ایڈیپس ریکس ، از، سوفیکلیز (حصہ سوم)
ترجمہ: نصیراحمد
کریون: سنا ہے شاہ ایڈیپس نے مجھ پہ بھاری الزام دھرے ہیں۔ میں اس کینڈے کا انسان نہیں ہوں کہ انھیں سن کر خاموش رہوں۔ اگر وہ میرے کسی قول کے سبب مجھے ان مشکلات میں سزاوار ٹھہراتا ہے تو میں رسوائی کو زندگی پر ترجیح نہیں دیتا۔ لیکن کسی شخص کی ذاتی پسند افواہ کو سچ تو ثابت نہیں کرتی۔ یہ معاملہ کافی گھمبیر ہے۔ در حقیقت مجھے میرے شہر کا، میری ریاست کا، میرے شہریوں کا اور میرے دوستوں کا غدار قرار دیا جا رہا ہے۔
نمائندہ عوام: شاید ایڈیپس نے یہ سب کچھ غصے کی حالت میں کہا ہو، بے جانے،بے سمجھے۔
کریون: کیا تم بہرے تھے جب اس نے مجھے اس اندھے ولی کو، کسی ثبوت کے بغیر، ورغلانے کا طعنہ دیا تھا۔ کیا ایڈیپس کی ذہنی حالت درست تھی؟
نمائندہ عوام: مجھے نہیں معلوم۔ ویسے بھی میں بڑے لوگوں کے رویوں سے ان کے دل کی باتیں پانے کا ہنر نہیں رکھتا۔ لو بادشاہ خود آ گیا( ایڈیپس آتا ہے)
ایڈیپس: کریون، تیری یہ دیدہ دلیری کہ تو میرے گھر میں داخل ہوا۔ تو قاتل ہے۔ کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ تو میرے قتل کی سازش میں ملوث ہے؟ کیا تیری نظر میں میں کوئی ڈرپوک اور گاؤدی شخص ہوں کہ تو مجھے آسانی سے مار ڈالتا؟
کیا میں اتنا بیوقوف ہوں کہ تیرے کھیل کو نہیں سمجھتا؟یا میں اتنا کم ہمت ہوں کہ تجھے دندان شکن جواب دینے کی اہلیت نہیں رکھتا؟
تم احمق ہو کریون کہ تم سہاروں اور مددگاروں کے بغیر میری بادشاہی چھیننے نکلے تھے۔ تخت جیتے جاتے ہیں یا پھر خریدے جاتے ہیں۔ تجھ میں دونوں کا حوصلہ نہیں۔
کریون: تم بہت کہہ چکے، اب میری بھی سن لو۔ مجھے بھی بات کرنے دو۔ ثبوت کے بغیر تمھیں کوئی حق نہیں کہ کسی کو مجرم ٹھہراؤ۔
ایڈیپس: اچھا، ایک ثبوت تو ہے مگر میں اپنے جانی دشمن سے بھی زبردستی کوئی بات نہیں کہلواتا۔
کریون: میں جانتا ہوں کہ تم میری جانب اشارہ کر رہے ہو مگر اسی بات پر ہی تو ہم جھگڑ رہے ہیں۔
ایڈیپس: لیکن میں تمھارا اعتراف تمھارے منہ سےسننا چاہتا ہوں۔
کریون: میرا خیال ہے تمھیں کچھ نہیں معلوم اور تم عقل کے دشمن ہو گئے ہو۔
ایڈیپس: اگر تمھاری یہ خواہش ہے کہ اپنے نسب کا برا چاہنے والے سزا نہ پائیں تو تم دیوانے ہو چکے ہو۔
کریون: اس بارے میں تو میں تم سے متفق ہوں۔ مگر میرا جرم تو بتاؤ۔
ایڈیپس: کیا تم نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں ڈلفی کے رویا کی تعبیر کے لیے اس اندھے سادھو کو بلا بھیجوں
کریون: میں نے ہی مشورہ دیا تھا۔ پھر اگر مشورہ مانگو گے تو یہی مشورہ دوں گا۔
