پروان چڑھنے والا نیا معمول
(طلعت حسین)
گزشتہ دو ہفتے انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ فاضل جج صاحبان کے سامنے پیش کردہ جے آئی ٹی کے انکشافات ، جن کا بہت شدت سے انتظار کیا جارہا تھا، نے قوم کی توجہ کھینچ رکھی ہے۔ ان کے سامنے آنے سے ابھرنے والا استدلال منقسم ہے۔
جے آئی ٹی کی طرف سے حکمران خاندان پر منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور اعلانیہ آمدن سے بڑھ کر زندگی بسر کرنے جیسے سنگین الزامات عائد کرنا ایک نئی پیش رفت ہے۔ جوابی دلیل یہ ہے کہ جے آئی ٹی کی تمام تر عرق ریزی عملی تحقیق کے میدان کی بجائے جوڈیشل اکیڈمی کے احاطے میں انٹرویو روم تک محدود رہی۔
اس نے کوئی ٹھوس ثبوت یا دستاویزی شواہد پیش نہ کیے کہ شریفوں کے ہاتھ مالیاتی فراڈ سے آلودہ ہیں، نیز یہ تمام کارروائی وزیرا عظم نواز شریف کا تختہ الٹنے کے لیے کی جانے والی پرانی سازش کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔
لاکھوں ناظرین اور قارئین اب یہ توقع کرتے ہیں کہ انہیں اس پیچیدہ سوال کا جواب دوٹوک انداز میں مل جائے کہ کیا حکومت قائم رہے گی یا رخصت ہوجائے گی ، حالانکہ اس کیس میں حائل گمبھیر قانونی پیچیدگیوں کو دور کرنے کے لیے ایک وزنی قانونی ہتھوڑے کی ضرب سے کوئی درجن بھر قوانین کو چکنا چور کرنا ہو گا۔ مزید برآں، جے آئی ٹی کے چکاچوند انکشافات کے بعد میڈیا اور دانستہ مہمیز کی جانے والی سیاسی مہم میں متحارب دھڑے ایک دوسرے کے آمنے سامنے مورچہ بند ہوچکے ہیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے تمام دنیا اس چیز کے گرد گھومتی ہے کہ تین رکنی بنچ جے آئی ٹی رپورٹ سے کیا کشید کریگا۔ ناظرین اور قارئین کو درحقیقت خبروں اور تبصروں کی بمباری نے یرغمال بنا رکھا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ کیا اور کیا نہیں ہوگا۔
لیکن اس سے بھی بڑھ کر، اگر چہ اس کا تعلق بھی نوازشریف کی قسمت کے فیصلے سے ہے ، قابل تشویش ایشو’’وسیع پیمانے پر توہین آمیز ہتھیاروں‘‘اور ’’جھوٹ اور دروغ گوئی کی ہتھیار سازی‘‘ کا تجارتی پیمانے پر پھیلاؤ ہے۔
اگرچہ فسانہ گری اور پروپیگنڈا ہمیشہ سے ہی ہمارے سیاسی، عسکری اور جوڈیشل بیانیے کا حصہ رہے ہیں لیکن ان کی وسعت اتنی ہمہ گیر کبھی نہ تھی جس نے آج قومی موضوعات کا احاطہ کررکھا ہے۔ اور اس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ آج قومی بحث کو گمراہ کرنے اور پٹری سے اتارنے والے پلیٹ فارمز کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
