نطشے اگر خود یہ پڑھ رہا ہو تو گھر آ جائے
از، ابو بکر
میر صاحب! ایک عرصے سے کتابیں دینا چھوڑ دیں اور سبب اس کا خوبئِ احباب ہے کہ کوئی صحیفہ اُن پر اثر نہیں کرتا۔ کوئی لفظ دل تک نہیں اترتا۔ ہم کب تلک اپنے مجموعے بے توقیر کرواتے پھریں۔ اب صفحے صفحے کا حساب رکھتا ہوں۔ مرد حضرات کو کتاب دینا تو اور بھی دشوار ہے بل کہ بہ وجوہ نا گوار ہے۔ اکثر مرد کتاب پڑھنے کے واسطے نہیں بل کہ تعلق رکھنے کی خاطر مانگتے ہیں۔
یہ کام کتاب دینے سے بھی مشکل تر ہے۔ حل یہ نکالا ہے کہ صرف ان مردوں کو دوست رکھتا ہوں جن کا ذخیرہ کتب مجھ سے بھی سَوا ہو۔ خواتین کے باب میں کسی قدر استشنیٰ اب بھی باقی ہے اور سبب اس کا از حد ذاتی ہے۔
اول تو وہ بیبیاں نہ رہیں جن سے تقاضے کا کوئی رشتہ رہا ہو۔ پھر جس نوع کی کتب سے مجھے شغف ہے بیش تر خواتین کا ذوق انہیں گوارا نہیں کرتا۔ با وجود اس کے اگر کوئی پردہ نشیں سوال کرے تو تمام حال کھل جاتا ہے اور جی ہی جی میں سوچتا ہوں کہ ضرور اس بی بی کو کوئی نقص عضوی لاحق ہے۔
دل پسیج جاتا ہے۔ نفر مطلوب ہو تو نفری ڈھیر کرتا ہوں۔ اسی بہانے چند لمحے زیر کرتا ہوں۔ اللہ اللہ یہ دن بھی یاد رہیں گے۔
کوئی ایک کتاب ساتھ رکھنا میری مجبوری ہے چاہے میں اسے کبھی کھول کر بھی نہ دیکھوں۔ اٹھائی گیروں سے بچاؤ کی خاطر یہ انتظام کیا ہے کہ ایک خاتونِ نیک نیت سے ایسی تمام کتابوں کے سَر وَرق پر دو سطری تحریر یوں لکھوا لیتا ہوں جس سے پڑھنے والوں کو شبہ ہو کہ شاید یہ کتاب کسی دلبر کا تحفہ ہے پس اس کا مانگنا مناسب نہیں۔
ہمارے آبائی وطن میں ایک صاحب کہ ہمارے پڑوسی ہوتے ہیں اور اخباری علوم کے ماہر ہیں، گاہے بگاہے ہم سے کتابیں مانگتے نیز اچھی نوکری کے حصول کے آسان طریقے پوچھا کرتے تھے۔ خیال ان کا یہ تھا کہ ہم محض کتابوں کے بَل پر یہاں تک پہنچے ہیں۔
ایک عرصہ ٹال مٹول سے بھی کام نہ بنا تو سوچا اسی بہانے گودام کی صفائی سہی۔ تمام کتب مذہبی ان کے حوالے کیں۔ اب حال ان کا یہ ہے کہ دفاعِ صحابہ کو اپنی نوکری جانتے ہیں اور دن رات اسی میں بسر کرتے ہیں۔ ہماری فِقہ میں یوں بھی ان معاملات میں حکمِ سکوت ہے۔
مزید دیکھیے: چودھری کے چاند کا جب بیاہ ہوا از، گل نوخیز اختر
احتیاط میں اس شدت کے با وصف ہماری کتب ادھر اُدھر ہوتی رہتی ہیں۔ خود اپنے حافظے کا یہ حال ہے کہ گُم شدہ کتاب جب تک دو بارہ کہیں نظر نہ آئے یاد نہیں آتا کہ گم ہو گئی تھی۔
ان حالات میں قبضہ گیروں کی چاندی ہو گئی ہے۔ اب چند دن قبل منشی سراج الدین سیسہؔ نے کوئی مسئلہ پوچھا تو یاد آیا کہ نطشے کے صحائف غائب ہیں۔ لاکھ سر پَٹکا پر بے انجام۔ ایسی کتاب کھو جانے پر کس کافر کو نیند کس منکر کو آرام۔
ہے ہے کچھ سمجھ نہیں آتا کون بد نظر ہاتھ مار گیا ہے۔ کتاب ایسی بے نظیر تھی گویا ہمارے ہاتھوں کی لکیر تھی۔ سفر و حَضَر کی ساتھی۔ ریل، بس، رکشہ، کشتی، اونٹ، خچر، گھر، مکتب، دفتر اور پردیس؛ جہاں گیا کتاب ہم راہ کی۔
کتاب کیا تھی ساڑھے تین برس سے عُضوِ بدن تھی۔ سَرِ ورق اس کا محبوبۂِ سابق کی خوش خطی کی چغلی کھاتا تھا۔ اندرونِ ورق ورق جی کو بھاتا تھا۔ کتاب کا جانا کیا ہوا محبوبہ کا بچھڑنا نظر میں آ گیا۔ زمانے کی قسم! آدمی رقیبوں کے جلسے میں گِھرا وہ بیچارہ ہے جو سب کچھ لٹانے تک اسی مجلس میں ہے۔
تاہم کتاب کی کمی نے بھی خوش ظنی کم نہ کی۔ اب بھی نیت ہے کہ کسی نیک مرد کو حالتِ سکر میں عطا کی ہو تو ہمیں یاد دلا دے۔ کسی خاتون کو دے کر بھول چکا ہوں تو وہ اسے پاس ہی رکھے، پر عزیز جانے۔ نطشے اگر خود یہ پڑھ رہا ہو تو گھر آ جائے۔ اسے کچھ نہ کہا جائے گا۔
دعا کا طالب