ایڈیپس: کیا لائیس کے زمانے سے یہ سلسلہ جاری ہے؟
کریون: لائیس کا اس موقعے پر کیوں ذکر؟
ایڈیپس: ذکر تو بنتا ہے، لائیس ہی تو منظر عام سے ہٹا ہے؟
کریون: میں سمجھا نہیں
ایڈیپس: یہ اندھا ولی لائیس کے زمانے میں بھی تو یہاں کشف فروشی کرتا تھا۔
کریون: وہ یہیں تھا، پورے اعزاز کے ساتھ۔
ایڈیپس: کیا اس نے تم لوگوں کو میرے بارے میں بتایا تھا؟
کریون: نہیں کبھی نہیں۔ کم از کم میری موجودی میں نہیں۔
ایڈیپس: تم نے لائیس کے قاتلوں کی کھوج تو کی ہو گی؟
کریون: کی تھی، مگر ہم کچھ نہ جان سکے۔
ایڈیپس: یہ اندھا کاہن، اس وقت میرے خلاف کیوں نہ بولا۔
کریون: مجھے نہیں معلوم۔ جب کسی معاملے سے میرا تعلق نہ ہو تو میں خود کو باندھ کر رکھتا ہوں۔
ایڈیپس: مگر ایک بات تو تم بھی بتا سکتے ہو۔
کریون: وہ بات کیا ہے، مجھے پتا ہوئی تو بتا دوں گا۔
ایڈیپس: اگر وہ تمھارے سنگ سازش میں ملوث نہ ہوتا تو وہ مجھے قاتل کبھی قرار نہ دیتا۔
کریون: اگر وہ ایسے کہتا ہے تو حقیقت تمھیں ہی معلوم ہو گی۔ مگر اب میری باری ہے کہ تم سے کچھ پوچھوں۔
ایڈیپس: ہاں پوچھو؟ میں قاتل تھوڑی ہی ہوں کہ کچھ چھپاؤں۔
کریون: تم میری بہن کے شوہر ہو ناں۔
ایڈیپس: ہاں میں تمھاری بہن کا شوہر ہوں۔
کریون: اور وہ حکومت میں تمھاری برابر کی شریک ہے؟
ایڈیپس: ہاں، وہ جس چیز کی بھی آرزو کرے مجھ سے لے سکتی ہے۔
کریون: اور میں حکومت میں تمھارا حصہ دار بھی ہوں۔ تم دونوں کے برابر کا۔
ایڈیپس: یہی وجہ ہے کہ میں تمھیں اپنا دوست سمجھتا تھا۔
کریون: اب بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرو۔ پہلے تولو پھر بولو۔ بادشاہ تو پریشانیوں کا شکار رہتے ہی ہیں۔ میں کچھ کیے بغیر ہی حاکم ہوں تو مجھے کیا پڑی ہے کہ تمھارے خلاف سازشیں بنتا پھروں۔
مجھے بادشاہ کے اختیارات کی کبھی آرزو نہ تھی مگر مجھے بادشاہ کے حقوق مرغوب ہیں۔ جو مجھے ملتے ہیں۔
کیا کوئی عقل مند آدمی سہولت کے خلاف جا سکتا ہے؟ اگر میں بادشاہ ہوتا تو ایک خاص انداز کا غلام ہو کر رہ جاتا۔ میرے لیے لوگوں کی نہ مٹنے والی ہمدردیاں ہی کافی ہیں۔ میں ہوش سے عاری تو نہیں ہوں کہ کسی نئی شان کی آرزو کروں؟
اور میں اپنی نئی حیثیت گنوانا پسند نہیں کروں گا۔ میرا ہر کہیں استقبال ہوتا ہے۔ لوگ مجھے سلام کرتے ہیں۔ جو تم سے عنایتوں کے خواہاں ہوتے ہیں وہ مجھ سے سفارشیں مانگتے ہیں کیونکہ مجھے ان کی خواہشوں کی ترجمانی کا سلیقہ آتا ہے۔ میں کیوں ان سہولتوں پر حکومت کی کلفتوں کو ترجیح دوں گا؟ علاوہ ازیں کسی باشعور شخص کو سرکشی پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے فساد سے نفرت ہے اور میں کسی فتنہ پرور کا ساتھی نہیں بنوں گا۔ تم بے شک میرے کہے کو آزما لو۔
