عدم تشدد کا بیانیہ اور منظور پشتین کی مشکل
از، علی ارقم
منظور پشتین کے پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے ارمان لونی کے گھر قلعہ سیف اللہ جنوبی پختونخوا میں ہزاروں کے مشتعل مجمعے جن کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے ان سے بات کر رہے ہیں اور ان کو پُر امن رہنے کی تلقین کر رہے ہیں، ان نو جوانوں کی اکثریت نے وہ جنگ نہیں دیکھی جو منظور نے دیکھی ہے۔
ان کے لیے یہ بات سمجھنا ممکن نہیں کہ ریاستی اداروں کی بھر پُور اشتعال انگیزی، سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا، بلیک آؤٹ کے با وجود پی ٹی ایم کی قیادت، یہاں تک کہ قتل ہونے والے ارمان لونی کی بہن بھی قتل کے آدھے گھنٹے بعد کے بیان میں کہتی ہیں کہ عدم تشدد اور جمہوری جد و جہد ہماری راہ ہے۔
سامنے مقتول ساتھی کی لاش پڑی ہے لیکن منظور پشتین پُرسکون ہے، اس لیے نو جوان سوال کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ تو منظور سوال کو ڈِفلیکٹ کرتا ہے، غصے کو چینلائز کرتا ہے اور کہتا ہے، تمہارے ساتھ کتنے فیصد لوگ کھڑے ہوں گے، پہلے سارے پشتون تو ساتھ ملا لو، لوگ ساتھ ملاؤ پھر تشدد کا سوچنا۔
شاید کچھ دوستوں کو میرا یہ حوالہ دینا پسند نہ آئے لیکن عدم تشدد پر استوار سیاسی جد و جہد کی ایک مثال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ کے اوائل کی زندگی بھی ہے، جب ہر ستم کے جواب میں کہا گیا، “کفو ایدیکم”
حارث بن ابی ہالہ شہید ہوئے، سمیہ کو برچھی مار کر شہید کیا گیا، رسول کریمﷺ اور ان کے ساتھی کتنی بار تشدد کا نشانہ بنے لیکن جواب وہی رہا “اپنے ہاتھ نیچھے کرلو”
عدم تشدد ایک سیاسی نظریہ ہے۔ اس کی حدیں limitations بے شک ہوں گی، لیکن فائدے بہت ہیں۔ جابر، متشدد ریاست کے مقابل کام یابی کے امکانات زیادہ ہیں۔
پھر پی ٹی ایم کے پاس تشدد کا آپشن ہی نہیں ہے، ان کو تشدد ہر ابھارنے والے کیا چاہتے ہیں؟
مزید دیکھیے: درد و آہ کی سرحدیں
پشتون سر زمین پر جہادی پراکسیز کے کھیل میں تشدد کا بیانیہ ہمیشہ ریاست کے مفاد میں استعمال ہوا ہے۔ اب بھی ریاست کی پراکسیز سلنڈر اور سمسیرے مسلح اور بندوق بہ دست ہی ہیں۔ ریاست جانتی ہے کہ پی ٹی ایم کے سیاسی بیانیے کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں کیوں کہ عدم تشدد کا بیانیہ ان کی عقل اور جوابی حکمت عملی کے دائرے سے باہر ہے، وہ چاہتے ہیں کہ کوئی جواز ڈھونڈا جائے تا کہ جہادی proxies اور فرقہ پرست تنظیموں کو پی ٹی ایم سے لڑایا جا سکے، اور وہ بیٹھ کر تماشا دیکھیں۔
ایسے میں پی ٹی ایم قیادت کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ ہر سوال کے جواب میں امید و بیم اور مایوسی و بے عملی کے بیچ کی راہ سجھانی پڑتی ہے۔
لیکن پنجاب/کراچی/یا پاکستان کےکسی بھی گوشے میں بیٹھے رئیس احمد جعفریوں، اظہر لودھیوں، الطاف حسن قریشیوں کو یہ بات سمجھ نہیں آنی، کیوں کہ وہ تو ویسے ہی ایک مشن پر ہیں جہاں سندھی ڈاکو، بلوچ غدار، پشتون مشکوک، مہاجر مشکوک، شیعہ ایرانی ایجنٹ، لبرل امریکی ایجنٹ وغیرہ ہے، لگے رہو بھائی۔