نائن الیون، سائبر ورلڈ اور ہماری کہانیاں
(مشرف عالم ذوقی)
کچھ پرانی کہانیوں سے عشق کی باتیں
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمیں و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
۲۰؍ جولائی ۱۹۶۸ء خلائی طیارے سے واپس زمین پر آکر آرم اسٹرانگ نے کہا تھا ’’یہ چاند کی فتح کا چھوٹا سا قدم در اصل نوع انسانی کی لمبی جست ہے‘‘
نوع انسانی کی اسی جست سے ہر بار مسائل پیدا ہوتے ہیں اور جینوئن فنکار مسائل سے آنکھیں دوچار کرتے ہوئے انہیں اپنے فن پاروں یا شہہ پاروں میں جگہ دیتا آیا ہے اردو افسانوں کے سو سالہ جشن کی تیاریوں کو ہم کافی پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ لیکن یہ آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ اردو افسانے نے ہمیشہ سے ایسے مسائل سے آنکھیں دوچار کرتے ہوئے ہی فن کی منزلیں طے کی ہیں۔ اردو کی سنہری تاریخ میں ایسے ہزاروں نام ہیں، جہاں ہر بار، ہر موقع پر اور ہر عہد میں عالمی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بہت ممکن ہے کہ پریم چند، سلطان حیدر جوش، سجاد حیدر یلدرم، سدرشن سے جلیل قدوائی اور مجنوں گورکھ پوری کی کہانیوں میں آپ عالمی بازار تلاش کرنے کی سعی کریں تو ایک ہندوستانی معاشرہ آپ کو منہ چڑھانے لگے لیکن ان کہانیوں میں بھی ایک طرف اپنی معاشی، سماجی، اقتصادی اور تہذیبی قدروں کا جو درد تھا، وہ درد یکطرفہ نہ تھا در اصل وہ درد بھی عالمی مسائل کی کوکھ سے برامد ہوا تھا اور ان کہانیوں میں، عالمی تناظر میں اپنے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی ان لوگوں میں مجنوں گورکھ پوری کا انداز سب سے جدا تھا۔ وہ تہذیبی اقدار کی تلاش میں اپنے عہد، سائنسی اصطلاحات سے گزرتے ہوئے نئے نئے سوالات بھی سامنے رکھتے تھے۔ کہانی سمن پوش اس کا خوبصورت نمونہ ہے۔ علی عباس حسینی کی کہانی خوش قسمت لڑکا اور میلہ گھومنی یا اشک کے ستاروں کے کھیل، رشید جہاں، عزیز احمد، فیاض محمود سے لے کر حیات اللہ انصاری تک تیزے سے بدلتے ہوئے تہذیبی پس منظر اور مسائل کا عکس تلاش کیا جاسکتا ہے بیدی، منٹو، ملک راج آنند، کرشن چندر کے یہاں اپنے عہد کو سمجھنے کی کوششیں ایک نئے اسلوب اور نئے رنگ و آہنگ کو ہمارے سامنے رکھتی ہیں۔ ممتاز مفتی، خواجہ عباس، شمشیر سنگھ نرولا، کرتار سنگھ دگل سے ہوتے ہوئے اردو کہانی جب قرۃ العین حیدر تک کا سفر طے کرتی ہے تو جیسے ستاروں سے آگے کا تعاقب بھی شروع ہوجاتا ہے دوستو، یہ خوش ہونے اور جشن منانے کا وقت ہے کہ اردو کہانی اپنی شروعات سے ہی جدید تر مسائل کو ساتھ لے کر چلی اور شروعات میں ہی نئے لب و لہجے کے فنکار سجاد حیدر یلدرم اور سلطان حیدر جوش کی صورت میں ہمیں مل گئے جن کی کہانیاں پڑھتے ہوئے کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ ابھی اردو کہانی لنگڑاتی ہوئی اپنا سفر طے کر رہی ہے ان کہانیوں میں زمانے سے آنکھیں چار کرنے والی ایک روشن دنیا آباد تھی اور اسی روشن دنیا کا تقاضہ تھا کہ اردو افسانہ آگے چل کر کتنی ہی تحریکوں کا حصہ بن گیا۔ ترقی پسندتحریک، جدید افسانہ، مابعد جدیدیت نئے ہزارہ کے دس برسوں کو ہم نے الوداع کہہ دیا ہے اور اس روشنی میں جب اردو افسانے کا جائزہ لیتے ہیں تو اردو کے بڑے نقادوں کی طرح میں مایوسی اور تاریکی کی فضا میں سانس نہیں لیتا۔ ایک خوشگوار تاثر یہ کہ اردو افسانہ مسلسل آگے ہی آگے، نئی کائنات، نئی دنیا اور نئی منزلوں کی تلاش میں سرگرداں رہا جدیدیت کی یلغار، اینٹی اسٹوری، تجریدی کہانی بھی ایک ضروری پڑاؤ تھا جہاں ہم عالمی مسائل سے نبرد آزما، اپنی تھکی تھکی کہانیوں کے لیے علامتوں اور فنتاسی کا سہارا لے رہے تھے اس لیے اکرام باگ، قمر احسن کا عہد بھی اردو افسانے کے لیے ایک جدید چیلنج کا عہد تھا، جہاں بیانیہ، عہد کے مسائل سے آنکھیں چار کرتا ہوا فلسفوں کی انجانی اور ان دیکھی سرنگ میں اتر گیا تھا مگر کھو نہیں گیا تھا در اصل یہ ایک ٹرانزیشن پیریڈ تھا، جہاں اردو ادب غالب کی طرح نئے معنی کی تلاش میں ستاروں پر کمند ڈالنے کی تیاری کر چکا تھا۔
کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کے لیے
دوستو، اب ہم آج کی کہانی کی طرف بڑھتے ہیں جو ہمارا موضوع ہے لیکن اس موضوع کی طرف آنے سے قبل ضروری یہ تھا کہ اردو کہانی کے آغاز سفر کی جھلک بھی آپ کو دکھا دی جائے سن ۱۹۷۰ء کے بعد اردو کہانی میں نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں اور ادھر عالمی سطح پر بھی نئے نئے مسائل جنم لے رہے تھے۔
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
چھوٹی سی ہماری یہ دنیا واقعات کے کہرے میں گم ہوتی جا رہی تھی۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے ایک نئی تہذیبی، اقتصادی اور معاشی صورتحال کو جنم دیا تھا۔ ۱۹۴۵ء میں جبدوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو نہ صرف ایک دنیا تبدیل ہو چکی تھی بلکہ ایک نئی دنیا، نئی تبدیلیوں اور نئے مسائل کے زیر سایہ جنم لینے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہٹلر کی برلن میں خودکشی، جرمنی کا ڈھیر ہونا، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور سویت یونین جیسی نئی طاقتوں کا سر اٹھانا جنگ کے اثرات عالمی نظام کے لیے بہت گہرے تھے امریکہ ایٹم بم بنانے اور استعمال کرنے والی پہلی طاقت کے طور پر سامنے آچکا تھا۔ سرد جنگوں نے دنیا کو الگ الگ بلاکوں کے طور پر تقسیم کر دیا تھا اور اسی نئے عالمی نظام نے برطانوی حکومت کے خاتمے کا اعلان بھی کیا اور ادھر نو آبادیاتی عہد میں پستی ہوئی قومیں تھیں جنہیں از سر نو نئے نظام میں واپس آنا تھا۔ ہندوستان کے لیے بھی نئے چیلنج کی شروعات کا عہد تھا غلامانہ عہد کا خاتمہ، تقسیم اور ہندوستان کی آزادی نے کہانیوں کے لیے نئی زمینیں فراہم کی تھیں یہ حقیقت ہے کہ تقسیم کا سب سے زیادہ اثر اردو اور پنجابی زبان پر ہوا نتیجہ، اس کے اثرات سے سب سے زیادہ کہانیاں بھی انہی دونوں زبانوں میں لکھی گئیں- اب ایک بدلتا ہوا ہندستانی سماج اور معاشرہ تھا۔ عالمی جنگوں سے باہر نکلنے کے بعد نئی نئی جنگوں کے میزائل ہماراانتظار کر رہے تھے فرقہ وارانہ دنگے، بھوک سے ماحولیات تک ایک نئی جنگ سامنے آچکی تھی تہذیبوں کے تصادم سے نئی تہذیبیں فروغ پا رہی تھیں اور آسانی سے ان کا اثر ہماری کہانیوں میں تلاش کیا جاسکتا تھا۔