تم چاہو تو ڈلفی کی کاہنہ سے پوچھ لو کہ کیا میں نے اس کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر بیان کیا ہے؟
جہاں تک اس دوسرے الزام کا تعلق ہے تو میں یہی کہتا ہوں کہ اگر میں ٹائیریسئیس کا فی الحقیقت شریک جرم ثابت ہو جاؤں تو تم مجھے دار پر لٹکا دو۔
یہ میرا وچن ہے اور یہی میری چنی ہوئی سزا ہے۔ مگر حقائق اورشواہد اس سزا کی شرط ہیں۔ اگر تم بھلے کی بجائے برا چن لو تو یاراں بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ زندگی وفا شعار رفیقوں سے تو قیمتی نہیں ہوتی۔
نمائندہ عوام: یہ خوب کہا۔ دانا جانتا ہے کہ جلدی میں کیے گئے فیصلے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
ایڈیپس: مگر یہ شخص تو فریب دہی میں عجلت باز ہے۔ کیا مجھے اسے تمام کرنے کے لیے جلدی نہیں کرنی چاہیے؟کیا تم چاہتے ہو کہ میں خاموش کھڑا صبر وتحمل کی خوبیوں پر غور کرتا رہوں اور یہ شخص میری بے عملی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھ پر حملہ کر دے؟
کریون: تم چاہتے کیا ہو؟ کیا تم مجھے دربدر کرنا چاہتے ہو؟
ایڈیپس: ہر گز نہیں۔ جلا وطنی تمھارے لیے مناسب نہیں۔ میں تمھیں مار دینا چاہتا ہوں تاکہ تم غداروں کے لیے عبرت بنو۔
کریون: تم اس بات پر ڈٹ گئے ہو۔ میری ایک نہ سنو گے۔
ایڈیپس: میں تم پر کیسے یقین کروں؟
کریون: تو پھر تم بے عقل ہو۔
ایڈیپس: اپنی جان بچانا بے عقلی ہے؟
کریون: بنام انصاف ،میری باتوں پر سوچو تو سہی۔
ایڈیپس۔ کیسے سوچوں؟ میں جانتا ہوں کہ برائی تمھاری ذات میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے؟
کریون: فرض کرو، تم غلطی پر ہو۔
ایڈیپس: پھر بھی بادشاہت میرا حق ہے۔
کریون: اگر تم زیادتی پر ہو تو یہ حق چھن بھی سکتا ہے۔
ایڈیپس: آہ اے شہر، آہ اے شہر۔
کریون: یہ شہر میرا بھی تو ہے۔
نمائندہ عوام: اے رئیسو تھم جاؤ، میں دیکھتا ہوں کہ ملکہ جوکاسٹا محل کی خواب گاہوں سے نکل کر اس طرف آرہی ہے۔ وہ بروقت آئی ہے۔ اور یہ تم دونوں کے بھلے کی بات ہے۔ وہ یہ وحشت ناک لڑائی ختم کرا سکتی ہے۔ ( جوکاسٹا آتی ہے)
جوکاسٹا: احمقو، کس بات پر اتنا شور مچا رکھا ہے۔ تھیبز پر موت چھائی ہوئی ہے لیکن تم لوگ ذاتی دشمنیاں جگائے ہوئے ہو۔ کس قدر شرم کی بات ہے۔ ایڈیپس، تم محل میں آو اور کریون تم اب جاؤ۔
کریون: بے کار کا جھگڑا ؟ نہیں ہمشیر، تمھارا شوہر میرے لیے دو بدترین سزائیں تجویز کر چکا ہے۔ موت یا جلا وطنی۔