سوشل میڈیا کے مختلف ٹولز کردار کشی کرنے والے عناصر کو کیموفلاج (پنہاں) رکھتے ہیں۔ اس اسپیس میں جھوٹے بیانیے گھڑنے، سیاسی بحث کو ذاتیات تک لے جانے اور مخصوص اہداف کی کردار کشی کرنے کا عمل چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے۔ یہ ٹولز ہتھیار وں کی شکل اختیار نہیں کرسکتے تھے اگر ان کے صارفین نہ ہوتے۔ آج کے پاکستان میں مخصوص ایجنڈے رکھنے والے مفادات ، چاہے وہ سیاسی ہوں یا عسکری یا جوڈیشل، اتنے متحرک اور طاقتور ہوچکے ہیں کہ یہ توہین آمیز ٹولز اب قومی بحث اور سوچ کو ایک نئی جہت عطا کرتے ہیں۔
[su_pullquote]لیکن یہ ٹولز درحقیقت کیاکرتے ہیں؟ یہ غلط کہانیاں گھڑتے ہیں اور ا ن کا واحد مقصد لوگوں کی ساکھ مجروح کرنا ہوتا ہے۔ چند روزپہلے ایک ٹی وی چینل پر کیمرے کے سامنے بیٹھے ایک صاحب نے مجھ پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی۔ اُنھوں نے ، جن سے میں شاید زندگی میں تین مرتبہ ملا ہوں اور وہ بھی کسی صحافتی کام سے اور نوٹس لینے والوں کے سامنے ، مکمل غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز نے مجھے سفارت کار بننے کی پیش کش کی ہے۔[/su_pullquote]
یہ میرے صحافتی کردار کو موجودہ حکومت کے ساتھ ہونے والی کسی خفیہ ڈیل کے مرہونِ منت ظاہر کرنے کی کوشش تھی جس کا مقصد مجھے سیاسی طور پر جانبدار دکھانا تھا۔ وہ بے شرم شخص کچھ دیگر کے ہمراہ حماقتوں کے دفتر کھولنے پر مامور ہے ، اور انہیں امید ہے کہ دنیا سے عقل اور معقولیت عنقا ہوچکی ہے۔
ایک ہفتے بعد میرے ’’جنسی کار ہائے نمایاں ‘‘ کو اجاگر کرنے کے لیے ایک مشکوک لنک لانچ کیا گیا۔ شاید سوشل میڈیا ٹیم (اور مجھے اچھی طرح علم ہے کہ یہ مذموم حرکت کن کی ہے ) نے مجھے اپنے سیاسی رہنما جیسا ہی سمجھا تھا۔ بہرحال یہ تمام شیطانی جھوٹ بے حد ڈھٹائی سے، کسی احتساب کے خوف کے بغیر، بولے جارہے ہیں۔ ان کا مقصد احمقانہ دلائل کا ابہام اس حد تک پھیلانا ہے کہ لوگ صحیح اور غلط کی پہچان کھو بیٹھیں۔
جو افراد قومی سلامتی قانون کے نام پر کھیلے جانے والی غلیظ سیاسی چالبازیوں کو چیلنج کرتے ہیں، وہ ان شکاریوں کا ہدف بن جاتے ہیں۔ اُن افراد اور خاندانوں ، جو پاکستان میں فروغ پانے والے اس نئے معمول پر سوال اٹھاتے ہیں، پر مذموم حملوں اور کردار کشی کے واقعات کی ان گنت مثالیں۔
اور یہ نیا معمول کیا ہے؟ معمول یہ ہے کہ عمران خان انسانیت کو بھیجا گیا وہ عطیہِ خداوندی ہے جس میں کوئی کھوٹ نہیں۔ جے آئی ٹی اور تین رکنی بنچ (اور اختلافی نوٹ لکھنے والے دو جج بھی اس میں شامل ہیں) خدا کی طرف سے فرستادہ ، دنیا کے لاچار افراد کو نجات دلانے کے لیے آئے ہیں، اور یہ کہ موجودہ آرمی چیف، اپنے سے پہلے چیف کی طرح، بلکہ اس سے پہلے بلکہ اور پہلے (وہی جس کا نام مشرف تھا) کی طرح دنیا کے عمدہ ترین انسان ہیں جنہیں روزانہ کئی مرتبہ سلیوٹ کیا جانا چاہیے۔ اس نئے معمول کا حصہ میڈیا بھی کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہتا ہے کہ موجودہ حکومت اور ان کے رہنماؤں کی روانگی کے ساتھ ہی پاکستان ہر قسم کے مسائل سے آزاد ہوجائے گا۔