ایک بے حد سہمی ہوئی خوفزدہ کرنے والی صدی کے دس سال گزر گئے دس بھیانک سال جس نے ہزاروں خوفناک واقعات سے صدی کے سینے میں سارترے کے Iron in the soul کو رکھ دیا تھا۔ ساری دنیا میں بھوک مری اور غریبی لوٹ آئی تھی۔ تیل کی قیمتیں آسمان چھو گئیں شیئر بازار لڑھک کر گر پڑا ہزاروں بینکوں کو دیوالیہ قرار دیا گیا۔ ابو ذہبی اور دبئی جیسے جدید مراکز ہل گئے- امریکی کرنسی گریٹ ڈپریشن کا شکار ہوئی، ماحولیات کے تحفظ کے لیے نئے نئے ماڈل بنائے گئے۔ جو ناکام رہے انٹاریٹکا کے بڑے بڑے گلیشیرس سمندر میں گم ہوگئے۔سر جوڑتے ہوئے دنیا کے تمام سائنس دانوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا انسانی ترقی اور کامیابی کی کہانیاں ہی در اصل انسانی بربادی کی اہم وجوہات ہیں۔ ایک طرف دہشت پسندی ہے دوسری طرف مہاماری سوائن فلو اور سارس جیسی نئی بیماریوں سے لڑتے ہوئے لوگ کامیابی کا ہر قدم ایک نئی بیماری لے کر سامنے آرہا ہے۔ شوگر، ہائپریٹنشن، بلڈ پریشر،ایڈز، ہارٹ اٹیک 9/11 سے گجرات اور 26/11 تک ایک خوفزدہ کرنے والی تہذیب ہمارا استقبال کرتی ہے۔ بین الاقوامی معاہدے، سمجھوتے، قوانین، قواعد و ضوابط سب طاق پر رکھے رہ جاتے ہیں اور ایک نئی سنگین دنیا نئے وائرس کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ عرصہ پہلے ڈارون نے اوریجن آف اسپیسیز لکھ کر مذہب کو چیلنج کیا تھا- آج ایسے مذاہب کی جگہ مذہب اسلام عالمی دہشت گردی کی علامت ہے۔ صیہونی سازشیں ہیں اور پروفٹ محمد پر کارٹون بنائے جا رہے ہیں- گلوبل دنیا اور گلوبل وارمنگ کے اس عہد میں الگ الگ اخلاقیات کے عفریت ہمیں حصار میں لیے کھڑے ہیں- اور جیسا کہ ان دنوں مغرب کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہاں کے بنیادی مسائل نہ تو معاشی ہیں اور نہ ہی آبادی کا بڑھنا- بلکہ اصل مسئلہ ہے‘ تہذیبوں کا گم ہونا- ایک نیاسیاسی بحران سامنے ہے- دہشت پسندی اور القاعدہ تہذیب ہے، جس کی جڑیں بنیاد پرستی سے زیادہ دہشت پسندی کی زمین سے وابستہ ہیں۔ ایک طرف پاگل ، بھاگتی دنیا ہے۔ ریس ہے-تباہیاں ہیں- پراڈکٹ ہے- برانڈ ہے- یہاں ہندستان بھی ایک برانڈ ہے- جسے ہالی وڈ بازار اوتار اور 2010 جیسی فلموں کے ذریعہ اس بازار پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
پہلے اتنی ترقی نہیں تھی- میڈیاز نہیں تھے۔ سیکس ایجوکیشن نہیں تھا- سائبر ورلڈ نہیں تھا۔ اب ایک تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا ہے- اور اس دنیا میں فیس بک سے گوگل، یوٹیوب، زوم سے Padora تک انفارمیشن ٹیکنالوجی سے سیکس اور پورن سائٹس کی بھی ایک بڑی دنیا آباد ہے- جنسی اشتعال انگیزی میں گم ایشیا کا ایک بڑا بازار ہے- چھوٹے چھوٹے پانچ سے گیارہ سال کے نئے بچوں کے بلیو پرنٹ ہیں اور دیکھنے والی ہزاروں بوڑھی آنکھیں- سیکس کے اس بازار میں اب رشتے اور ننھے بچے تک آگئے ہیں۔ ایک طرف عالمی ثقافت کے بازار میں سیکس ٹورزم کو جگہ مل رہی ہے- اور دوسری طرف کنڈومس کو کھلونوں پھلوں کی نئی نئی شکلیں دی جا رہی ہیں- انڈیا ٹوڈے اور آؤٹ لک جیسے جریدے سیکس پر سروے کرا رہے ہیں- اسکول کالج میں پڑھنے والے بچے برانڈیڈ انڈر ویئر کو دکھاتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں اور شاید اس لیے ہمارے یہاں سچ کا سامنا، روڈیز شو اور ایموشنل اتیا چار جیسے پروگرام دیکھنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے- ایک طرف عالمی دہشت پسندی ہے اور دوسری طرف نئی تہذیب سے برآمد ہونے والا کنڈوم کلچر- اور دوستو،یہ نئی دنیائیں اقبال مجید سے لے کرشموئل احمد تک کہیں نہ کہیں ہماری کہانیوں کا حصہ بن رہی ہیں- بھوک سے عالمی دہشت گردی اور ماحولیاتی آلودگی سے سپر پاور بننے کی ریس میں ہزاروں مسائل ہیں جن کا سامنا سیاست سے عام آدمی اور ادیب و فنکار تک سب کر رہے ہیں۔ 9/11 کے دل دہلا دینے والے حادثے نے مسلمانوں کو عالمی سطح پر دہشت گرد بنا رکھا ہے اور اس کا خمیازہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