ایڈیپس: یہ درست کہتا ہے۔ اسے میں نے اپنی زندگی کے خلاف سازشیں کرتے پکڑ لیا ہے۔
کریون: مجھے موت آ لے اگر میں نے تمھیں گزند پہنچانے کا سوچا ہو۔
جوکاسٹا:یقین کرو ایڈیپس، دیوتاؤں کے نام پر، میرے لیے، یہاں موجود لوگوں کے واسطے، اس کی بات کا دھیان کرو۔
ایڈیپس: تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟
نمائندہ عوام: کریون کا یقین کرو۔ اس نے کبھی احمقانہ بات نہیں کی۔ اب تو اس نے قسم بھی اٹھا لی ہے۔
ایڈیپس: تم جانتے ہو تم کیا مانگ رہے ہو؟
نمائندہ عوام: ہاں جانتا ہوں۔
ایڈیپس: آگے کہو
نمائندہ عوم: وہ دوست جو قسم کھا لے اسے اندھی نفرت کے سبب شواہد کے بغیر نہیں کھونا چاہیے۔
ایڈیپس: تم اس بات سے آگاہ ہو کہ تمھاری نصیحت میری موت یا کم ازکم جلا وطنی کی وجہ بن سکتی ہے۔
نمائندہ عوام: خدائے شمس کی قسم، جو آسمانوں کا پہلا دیوتا ہے،اگر میری بات کا یہ مطلب ہے جو تم نے سمجھا ہے تو مجھ پر لعنت ہے۔ خدا کرے میں بے یارومددگار مر جاؤں۔ میں تو بس شہر کے حالات کی وجہ سے پریشان ہوں۔ ہم یہ ابتلا کیسے سہہ پائیں گے؟ اوپر سے تمھارا دل بھی ہماری طرف سے برا ہو گیا ہے۔
ایڈیپس: تو پھر اسے جانے دو، مجھے مرجا نے دو یا پھر مجھے رسوا کر کے شہر سے نکال دو۔ تمھاری ناخوشی میرا دل آزردہ کرتی ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں جہاں کہیں رہوں گا، اس سے نفرت کرتا رہوں گا۔
کریون: تمھارے مان جانے کا انداز ابھی اتنا ہی ناپسندیدہ ہے جتنی تمھاری حالت غیض و غضب۔
ایڈیپس: کیا تم دفع نہیں ہو سکتے،مجھے تنہا نہیں چھوڑ سکتے؟
کریون: تم مجھے نہیں جانتے، مگر شہر میرا واقف ہے۔ میں شہریوں کی نظروں میں پاک باز ہوں، تمھارے نزدیک نہ سہی۔ (کریون جاتا ہے)۔
نمائندہ عوام: خاتون جوکاسٹا،کیا تم اور بادشاہ محل کے اندر نہیں جاؤ گے؟
جوکاسٹا: پہلے مجھے بتاؤ، یہاں ہوا کیا تھا؟
نمائندہ عوام: یہاں بے ثبوت الزام کی بھرمار تھی۔ تم تو جانتی ہو، جھوٹے الزامات غوغا انگیز تو ہوتے ہی ہیں۔
جوکاسٹا: دونوں اطراف سے؟
نمائندہ عوام: دونوں اطراف سے۔
جوکاسٹا: مگر کہا کیا ان لوگوں نے؟
نمائندہ عوام: اسے اب رہنے ہی دو۔ پہلے ہی ہم بہت تکلیف اٹھا چکے۔
ایڈیپس: تم لوگوں کی نرم روی نے میری مشکلات بڑھا دی ہیں۔
نمائندہ عوام: ایڈیپس، ہم تمھیں کئی دفعہ بتا چکے ہیں کہ تمھیں چھوڑ دینا ہمارے لیے دیوانگی کی بات ہو گی۔ تمھاری دانائی کے سبب ہم طوفانوں سے خوبی سے بچ کر نکل آئے ہیں۔ لیکن اب ذرا حوصلے سے کام لو۔
جوکاسٹا: بہ نام خدا، ایڈیپس، اپنی شریک حیات کو بتا، اس قدر سخت غصہ کیوں؟
