کوالالمپور کانفرنس، غیر عرب مسلمانوں کا نیا مزاحمتی اتحادِ قومی اقتدار اعلیٰ بچاؤ

Naeem Baig

کوالالمپور کانفرنس، غیر عرب مسلمانوں کا نیا مزاحمتی اتحادِ قومی اقتدار اعلیٰ بچاؤ

از، نعیم بیگ 

اکیسویں صدی کے پوسٹ ماڈرن ماحول میں جہاں ایک طرف پہلی دنیا کے طاقت ور ممالک weaponry warfare سے نکل کر نیو کالونیلزم کے نئے فکری آسمان دریافت کرنے پر گام زن ہیں، وہیں عالمی سطح پر تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک نیو کالونیلزم کے ان جوہری نظریاتی ہتھیاروں کو کند کرنے کے لیے ایسے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں جہاں سے ترقی یافتہ ممالک کے استعماری مالیاتی جبر، بے جا پا بندیوں اور سیاسی مداخلت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔

گزشتہ ایک دَھائی میں امریکا اور برطانیہ کی لیڈر شپ کی پے در پے فکری تبدیلیوں سے جو مغربی پالسیوں میں انتشار آیا، اس سے ان ممالک میں نسل پرستی اور مذہب پرستی مزید radicalise ہوئی۔ اور پھر عالمی سطح پر  غیر مقبول مغربی بیانیے کے اختیار کرنے پر نسل پرستی اور مذہب پرستی اس قدر توانا ہوئی کہ ہندوستان جیسے تیسری دنیا کے ملک نے ہِندُتوا کے نام پر نہ صرف انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا دیں، بَل کہ مقبوضہ کشمیر اور دیگر شمال مشرقی متنازِع علاقوں میں غَزَہ کی پٹی کی طرز پر آباد کاری کے لیے شہریت کے قوانین میں انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے تبدیلی کر دی۔ ایسے اقدامات کے جواب میں اب ٹارگٹ ممالک میں دو اہم جہات کی طرف پیش رفت ہوئی۔

پہلی پیش رفت میں سوشلسٹ دنیا جس میں چین سرِ فہرست ہے، نے اپنی مارکیٹ کے پھیلاؤ کو مزید تیز تر کر دیا ہے۔ اس ضمن میں وہ اوبور OBOR کے منفرد نظریہ کے تحت شراکتی انفراسٹرکچر کو  اہمیت دے کر اُن سترہ سے بیس اہم سَٹرِٹِیجک ممالک کو اپنے دائرۂِ کار میں لانے کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں۔

دوسری طرف انھی ترقی پذیر ممالک نے جس میں اکثریت نان عرب مسلم ریاستوں  کی ہے، انہوں نے اپنے تجارتی مالیاتی نظام کو عالمی شکنجے سے نکالنے کے لیے مزاحمتی جد و جہد شروع کر دی۔

امریکا اور چین کے درمیان ایک دوسرے پر لگائی جانے والی بے پناہ تجارتی پا بندیوں اور تنازِع نے دنیا کے ان ابھرتے ہوئے ممالک کی آنکھیں کھول دی ہیں۔

دوسری طرف Brexit کے معاملات کسی تجارتی، مالی اور سماجی انجام پر پہنچے بَہ غیر ہی یک طرفہ فیصلوں نے دنیا بھر کو باور کرا دیا کہ وہ اب کپٹیلِسٹ بلندیوں کی طرف دیکھنے کی بَہ جائے اپنے معاملات خود اپنے ہاتھ میں لیں۔

اس پسِ منظر میں کوالالمپور کانفرنس، فی الحال، ہوا کا ایک تازہ جھونکا ثابت ہوئی ہے۔ قطعِ نظر کہ اس میں پاکستان کی شرکت اور ترکی کے اُن الزامات کہ پاکستان کو سعودی عرب نے ہمیشہ دباؤ میں رکھا ہے، اور ملائشیا کانفرنس میں شرکت سے روک دیا، پر سعودی وضاحت آ گئی ہے لیکن پاکستان اس ضمن میں خاموش ہے۔

اس کانفرنس کے شُرَکاء نے پانچ بڑے معاملات پر گفتگو کی ہے جن میں سرِ فہرست اسلاموفوبیا اور غربت ہے۔

مہاتیر محمد کی تجاویز، جن میں ترکی، ایران، ملائشیا اور قطر سرِ فہرست ہیں، یہ تجویز دی ہے کہ امریکی پا بندیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے Barter سسٹم اور سونے کی بنیاد پر تجارت کو  ممبر ممالک کے درمیان متعارف کرایا جائے۔

دیگر کئی ایک تجاویز کے درمیان عالمی ٹی وی چینل کی تجویز بے حد اہم ہے۔ جس کے تحت مغربی یک طرفہ اطلاعات کی ٹریفک کو بَہ ہر حال روکا جا سکے گا۔ پاکستانیوں کو اس ضمن میں وزیرِ اعظم عمران خان کی یونائیٹڈ نیشن میں کی گئی تقریر اور اسلاموفوبیا initiative پر پہلے فخر محسوس ہوا تھا، تاہم بعد ازاں عدم کوالالمپور کانفرنس میں عدم شمولیت سے عالمی شرمندگی سے نہیں نکل سکے ہیں۔

یاد رہے کہ فروری 74’ء  لاہور میں ہونے والی او آئی سی کانفرنس میں پیٹرو ڈالر کی طرز پر مسلم ممالک کے درمیان تجارتی کرنسی کی گونج اٹھنے پر اس کانفرنس کے چنیدہ مقبول لیڈروں کو کچھ ہی عرصہ میں اقتدار اور دینا سے eliminate کر دیا گیا تھا۔ جس میں سعودی عرب کے شاہ فیصل، ذوالفقار علی بھٹو، صدر عیدی امین اور صدر معمر قدافی وغیرہ سرِ فہرست ہیں۔

دسمبر 2019ء میں ممکنہ طور پر چند تجاویز  سنہ 74’ء سے ملتی جلتی ہیں، لیکن اس بار unilateralist طاقت نسل پرستی اور حد درجہ اندرونی مالی کساد بازاری کی وجہ سے اس قابل شاید نہ ہے کہ راست قدم اٹھا سکے۔

تاہم یہ طے ہے کہ وہ اپنے زیرِ اثر ممالک اور عالمی اداروں کی مدد سے اس کانفرنس کے مقاصد کو سبوتاژ کرے اور نیو کالونیلزم کے تحت جن مسلم ممالک پر اثر و رسوخ رکھتا ہے انھیں اس کانفرنس سے دور رکھے۔

مارکس نے درست کہا تھا:

The history of all previous societies has been the history of class struggles. The philosophers have only interpreted the world, in various ways. The point, however, is to change it.

ابھی کوالالمپور قومی، اقتدارِ اعلیٰ کانفرنس، Sovereignty Summit، کے انعقاد پر راقم کے یہ ابتدائی کلمات ہیں۔ ابھی مزید کام کی ضرورت ہے۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