The reluctant fundamentlist میں 9/11 کے بعد محسن حامد ایک ایسے ہی نوجوان مسلمان کردار چنگیز کو سامنے لاتا ہے جسے بدترین مشکلات کا سامانا کرنا پڑ رہا ہے- ابھی حال میں طاہر نقوی کی کہانی موسم بدلتے ہوئے عالمی مسائل کے اسی خطرناک تیور کی طرف اشارہ کرتی ہے- کیتھرین سے محبت کرنے والا ایک مسلمان- لیکن جب کیتھرین کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا محبوب ایک مسلمان ہے تو وہ اسے جیل بھیج دیتی ہے۔
مرحوم شفق اپنے ناول بادل میں 9/11 کے حادثے کو اردو قارئین کے سامنے رکھتے ہیں-
’’تیسرا پلین پنٹاگن کے فوجی ہیڈ کوارٹر سے ٹکرایا ہے۔ آگ پھیلتی جا رہی ہے۔ خیال ہے کہ وہ پلین وہائٹ ہاؤس سے ٹکرانے جا رہا تھا- یہ سب کیا ہو رہا ہے- خالد نے بھاری دل سے سوچا- مسلمان خوشیاں مناتے ہوئے اپنی تصویریں کیوں کھنچوا رہے ہیں؟ انہیں حادثے کے ساتھ کیوں دکھایا جا رہا ہے- نام لیے بغیر بھی یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اس حادثے کے ذمہ دار مسلمان ہیں اگر وہ حادثے کے ذمہ دار نہیں ہیں تب بھی وہ اتنے سیڈسٹ ہیں کہ اس بڑے حادثے پر دکھ کے بجائے ناچ گا کر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں-‘‘
شفق کے غور و فکر کا یہ عمل بے معنی نہیں ہے- امریکی ایئر پورٹ پر مشہور ادا کار شاہ رخ خاں کو مسلمان ہونے کے نام پر بے عزت کیا جاتا ہے- آسٹریلیا میں مقیم ایک نوجوان ہندستانی ڈاکٹر کو واپس ہندستان بھیج دیا جاتا ہے- اور ایسے ہزاروں واقعات کی روشنی میں ہمارا اردو افسانہ نگار عالمی دہشت گردی کی روشنی میں نئی نئی کہانیوں کو جنم دیتا ہے- اور اس کا عکس آسانی سے ترنم ریاض، عبد الصمد ، غضنفر ، حامد سراج، زاہد یعقوب عامر، عاصم بھٹ، ساجد رشید، سید محمد اشرف سے لے کر آسٹریلیا میں مقیم اہم ناول نگار اشرف شاد تک تلاش کیا جاسکتا ہے- اشرف شاد کے تینوں ناول وزیر اعظم، بے وطن اور صدر اعلیٰ میں صرف پاکستانی آمریت کی جھلک نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ عالمی نظام اور مسائل کا وہ چہرہ بھی محسوس کیا جاسکتا ہے جو سپر پاور ہونے کے آڑ میں آہستہ آہستہ کمزور ممالک کو نگلتا جا رہا ہے-
’’اگر وادی تمہارے سامنے کھڑا ہے۔۔۔ جو پینسٹھ برس کا ہندو ناگرک ہونے اور چالیس برسوں تک ہندوستان پولیس کی نوکری کرنے کے بعد بھی۔۔۔ ہندستان کا درد سینے میں پالے ہوئے ہے۔۔۔ ہندستانی پولیس کا یہ ریٹائرڈ آئی جی، آج اگر زندہ ہے تو صرف پاکستان کی دھرتی۔۔۔ راولپنڈی کی مٹی کو چومنے کی آس میں۔۔۔ جہاں اس کا جنم ہوا تھا۔۔۔ جسے اپنا کعبہ اور مدینہ سمجھتا تھا۔۔۔ لو۔۔۔! گرفتار کرو اس اُگروادی کو۔۔۔ اگر تم اس اُگروادی کو گرفتار نہیں کرو کہ اس نے اپنے کعبہ، کی زیارت کے لیے ، ایک معصوم سا جھوٹ بولا۔۔۔ کم عقل انسان۔۔۔ وہ اگروادی نہیں۔۔۔ وہ تو شبھ چنتک ہے۔۔۔ تمہارا بھی۔۔۔ میرا بھی۔۔۔ اور اس دھرتی کا بھی۔۔۔! (شبھ چنتک: گلزار جاوید)