ایڈیپس: بتاتا ہوں کہ انسانوں میں تم پر میں سب سے زیادہ اعتبار کرتا ہوں۔
یہ سب کریون کا کارنامہ ہے، اس کی مکاری کا شاخسانہ، اس کی میرے خلاف سازشوں کا نتیجہ۔
جوکاسٹا: کہتے رہو کہ یہ بات مجھ پر پوری طرح کھل جائے۔
ایڈیپس: وہ مجھے لائیس کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
جوکاسٹا: اسے خود سے جانکاری ہے یا اس نے دوسروں سے سنا ہے۔
ایڈیپس: اس نے بذات خود تو الزام نہیں دیا ، مگر اس نے اس اندھے عذاب یافتہ بشارتی کا سہارا لیا ہے۔
جوکاسٹا: تم دھیرج رکھو، اگر یہ اس پیش گوئیاں کرنے والے کا مسئلہ ہے تو میں تمھیں بتائے دیتی ہوں کہ دنیا میں کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو غیب کے راز جانتا ہو۔
میں ثبوت لائے دیتی ہوں۔ لائیس کو معبد نے ہی اطلاع دی تھی، پتا نہیں اپالو نے خود خبر دی یا کسی کاہنہ نے یہ بات اٹھائی تھی۔ خیر یہ خبر یوں تھی کہ لائیس کی موت میرے بطن سے جنم لینے والے بچے کے ہاتھوں ہو گی۔ تمھیں یہ واقعے تو معلوم ہی ہو گا کہ وہ ایک سہہ راہے پر کسی اجنبی جماعت کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ لیکن اس کا بیٹا تو تین دن بھی نہ جیا تھا کیونکہ بادشاہ لائیس نے اپنے بیٹے کے پیدا ہوتے ہی اس کے ٹخنے کاٹ کر اسے ایک سنسان پہاڑی پر تنہا مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ اپالو نے تو کبھی اس لڑکے کوباپ کی موت کاسبب ثابت نہیں کیا۔
لائیس خوفزدہ تو تھا لیکن بہرحال اپنے بیٹے کے ہاتھوں ہلاک ہونے سے بچ گیا۔
اگر یہ ولیوں اور ان کی کرامتوں کا حال ہے تو ہمیں ان سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ لیکن یہ خدا ہی ہے جو ہمیں اپنی منشا اپنے ہی انداز میں دکھاتا ہے۔
ایڈیپس: جب تم یہ واقعہ سنا رہی تھیں تو ایک بھولی بسری یاد میرے ذہن میں در آئی۔ اس یاد نے میری رگیں منجمد کر دیں۔
جوکاسٹا: کیا مطلب؟ تم کس یاد کی بات کررہے ہو؟
ایڈیپس: اگر میں نے ٹھیک سے سمجھا ہے تو تم کہہ رہی تھیں کہ لائیس ایک سہہ راہے پر ہلاک کیا گیا تھا؟
جوکاسٹا: یہی بتایا گیا تھا۔ اس کے بعد کی ہمیں کوئی خبر نہیں ہے۔
ایڈیپس: یہ واقعہ کہاں رونما ہوا تھا؟
جوکاسٹا: جہاں سے تھیبز کا راستہ ڈلفی اور ڈیلیا سے جدا ہوتا ہے۔ مگر تم کیوں یہ سب کچھ پوچھ رہے ہو؟
ایڈیپس: ابھی یہ مجھ سے مت پوچھو۔ لائیس کی شکل کیسی تھی؟ اس کی عمر کیا تھی؟
جوکاسٹا: وہ ایک طویل قامت شخص تھا۔ اس کے بال سفید ہونا شروع ہو گئے تھے۔ تم سے کچھ زیادہ مختلف دکھائی نہیں دیتا تھا۔
ایڈیپس: لگتا ہے بے خبری میں میں نے ذلت مول لی ہے؟
