انسان اس سے مطابقت رکھنے والے خیالات تشکیل دیتا اور اختیار کرتا ہے اور پھر ان خیالات کے تحت عملی سرگرمی سے سماجی تبدیلی کی ضرورت کو پورا کرنے کا عمل سر انجام دیتا ہے۔ انسان کا عمل نئے حالات پیدا کرتا ہے اور پھر ان نئے حالات سے پیدا ہونے والے فکری و عملی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے انسان نئے خیالات کی تشکیل اور ان کے مطابق عمل کرتا ہے۔ مارکس کا مشہور قول ہے کہ انسان کا شعور اس کے سماجی وجود کا تعین نہیں کرتا بلکہ اس کا سماجی وجود (سماجی حالات اور سماجی رشتے) اس کے شعور کا تعین کرتا ہے۔
مذہب یا شعور کی کسی بھی دوسری قسم کی تبدیلی کے بارے میں مارکس کا یہ سائنسی نکتہ نظر نہایت اہم ہے۔ اکثر مارکس پر اور اس کی فکر پر عمل پیرا کمیونسٹوں پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ مذہب کے خلاف ہیں اور اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ محض ایک الزام ہے۔ مذہبی شعور، انسانی شعور کی ایک قدیم ترین شکل ہے۔ یہ بھی شعور کی دیگر قسموں کی طرح مخصوص سماجی حالات اور سماجی رشتوں کی پیداوار ہے۔ جب یہ سماجی حالات اور سماجی رشتے بدل جائیں گے تو ان کے ساتھ مذہبی شعور بھی خود کو تبدیل کر لے گا۔ اس کے لیے کمیونسٹوں کو کوئی سازش یا جبر یا خاص منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت نہیں۔ سماجی حالات کی تبدیلی سے، معاشی اور سماجی خوشحالی اور سائنسی تعلیم کے نتیجے میں لوگ رفتہ رفتہ خود ہی اپنے ترقی یافتہ فہم و شعور اور تجربے کی روشنی میں اپنے مذہبی و غیر مذہبی عقائد کی قسمت کا فیصلہ کر لیں گے۔
سیاست کے میدان میں مارکس نے طبقاتی جدوجہد کی اقلیم میں سائنسی سوشلزم کے نظریے کی داغ بیل ڈالی اور اپنے سے پہلے آنے والے کمیونسٹ مفکروں کیے فکری نقائص کو دور کر کے خیالی سوشلزم کو سائنسی بنیاد پر استوار کیا۔ اس میدان میں مارکس نے مزدور طبقے کی آمریت (مزدوروں اور محنت کش عوام کی حکومت) کو دریافت کیا اور یہ دکھایا کہ تمام انسانی تاریخ کے ارتقاء میں مختلف معاشی سماجی نظاموں میں پیدا ہونے والے مخصوص محنت کش طبقوں میں مزدور طبقہ وہ واحد طبقہ ہے جو نجی ملکیت سے مکمل عاری ہے، سب سے زیادہ منظم ہے اور سب سے زیادہ مظلوم ہے۔ جبکہ دوسری جانب ظالم سرمایہ دار طبقہ وہ واحد استحصالی طبقہ ہے جس کے پاس نجی ملکیت اور پیداوار کا سب سے زیادہ ارتکاز ہے۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام اور اس سے جنم لینے والا آج کا طبقاتی معاشرہ وہ آخری معاشرہ ہے جس میں انسان ظالم اور مظلوم طبقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور مزدور طبقہ ہی وہ طبقہ ہے جو انسانوں کے اس آخری استحصالی نظام کو ختم کر کے انسانی معاشرے کو تاریخی ارتقاء کے نئے مرحلے میں، غیر طبقاتی معاشرے میں لے جانے کا اہل ہے۔ گزشتہ سماجی نظاموں کی طرح جن کے بطن سے نئے ظالم اور مظلوم طبقے پیدا ہوئے، سرمایہ دارانہ نظام کسی نئے ظالم اور نئے مظلوم طبقے کو جنم نہیں دے سکتا۔ مزدور طبقے کی آمریت کا نظریہ مارکس کے جملہ افکار میں مرکزے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کو مسترد کرنے والا خواہ مارکس کے افکار سے کتنا ہی مےفق ہو، حقیقی مارکسسٹ نہیں ہو سکتا۔ یہی وہ نتیجہ تھا جو مارکس کو مزدور طبقے کی سیاسی جدوجہد میں کھینچ لایا اور اسے پوری دنیا کے مزدوروں اور محنت کش عوام کا ہر دلعزیز فلسفی اور سیاست دان بنا دیا۔ سیاست میں مزدوروں کی پہلی بین الاقوامی کمیونسٹ تنظیم بنانے کا سہرا بھی مارکس کے سر جاتا ہے۔
سرمایہ دار طبقے کے استحصالی راج سے مزدوروں کو نجات دلانا اور تمام انسانی معاشرے سے انسان کے ہاتھوں انسان پر ظلم کی ہر شکل کا خاتمہ کر کے ایک حقیقی خوشحال معاشرہ قائم کرنا جہاں ہر انسان امن اور چین کی زندگی بسر کر سکے یہی مارکس کی تمام تر فکری و عملی کاوشوں کا نچوڑ تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ مارکس آج قریبا دو سو سال بعد بھی دنیا کے لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دل میں زندہ و تابندہ ہے اور ان کے زین میں امید کی کرن بن جگمگاتا ہے۔ مارکس کی تدفین پر اس کے دیرینہ رفیق فریڈرک اینگلز نے درست کہا تھا کہ اس کا نام اور اس کا کام کئی عہد تک زندہ رہے گا۔