’’کچھ نہیں پتہ کون کس کو مار رہا ہے۔ لگتا ہے سب اجتماعی خودکشی پر تل گئے ہیں- پاگل پن کا پلیگ ہے جو پورے شہر میں پھیل گیا ہے- بے نشان بندوقوں سے گولیاں نکل کر آتی ہیں اور لہو چاٹ جاتی ہیں۔ پولیس مقابلے ہوتے ہیں، جن میں چلنے والی گولیاں صحیح نشانوں پر پہنچ کر سینے چھلنی کرتی ہے- بوریاں اپنا منہ کھول کر آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی لاشیں اُگلتی ہیں- عمارتوں میں راکٹ پھٹتے ہیں۔ شہر میں بے روزگار نوجوانوں کی فصلیں تیار کھڑی ہیں جنہیں کاٹنے والا کوئی نہیں۔ سیاست کرنے والے بے حس گورکن بنے، قتل گاہوں پر طاقت کے تخت بچھائے بیٹھے ہیں‘‘
– اشرف شاد (وزیر اعظم)
’’میں وہ آخری آدمی ہوں جو پردیس کو وطن بنانے کا مشورہ نہیں دوں گا۔ لیکن تمہارے حالات ایسے ہیں کہ تمہیں اپنے گھر والوں کا مشورہ مان لینا چاہئے۔ واپس گئے تو تم اپنے گھر والوں کے لیے ایک اور مسئلہ بن جاؤ گے۔ جذبات میں بہہ کر اس نسل میں شامل ہوجاؤ گے، جو جیل جا رہی ہے۔ یا گولیاں کھا رہی ہے- اس وقت تمہارا جانا واقعی صحیح نہیں ہوگا-‘‘
– اشرف شاد (ناول سے)
’’میں کیا کروں، میں جب سوچتا ہوں مجھے وہ منظر یاد آجاتا ہے، جب میری چھوٹی سی فیملی کے ہر فرد کو انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا اور پھر اپنے چھوٹے چھوٹے پاؤں سے چل کر یہاں تک پہنچا تھا۔ لیکن ہمیں صرف لمبی لمبی سڑکیں دے دی گئیں اور کہا گیا کہ چلتے رہو۔۔۔ ‘‘
(بے خدا کمرہ: طاہر مسعود)
ان تمام تر کہانیوں کا ہیرو وقت ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ساری کہانیاں عالمی مسائل کی کوکھ سے جنمی ہیں۔
تقسیم کے بعد بلکتے پاکستان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا۔ تہمینہ درّانی جیسی انگریزی ادیبہ نے بھی پاکستان کے ہولناک معاشرے کو قلم بند کیا ہے۔ یہی نہیں انور سین رائے کی ’چیخ‘ سلگتے پاکستان کی چیخ ثابت ہوئی:
’’ہمیں بتاؤ تمہیں کس بات کا ڈر ہے ہم تمہیں مکمل تحفظ دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔ ہمیں بتاؤ کہ تم کن لوگوں کے ساتھ مل کر اخبار نکالتے تھے اس کے لیے رقم تمہیں کہاں سے، کیسے ملتی تھی؟ اخبار کو کہاں کہاں تیار کیااور کہاں چھاپاجاتا تھا؟ اس کے لیے مضامین کون کون لکھتا تھا اور پھر اس اخبار کو کس طرح تقسیم کیا جاتا تھا اور کون کون تقسیم کرتا تھا؟‘‘ وہ بولتے بولتے تھوڑی دیر کے لیے رک گیا اور میں سوچنے لگا: میں جس اخبار کو نکالنے کے لیے کام کرتا ہوں اس کا میری بیماری سے کیا تعلق ہو سکتا ہے اور جو کچھ یہ ڈاکٹر پوچھ رہا ہے اس میں سے بہت سی باتیں تو خود اخبار دیکھ کر معلوم کی جاسکتی ہیں- کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جسے معلوم کرنے کا کسی کی بیماری سے، خاص طور پر ذہنی بیماری سے کوئی تعلق ہو-میں نے ساری باتیں اسے بتا دیں لیکن اس نے صرف اتنا کہا ’’تم واقعی ایک احمق آدمی ہو۔‘‘ (چیخ: انور سین رائے)
عاصم بٹ کا ’دائرہ‘ اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ یہاں پاکستانی مارشل لاء، پاکستانی فوجی حکومت اور تقسیم کے ۶۲ برسوں کے سینسر شپ میں پستا ہوا ہر ایک آدمی ایک مسخرہ ہے یا اسٹیج ایکٹر یا کٹھ پتلی، جس کا سرا ہمیشہ سے پاکستانی تانا شاہوں کے پاس رہا ہے۔ عوام کو صرف اشارے پر اپنا کرتب دکھانا ہے یا اپنا ’رول‘ پلے کرنا ہے- آہستہ آہستہ پاکستانی فضا ان بندشوں سے آزاد ہو رہی ہے۔ مرد اور خاتون افسانہ نگاروں کی ایک لمبی قطار سامنے آچکی ہے۔ یہ قطار بے خوفی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔حمید شاہد سے آصف فرخی، طاہرہ اقبال، مبین مرزا تک آپ ان کی کہانیوں میں پاکستان کے بہانے عالمی مسائل کی جھلک محسوس کرسکتے ہیں۔