جوکاسٹا: تم عجیب و غریب باتیں کر رہے ہو۔ تمھیں دیکھ کر تو میں لرز گئی ہوں، میرے بادشاہ۔
ایڈیپس: اب مجھے ویسا یقین نہیں رہا کہ اندھا غیب کا حال نہیں جانتا۔ مگر مجھے پوری طرح سے آگاہ ہونا چاہیے۔
جوکاسٹا: میں سب کچھ بتا دوں گی اگرچہ میں تمھارے پوچھنے سے گھبرا رہی ہوں۔
ایڈیپس: کیا اس کے ساتھ خادموں کی ایک کثیر تعداد تھی جیسا کہ بادشاہوں کا طور ہے یا صرف چند ملازم اس کے ہمراہ تھے؟
جوکاسٹا: اس کے ہمراہ صرف پانچ آدمی تھے۔ ان میں ایک گاڑی بان بھی تھا جو بادشاہ کی سواری چلا رہا تھا، ہمارا گڈریا ملازم جو وہاں سے نکل بھاگا تھا۔
ایڈیپس: کیا وہ اب بھی ہمارا ملازم ہے؟
جوکاسٹا: جب وہ لوٹا تو تم یہاں تخت نشین ہو چکے تھے۔ وہ میرے پاس آیا۔ میرے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور کہنے لگا کہ اسے سرحدی علاقے میں بھیج دیا جائے جہاں صرف چرواہے رہتے ہیں۔ اس نے التجائیں کیں کہ اسے میں اس دوردراز علاقے میں جانے دوں۔
میں نے اس کی التجا مان لی کیونکہ وہ بہرحال ہمارا وفادار ملازم تھا۔ اس مہربانی کے علاوہ بھی اسے میں نے بہت سارے تحفے دیے تھے۔
ایڈیپس: کیا اسے واپس بلایا جا سکتا ہے؟
جوکاسٹا: آسانی سے ۔ مگر کیوں؟
ایڈیپس: میں نے پوری طرح جستجو کیے بغیر اپنے آپ پر بہت بوجھ ڈال لیا ہے۔ اب میں اس گڈریے سے بھی چھان بین کروں گا۔
جوکاسٹا: وہ تو آ جائے گا مگر کیا تم مجھے اپنے واہموں کا رازدار نہ بناؤ گے؟
ایڈیپس: یہ تمھارا حق ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مزید بر آں میرے خوف وحشیانہ سطح پر آ گئے ہیں۔ مجھے جلد ہی کسی سے تو بات کرنی ہی ہے۔ کورنتھ کا پولیبس میرا باپ ہے اور ڈورا کی میروپی میری ماں ہے۔ میں کورنتھ کے سردار پولیبس کے ہاں پرورش پا رہا تھا کہ ایک خلاف عادت واقعہ پیش آیا جس نے میرے جذبات کی دنیا اندھیر کردی۔
ایک ضیافت میں نشے میں چور ایک آدمی نے کہا کہ میں اپنے باپ کی اولاد نہیں ہوں۔ اگرچہ مجھے غصہ تو شدید آیا اور میرا دل بھی بیٹھ سا گیا مگر میں نے اپنے آپ کو بہ مشکل اس پر ہاتھ اٹھانے سے روک لیا۔
اگلے دن میں اپنے ماں باپ کے پاس گیا اور ان سے اس بابت پوچھا مگر وہ تڑپ اٹھے۔ اور اس شخص کی باتوں کو ایک جاہل کی دشنام طرازی کہا۔ ان کا یہ حال دیکھ کر مجھے سکون ہوا مگر شک میرے دماغ سے نکل نہ سکا۔ پھر بات بھی پھیل چکی تھی اور مجھ قرار بھی نہیں آیا۔ اس مرتبہ اپنے ماں باپ کے جانے کی بجائے میں ڈلفی کی زیارت گاہ چلا گیا۔
