کرونا وباء… کُل کا بھلا کُل کی خیر (نمکیات)
از، یاسر چٹھہ
1۔ کل میں گروسری سٹور پر گیا۔ چیزیں ہوش اُڑا دینے والے نرخوں میں مل سکیں۔
میں چپ رہا۔
کہیں نہیں بولا۔
کیوں نہیں بولا؟
اس لیے نہیں بولا کہ اس مہنگائی میں کون سا حکومت کا قصور ہے۔ یہ تو مافیا کی کارستانی ہے، اور پچھلی حکومتوں کے لمبے سایے ہیں۔
2۔ دوا لینی پڑ گئی۔ گناہ کرتا ہوں۔ بیمار پڑ جاتا ہوں۔ میڈیکل سٹور گیا تو دوا بہت ہی مہنگے داموں ملی۔
میں چپ رہا۔
کہیں نہیں بولا۔
کیوں نہیں بولا؟
اس لیے نہیں بولا کہ اس مہنگائی میں کون سا حکومت کا قصور ہے۔
یہ تو مافیا کی کارستانی ہے، اور پچھلی حکومتوں کے لمبے سایے ہیں۔
3۔ میں جائے روزگار پر ہوں۔ ہمارے اعمال کے سبب ہم پر وباء آن پڑی ہے۔ پہلے کچھ ہفتوں کے لیے ہمارے اعمال میں خیر کا حصہ کچھ بڑھا تھا تو کرونا وباء سست ہو گئی تھی۔
جُوں ہی موسم بدلا۔ خزاں آئی۔ تو کرونا پر بہار آ گئی۔
اب نیک لوگوں کی اکثریت وباء کے خلاف حفاظتی نگۂِ داشت کے کام کرنے کو سنجیدہ نہیں لیتی۔
بھئی، جب کرونا کا ہونا ہی نیک اعمال کے خسارے اور گھاٹے سے ہے تو وباء کے ہونے یا نہ ہونے کی حسابی مساوات ان کے حق میں ہے۔ وہ یہ بات باور کراتے ہیں۔
وہ اپنے عقیدے اور عمل سے بولتے ہیں:
ہمارے سامنے سائنس کیا ہے؟
اپنی باتوں سے پھر جانے والی ہی تو ہے… نا مرد سائنس… جس کی کوئی ایک بات ہی نہیں۔ کبھی یہ، تو کبھی وہ، کہتی پھرتی ہے۔
(ان کے ذاتی فقہ کے نزدیک سائنس وہ مؤنث ہے جس کی گواہی آدھی کا ہزارواں حصہ بھی نہیں۔)
اس سائنس کی اور کچھ ہماری اور بات سن لیتے ہیں تو سناتے ہیں۔ کچھ ہفتے، کچھ روز پہلے کسی پڑھے لکھے اور رمز شناس مردِ دَم بَہ خود جلال نے اس راقم، اس مجنون راقم کو کہا تھا:
“تم کیا جانو سائنس کی باتیں… تمھاری ساری سائنس کی باتیں دیوانے کی بڑ ہیں، تمھاری ساری باتیں تمھاری نیت کا فتُور ہیں۔”
میں نے سن لیا… صرف چند ایک ایسوں سے بات کی جنھیں میں اپنے کہنے کی جگرا پاتا ہوں۔ ان کی محبت، ان کا اِنس کہ میرے ضمیر اور فہم کے جسد کو اپنے پَن کا کندھا دیتے ہیں۔
ایک اور بات؛ مجھے وقت نے زبر دستی یہ سکھا دیا ہے: ہم بہت سے ایسے کام کرتے ہیں جو ہمیں شدید نا پسند ہوتے ہیں۔
زندگی رے زندگی…ہم دل والوں کو بھی دبوچ کر conformist بنا لیتی ہو… تم ہماری دوست نہیں۔
جائے روزگار پر بھی کئی ایسے کام کرتا ہوں جنھیں کرنے کے لیے اپنے ضمیر، اپنے خبطی ضمیر کو شرابِ گناہ پلا کر سلانا پڑتا ہے۔ ایسے کام میرے تضادوں کی زنبیل میں ہجوم بناتے جاتے ہیں۔ سلانے کی کوششوں کے با وجود پھر بھی یہ ضمیر جسے اتنی محنت سے، اتنی ریاضت سے پالا پوسا تھا، وہ بہت شریر ثابت ہوتا رہتا ہے۔ بہت تنگ کرتا ہے۔
سوچتا ہوں نوکری چھوڑ دوں… پہلے ہر چند مہینوں ہفتوں بعد سوچتا تھا کہ یہ نوکری مجھ ایسوں کا کام نہیں۔ اب سوچنے کے وقفے کا دورانیہ کم سے کم ہوتا جاتا ہے۔
اس موجودہ ‘اب’ کے مزاج اور کیفیت میں فرق بڑھتا جاتا ہے!
اپنوں سے بھی کم بات کرتا ہوں۔
میں چپ رہتا ہوں۔ کہیں نہیں بولتا۔
کیوں نہیں بولتا؟
اس لیے نہیں بولتا کہ اس مہنگائی میں کون سا حکومت کا قصور ہے۔ اس کرونا میں کون سا حکومت کا قصور ہے۔ ان معیاری ضابطوں کے مقابل تسلیم کرنے اور رضا مند ہونے کے سامنے سینہ تانے کھڑے میرے اللہ کے نیک طینت بندے، میرے سمجھ دار با شعور، سُوڈو سائنسی سرابوں سے دور پرے، صاف منظر ناموں میں نہاتے لوگ غلط نہیں ہو سکتے۔
میں یہی کہتا ہوں کہ
یہ سب بھی تو مافیا کی کارستانی ہے، اور پچھلی حکومتوں کے لمبے سایے ہیں۔
اور کچھ نہیں کہتا کہ انڈیا پروپیگنڈہ نہ کرنا شروع ہو جائے۔
میں زیادہ جذباتی، over zealous نہیں ہونا چاہتا کہ ابدی دشمن پروپیگنڈہ نہ کرنا شروع ہو جائے۔
سب کا بھلا، سب کی خیر…
***
نکلنا اس کا ادرک کی خاطر…
آج شام کو گھر کے قریبی سبزی اور کریانہ کی دولتِ مشترکہ کی دکان پر گیا۔
پَیٹی بورژوا سے ادرک مانگا۔
اس نے قیمت بتائی۔
ہم نے قیمت سُنی۔
اس دَم بھر کی محفلِ سماع سے سَر چکرا گیا۔
کیا دیکھتے ہیں کہ پاس کیا تھا؟
چلغوزے، ادرک کے ساتھ شانے سے شانہ ملائے جاگنگ کر رہے تھے۔
ہوائی اور زمینی نباتات کے خانوادوں سے تعلق رکھنے والے دونوں لونڈے پسینے میں شرابور تھے۔
میرے چکر داری سَر کا نوٹِس لے لیا گیا۔
اس کمال کے نوٹس کے نتیجے میں ایک نو جوان چلغوزے نے میری طرف مُنھ چڑاتے ہوئے کہا:
جاگنگ کرو، جاگنگ … ورنہ نیا پاکستان دَم نکال دے گا کرپٹ کہیں کے…۔