بر صغیر کو کبھی عظیم کیوں نہیں لکھا ؟
(نصیر احمد)
ہمیں تو ہر طرف سے رنگ برنگے گلے ہی آتے رہتے ہیں لیکن کس بنیاد پر برصغیر اور پرانے ہندوستان کو عظیم لکھیں؟ پچھلے دنوں میں ہی کہہ رہے تھے کہ تین چار ہزار سال پہلے کا کوئی آدمی برصغیر میں آئے تو آسانی سے سیٹل ہو جائے گا۔ نئی ایجادات سے کچھ بوکھلا جائے گا لیکن ثقافتی نظام میں اسے کچھ اتنی تبدیلی محسوس نہیں ہو گی۔ نئی ایجادات سے باقی لوگوں کا بھی استعمال کرنے کا رشتہ ہے، بنانے کا کوئی اتنا خاص نہیں ہے۔ تو جو پچھلے زمانوں سے آئے گا، وہ بھی یہی کچھ کرے گا۔
بھجن گائے گا، سرد آہیں بھرے گا، فرد کی بے وقعتی کو تقدیر کا لکھا جانے گا، مہاراجا، مہاراؤ، مہا راول کو نمسکار کر ے گا، مورتیوں کی پوجا کرے گا، اور لوگوں کو تکلیف دینے کے عمل کو عبادت کہے گا۔
بییسویں صدی کے آغاز میں تیس کروڑ لوگ تھے جو ایک دوسرے کو تکلیف دے رہے تھے، اب تین ارب کے قریب ہیں لیکن ایک دوسرے کو تکلیف ہی تو دے رہے ہیں۔ اور ایک دوسرے کو اذیت دینے میں کونسی عظمت ہے؟ لوگ ایک دو نسلوں کے وقفے سے اپنے ملک معاشرے بہتر بنا لیتے ہیں لیکن برصغیر ہر صدی کے خاتمے پر انھی مسائل کا شکار ہوتا ہے، جن سے ہر صدی کے آغاز میں دوچار ہوتا ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں سیاح آتے ہیں، شہروں میں صفائی ستھرائی کی کمی کا گلہ کرتے ہیں، تو صفائی ستھرائی کی کمی کے گلے اکیسویں صدی کے سیاح بھی کرتے پائے جاتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں امیر لوگوں کے ہاں نوکروں کی بہتات پر سیاحوں کو حیرت ہوتی ہے، اکیسویں صدی کے سیاح بھی اسی حیرت کا شکار رہتے ہیں۔
کم عمری کی شادیوں پر بیسیویں صدی کے آغاز پر پریشانی ہوتی ہے، لیکن اکیسویں صدی میں بھی کم عمری کی شادیاں موجود ہیں۔ بیسیویں صدی کے آغاز میں عمومی منافقت کا شکوہ کیا جاتا ہے اور اکیسویں صدی میں بھی وہی عمومی منافقت موجود ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں اس بات پر دکھ کا اظہار کیا جاتا ہے کہ مذہب سے بدی کے جواز حاصل کیے جاتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی یہ دکھ موجود ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں فقیروں اور ملنگوں کی لوٹ مار اور توہم پرستی سیاحوں کو عیجب سی لگتی ہے لیکن اکیسویں صدی میں بھی سجادے اور گدیاں لوٹ مار اور توہم پرستی کے ٹھکانے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں بھی حکمرانوں کی بستیوں اور محکوموں کی آبادیوں کے درمیان تفاوتوں کا ذکر ہے لیکن اکیسویں صدی میں بھی وہ تفاوتیں موجود ہیں۔
بیسویں صدی میں شہریت اور شہریوں کی عدم موجودی پر سیاحوں کے لہجے میں حقارت در آتی ہے اور اکیسویں صدی میں شہریت کی اہمیت جاننے والوں کے دل و دماغ تاسف کی آماجگاہ بنے رہتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ذات پات کے نظام سے عوامی وابستگی کی وجہ سے ترقی کے امکانات کم ہی دکھائی دیتے ہیں اور اکیسویں صدی میں بھی ذات پات سے عوام کی وابستگی موجود ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں مردوں اور عورتوں کے لیے تقریبات میں علیحدہ جگہیں بنی ہوتی تھیں، اور اکیسویں صدی میں بھی تقریباتی علیحدگی موجود ہے۔ ایک صدی بڑا عرصہ ہے، اس میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں، فیکٹری، جہاز، انٹرنیٹ، کاریں، ایٹمی ہتھیار، انگریزوں سے آزادی، ماحولیاتی تبدیلیاں، نئے ملک،ٹیلی وژن، کمپیوٹر اور بہت ساری ایجادات جو بیسویں صدی کے آغاز میں سوچنا ہی ناممکن تھا لیکن ایجادات کی فہرست میں برصغیر کے ملکوں کا نام ہی کم ہی آتا ہے۔ بس دوسرے بناتے رہتے ہیں، ہم خرید کر استعمال ہی کرتے رہتے ہیں۔
اور سماجی نظام کے بنیادی تصورات ہر صدی میں بدی بڑھاتے رہتے ہیں لیکن لوگ انھی تصورات سے وابستہ رہتے ہیں۔
ابھی تک فرد کے امکانات کو تاریخی داستانوں سے کچلا جاتا ہے۔فرد کو اگر قانون کچھ حقوق دیتا ہے لیکن کنبہ، برادری، قبیلہ۔ ذات۔ خاندان، شہر، ضلع، صوبہ اور قوم قدیمی گٹھ بندھن کے ذریعے ان سارے حقوق کو مسترد کرتے رہتے ہیں۔ اور حقوق کی اس تردید کو مذہبی حمایت ہر صدی کی طرح اس صدی میں بھی موجود ہے۔ بلکہ جمہوریت بھی ایسی ہی ہوتی ہے کہ مکھیا کی بات نہ مانی تو زندگی کالا پانی ہو جاتی ہے۔
فرد کو عزت دینے کی سعی کی جائے تو کبھی فرید کوکتا ہے تو کبھی کبیر۔ مسلمان کے حق کی بھارت میں بات ہو، تو اکبر کے پتروں کا سر جھکانے کی ایسی کویتا کہی جاتی ہے کہ بلوائی اندھا دھند مسلمانوں کے سر کاٹنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔
عیسائیوں کی پاکستان میں انسانی برابری کا ذکر کیا ہی نہیں جا سکتا اور صلیبی جنگوں کا بدلہ لینے کے لیے مجاہدین پاگل ہو کر غریب عیسائوں کے گھر جلانے لگتے ہیں۔ شدھی کا شکوے سے مطالعہ پاکستان کی کتابییں بھری ہیں لیکن ہندو لڑکیوں کی مسلمانوں سے جبری شادیاں کرتے وقت قول و فعل کا تضاد نہیں نظر آتا۔
شاکیہ منی کے تبسم پر عقیدتیں نچھاور کرتے لامے اور جمہوریت کی دیوی سو کائی بھول جاتے ہیں کہ مسلمان شہریوں کا تحفظ، انسانی، شہری اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔
اب خود ہی بتائیں معاشرے کی ہر سطح پر موجود گھناونے جرائم معاشرے کو کیسے عظیم بناتے ہیں؟