وہاں دیوتا نے میرا سوال ٹھکرا دیا اور دوسری ہی باتیں چھیڑ دیں۔ ان میں کچھ باتیں واضح تھیں لیکن اندیشہ پرور، ہولناک اور ناقابل برداشت باتیں۔ اس قسم کی باتیں کہ میں اپنی ماں کے ساتھ مباشرت کروں گا، اور اس کے بطن سے ایسے بچے پیدا ہوں گے جن سے زمانہ آنکھیں پھیر لے گا اور میں اپنے باپ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگوں گا۔ میں نے یہ سب کچھ سنا اور وہاں سے بھاگ لیا۔ تب سے کورنتھ بھی میرے لیے ان ستاروں میں بس گیا ہے جو آسمان کے ان حصوں میں واقع ہے جس کے نیچے کورنتھ کی زمین ہے۔
میں دور تک، بہت دور تک، بہت سارے راستے ماپنے لگا کہ میں معبد کا گایا ہوا یہ مکروہ نغمہ نہ سن سکوں۔ ایک دن میں اس جگہ پہنچا جہاں کہا جاتا ہے لائیس قتل ہوا تھا۔
میری رفیقہ میں تمھیں ہر بات بتاؤں گا جو وہاں وقوع پزیر ہوئی۔ تو جس جگہ سے میں گزرا وہاں تین شاہراہیں ملتی تھیں۔ ایک بگھی چلانے والے کو اس کے بوڑھے آقا نے حکم دیا کہ مجھے سڑک سے پرے دھکیل دے۔ جیسے ہی بگھی بان میری طرف لپکا۔ میں نے اس خفگی سے ضرب لگائی۔ اس سے نمٹ کر فارغ ہوا تو اس کے بوڑھے آقا کی لاٹھی کی زد میں آ گیا۔ لیکن سنبھل کر میں نے بوڑھے کی ضربیں لوٹا دیں بلکہ اس کے اور بھی بہت سی ضربیں جمائیں۔ دائیں ہاتھ سے اپنی لاٹھی گھماتے ہوئے میں نے بوڑھے کو سڑک پر لا پھینکا۔ وہ لڑھکنیاں کھانے لگا۔ قصہ مختصر میں نے اسے جان سے مار دیا۔
اگر وہ بوڑھا لائیس ہی تھا تو مجھ سے سے زیادہ ستمزدہ کون ہو گا؟دیوتاؤں کی نفرت کا شکار، شہری اور پردیسی نہ تو مجھ سے بات چیت کریں گے اور نہ ہی مجھے پناہ دیں گے۔ سب مجھے دھتکار دیں گے۔ پھر یہ سزا خود میں نے ہی تو مقرر کی ہے۔
سوچو تو سہی میں نے تمھیں انھی ہاتھوں سے چھوا ہے جن سے تمھارے شوہر کا خون کیا ہے۔ یہی تو ذلت ہوتی ہے۔ مجھے شہر سے بھاگ نکلنا چاہیے تاکہ میں اپنی ہی ماں سے شادی کے جرم سے بچ جاؤں اور اپنے باپ پولیبس کا قاتل نہ بنوں۔ اگر میرے یہی نصیب ہیں تو دیوتاؤں کی وحشت خیزی سے کون انکار کر سکتا ہے؟آسمانی طاقتوں کے مقدس شاہنشاہو،کاش میں ایسی بدنصیبی نہ دیکھوں۔ وہ دن آنے سے پہلے ہی مجھے بنی نوع انسان سے چھپ جانے دو بجائے کہ میں نوشتہ تقدیر حقارت کی شکل میں دیکھ لوں۔
نمائندہ عوام: ہمارے چہرے بھی اے آقا یہ روداد سن کر بجھ گئے ہیں۔ لیکن ایک امید تو ہے۔ تم نے ابھی چرواہے کا بیان نہیں سنا۔
ایڈیپس: کیا واقعی؟ درست کہا مگر میرے خیال میں اس کے علاوہ کوئی امید نہیں بچی؟
جوکاسٹا: اس کے آنے سے تمھاری کیا آس بندھے گی؟
ایڈیپس: بہت زیادہ۔ اگر اس کے بیان تمھارے بیان سے ملتے جلتے تو میرے ہاتھ صاف ہیں۔
جوکاسٹا: میں نے ایسی کیا خاص بات کی ہے؟
