نور القرآن : تبصرہ و تعارف
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
ہمارے مہربان جناب محمد صدیق بخاری، مدیر ماہنامہ ‘سوئے حرم’ نے ‘نور القرآن’ کے نام سے قرآن مجید کے ترجمے اور تفسیر کا ایک منفرد سلسلہ شروع کیا ہے۔ انھوں نے قرآن مجید کے سات تراجم اور نو تفاسیر کو آیات قرآنی کے ذیل میں قاری کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ یہ تراجم اور تفاسیر مختلف مسالک اور مکاتب فکر کی نمائندہ ہیں۔ مرتب نے اپنی رائے کو اس میں شامل نہیں کیا۔ قرآن کے تراجم اور تفاسیر کے تقابلی مطالعہ کا یہ انداز اختیار کرنے کا مقصد صدیق بخاری صاحب کے الفاظ میں:
“مرتب کے پیش نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں، بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دینا ہے۔ اس لیے مرتب نے کہیں اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوشش نہیں۔ تمام مکاتب فکر کی آرا کا خلاصہ کم و بیش انہی کے الفاظ میں قاری تک پہنچانا پیش نظر ہے۔ لکن یہ خیال رہے کہ تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں، ان میں بہتر غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ نور القرآن کے قاری میں جستجو پیدا ہو، وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے، اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے تاکہ دی دین سے اس کا شعوری تعلق قائم ہو نہ کہ وہ تعلق جو آباؤ اجداد کی روایات، سنی سنائی باتوں اور چند تعصبات اور رسوم پر مشتمل ہوتا ہے۔”
بخاری صاحب نے جن مترجمین کے تراجم کو چنا ہے وہ یہ ہیں:
شاہ عبد القادر، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا احمد رضا احمد رضا خان، مولانا محمد جونا گڑھی، سید ابو الاعلی مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی اور محترم جاوید احمد غامدی۔
تفاسیر میں ان کا انتخاب درج ذیل تفاسیر ہیں:
تفسیر عثمانی از مولانا شبیر احمد عثمانی، معارف القرآن از مفتی شفیع، خزائن العرفان از مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی، تفہیم القرآن از مولانا مودودی، احسن البیان از محترم صلاح الدین یوسف، ضیاء القرآن از پیر کرم شاہ الازہری، تفسیر ماجدی از مولانا عبد الماجد دریا آبادی، تدبر قرآن از مولانا امین احسن اصلاحی، اور البیان از محترم جاوید احمد غامدی۔
مرتب کی بے تعصبی کی تحسین نہ کرنا نا انصافی ہوگی۔ اس عظیم منصوبے کے پیچھے ان کا مقصد تقابلی مطالعہ کی خو پیدا کرنا ہے جو نہایت اعلی مقصد ہے، ہمارے سماج میں یہ علمی رویہ پیدا ہو جائے تو علمی مسائل سلجھے نہ سلجھے، انسانی رویے البتہ سلجھ جائیں گے۔
کچھ حضرات کے نزدیک ایسا مطالعہ بجائے تقابل کے انتشارِ ذہنی کا سبب بن سکتا ہے۔ تاہم اس کا انحصار قاری پر ہے کہ وہ تقابلی مطالعہ کرنا چاہے تو ایک ہی جگہ اسے مختلف مسالک و مکاتب کے نمائندہ تراجم قرآن اور تفاسیر میسر آ سکتی ہیں۔