عالمی مسائل اور نئی اردو کہانی کی بازگشت
سن ۲۰۱۰ء آتے آتے اردو دنیا کی صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی۔ وہ دنیا میں جس کے بارے میں حد سے زیادہ مایوس ہوچکا تھا، یکایک مجھے زندگی کی رمق دکھائی دینے لگی- اذکار، اثبات، تعمیر نو، تحریک ادب ایک ساتھ کئی ادبی رسائل کی یلغار ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دو تین برسوں میں نئے لکھنے والوں کا ایک قافلہ آ گیا- اچھی بات یہ تھی کہ اردو کہانی ابھی بھی اپنے محدود کینواس میں مقید نہیں تھی، بلکہ اس کی نظر عالمی مسائل پر بھی تھی۔ اس لیے یحییٰ نشاط سے نسیم ساکیتی تک ایسے لوگ بھی سامنے آ رہے تھے جو کوپن ہیگن میں ماحولیات کی ناکامی پر بھی افسانہ رقم کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ جو فضا میں پھیلتے کاربن منو آکسائیڈ کی تشویش ناک صورتحال کو بھی دیکھ کر افسانے لکھ رہے تھے اور ساتھ ہی بھوک، دہشت گردی، نکسل واد کے مسائل کو عالمی اُفق پر دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے- اسی عالمی نقشہ پر پانی بھی مسئلہ ہے اور دیکھئے رضوان الحق نے کس خوبصورتی سے اس مسئلہ کو اپنے افسانہ تعاقب میں پیش کیا ہے-
’’گلوب کے تعلق سے اس کی ایک عادت یہ بھی ہے کہ جب وہ شدید ذہنی انتشار میں ہوتا ہے تو اس گلوب کو بہت تیزی سے گھمانے لگتا ہے۔ پھر کوئی ملک اپنی سرحد کے ساتھ نظر نہیں آتا ہے، تمام سرحدیں مٹ جاتی ہیں اور صرف عالمی جغرافیہ رہ جاتا ہے، اس جغرافیہ میں پہاڑ، جنگل، جھیلیں، چرند پرند، آسمان، آسمان پر اڑتے ہوئے بادل اور دور تک پھیلا ہوا سمندر، سب کچھ موجود ہوتا ہے۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ یہ گلوب ہمیشہ اسی رفتار سے گھومتا رہے اور تمام سرحدیں ہمیشہ کے لیے مٹ جائیں۔ صرف عالمی جغرافیہ بچے۔ گلوب دیکھتے ہوئے ایک سوال اسے بہت پریشان کرتا ہے کہ دنیا کا تقریباً دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ پھر بھی دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ زندگی کرنے کے لیے ضروری پانی سے کیوں محروم ہے؟
در اصل بے حد خاموشی سے فنکار عالمی مسائل کو اپنے مسائل سے جوڑ کر ایک نیا زاویہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لیے آج اردو کہانی میں پہلے سے کہیں زیادہ انسانیت، امن و آشتی اور دہشت گردی پر مبنی تجزیاتی کہانیوں کی تعداد بڑھنے لگی ہے۔ شوکت حیات، حسین الحق، معین الدین جینا بڑے، رحمن عباس، اسرار گاندھی اور صدیق عالم کی کہانیوں میں ایسے مسائل کی تڑپ دیکھی جاسکتی ہے۔
’’اس وقت صرف انسان زندہ رہ گیا تھا، باقی سب کچھ مر گیا تھا۔ آج صرف انسان مر گیا ہے باقی سب کچھ زندہ ہے۔ کیا ہوگیا ہے اس شہر کو؟ پہلے ایسے حادثات تو کبھی نہ ہوئی تھے، سنو، میری بھی رائے یہی ہے کہ شام کو جب تھوڑی دیر کے لیے پہرے ہٹیں تم کسی محفوظ جگہ چلے جاؤ۔ میں تمہیں کھونا نہیں چاہتی۔‘‘
(اسرار گاندھی (راستے بند ہیں)