نیا معمول اس بات کو ضروری سمجھتا ، بلکہ ناگزیر قرار دیتا ہے ، کہ آپ ہر اُس شخص کو بساط بھر غلیظ ترین القابات سے نوازیں جو یہ کہے، چاہے اُس کے پاس ٹھوس وجوہ ہوں، کہ اس ملک میں احتساب کے نام پر جوڈیشل انجینئرنگ ہونے جارہی ہے۔ خود عمران خان بھی کسی سے کم نہیں۔
وہ اکثر نواز لیگ کے حامیوں کا ذکر کرتے ہوئے ’’ہڈی پھینکی جاچکی ہے‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اس اصطلاح کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کو ’’کتے ‘‘قرار دیتے ہیں۔ جس شخص نے اپنے گھر میں بہت سے کتے رکھے ہوئے ہوں ، ہوسکتا ہے کہ اُس کے لیے یہ ایک بے ضرر جملہ ہولیکن اس ملک کے اکثرافراد کتے کو ایک ناپاک جانور سمجھتے ہیں۔
اگر آپ اس نئے معمول کے خلاف بات کرنے کی جسارت کریں تو آپ ’’جھوٹے اور بکے ہوئے ‘‘ ہیں۔ اس کے علاوہ ’’پاکستان مخالف ‘‘بھی ایک تیر بہدف حملہ ہے ، اور اس کے بعد کسی اور الزام کی ضرورت نہیں رہتی۔
ایک معاشرہ ، جہاں مطالعے کی اوسط انتہائی کم، اور جہاں گپ شپ کا وزن حقیقت سے زیادہ ہو، وہاں اس بیہودہ اور بازاری پن کے اور ایک فرد سے دوسرے فرد اور پھر سوشل میڈیا کے ذریعے دھماکہ خیز پھیلاؤ کے اثر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پھر سادہ لوح افراد اس سرعت سے جھوٹ کو ذہن نشین کرکے دوسروں تک پھیلانے میں جت جاتے ہیںکہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
عوام جھوٹ اور زہریلے بیانیے پر کہیں زیادہ اعتماد سے یقین کرنے لگ جاتے ہیں۔ ڈبل شاہ جیسے لوگ پاکستان میں اسی لیے کامیاب رہتے ہیںکیونکہ لوگ فوری مسائل حل کرنے والے نسخوں پر تہہ دل سے ایمان رکھتے ہیں۔
اس کلچر، جس میں نیا میڈیا بھی شامل ہوچکا ہے، کے تراشے ہوئے جھوٹ ہی اب اس ملک میں ایمانداری کا میزانیہ ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ ایک فراڈیا، ٹیکس چور، جنسی مریض، ٹھگ یا کسی بھی قسم کےمجرم ہوں لیکن اگر آپ اپنے اردگر تقدیس کا ہالہ قائم کرسکتے ہیں تو پھر پانچوں گھی میں۔ لوگ آپ کو اس لیے اچھا کہیں گے کیونکہ آپ اپنے مخالفین کو بد نما ظاہر کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
اس افسوس ناک نئے معمول کے ہوتے ہوئے ملک کے مستقبل کے امکانات، درکار اصلاحات اور بنیادی عوامل کے بارے میں کوئی معقول بحث نہیں ہوسکتی۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو یا آپ پر کسی کی حمایت کا الزام لگے گا یا مخالفت کا۔ ہم جارج اورویل کی تھیوری کے ایک ایسے نئے زمانے میں ہیں جہاں صرف ایک بادشاہ ہی برہنہ نہیں بلکہ بہت سے دیگر بھی عریاں ہیں لیکن اُنھوںنے اپنے گرد تقدیس کے لبادے لپیٹ رکھے ہیں۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