ایڈیپس: تم نے کہا تھا کہ اچکوں کے ہاتھوں بادشاہ کا قتل ہوا تھا۔ چرواہے نے یہی بیان دیا تھا، اگر وہ اس بات پر قائم رہتا ہے۔ چرواہے کے بیان کے مطابق وہ کئی تھے تو میں قصوروار نہیں ہوں۔ کیونکہ میں اکیلا تھا۔ لیکن اگر وہ کہتا ہے کہ ایک ہی آدمی نے یہ سب کیا ہے تو شواہد میری ہی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
جوکاسٹا: تمھیں یقین کرنا چاہیے کہ وہ قاتل کئی تھے۔ اس آدمی نے یہی بتایا تھا۔ وہ کیسے اس بات سے پھر سکتا ہے؟صرف میں نے نہیں بلکہ پورے شہر نے اس کی بات اچھی طرح سے سنی تھی۔ لیکن اگر وہ کچھ تفصیلات بدل بھی دیتا ہے تو یہ کیسے معلوم ہو کہ لائیس کی موت سے معبد کی پیش گوئی پوری ہوئی ہے۔ کیونکہ اپالو کے فرمان کے مطابق تو میرا بیٹا اس کا قاتل ہو گا۔ وہ بے چارہ بچہ تو سالوں پہلے مر چکا ہے۔
نہیں اب کبھی نہیں، جہاں تک معبدوں کا سوال ہے، اب تو میں ان پر ایک لمحے کے لیے بھروسہ نہیں کرتی۔
عوام کا سخن:
سیدھی راہیں محترم ہیں
جن پہ میں گامزن ہوں
وہ تو ٹیڑھی ہیں
وعدے مجھے نبھانے ہوں گے
کہ کائنات کی ازلی صداقتیں
سر پہ آن
پڑی ہیں
ہم پہ فلک بلند سے
یہ صداقتیں
اتری ہیں
امین حرف حق
آسمان ہی تو ہے
عید نور کے پالے ہوئے دیوتا
لافانی ہیں
میری تیری طرح
بھول نہیں جاتے
اپنا کہا
عظیم تر ہے ان کا پدر
وقت سے
اور زمانے ان کے سامنے ہیچ ہیں
جابر فرزند تکبر ہے
پیتا ہے مے حشم
جام ستم سے
سودا ہے اسے
غرور شاہی کا
لیتا ہے خراج
چشم نم سے
اپنے تخت سے
گرے گا
گھمنڈی
آس بھی
جینے کا سہارا
نہ بنے گی
مگر ہمارا حوصلہ مند حکمران
کاروبار سلطنت
چلاتا ہے
خوبی سے
خوف خدا اس کے دل میں ہے
اور مانتا ہے وہ
دیوتاؤں کا کہا
شوریدہ سری
ستم کی دراز دستی
بلاتی ہے
قہر خداوندی
فنا کے کھلونے
چھیڑتے ہیں
جبروت لاہوتی
فنا کے کھلونے
گھیر لیے جائیں گے
ستیزہ گاہ الم سے
جرم تحقیر کی یہی
سزا ہے
اچھے کام کرو
تقدیس کا
احترام کرو
ورنہ سر پر پڑے گا
آسمانوں کا جھنکارتا ہتھوڑا
جاہل فاسق کی تکریم کرتے ہیں
کہ شہر میں
دکھ کا کوئی
کوی نہیں ہے
کیا معبد کا وجدان
ہم جھٹلا دیں؟
ہم نے سنا ہے
زینت عالم
جوکاسٹا
زی اس کی شمشیر کی
ثنا خواں نہیں ہے
اور مشرک مشیت ہے
کہ یہ پیش گوئیاں
سچی ہیں؟
زی اس
اگر تم
جہانوں کے آقا ہو
تخت نور پہ
شب و روز
جلوہ فرما ہو
اپنے لامتناہی دماغ کے آئینے میں
دیکھ سکتے ہو
حقیقت اشیا
اگر تم
میرے خدا ہو
تم نے سن ہی لیا ہو گا
ہمارے بادشاہ
پیام معبد کو
حرف ہوا جانتے ہیں
ڈلفی کی دیدہ ور کو
اندھا گردانتے ہیں
ان کے دل بے نیاز اپالو ہیں
اور وہ دیوتاؤں کی
عزت نہیں کرتے۔