’’میں کسی فرشتے میں یقین نہیں رکھتا۔‘‘ وہ دھیرے دھیرے کہتا ہے۔ ’’کیونکہ میں جاتنا ہوں اب ہم انسان ایسی چیز نہیں رہے کہ اس کے لیے کوئی فرشتہ خدا کی طرف سے پیغام لے کر اترے۔ شاید ہمیں اب اس کے بغیر ہی کام چلانا ہوگا۔ یوں بھی جب اتنی ساری کھائیاں ہمارے چاروں طرف بن چکی ہوں تو انہیں لانگھنا تو پڑتا ہی ہے، چاہے اس کوشش میں ہم اس کی نذر ہی کیوں نہ ہوجائیں۔‘‘ (صدیق عالم۔ الزورا)
یہاں اعتبار کی بجھتی ہوئی قندیل ہےانسان یا انسانیت کو زندہ دیکھنے کی ایک موہوم سی امید ہے خدا کی ذات سے منکر ہونے کی کیفیت ہے اور یہ تمام کیفیتیں اُس نئے بحران سے پیدا ہوئی ہیں، جو ہمارے سامنے ہے جہاں راستے گم ہیں اور زندگی اپنے معنی و مفہوم گم کر چکی ہے
یہ نئی دنیا پاگل کرنے والی ہے
دوستو، اس سے قبل کہ اس گفتگو کو آگے بڑھایا جائے، اس نئی دنیا کا تعارف آپ سے ضروری ہے، جس کے بارے میں جوزف براڈ سکی نے لکھا
’’جب آپ ٹائی کی ناٹ باندھتے ہیں۔
لوگ مر رہے ہیں
جب آپ اپنے گلاسوں میں اسکاچ انڈیلتے ہیں
لوگ مر رہے ہیں
جب آپ نئے خداؤں کے آگے سجدہ کرتے ہیں
لوگ مر رہے ہیں‘‘
ایک بھیانک دنیا کچھ عجیب سے سچ اور تماشا دیکھنے والے ہم سماجی آئین سے الگ ایک نئی اخلاقیات سامنے آچکی ہے- آسٹریلیا کے حوالے سے ایک خبر آئی کہ ایک شیرنی، ایک چھوٹی سی بلی کی محافظ بن گئی- انگلینڈ کے ایک جنگل میں کتے اور بھالو ساتھ ساتھ کھیلتے پائے گئے- دنیا کے سب سے چھوٹے ماں باپ ۱۵ سال کے بچے ہیں- نئی تکنالوجی سائبر ورلڈ، ایک تیریزی سے بدلتی ہوئی دنیا اور پگھلتے ہوئے گلیشیرس- نیوزی لینڈ کی عورت نے اپنے گھر سے دو بھوت پکڑے- ایک بوتل میں بند کیا اور آن لائن خریدار مل گئے- ہم ایک ایسے عہد میں ہیں جہاں کچھ بھی فروخت ہوسکتا ہے- در اصل ہمیں انفرادی و اجتماعی طور پر حیوان بنانے کی تیاری چل رہی ہےنئی قدریں تشکیل پا رہی ہیں۔ سپر مارکیٹ، انڈیا شائننگ اور 2050 تک انڈیا کو سب سے بڑی طاقت کے طور پر پیشن گوئی کرنے والے بھی نہیں جانتے کہ وہ اس پؤر انڈیا کو کہاں لے آئے ہیں کمرشیل ٹی وی شوز سیکس کی آزادی کا پیغام لے کر آ رہے ہیں اور تہذیب بلاسٹ کر چکی ہے اور دوسری طرف ڈی ان اے، جینوم، کرومو سوم اور جین کے اس عہد میں تہذیب و تمدن کی نئے سرے سے شناخت ہو رہی ہے کہ سب سے قدیم انڈین کون تھے دراوڑ یا انڈمان جزائر میں رہنے والے یا پھر منگولیائی جہاں ایک طرف کینسر‘ ایڈز، ڈائبٹیز اور ہارٹ اٹیک پر فتح پانے کے لیے میڈیکل سائنس کے نئے دروازے کھل رہے ہیں اور یہیں کامن ویلتھ گیمس کے لیے ایک بڑی آبادی بھوکوں مار دی جاتی ہے یہاں آئی پی ایل کے بلّے چمکتے ہیں اور نندی گرام میں کسانوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے
موجودہ عالمی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے اس بھیانک دنیا کا تذکرہ ضروری ہے۔ لیکن ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ اس بد سے بدتر ہوتی دنیا کا مکروہ چہرہ کیا ہماری کہانیوں میں نظر آ رہا ہے یا صرف ہمارے فنکار اشارے اور گواہیوں سے کام چلا کر آج بھی سرسری طور پر ان واقعات سے آنکھیں چراتے ہوئے گزر جاتے ہیں اگر ایسا ہے تو مجھے کہنے دیجئے یہ فن کے ساتھ کوئی ایماندارانہ رویہ نہیں ہے موجودہ عالمی سماج کے اہم مسائل بھوک، پانی، آلودگی، اور دہشت پسندی کے تناظر میں جو دنیا ہمیں ہاتھ لگتی ہے وہ جنگوں سے برآمد شدہ دنیا ہے لیکن صرف اتنا کہنا کافی نہیں ہے۔ کہانی کار کے طور پر ہمیں اس کا تجزیہ بھی کرنا ہے وحشت، بربریت، دہشت اور انتہاپسندی کی بھیانک داستانیں ہیرو شیمار اور ناگاساکی کی تباہی کے بعد آج بھی رقم کی جا رہی ہیں۔ اب نئے اندیشے اور خطرات ہیں عراق اسی طرح تباہ ہوا جیسے ایک زمانے میں امریکہ نے یوگوسلاویہ کو تباہ و برباد کیا تھا 11/9 کے بعد افغانستان کی بربادی بھی سامنے ہے۔ ایران کو تہہ تیغ کرنے کی دھمکیاں بھی سنائی جا چکی ہیں۔ روسی قیادت دوبارہ سپر پاور بننے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ چین اپنی سیاست کر رہا ہے عراق اور افغانی جنگ نے امریکہ کو اقتصادی طور پر کھوکھلا کر دیا ہے ساری دنیا بھوک مری کا شکار ہے امن خطرے میں ہے نئے صارف کلچر میں جنس پرستی کو فروغ دیا گیا ہے آزادی آزادی کی رٹ لگانے والوں کے لیے 9/11 کے بعد آزادی صرف ایک کھوکھلی حقیقت ثابت ہوئی ہے۔
کیا اردو کا ادیب عالمی مسائل کی روشنی میں ان دور رس بھیانک نتائج سے آگاہ ہے؟ ڈپٹی نذیر احمد سے شمس الرحمن فاروقی کے ناول تک ایک تہذیبی ناستلجیا تو دیکھنے کو مل جاتا ہے لیکن اس پر آشوب عہد کی آگاہی و عکاسی کہیں بھی نظر نہیں آتی ہاں، پاکستانی فنکاروں میں سچ کا سامنا کرنے والی تحریریں بڑی تعداد میں مل جائیں گی۔ اسد محمد خاں سے لے کر آصف فرخی، طاہرہ اقبال، مبین مرزا اور حمید شاہد تک عالمی مسائل پر لکھی جانے والی تحریروں کی کوئی کمی نہیں۔حمید شاہد کے سورگ میں سور جیسے افسانے کے بارے میں احمد طفیل کی رائے ہے کہ یہ افسانہ عالمی معاصر صورتحال کے خلاف احتجاج ہے زیادہ تر نقادوں نے اس مجموعے کے افسانے کو 9/11 کے بعد کے حالات سے جوڑ کر دیکھا ہے سید مظہرجمیل کے مطابق ان کی کہانی مرگ زار ایک ایسی کہانی ہے جو افغانستان کے چٹیل اور سخت کوش معاشرے میں گذشتہ تین عشروں سے جاری وحشت و بربریت کے پس منظر میں لکھی گئی ہے نسیم بن آسی گیلارڈ ہوٹل کے بہانے اسی خوف و تشکیک کی فضا کو سامنے رکھتے ہیں نوجوان ناول نگار رحمن عباس اپنے نئے ناول ایک ممنوعہ محبت کی کہانی میں کوکن کے مسلمانوں کے بہانے عالمی مسائل کے تناظر میں اس خوف کو ایک کردار کے ذریعہ پیش کرتے ہیں
’وہ ہمارے کلچر کو ختم کر دیں گے۔‘
تاریخ کی طرح ارتقاء کے نئے سفر کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور شاید اسی لیے فہمیدہ ریاض اپنے افسانہ ’قافلے پرندوں کے‘ کے ساتھ نئی دنیا کا جواز بھی تلاش کر لیتی ہیں۔
دھرتی کے دونوں نصف حصے ایک دوسرے میں دوبارہ پیوست ہو گئے۔ زمین پھر سے سالم ہوگئی اور اس نے سمندروں اور سبزہ زاروں کی نیلمی اور زمردی قبا اوڑھ لی۔
پرندوں نے اطمینان کا سانس لیا۔
’’یہ کیا تھا؟‘‘ پرندوں نے پوچھا۔
’’کوئلہ‘‘ ہد ہد نے کہا، ’’کوئلہ، گیس اور تیل۔۔۔ اور اب ہمارے سفر کا دراصل آغاز ہوگا۔ تم تھک تو نہیں گئے؟‘‘
اردو افسانہ تھکا نہیں ہے لوگ کم ہیں لیکن آنے والوں کا سلسلہ جاری ہے فہمیدہ ریاض سے رضوان احمد، مبین مرزا اور حمید شاہد تک عالمی مسائل کے پس پردہ کہانیاں لکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں بزرگ اور تھکے ہوئے نقادوں کے گزر جانے کے بعد ہی ان کہانیوں کا صحیح تجزیہ ممکن ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.